ماہنامہ الفاران
ماہِ ذی القعدہ - ۱۴۴۳
ایک مہلک وباء : سماجی برائی اور خدائی جرم
مولانا ارشد کبیر خاقان المظاہری،جنرل سکریٹری:تنظیم فلاح ملت، مرکزی دفتر:مدرسہ نور المعارف،مولانا علی میاں نگر، دیا گنج،ضلع ارریہ:مدیر مسئول ماہنامہ "الفاران"
جس طرح کسی کی جان اور مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے،اسی طرح کسی کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچانا بھی حرام ہے۔ غیبت کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی عزت پر خفیہ حملہ ہے جس کا مقصد کسی مخصوص شخص کی عزت کو نقصان پہنچانا اور اس کی تحقیر کرنا ہے۔ اسی بنا پر غیبت ایک حرام فعل اور گناہ کبیرہ ہے۔
غیبت کو قرآن میں واضح طور پر حرام قرادیا گیا اور اسے ایک قبیح فعل سے تشبیہ دی گئی ہے۔ سورۃ الحجرات میں بیان ہوتا ہے:ایحب احدکم ان یا کل لحم اخیہ میتاً فکرہتموہ (پارہ:۶۲ سورہ:حجرات آیت:۲۱) اللہ تعالی نے اسے مرے ہوئے اپنے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے”اورنہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے،کیاتم میں کا کوئی اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے،تم کو اس سے گھن آئے گی،بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے“۔
اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں غیبت کو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دے کر، اس فعل کی کراہیت کا خیال دلایاہے،مردار کا گوشت کھانا بجائے خود نفرت کے قابل ہے اور وہ گوشت بھی کسی جانور کا نہیں بلکہ انسان کا ہو اور انسان بھی کوئی اورنہیں،خوداپنا بھائی ہو، پھر اس تشبیہ کو سوالیہ جملہ میں بیان کرکے اور زیادہ مؤثر بنادیاگیاہے۔ تاکہ ہر انسان اپنے دل سے پوچھ کر خود فیصلہ کر ے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے لیے تیار ہے اور اگر کھانے کے لیے تیار نہیں ہے اوراس کی طبیعت اس چیز سے گھن کھاتی ہے تو آخر وہ یہ بات کیسے پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مومن بھائی کی غیرموجودگی میں اس کی عزت پر حملہ کرے، جہاں وہ اپنی مدافعت نہیں کرسکتا۔
غیبت کبیرہ گناہوں میں ایک بڑا گناہ ہے۔ دیگر بڑے گناہوں کے برخلاف یہ گناہ بہت عام ہے اور اس میں ہر دوسرا مسلمان ملوث نظر آتا ہے۔دوسری جانب قرآن و حدیث میں غیبت کی بڑے واشگاف الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ کہیں اس عمل کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، تو کہیں اس عمل میں مبتلا لوگوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔
حضرت ابوہریرؓ ہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!:تم جانتے ہو کہ غیبت کیاہے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا!اپنے مسلمان بھائی کاذکر اس طرح کرناکہ وہ اسے ناگوار گذرے، لوگوں نے کہا! اگروہ برائی اس میں موجود ہوتو؟آپ نے فرمایا: ”اگراس کے اندر وہ برائی موجود ہوتو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ برائی اس کے اندر موجود نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان باندھا۔“(مسلم)
غیبت اپنے بھائی کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے جبکہ آبرو کو نقصان پہنچانے پر بڑِی سخت تنبیہ حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے سرور عالم نے فرمایا!جو کوئی کسی مسلمان کی آبروکو نقصان پہنچاتا ہے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہوتی ہے اور اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی ”۔ (صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 440)
