ماہنامہ الفاران
ماہِ ذی القعدہ - ۱۴۴۳
ملک کا موجودہ منظر نامہ اور ہماری ذمہ داریاں
حضرت مفتی محمد ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ہمارا ملک اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گذر رہا ہے، دن بدن حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں، گائے کے تحفظ کے نام پر لوگوں کو مارا جا رہا ہے، گائے کے علاوہ دوسرے جانوروں کے گوشت کھانے پر بھی آپ کی جان جا سکتی ہے، جب تک جانچ رپورٹ آئے گی ، اس نام پر آپ کا قتل ہو چکا ہوگا۔ داڑھی ٹوپی، حجاب اور شعائر اسلام کو اپنا نے والوں کو راستہ چلتے طنز کے ساتھ بھدی بھدی گالیاںسننی پڑتی ہیں، راستہ گذرتے ہوئے آپ کو چِڑھا نے کے لیے ’’بھارت ماتا کی جَے‘‘ کی آواز زور سے لگائی جاتی ہے، خواتین کی عزت وناموس سر عام لوٹی جا رہی ہے، کسانوں کی حالت درد ناک ہے، وہ خود کشی پر مجبور ہو رہے ہیں، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ نے چھوٹے کاروباریوں پر زندگی تنگ کر دی ہے اور کاروبار مندی کے دور سے گذر رہا ہے، کچے چمڑے لاتے لے جاتے لوگ ڈر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ٹینریاں بند ہو رہی ہیں، لاکھوں روپے کے چمڑے بُلو کر کے گوداموں میں پڑے ہوئے ہیں، ان کا خریدار کوئی نہیں ہے، ٹکسٹائل ورکروں کی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔دلت ہندوؤں کی حالت انتہائی خستہ ہے اور وہ تحریک کی راہ پر چل پڑے ہیں، کشمیر سلگ رہا ہے، دارجلنگ میں گورکھا لینڈ والے سر اٹھا رہے ہیںاور تیزی سے علاحدگی کی راہ پڑ بڑھ رہے ہیں۔ ملک کی سرحدیں غیر محفوظ ہیں، ہمارے جوان مر رہے ہیں، نکسل وادیوں کے زور میں کمی نہیں آرہی ہے، بھوٹان سے متصل سرحد پر چینی افواج ہمیں آنکھیں دکھا رہی ہیں اور دھمکیاں دے رہی ہے، ٹرینوں کا سفر محفوظ نہیں ہے ، فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ غیر ضروری اور غیر حقیقی نعروں سے مسلمانوں کو پریشان ، ہراساں اور خوف زدہ کرنے میں لگے ہیں،وزیر اعظم نے بعض موضوعات پر اپنی زبان کھولی ہے، جس کا کوئی بھی اثر فرقہ پرستوں پر نہیں ہوا کیوں کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ وزیر اعظیم کا کام ’’نندا‘‘ کرنا نہیں، قانون کے نفاذ کو یقینی بنانا ہے، اسی لیے ایک لیڈر نے یہاں تک کہہ دیا کہ’’ تم مارتے رہے ہم نندا کرتے رہیں گے‘‘، مذہبی اسفار بھی محفوظ نہیں ہیں۔
ان حالات میں ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں، ملک سے محبت کا تقاضہ ہے کہ ہم اس ملک کی سالمیت، قانون کے تحفظ اور اس کے نفاذ کے لیے ہر سطح پر کوشاں ہوں، ملک محفوظ اسی وقت رہے گا جب قانون کی بالا دستی ہو ، کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی جائے ، تحفظ گائے کے نام پر جن لوگوں نے خون خرابہ مچا رکھا ہے ، ان سے سختی سے نمٹا جائے، یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے، عوام تو صرف ان کاموں میں مدد دے سکتی ہے، اور قانون توڑنے والوں کے خلاف ان اداروں کی مدد کر سکتی ہے جن کا کام لا اینڈ آرڈر کا تحفظ ہے۔
’’ہماری‘‘ کا مطلب صرف مسلمان نہیں، اس ملک کے سارے باشندے ہیں اور اس میں ذات برادری، علاقہ، زبان مسلک ومشرب کی قید نہیں ہے ، دوسری طرف ہر مذہب کے لوگ بھی جو اس ملک میں رہتے ہیں ، یہاں کے شہری ہیں، ان سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے آگے آئیں۔
