ماہنامہ الفاران

ماہِ ذی القعدہ - ۱۴۴۳

آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

حضرت مفتی ظفر امام صاحب القاسمی،استاذ عربی ادب: دارالعلوم،بہادر گنج، کشن گنج،بہار

اس دنیائے چمن میں جب جب بھی خزاں کی زہریلی ہوائیں چلیں،نفرت و عداوت کے شعلے بھڑکے اور اس دنیا میں بسنے والے انسان اپنے خالقِ حقیقی کی بتائی ہوئی راہوں کو چھوڑ کر شیطانی اور طاغوتی راہوں کے مسافر ہوئے تب تب اللہ جل جلالہ نے اس میں پُربہار فضا پیدا کرنے، محبت و الفت کی بھینی بھینی  پھُواروں سے نفرت و عداوت کے شعلے سرد کرنے اور بندگانِ خدا کو راہِ ضلال سے اٹھاکر راہِ ہُدی پر گامزن کرنے کے لئے اپنے مخصوص اور مقرب بندوں کے مقدس کارواں کو بھیجا،اس مقرب اور مخصوص کارواں نے اپنی خاص لَے، نرالی دھج،انوکھی شان،منفرد طرز،حکمتِ عملی،سلیم طبعی،بلیغ فکری اور اَن تھک کاوشی کے ذریعے بے سمت سفر کرنے والے مسافروں کو سمتِ سفر عطاکرنے کا ہر ڈھب آزمایا،بُت پرستی اور اصنام سازی کے خلاف محاذ آرائی کی،بُتوں کے غیر نافع اور غیر ضار ہونے ہونے کو ببانگِ دُہل اعلان کیا،بُت پرستوں سے دو دو ہاتھ کیا،اور پوری حوصلہ مندی،جانبازی اور دلیری کے ساتھ بُت کدوں میں جاکر نغمۂ توحید گنگنایا،ایسے اولوالعزم کارواں کو خدائی اصطلاح میں ”انبیاء و رُسُل کا کارواں“ کہا جاتا ہے۔
انبیاء و رُسُل کے اسی کارواں میں شامل ایک نام سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی ہے،حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ جل جلالہ نے چند صفات کے ساتھ ایسا انفراد و امتیاز عطا کیا ہے کہ اس انفراد و امتیاز میں کوئی نبی آپ کا ثانی نہیں،آپ کا یہ انفراد اور یہ امتیاز ہی کیا کم ہے کہ اللہ نے آپ کو اپنا ” خلیل “ (دوست) کہا ہے،آپ کو بیک وقت یہودیت، عیسائیت اور اسلام تینوں بین العالمی مذاہب کے نبی ہونے کا شرف حاصل ہے، یعنی آپ جس طرح مسلمانوں کے لئے مکرم ہیں اسی طرح یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے بھی محترم ہیں،اور مسلمانوں کے ساتھ یہودی اور عیسائی بھی آپ کو نبی مانتے ہیں،آپ کو ابو الانبیاء ہونے کا شرف بھی حاصل ہے،اللہ کے دُلارے نبی محمد رسول اللہ ﷺ کا نسب بھی آپ ہی کی ذات سے جاکر جڑتا ہے، قرآن مقدس میں آپ کے دین کو دینِ حنیف ( سیدھا دین) کہا گیا ہے،ان کے علاوہ اور کبھی کئی خصوصیات آپ کے نام پر درج ہیں۔
اس بات سے کسی کو مجالِ انکار نہیں کہ خداوند قدوس جس کو جتنا اعلیٰ رتبہ اور بالا مقام عطا کرتا ہے اس کو اتنا ہی آزمائش کی چکیوں میں پیستا ہے،تب جاکر کہیں کوئی خاک سےکُندن بنتا ہے،حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی ابتلاء و آزمائش سے عبارت ہے،اللہ پاک نے آپ کو آزمائش کی ان پُرخار گزرگاہوں سے گزارا کہ اگر ہمہ شمہ پر اس کا معمولی حصہ بھی ڈال دیا جائے تو آن کی آن میں اس کا دَم نکل جائے،وہ ان آزمائشوں کی تاب نہ لاکر نہ جانے کیا کر بیٹھے،مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام آزمائشوں کی ان پُرخار گزرگاہوں سےمسکراتے ہوئے اس طرح گزر گئے کہ آج بھی عقل  و دانش محوِ تدبر ہے،یہاں تک کہ قرآن کریم کو بھی، آپ کی تعریف و توصیف میں اپنے سینے پر روشنئ زُلال سے لکھنا پڑا کہ ” ہم نے ابراہیم کو چند مواقع پر آزمایا جن کو وہ بآسانی پورا کر گئے “ { سورۃ البقرۃ }