غیبت کرنے کا عام طور پر محرک کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا، اسے کمتر ثابت کرنا اور اسے کسی کی نظروں میں گرانا ہوتا ہے۔ اس رویےّ کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2011)۔
اسی طرح دیگر روایات میں بھی غیبت کی واشگاف الفاظ میں مذمت کی گئی اور اس سے روکا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کہتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بد گمانی سے بچو اس لئے کہ بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور نہ کسی کے عیوب کی جستجو کرو، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو، نہ غیبت کرو، نہ بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بن کر رہو(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1022)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کی زبانیں تو ایمان لاچکی ہیں لیکن دل نہیں۔ تم مسلمانوں کی غیبت چھوڑ دو اور ان کے عیب نہ کریدو۔ یاد رکھو!اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ برائیوں کو ظاہر کردے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھر والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاؤ گے”(ابوداؤد، کتاب الادب۔حدیث: ۴۸۸۰)۔
”مستورد بن شداد“ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی مسلمان کی غیبت کا نوالہ کھایا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے اس کے مثل جہنم کا نوالہ کھلائیں گے۔(سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1476)
”حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا!جب اللہ تعالیٰ مجھے معراج کی رات اوپر لے گیا تو عالم بالا میں میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان ناخنوں سے اپنے چہروں کو کھرچ رہے تھے ان کی اس حالت کو دیکھ کر میں نے پوچھا؟ جبرئیل یہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواب دیا!یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے یعنی لوگوں کی غیبت کرتے ہیں ان کی عزت و آبرو کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ”۔ (ابوداؤد رقم 4878)
اس واضح مذمت کے باوجودلوگ اس فعل میں بڑی تعداد میں ملوث ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اکثر لوگ اس کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ جو لوگ اسے گناہ سمجھتے ہیں ان میں سے زیادہ تر لوگ فرق ہی نہیں کرپاتے کس برائی کوبیان کرنا غیبت ہے اور کس کا بیان غیبت نہیں۔ ایک اور قسم ان لوگوں کی ہے جو غیبت کو گناہ سمجھتے اور اس کی نوعیت سے بھی واقف ہوتے ہیں لیکن تربیت کی کمی کی وجہ سے اسے چھوڑنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس تربیتی مضمون کا مقصد یہی ہے کہ اس مرض کی شناعت کو واضح کیا جائے، اسکی نوعیت کو سمجھا جائے اور عملی مشقیں کرکے اس سے چھٹکارا پایا جائے۔
لیکن اگر آج ہم اپنے معاشرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ معاشرے کے اندر غیبت جیسی مذموم خصلت اتنی عام ہوچکی ہے جس سے اہل اسلام کے اتحاد واتفاق کا جنازہ نکل گیا ہے اورایک دوسرے کی عزت وآبروپر کیچڑاچھالنا ان کا شیوہ بن چکاہے۔
معراج کے دوران جنت ودوزخ کے مناظر دکھائے گئے،غیبت کرنے والوں کو مردار کا گوشت کھاتے دکھایا گیا،یتیموں کا مال کھانے والوں کو انگارے کھاتے ہوئے دکھایا گیا،سود کھانے والوں کے پیٹ بڑے بڑے کمروں کے مانند دکھائے گئے جس میں سانپ بھرے تھے۔