ہمارا ماننا ہے کہ اس ملک میں سیکولرزم اور جمہورت کی جڑ یں بہت مضبوط ہیں، بی جے پی کے دور حکومت میں اسے کمزور کرنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے، بحالیوں میں بھی آر ایس ایس سے وفاداری کو ملحوظ رکھا جا رہا ہے اور ہندوستان کی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ ملک کے تین اعلیٰ عہدے پر صدر ،نائب صدر اور وزیر اعظم آر ایس ایس کے پر وردہ اور نمک خوار فائزہیں، اس کے با وجود یہاں کی اکثریت گنگا جمنی تہذیب کی عادی ہے، ایک بڑا گروپ وہ ہے جسے ہم سائلنٹ گروپ کہہ سکتے ہیں،ا س سائلنٹ گروپ کو جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے آگے لانے کی ضرورت ہے،دلتوں، آدی باسیوں اور اقلیتوں کا اتحاد بھی ان حالات کو بدلنے میں معاون ہو سکتا ہے، یہ ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے، اقتدار اعلیٰ چونکہ فرقہ پرستوں کے ہاتھ میں ہے، اس لیے یہ کام ذرا مشکل ہے، لیکن ہم اسے ناممکن نہیں کہہ سکتے ۔
اس ملک میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت ہے ،ملک سے محبت اور وفاداری کا تقاضہ ہے کہ ان حالات کو بدلنے کے لئے وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں کیوں کہ مسلمان ہی وہ امت ہے جس کے پاس اعلیٰ اخلاقی اقدار اور Moral Valusکا بڑا ذخیرہ ہے، اسے خیر کے کاموں میں تعاون کا حکم دیاگیا ہے اور گناہوںکے کاموں سے بچنے کی بات کہی گئی ہے، یہ بھلائی کا حکم دیتی ہے اور بُرائی سے روکنے کا کام کرتی ہے، اسی لیے یہ خیر امت ہے، وقت آگیا ہے کہ حالات کو بدلنے کے لیے ہم اپنی جد وجہد کا آغاز کریں۔
اس کے لیے سب سے پہلا کام انابت الی اللہ ہے، اللہ کی طرف رجوع کرنا ، اس کے سامنے گڑ گڑا کر حالات بدلنے کے لیے دعا کرنا ، اس لیے کہ اصل قوت وطاقت کا مرکز ومحور اللہ رب العزت کی ذات ہے وہ چاہے تو پل میں سب کچھ ٹھیک کردے؛کیوں کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، لیکن ہماری بد اعمالی اور بے عملی نصرت خداوندی کے دروازے پر رکاوٹ بن گئی ہے، ہم اپنے اعمال کی اصلاح کریں، اللہ کا خوف ہمارے دل میں ہو اور ہماری تمام حرکات وسکنات احکام الٰہی اور ہدایت نبوی کے تابع ہو تو اللہ کی مدد آئے گی اور حالات کا رخ بدلے گا، لیکن اس کے لیے اپنا محاسبہ اور اپنے اعمال کا قبلہ درست کرنا ہوگا۔
دوسرا کام کرنے کا یہ ہے کہ غیر ضروری جوش سے گریز کیا جائے، فیصلے جوش کے بجائے ہوش اور اقدام جذباتیت کے بجائے عقلیت سے کیے جائیں، غیر ضروری جوش سے ملت کو نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ملا ہے،ا س لیے ہر حال میں تحمل وبرداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور آخری حد تک کوشش کرنی چاہیے کہ ناگوار واقعات سامنے نہ آئیں، ٹالرنس کا ماحول بنانے سے یہ کام آسان ہوگا ۔
تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ ٹالنے کی ساری کوشش ناکام ہوجائے تو اقدام کے طور پر نہیں اپنی دفاع اور جان ومال، عزت وآبرو کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے، یہ ہمارا دستوری اور قانونی حق ہے، اس سلسلے میں ’’وھن‘‘ یعنی دنیا کی محبت اور موت کے خوف سے اوپر اٹھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے، یہ جد وجہد اتنی مضبوط ہو کہ فرقہ پرستوں اور دہشت گردوں کو منہہ کی کھانی پڑے، وہ جان لیں کہ ہم گاجر ، مولی نہیں ہیں، ایک موقع سے حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا تھا کہ فسادات اسی شکل میں رک سکتے ہیں، جب مارنے والے کو یقین ہو کہ ہمیں بھی مارا جا سکتا ہے۔(لہو پکارے گا آستین کا)