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں وہ پورا ماحول معبودانِ باطلہ کی پرستش سے آلودہ تھا،شرک و گمرہی سے پورا سماج لدا ہوا تھا، لوگ بتوں کو پوجنے کے ساتھ ستاروں اور سیاروں کی بھی پرستش کیا کرتےتھے،خود آپؑ نے جس آغوش میں آنکھیں کھولیں اس آغوش کا رکھوالا یعنی آپ کا باپ آزر بُت پرست کے ساتھ بُت تراش بھی تھا،آپ کو اللہ پاک نے بچپن ہی سے عقلِ سلیم عطا کردیا تھا جس کی روشنی میں آپ شروع ہی سے ان بُتوں اور معبودانِ باطلہ سے بیزار رہتے تھے۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ : ”جب رات کو تاریکی اپنا بسیرا کرتی اور نیلگوں آسمان کی تھالی پر کوئی ستارہ آپ کو جگمگاتا نظرآتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا کہ شاید یہ ستارہ ہی میرا رب ہے،پھر جب وہ ستارہ اپنا مختصر سا سفر پورا کر کے اپنا رختِ سفر باندھ کر پردۂ عدم میں چھپ جاتا تو حضرت ابراہیم بول اٹھتے نہیں یہ ( چھپنے والا) میرا رب نہیں ہوسکتا،پھر جب چاند اپنی مکمل تب و تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا تو حضرتابراہیؑم کو پھر خیال آتا کہ ہو نا ہو یہ ہے میرا رب! پھر جب چاند بھی بے نور ہوجاتا اور اس کی روشنی مدھم ہوتے ہوتے صاف بُجھ جاتی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کہہ اٹھتے نہیں (اپنا نور کھو دینے والا) میرا رب کیسے ہوسکتا ہے؟،پھر جب رات کی تیرگی سپیدۂ سحر میں ڈھل جاتی اور سورج اپنی چکا چوندی کے جلوے بکھیرنے لگتا تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قلب پر یہ خیال ابھرنے لگتا کہ شاید یہ میرا خالق ہے! لیکن جب دن ختم ہوتے ہی سورج کا سفر بھی پورا ہوجاتا اور اس کی نورانی شعاعیں گہنا جاتیں تو آپ پکار اٹھتے نہیں اے قوم!میں تو تمہارے شرک سے بری ہوں،میں تو اپنا رُخ اس ذات بے ہمتا کی طرف موڑتا ہوں جس نے آسمان و زمین کو وجود بخشا اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔“ {سورۃ الانعام }
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ببانگِ دُہل بتوں کی بُرائی بیان کرنی شروع کردی،یہاں تک کہ ایک دن اپنے بُت ساز باپ سے بھی مکالمہ کر بیٹھے،اپنے باپ کو ناصحانہ گفتگو میں سمجھانے لگے ” اے میرے باپ آپ ایسی (بے جان) چیزوں کی پرستش کیوں کرتے ہیں جو نہ سُن سکتی ہیں،نہ دیکھ سکتی ہیں اور نہ آپ کے کوئی کام آسکتی ہیں، اے میرے باپ میں آپ کے پاس روشنی کا ایک ایسا مینار لایا ہوں جو اب تک آپ کے پاس کسی نے نہیں لایا،سو آپ میری اتباع کیجیے،میں آپ کو سیدھے راستے پر گامزن کردوں گا، اور آپ کی عقبیٰ سنوار دوں گا،“ مہر بہ قلب باپ بجائے اس کے کہ اپنے برگزیدہ بیٹے کی باتوں کو آویزۂ گوش بناتا اور انہیں قلب کی تختی پر منقش کرتا الٹا انہی پر بگڑ اٹھا،کہنے لگا ” اے ابراہیم اگر تم اپنی ان ( ناروا)حرکتوں سے باز نہ آئے اور تم نے ہمارے بُتوں کو بُرا بھلا کہنا نہ چھوڑا تو میں تمہیں سنگسار کر دوں گا،پتھروں سے مار مار کر تمہیں ہلاک کر دوں گا،جاؤ دفع ہو جاؤ اور میری نظروں سے دور بہت دور نکل جاؤ،اتنی دور کہ تمہاری پرچھائیاں بھی میری پرچھائیوں کو نہ لگ سکیں“۔