غیبت ایک گناہ کبیرہ ہے۔ اور ہر گناہ سے توبہ کا طریقہ اس کو ترک کرنا، اس پر نادم ہونا، آئندہ اسے نہ کرنے کا عہد کرنا اور ممکن ہو تو اس کے ازالے کی کوشش کرناہے۔ اگر کسی شخص کے سامنے غیبت کی قباحت عیاں ہوچکی ہے اور وہ اس عمل پر نادم وشرمندہ ہے تو اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس حرام فعل سے توبہ واستغفار کرتے ہوئے رک جائے،پھر اگر وہ آدمی موجود ہو جس کی غیبت کی گئی ہے تو اس سے معافی مانگے ورنہ اس کے حق میں کثرت سے دعائے مغفرت کرے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صحابہ کرام ؓسے پوچھا! ”کیا آپ لوگ جانتے ہیں مفلس کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: مفلس تو وہی ہے جس کے پاس مال ومتاع نہ ہو،آپ نے فرمایا: مفلس میری امت میں وہ ہے جو قیامت کے دن صوم وصلوٰۃ، زکوٰۃ سب عبادات لے کرآئے گا لیکن کسی کو گالی دی ہوگی، کسی کی آبروریزی کی ہوگی، کسی کا مال کھایاہوگا، کسی کا خون بہایاہوگا،کسی کو ماراپیٹا ہوگالہٰذا کسی کواس کی فلاں نیکی دے دی جائے گی اور کسی کو فلاں نیکی دے دی جائے گی۔ اس طرح اس کی سب نیکیا ں دوسروں کے حقوق دینے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گی تب ان حقداروں کے گناہ اس پرلاد دئیے جائیں گے،اور اس طرح وہ جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔“ (مسلم)
حجاج بن یوسف سے کو ن واقف نہیں جس نے بیشمار ظلم کئے کتنے ہی علماء کو شہید کیا،کتنے حافظوں کو قتل کیا،حتی ٰ کہ اس نے کعبہ شریف پر بھی حملہ کیا جو بھی اس کے حالات پڑھتاہے اس کی طرف سے کراہت پیدا ہوتی ہے ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے سامنے حجاج بن یوسف کی برائی شروع کردی اس برائی کے اندر اس کی غیبت کی تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فوراً ٹوکا اور فرمایا کہ یہ مت سمجھنا کہ اگر حجاج بن یوسف ظالم ہے تو اب اس کی غیبت حلال ہوگی یاد رکھو! جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حجاج بن یوسف سے اس کے قتل ناحق اور ظلم وخون کا بدلہ لیں گے اور تم اس کی غیبت کر رہے ہو تو اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ تم سے لیں گے۔
گناہوں پر قلق اور خدا سے التجا کا اہتمام کر کیونکہ تیر ے حق میں یہی نافع ہوسکتاہے حزن وغم کی غذا کھا،آنسووں کا پیالہ پی!غم کی کدال سے خواہشات کے دل کا کنواں کھو د تاکہ اس سے ایسا پانی نکلے جو تیرے جسم کی نجاست کو دھو دے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غیبت کا گناہ زنا کے گناہ سے بھی بد تر ہے کیونکہ زنا کا گناہ معافی اور ندامت سے معاف ہوجائے گا لیکن غیبت کا گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوگاجب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کی غیبت اور بے آبرو ئی کی گئی ہے(مجمع الزوائد ج ۸ص ۱۹)
عن ابی ہریرۃ ؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من کانیومن با للہ والیوم الاخر فلیقل خیرًااولیصمت(بخاری کتاب الایمان)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہو اس کو چاہئے کہ یا تو وہ اچھی بات اور نیک بات کرے یا خاموش رہے۔
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کیساتھ کسی طرف تشریف لیجارہے تھے اتنے میں ایک سخت بدبوپھیلی فرمایا:جانتے ہو یہ کیسی بدبوہے؟ یہ ان لوگوں کی بدبو ہے جومسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں۔(مسند ابن حنبل بسند جابر بن عبد اللہ) (سیر ت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص ۸۰۲ ج ۳)
اکثر مرجع خلائق حضرات کی قابل قدر مجلسوں میں دیکھا جاتاہے کہ کچھ متوسلین اپنے احوال دیگر معتقدین کی موجودگی میں حالات کا ذکر اس طرح کرتے ہیں کہ اس میں اپنی مظلومیت کا دکھڑا بھی ہوتاہے اور غیبت کا عنصر بھی اس میں نمایاں ہوتاہے اور اسے حاضرین بھی سنتے ہیں جس سے وہ غیبت کے عتاب اور گناہوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ ایسا طریقہ اپنایا جائے کہ فردا ً فرداً ہر ایک سے ان کے احوال وکوائف تنہائی میں سناجائے۔