ٹیپو سلطان شہید نے کہا تھا ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘، صبر اور بر داشت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی زندگی کی بقا کے لیے کوشش نہ کی جائے اور خوف ایسا مسلط ہوکہ ہم ہاتھ پاؤں تو کیا زبان بھی نہ ہلا سکیں، ملک کے سابق صدر اے پی جے عبد الکلام نے ایک بار کہا تھا کہ’’ طاقت وقوت کے ساتھ بر داشت، کام کی حکمت عملی اور بے سر وسامانی اور کمزوری کے ساتھ بر داشت کا مطلب مجبوری ہے‘‘۔
چوتھا کام یہ کرنا چاہیے کہ اسلام کی صحیح اور سچی تعلیمات لوگوں تک پہونچائی جائیں، غلط فہمیاں جو پھیلا ئی جا رہی ہیں اس کودور کرنے کے لیے عملی اقدام کیے جائیں، واقعہ یہ ہے کہ اس معاملہ میں ہم مجرمانہ غفلت کے شکار ہیں، دعوت دین کے کام کو اس پیمانے پر ہم نے کیا ہی نہیں،جس قدر اس کی ضرورت تھی، دعوت کا یہ کام ہمیں زبان وقلم سے بھی کرنا چاہیے اور عمل سے بھی، اسلام کی خوبیاں کتابوں سے کم اور عمل سے زیادہ سمجھ میں آتی ہیں، تھیوری جاننا ضروری ہے، لیکن جب تک وہ پریکٹیکل کے مرحلہ سے نہیں گذرے گا اس کی افادیت سامنے نہیں آسکتی ۔
اس لیے ہم اپنے عمل سے اسلام کی حقانیت وصداقت واضح کریں، ہمیں شکوہ ہے کہ عوامی نمائندہ اداروں میں ہم تعداد میں بہت کم ہیں، اس لیے ہماری آواز نہیں سنی جاتی ، لیکن جہاں ہماری آواز کا سنا جانا یقینی ہے، اور جہاں جانے سے ہمیںکوئی روک نہیں سکتا ، وہاں ہماری نمائندگی کتنے فی صد ہے، ذہن نہیں منتقل ہوا ہو تو میں بتاتاچلوں کہ مساجد کی پنج وقتہ نمازوں میں ہماری تعداد کتنی ہے، یہ وہ در ہے جہاں سب بات سنی جاتی ہے، اور سب کی سنی جاتی ہے، لیکن اللہ کے دربار میں جانے اور اس سے اپنی مرادیں مانگنے ، اپنی تکالیف کو دور کرنے کے لیے درخواست کرنے سے ہم کس قدر گریزاں ہیں، یہی وہ در ہے جہاں آبرو نہیں جاتی اور جہاں مانگنا ذلت نہیں، عبادت ہے ، کاش مسلمان اس بات کو سمجھ لیتے۔
ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کے مقابلے ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں، ذات پات، مسلک ومشرب اور دوسرے فروعی مسائل میں الجھ کر ہم منتشر ہو گیے ہیں،ا س انتشار نے ہمیں انتہائی کمزور کر دیا ہے، اس خول سے باہر آکر کلمہ کی بنیاد پر اتحاد کو فروغ دینا چاہیے، اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے ، کفرو الحاد کے تیر چلانے سے گریز کرنا چاہیے، بعض فرقے واضح طور پر اسلام سے الگ ہیں، جیسے قادیانی، اس سے ہمارا اختلاف اساسی اور ختم نبوت کے اسلامی عقیدہ پر مبنی ہے، لیکن جن فرقوں سے اختلافات فروعی ہیں، ان سے چھیڑ چھاڑ اور ان کے خلاف آواز بلند کرنا جس سے فرقہ بندی کو فروغ ہو ، اسلام کے شایان شان نہیں، اللہ رب العزت نے جس اسلام کو اپنا دین قرار دیا ہے، وہ صرف اور صرف اسلام ہے ، اسکے آگے پیچھے کوئی مضاف، مضاف الیہ نہیں ہے۔
ان حالات میں ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں، ملک سے محبت کا تقاضہ ہے کہ ہم اس ملک کی سالمیت، قانون کے تحفظ اور اس کے نفاذ کے لیے ہر سطح پر کوشاں ہوں، ملک محفوظ اسی وقت رہے گا جب قانون کی بالا دستی ہو ، کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی جائے ، تحفظ گائے کے نام پر جن لوگوں نے خون خرابہ مچا رکھا ہے ، ان سے سختی سے نمٹا جائے، یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے، عوام تو صرف ان کاموں میں مدد دے سکتی ہے، اور قانون توڑنے والوں کے خلاف ان اداروں کی مدد کر سکتی ہے جن کا کام لا اینڈ آرڈر کا تحفظ ہے۔