اپنے باپ کی ان دھمکیوں سے جرأت و ہمت کی اس تصویر کے پیروں میں ذرہ برابر بھی لغزش پیدا نہ ہوئی،ان میں معمولی سا ارتعاش بھی طاری نہ ہوا،بلکہ ان میں مانو جیسے پہاڑ جیسی دلیری و بہادری سما گئی ہو،اس کے بعد آپ کی تبلیغ اپنے گھر سے نکل کر پوری قوم میں چلی گئی،اور آپ بآواز بلند اپنی قوم اور اپنے باپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے ” تم ان بتوں کی کیوں پرستش کرتے ہو،{ جو نہ بولتے ہیں اور نہ سنتے ہیں،وہ تو نرے مٹی کے مادھو اور ریت کے تودے ہیں }قوم کہنے لگی ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایسا ہی کرتے پایا ہے،تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا ”اگر تمہارے باپ اور دادا گمراہ تھے تو کیا تم بھی انہی کی گمرہی والی راہوں پر چلوگے؟۔
آپ مٹی کے ان بتوں سے اتنے بیزار ہوچکے تھے کہ جلوت اور خلوت میں برابر مٹی کے ان بُتوں کی تشنیع بیان کرتے رہتے یہاں تک کہ ایک دن اس وقت جبکہ بستی کے سارے لوگ میلے میں گئے ہوئے تھے آپ نے اپنے ایمانی ہاتھوں سے بُت خانے میں رکھے سارے بُتوں کو پاش پاش کردیا سوائے ایک بڑے بُت کے،اس کے بعد آپ نے بُت شکن کلہاڑی کو اس بڑے بُت کی گردن کا طوق بنا دیا،میلے سے واپسی کے بعد لوگوں نے جب اپنے بتوں کی یہ دُرگت دیکھی تو وہ چراغ پا ہوگئے،معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ کام ابراہیم نے کیا ہے،ابراہیم سے باز پرس ہوئی تو آپ نے صاف کہہ دیا کہ اپنے اس بڑے بت سے کیوں نہیں پوچھ لیتے،وہی تم کو حقیقت حال بتا دے گا۔
پوری قوم غصے سے بپھر اٹھی،کہنے لگی اے ابراہیم تم کو معلوم ہے کہ یہ بول نہیں سکتا،{پھر بھی تم اس طرح کا بچکانہ سوال کرتے ہو}تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے قوم!” پھر تم کیوں پرستش کرتی ہو ایسی چیز کی جو تمہیں نہ نفع پہونچاسکتی ہے اور نہ نقصان دے سکتی ہے،تُف ہے تم پر بھی اور تمہارے ان معبودوں پر بھی۔ “
قوم اپنے معبودوں کی یہ گستاخی سُہار نہ سکی،ان کے سینوں میں انتقام کے شعلے لہکیں مارنے لگے،انہوں نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ دہکایا اور اس میں منجنیق کے ذریعے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پھینک دیا،یہاں سے ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کا دَر کھُل گیا،عشق کے اس خوگر نے متبسم چہرہ کے ساتھ اپنے وجود کو آگ کی ان فلک بوس لپٹوں کے حوالے کردیا،دستِ قدرت نے آگے بڑھ کر اپنے عاشق کو اپنی بانہوں میں تھام لیا،اور آسمان چومتے ہوئے ان شعلوں کو پُربہار گلستان میں تبدیل کردیا،اور آپ آگ کے ان شعلوں سے یوں ہشاش بشاش نکل آئے جیسے کوئی نور کے تڑکے شبنم آلود باغ کی سیر سے واپس آیا ہو۔
بجائے اس کے کہ قوم اس سے عبرت حاصل کرتی، اپنے کرتوت پر اشکِ ندامت بہاتی،اپنی بُت پرستی پر مزید اَڑ گئی،اس کے بعد دلبرداشتہ ہوکر آپ نے اپنے وطنِ عزیز ” عراق “ کو خیر آباد کہہ دیا،اس سفر میں آپ کے ہمراہ آپ کی رفیقۂ حضرت سارہ بھی تھیں،وہاں سے نکل کر آپ نے فلسطین میں سکونت اختیار کی،وہاں سے ایک بار اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر تشریف لے گئے جہاں کے بادشاہ نے آپ کو حضرت ہاجرہ کی شکل میں ایک کنیز بطور تحفہ کے عنایت کیا، جس کے ساتھ بعد میں حضرت سارہ نے آپ کا نکاح کر دیا۔