در حقیقت غیبت لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرتی ہے۔عداوت کا بیج بوتی ہے، رشتوں میں پھوٹ اور خاندان میں دشمنی کا شعلہ بھڑکا تی ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو عمل کی توفیق بخشے۔آمین یا رب العالمین
غیبت کو قرآن میں واضح طور پر حرام قرادیا گیا اور اسے ایک قبیح فعل سے تشبیہ دی گئی ہے۔ سورۃ الحجرات میں بیان ہوتا ہے:ایحب احدکم ان یا کل لحم اخیہ میتاً فکرہتموہ (پارہ:۶۲ سورہ:حجرات آیت:۲۱) اللہ تعالی نے اسے مرے ہوئے اپنے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے”اورنہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے،کیاتم میں کا کوئی اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے،تم کو اس سے گھن آئے گی،بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے“۔
اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں غیبت کو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دے کر، اس فعل کی کراہیت کا خیال دلایاہے،مردار کا گوشت کھانا بجائے خود نفرت کے قابل ہے اور وہ گوشت بھی کسی جانور کا نہیں بلکہ انسان کا ہو اور انسان بھی کوئی اورنہیں،خوداپنا بھائی ہو، پھر اس تشبیہ کو سوالیہ جملہ میں بیان کرکے اور زیادہ مؤثر بنادیاگیاہے۔ تاکہ ہر انسان اپنے دل سے پوچھ کر خود فیصلہ کر ے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے لیے تیار ہے اور اگر کھانے کے لیے تیار نہیں ہے اوراس کی طبیعت اس چیز سے گھن کھاتی ہے تو آخر وہ یہ بات کیسے پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مومن بھائی کی غیرموجودگی میں اس کی عزت پر حملہ کرے، جہاں وہ اپنی مدافعت نہیں کرسکتا۔
غیبت کبیرہ گناہوں میں ایک بڑا گناہ ہے۔ دیگر بڑے گناہوں کے برخلاف یہ گناہ بہت عام ہے اور اس میں ہر دوسرا مسلمان ملوث نظر آتا ہے۔دوسری جانب قرآن و حدیث میں غیبت کی بڑے واشگاف الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ کہیں اس عمل کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، تو کہیں اس عمل میں مبتلا لوگوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔
حضرت ابوہریرؓ ہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!:تم جانتے ہو کہ غیبت کیاہے؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا!اپنے مسلمان بھائی کاذکر اس طرح کرناکہ وہ اسے ناگوار گذرے، لوگوں نے کہا! اگروہ برائی اس میں موجود ہوتو؟آپ نے فرمایا: ”اگراس کے اندر وہ برائی موجود ہوتو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ برائی اس کے اندر موجود نہ ہو تو تم نے اس پر بہتان باندھا۔“(مسلم)
غیبت اپنے بھائی کی عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے جبکہ آبرو کو نقصان پہنچانے پر بڑِی سخت تنبیہ حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے سرور عالم نے فرمایا!جو کوئی کسی مسلمان کی آبروکو نقصان پہنچاتا ہے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہوتی ہے اور اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی ”۔ (صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 440)
غیبت کرنے کا عام طور پر محرک کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا، اسے کمتر ثابت کرنا اور اسے کسی کی نظروں میں گرانا ہوتا ہے۔ اس رویےّ کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2011)۔