’’ہماری‘‘ کا مطلب صرف مسلمان نہیں، اس ملک کے سارے باشندے ہیں اور اس میں ذات برادری، علاقہ، زبان مسلک ومشرب کی قید نہیں ہے ، دوسری طرف ہر مذہب کے لوگ بھی جو اس ملک میں رہتے ہیں ، یہاں کے شہری ہیں، ان سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے آگے آئیں۔
ہمارا ماننا ہے کہ اس ملک میں سیکولرزم اور جمہورت کی جڑ یں بہت مضبوط ہیں، بی جے پی کے دور حکومت میں اسے کمزور کرنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے، بحالیوں میں بھی آر ایس ایس سے وفاداری کو ملحوظ رکھا جا رہا ہے اور ہندوستان کی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ ملک کے تین اعلیٰ عہدے پر صدر ،نائب صدر اور وزیر اعظم آر ایس ایس کے پر وردہ اور نمک خوار فائزہیں، اس کے با وجود یہاں کی اکثریت گنگا جمنی تہذیب کی عادی ہے، ایک بڑا گروپ وہ ہے جسے ہم سائلنٹ گروپ کہہ سکتے ہیں،ا س سائلنٹ گروپ کو جمہوری اقدار کی حفاظت کے لیے آگے لانے کی ضرورت ہے،دلتوں، آدی باسیوں اور اقلیتوں کا اتحاد بھی ان حالات کو بدلنے میں معاون ہو سکتا ہے، یہ ملک کے لیے انتہائی ضروری ہے، اقتدار اعلیٰ چونکہ فرقہ پرستوں کے ہاتھ میں ہے، اس لیے یہ کام ذرا مشکل ہے، لیکن ہم اسے ناممکن نہیں کہہ سکتے ۔
اس ملک میں مسلمان دوسری بڑی اکثریت ہے ،ملک سے محبت اور وفاداری کا تقاضہ ہے کہ ان حالات کو بدلنے کے لئے وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں کیوں کہ مسلمان ہی وہ امت ہے جس کے پاس اعلیٰ اخلاقی اقدار اور Moral Valusکا بڑا ذخیرہ ہے، اسے خیر کے کاموں میں تعاون کا حکم دیاگیا ہے اور گناہوںکے کاموں سے بچنے کی بات کہی گئی ہے، یہ بھلائی کا حکم دیتی ہے اور بُرائی سے روکنے کا کام کرتی ہے، اسی لیے یہ خیر امت ہے، وقت آگیا ہے کہ حالات کو بدلنے کے لیے ہم اپنی جد وجہد کا آغاز کریں۔
اس کے لیے سب سے پہلا کام انابت الی اللہ ہے، اللہ کی طرف رجوع کرنا ، اس کے سامنے گڑ گڑا کر حالات بدلنے کے لیے دعا کرنا ، اس لیے کہ اصل قوت وطاقت کا مرکز ومحور اللہ رب العزت کی ذات ہے وہ چاہے تو پل میں سب کچھ ٹھیک کردے؛کیوں کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، لیکن ہماری بد اعمالی اور بے عملی نصرت خداوندی کے دروازے پر رکاوٹ بن گئی ہے، ہم اپنے اعمال کی اصلاح کریں، اللہ کا خوف ہمارے دل میں ہو اور ہماری تمام حرکات وسکنات احکام الٰہی اور ہدایت نبوی کے تابع ہو تو اللہ کی مدد آئے گی اور حالات کا رخ بدلے گا، لیکن اس کے لیے اپنا محاسبہ اور اپنے اعمال کا قبلہ درست کرنا ہوگا۔
دوسرا کام کرنے کا یہ ہے کہ غیر ضروری جوش سے گریز کیا جائے، فیصلے جوش کے بجائے ہوش اور اقدام جذباتیت کے بجائے عقلیت سے کیے جائیں، غیر ضروری جوش سے ملت کو نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ملا ہے،ا س لیے ہر حال میں تحمل وبرداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور آخری حد تک کوشش کرنی چاہیے کہ ناگوار واقعات سامنے نہ آئیں، ٹالرنس کا ماحول بنانے سے یہ کام آسان ہوگا ۔
تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ ٹالنے کی ساری کوشش ناکام ہوجائے تو اقدام کے طور پر نہیں اپنی دفاع اور جان ومال، عزت وآبرو کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے، یہ ہمارا دستوری اور قانونی حق ہے، اس سلسلے میں ’’وھن‘‘ یعنی دنیا کی محبت اور موت کے خوف سے اوپر اٹھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے، یہ جد وجہد اتنی مضبوط ہو کہ فرقہ پرستوں اور دہشت گردوں کو منہہ کی کھانی پڑے، وہ جان لیں کہ ہم گاجر ، مولی نہیں ہیں، ایک موقع سے حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا تھا کہ فسادات اسی شکل میں رک سکتے ہیں، جب مارنے والے کو یقین ہو کہ ہمیں بھی مارا جا سکتا ہے۔(لہو پکارے گا آستین کا)
ٹیپو سلطان شہید نے کہا تھا ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘، صبر اور بر داشت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی زندگی کی بقا کے لیے کوشش نہ کی جائے اور خوف ایسا مسلط ہوکہ ہم ہاتھ پاؤں تو کیا زبان بھی نہ ہلا سکیں، ملک کے سابق صدر اے پی جے عبد الکلام نے ایک بار کہا تھا کہ’’ طاقت وقوت کے ساتھ بر داشت، کام کی حکمت عملی اور بے سر وسامانی اور کمزوری کے ساتھ بر داشت کا مطلب مجبوری ہے‘‘۔
چوتھا کام یہ کرنا چاہیے کہ اسلام کی صحیح اور سچی تعلیمات لوگوں تک پہونچائی جائیں، غلط فہمیاں جو پھیلا ئی جا رہی ہیں اس کودور کرنے کے لیے عملی اقدام کیے جائیں، واقعہ یہ ہے کہ اس معاملہ میں ہم مجرمانہ غفلت کے شکار ہیں، دعوت دین کے کام کو اس پیمانے پر ہم نے کیا ہی نہیں،جس قدر اس کی ضرورت تھی، دعوت کا یہ کام ہمیں زبان وقلم سے بھی کرنا چاہیے اور عمل سے بھی، اسلام کی خوبیاں کتابوں سے کم اور عمل سے زیادہ سمجھ میں آتی ہیں، تھیوری جاننا ضروری ہے، لیکن جب تک وہ پریکٹیکل کے مرحلہ سے نہیں گذرے گا اس کی افادیت سامنے نہیں آسکتی ۔
اس لیے ہم اپنے عمل سے اسلام کی حقانیت وصداقت واضح کریں، ہمیں شکوہ ہے کہ عوامی نمائندہ اداروں میں ہم تعداد میں بہت کم ہیں، اس لیے ہماری آواز نہیں سنی جاتی ، لیکن جہاں ہماری آواز کا سنا جانا یقینی ہے، اور جہاں جانے سے ہمیںکوئی روک نہیں سکتا ، وہاں ہماری نمائندگی کتنے فی صد ہے، ذہن نہیں منتقل ہوا ہو تو میں بتاتاچلوں کہ مساجد کی پنج وقتہ نمازوں میں ہماری تعداد کتنی ہے، یہ وہ در ہے جہاں سب بات سنی جاتی ہے، اور سب کی سنی جاتی ہے، لیکن اللہ کے دربار میں جانے اور اس سے اپنی مرادیں مانگنے ، اپنی تکالیف کو دور کرنے کے لیے درخواست کرنے سے ہم کس قدر گریزاں ہیں، یہی وہ در ہے جہاں آبرو نہیں جاتی اور جہاں مانگنا ذلت نہیں، عبادت ہے ، کاش مسلمان اس بات کو سمجھ لیتے۔
ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کے مقابلے ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں، ذات پات، مسلک ومشرب اور دوسرے فروعی مسائل میں الجھ کر ہم منتشر ہو گیے ہیں،ا س انتشار نے ہمیں انتہائی کمزور کر دیا ہے، اس خول سے باہر آکر کلمہ کی بنیاد پر اتحاد کو فروغ دینا چاہیے، اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے ، کفرو الحاد کے تیر چلانے سے گریز کرنا چاہیے، بعض فرقے واضح طور پر اسلام سے الگ ہیں، جیسے قادیانی، اس سے ہمارا اختلاف اساسی اور ختم نبوت کے اسلامی عقیدہ پر مبنی ہے، لیکن جن فرقوں سے اختلافات فروعی ہیں، ان سے چھیڑ چھاڑ اور ان کے خلاف آواز بلند کرنا جس سے فرقہ بندی کو فروغ ہو ، اسلام کے شایان شان نہیں، اللہ رب العزت نے جس اسلام کو اپنا دین قرار دیا ہے، وہ صرف اور صرف اسلام ہے ، اسکے آگے پیچھے کوئی مضاف، مضاف الیہ نہیں ہے۔