جس وقت آپ کا نکاح حضرت ہاجرہ کے ساتھ ہوا اس وقت تک حضرت سارہ سے آپ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی،ایک زمانے تک حضرت ہاجرہ سے بھی آپ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی،یہاں تک کہ آپ کی عمر بڑھاپے کی اس منزل کو جا پہونچی جس کا کوئی راستہ اولاد کی زرخیز زمین تک نہیں جاتا،اورحضرت ہاجرہ نے بھی خود کی کوکھ کو بانجھ تصور کرلیا،مگر خدائے بےنظیر اسباب سے ماوراء ہے،وہ چاہے تو ریگستان میں نخلستان پیدا کرسکتا ہے،لَق و دَق صحرا کی پُشت پر لہلہاتی سبزیاں اُگا سکتا ہے،اور ہوا بھی یہی کہ اللہ نے بڑھاپے کی عمر میں آپ کو { حضرت}اسماعیل کی شکل میں ایک پھول سا بیٹا عطا کیا،حضرت ابراہیم خوشی پھولے نہیں سما رہے تھے اور وہ بار بار اپنے اس پھول سے بچے کی بلائیں لے رہے تھے کہ اب میرے سُونے آنگن کو چہکارنے والا پیدا ہوگیا ہے،مگر عشق کے اور بھی امتحان ابھی آپ کی کتابِ زندگی کے اوراق پر لکھے جانے باقی تھے ۔
آپ کو حکم دیا گیا کہ اپنے اس بچے کو اس کی ماں سمیت ایک ایسے بیابان میں چھوڑ آؤ جہاں ہر سمت ہول کا سماں ہو،دور دور تک آب و دانہ کا کوئی نشان تک نہ ہو، حضرت ابراہیم علیہ السلام حکم خداوندی کے سامنے سرنگوں ہوگئے اور اپنی اہلیہ اور پھول جیسے بچے کو ساتھ لیکر اس سرزمین پر چھوڑ آئے جہاں دور دور تک نہ کسی پرندے کا گزر تھا،نہ کسی آدمی کا نام و نشان، نہ پانی کا وجود تھا نہ دانے کا اَتہ پتہ، وہ سرزمین نری بنجر اور سنسان تھی،ایسی بنجر سرزمین پر آپ اپنے پھول جیسے بچے اور اس کی ماں کو اللہ کے حوالے کرکے باچشم نَم اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔
وقت پَر لگا کر اڑتا رہا یہاں تک کہ بےشمار منتوں سے پیدا ہونے والا وہ بچہ اس قابل ہوگیا کہ وہ اپنے بوڑھے باپ کے قدموں سے قدم ملا کر چل سکتا اور اپنے باپ کے کاموں میں ہاتھ بٹا سکتا،بوڑھے باپ کو بذریعہ خواب حکم دیا گیا کہ وہ اپنے اس بیٹے کو اللہ کے راستے میں قربان کردے۔
اللہ اکبر یہ کیسا جگرپاش امتحان تھا،کون باپ ہوگا جو اپنے لختِ دل کی گردن پر چھری پھیرنے کو تیار ہوگا،بچے کی جگہ پر خود کو قربان کردینے کے واقعات تو رونما ہوئے ہیں،مگر اپنے ہاتھوں سے بچے کی گردن پر چھری پھیرنے کا یہ واقعہ نادر اور نایاب تھا وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب کہ اس بوڑھے باپ کو ایک سہارے کی ضرورت تھی،جو ان کے بوڑھے کندھوں کے بوجھ کو ہلکا کرتا،اور وہ سہارا سوائے بیٹے کے اور کون ہوسکتا تھا؟مگر باپ کو حکم ہوتا ہے کہ اپنے اس سہارے یعنی بیٹے کی گردن پر چھری پھیر دو،قربان جائیں اس باپ کی عاشقی پر،وہ بیک جست اٹھ بیٹھتا ہے بلا کسی پس وپیش کے اپنے بیٹے کو طلب کرتا ہے اور اپنے خواب سے انہیں آگاہ کرتا ہے،سعادت مند بیٹا جب یہ سنتا ہے تو فورا آمادگی ظاہر کر بیٹھتا ہے،اور رضائے الہی کی خاطر خود کو قربانی کے لئے پیش کردیتا ہے۔ یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائی کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