اسی طرح دیگر روایات میں بھی غیبت کی واشگاف الفاظ میں مذمت کی گئی اور اس سے روکا گیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کہتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بد گمانی سے بچو اس لئے کہ بد گمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے اور نہ کسی کے عیوب کی جستجو کرو، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو، نہ غیبت کرو، نہ بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بن کر رہو(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1022)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کی زبانیں تو ایمان لاچکی ہیں لیکن دل نہیں۔ تم مسلمانوں کی غیبت چھوڑ دو اور ان کے عیب نہ کریدو۔ یاد رکھو!اگر تم نے ان کے عیب ٹٹولے تو اللہ تعالیٰ تمہاری پوشیدہ برائیوں کو ظاہر کردے گا یہاں تک کہ تم اپنے گھر والوں میں بھی بدنام اور رسوا ہو جاؤ گے”(ابوداؤد، کتاب الادب۔حدیث: ۴۸۸۰)۔
”مستورد بن شداد“ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی مسلمان کی غیبت کا نوالہ کھایا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے اس کے مثل جہنم کا نوالہ کھلائیں گے۔(سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1476)
”حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا!جب اللہ تعالیٰ مجھے معراج کی رات اوپر لے گیا تو عالم بالا میں میرا گزر کچھ ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان ناخنوں سے اپنے چہروں کو کھرچ رہے تھے ان کی اس حالت کو دیکھ کر میں نے پوچھا؟ جبرئیل یہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواب دیا!یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے یعنی لوگوں کی غیبت کرتے ہیں ان کی عزت و آبرو کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ”۔ (ابوداؤد رقم 4878)
اس واضح مذمت کے باوجودلوگ اس فعل میں بڑی تعداد میں ملوث ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اکثر لوگ اس کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ جو لوگ اسے گناہ سمجھتے ہیں ان میں سے زیادہ تر لوگ فرق ہی نہیں کرپاتے کس برائی کوبیان کرنا غیبت ہے اور کس کا بیان غیبت نہیں۔ ایک اور قسم ان لوگوں کی ہے جو غیبت کو گناہ سمجھتے اور اس کی نوعیت سے بھی واقف ہوتے ہیں لیکن تربیت کی کمی کی وجہ سے اسے چھوڑنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس تربیتی مضمون کا مقصد یہی ہے کہ اس مرض کی شناعت کو واضح کیا جائے، اسکی نوعیت کو سمجھا جائے اور عملی مشقیں کرکے اس سے چھٹکارا پایا جائے۔
لیکن اگر آج ہم اپنے معاشرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ معاشرے کے اندر غیبت جیسی مذموم خصلت اتنی عام ہوچکی ہے جس سے اہل اسلام کے اتحاد واتفاق کا جنازہ نکل گیا ہے اورایک دوسرے کی عزت وآبروپر کیچڑاچھالنا ان کا شیوہ بن چکاہے۔
معراج کے دوران جنت ودوزخ کے مناظر دکھائے گئے،غیبت کرنے والوں کو مردار کا گوشت کھاتے دکھایا گیا،یتیموں کا مال کھانے والوں کو انگارے کھاتے ہوئے دکھایا گیا،سود کھانے والوں کے پیٹ بڑے بڑے کمروں کے مانند دکھائے گئے جس میں سانپ بھرے تھے۔
غیبت ایک گناہ کبیرہ ہے۔ اور ہر گناہ سے توبہ کا طریقہ اس کو ترک کرنا، اس پر نادم ہونا، آئندہ اسے نہ کرنے کا عہد کرنا اور ممکن ہو تو اس کے ازالے کی کوشش کرناہے۔ اگر کسی شخص کے سامنے غیبت کی قباحت عیاں ہوچکی ہے اور وہ اس عمل پر نادم وشرمندہ ہے تو اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس حرام فعل سے توبہ واستغفار کرتے ہوئے رک جائے،پھر اگر وہ آدمی موجود ہو جس کی غیبت کی گئی ہے تو اس سے معافی مانگے ورنہ اس کے حق میں کثرت سے دعائے مغفرت کرے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صحابہ کرام ؓسے پوچھا! ”کیا آپ لوگ جانتے ہیں مفلس کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: مفلس تو وہی ہے جس کے پاس مال ومتاع نہ ہو،آپ نے فرمایا: مفلس میری امت میں وہ ہے جو قیامت کے دن صوم وصلوٰۃ، زکوٰۃ سب عبادات لے کرآئے گا لیکن کسی کو گالی دی ہوگی، کسی کی آبروریزی کی ہوگی، کسی کا مال کھایاہوگا، کسی کا خون بہایاہوگا،کسی کو ماراپیٹا ہوگالہٰذا کسی کواس کی فلاں نیکی دے دی جائے گی اور کسی کو فلاں نیکی دے دی جائے گی۔ اس طرح اس کی سب نیکیا ں دوسروں کے حقوق دینے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گی تب ان حقداروں کے گناہ اس پرلاد دئیے جائیں گے،اور اس طرح وہ جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔“ (مسلم)
حجاج بن یوسف سے کو ن واقف نہیں جس نے بیشمار ظلم کئے کتنے ہی علماء کو شہید کیا،کتنے حافظوں کو قتل کیا،حتی ٰ کہ اس نے کعبہ شریف پر بھی حملہ کیا جو بھی اس کے حالات پڑھتاہے اس کی طرف سے کراہت پیدا ہوتی ہے ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے سامنے حجاج بن یوسف کی برائی شروع کردی اس برائی کے اندر اس کی غیبت کی تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فوراً ٹوکا اور فرمایا کہ یہ مت سمجھنا کہ اگر حجاج بن یوسف ظالم ہے تو اب اس کی غیبت حلال ہوگی یاد رکھو! جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن حجاج بن یوسف سے اس کے قتل ناحق اور ظلم وخون کا بدلہ لیں گے اور تم اس کی غیبت کر رہے ہو تو اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ تم سے لیں گے۔
گناہوں پر قلق اور خدا سے التجا کا اہتمام کر کیونکہ تیر ے حق میں یہی نافع ہوسکتاہے حزن وغم کی غذا کھا،آنسووں کا پیالہ پی!غم کی کدال سے خواہشات کے دل کا کنواں کھو د تاکہ اس سے ایسا پانی نکلے جو تیرے جسم کی نجاست کو دھو دے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غیبت کا گناہ زنا کے گناہ سے بھی بد تر ہے کیونکہ زنا کا گناہ معافی اور ندامت سے معاف ہوجائے گا لیکن غیبت کا گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوگاجب تک وہ شخص معاف نہ کردے جس کی غیبت اور بے آبرو ئی کی گئی ہے(مجمع الزوائد ج ۸ص ۱۹)
عن ابی ہریرۃ ؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من کانیومن با للہ والیوم الاخر فلیقل خیرًااولیصمت(بخاری کتاب الایمان)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہو اس کو چاہئے کہ یا تو وہ اچھی بات اور نیک بات کرے یا خاموش رہے۔
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کیساتھ کسی طرف تشریف لیجارہے تھے اتنے میں ایک سخت بدبوپھیلی فرمایا:جانتے ہو یہ کیسی بدبوہے؟ یہ ان لوگوں کی بدبو ہے جومسلمانوں کی غیبت کرتے ہیں۔(مسند ابن حنبل بسند جابر بن عبد اللہ) (سیر ت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص ۸۰۲ ج ۳)
اکثر مرجع خلائق حضرات کی قابل قدر مجلسوں میں دیکھا جاتاہے کہ کچھ متوسلین اپنے احوال دیگر معتقدین کی موجودگی میں حالات کا ذکر اس طرح کرتے ہیں کہ اس میں اپنی مظلومیت کا دکھڑا بھی ہوتاہے اور غیبت کا عنصر بھی اس میں نمایاں ہوتاہے اور اسے حاضرین بھی سنتے ہیں جس سے وہ غیبت کے عتاب اور گناہوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ ایسا طریقہ اپنایا جائے کہ فردا ً فرداً ہر ایک سے ان کے احوال وکوائف تنہائی میں سناجائے۔
در حقیقت غیبت لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرتی ہے۔عداوت کا بیج بوتی ہے، رشتوں میں پھوٹ اور خاندان میں دشمنی کا شعلہ بھڑکا تی ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو عمل کی توفیق بخشے۔آمین یا رب العالمین