ایک طرف جذبات تھے اور دوسری طرف عشق، جذبات ابراہیم کے لئے سد راہ ہو رہے تھے جبکہ عشق کا تقاضہ کچھ اور تھا،آخر کار جذبات اور عشق کی کھینچا تانی میں عشق بازی مار گیا اور پھر چشم فلک نے کرۂ ارض پر وہ منظر بھی رونما ہوتے دیکھا جو اس سے پہلے اس کی نظروں نے کبھی نہ دیکھا تھا،زمین محو حیرت تھی،آسمان انگشت بدنداں تھا، ملکوتِ اعلی میں انسانی دیوانگی اور فرزانگی کے قصیدے گائے جارہے تھے،اور پھر وہ وقت بھی آیا جب ایک محبت کے مارے باپ نے اپنے پسر کی گردن پر چھری ریت دی، خداوند قدوس کو اسماعیل کو ذبح کروانا کہاں مقصود تھا،مقصود تو ان دونوں کا امتحان لینا تھا،اور وہ دونوں امتحان میں مکمل طور پر کھڑے اتر چکے تھے،فورا جنت سے اسماعیل کی جگہ پر ایک مینڈھا بھیج دیا،جس کی گردن پر بحکم الہی چھری چل گئی،معا ہی ایک نوائے سروش گونجی ” اے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا “۔
اللہ کو حضرت ابراہیم کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے اس کو زندہ و جاوید کردیا، یہاں تک کہ امت محمدیہ کے ہر اس فرد کے لئے جس کے پاس نصاب کے بقدر مال ہو قربانی کرنا واجب ٹھہر گیا،نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ” مَنْ وَجَدَ سَعَۃً فَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَقْرُبَنَّ مُصَلَّانَا “ جوآدمی قربانی کرنے کی طاقت رکھے اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ابتلاء و آزمائش کے تمام ادوار سے بخیر و خوبی گزر گئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو اپنا گھر تعمیر کرنے کا حکم فرمایا،باپ اور بیٹا دونوں تعمیرِ حرم میں جُٹ گئے اور جب تعمیرِحرم سے فارغ ہوئے تو حضرت ابراہیمؑ کو اللہ پاک نے حکم دیا کہ اب حج کا اعلان کرو! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمانِ الہی کے بہ موجب حج کا اعلان کیا تو اللہ نے اس معمارِ حرم کی آواز میں وہ رفعت عطا کردی کہ آپ کی آواز کی صدائے بازگشت عالمِ ارواح جا پہونچی،اور اس پر قیامت تک آنےوالی ہراس روح نے لبیک کہا جس کے مقدر میں حج کرنا لکھ دیا گیا ہے۔
الغرض حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی ابتلاء و آزمائش کے گرد دائر رہی اور آپ ہر بار بآسانی اس امتحان میں کامیاب ہوئے،پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں آپ کو یہ انعام دیا کہ جب تک یہ چاند اور سورج باقی رہے گا تب تک آپ کا نام بھی زندہ و تابندہ رہے گا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پُر ابتلاء زندگی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ دنیا و آخرت میں کامیابی کی معراج تک پہونچنے کے لئے ہر اس چیز کو تِج دینا ہوگا جو ہمیں حد سے زیادہ عزیز ہو،یہاں تک کہ اولاد جیسی نعمتِ بےبہا کو بھی رضائے الہی کی خاطر قربان کردینے سے دریغ نہیں کرنا ہوگا،آج بھی اگر ہم اسی ڈگر پر چلیں جس ڈگر پر چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم چلے تھے،اور ہم بھی برضا و رغبت خدائی فرمان پر عمل پیرا ہوں تو پھر عجب نہیں کہ ہمارے اوپر بھی انعامات و نوازشات کی وہی بارش برس جائے جو حضرت ابراہیم پر برسی تھی۔ آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی