ماہنامہ الفاران
ماہِ ذی القعدہ - ۱۴۴۳
انصاف کا رنگ
جناب حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش، سرپرست :ماہنامہ الفاران
ان حالات کے پیشِ نظر اگر جان و مال، عزت و آبرو اور یکساں حقوق کے تحفظ میں عدل و انصاف کو بروئے کار نہ لایا گیا تو ہمارا پورا ماحول بد تراور ملک بھیانک نتائج سے دو چار ہو جائے گا۔
قرآن شریف میں ہے”اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ زیادہ محبوب ہے“جو انصاف قائم کرنے والا ہو، ہدایت کی گئی ہے کہ حق بات کہو اور حق فیصلہ کرو اگر چہ تمہارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ں۔
اسلام کا اگر وسیع مفہوم میں تعارف کرایا جائے تو عدل کو دوسرا نام اسلام ہے،قرآن میں سب سے زیادہ حاوی آیت، دھمکی دینے والی اور ہلا دینے والی آیت جو پورے دین کی ترجمانی کر تی ہے وہ فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ (عم پارہ)
جس نے ذرہ برابر بھلائی کی ہوگی وہ اس کو اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اس کو قیامت کے دن اس کی قولی و عملی زندگی کا مشاہدہ کرایا جائے گا میدان حشر میں ان کے عمل دکھلائے جائیں گے تاکہ بدکاروں کو ایک طرح کی رسوائی اور نیکو کاروں کو ایک قسم کی سرخ روئی حاصل ہو۔
اللہ کے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! جس وقت تم میں سے کسی کے ذمہ فیصلہ کرنا سپرد کر دیا جائے اس پر لازم ہے کہ وہ مجلس میں اشارہ کرنے اور دیکھنے میں برابری کرے،یہاں تک کہ مدعی اور مدعا علیہ میں سے کسی ایک پر بھی آواز بلند نہ کرے انہیں احکامات کی روشنی میں اللہ کے نیک بندوں نے ہر حال میں انصاف کا دامن تھامے رکھا، انصاف کے مقابلہ میں اپنے اور غیر میں تمیز نہ کی۔
علامہ ابن قیم ؒ نے فرمایا سیاست شرعیہ کی بنیا د دو چیزوں پر ہے ان میں اہم، مناصب اور عہدہ ایسے لوگوں کے سپرد کیے جائیں جو اس کی قابلیت اور اہلیت رکھتے ہوں ۔
تاریخ کے صفحات،جن انصاف پسندوں کے ناموں سے مزین ہے ان میں قاضی شریح کا نام بھی ہے۔قاضی شریح ؒ کے ایک لڑکے کا کسی کے ساتھ معاملہ چل رہا تھا اس امید پر کہ خود میرا باپ منصف اور حاکمِ وقت ہے اس نے پہلے اپنے والد سے سارا ماجرا کہ سنایا اور بتایا کہ اگر فیصلہ میرے حق میں ہو سکتا ہو تو مقدمہ آپکی عدالت میں پیش کروں ورنہ باز رہوں۔
قاضی شریح ؒ نے سن کر فرمایا بیٹا! ضرور اپنا مقدمہ میری عدالت میں پیش کرنا مقدمہ پیش ہوا، مدعی اور مدعا علیہ کی طرف سے شہادت گزری آخرمیں قاضی شریح ؒ نے جو فیصلہ صادر کیا وہ فیصلہ اپنے لڑکے کے خلاف تھا۔
جب قاضی عدالت سے گھر آیا تو لڑکے نے کہا اباجان! حضور! میں پہلے ہی آپ سے معاملہ بتا دیا تھا اگر فیصلہ میرے خلاف تھا تو پہلے ہی آگاہ کر دیتے تا کہ مقدمہ دائر ہی نہ کرتا۔
قاضی صاحب نے بڑے اطمینان سے کہا جانِ پدر! بیشک، دنیا کی نعمتوں میں مجھے سب سے زیادہ تم محبوب ہو مگر اللہ کا حکم تم سے بھی عزیز تر ہے مجھے ڈر تھا کہ اگر میں پہلے تم کو بتا دیتا کہ فیصلہ تمہارے خلاف ہوگا تو تم اپنے مقابل سے اس کا حق دبا کر صلح کر لیتے ۔
حضرت عمر بن عبد العزیز ؒکی حکومت انصاف پسندی کے لئے مشہور ہے،ایک بار سمر قند کے باشندوں کا ایک وفد آپ کی خدمت میں حاضر ہو ا،اس نے ایک فوجی قتیبہ بن مسلم باہلی کی شکایت کی اور کہا! انہوں نے اسلامی قاعدے کے مطابق پیشگی تنبیہ کئے بغیر ہمارے شہر میں اپنی فوجیں داخل کردیں لہٰذا ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے۔
سمر قند کی فتح حضرت عمر بن عبد العزیز کے دورِ حکومت سے پہلے ہوئی تھی اب اس پر سات سال بیت چکے تھے مگر آپ نے انصاف کے تقاضے پورا کرنا ضروری سمجھا، عراق کے حاکم کو لکھا کہ سمر قند کے لوگوں کے مقدمہ کی سماعت کے لئے ایک قاضی خاص کردیں چنانچہ ”جمیع بن حاضر الباہلی“کو اسکا قاضی مقرر کیا مقدمہ ان کی عدالت میں سماعت کے لئے پیش ہوا طرفین نے آزادانہ دلائل پیش کئے بیانات سن کر قاضی نے فیصلہ سنایا! ”دلائل کی روشنی میں اہلِ سمرقند کی شکایت درست پائی گئی لہٰذا عدالت حکم دیتی ہے کہ مسلمانوں کی فوج سمر قند چھوڑ دے،قلعہ اور مقبوضہ تمام سامان سمر قند والوں کو واپس کردے اس کے بعد اسلامی آئین کی رو سے مسلمانوں کا فوجی سردار انکے سامنے ضروری شرطیں پیش کرے،اگر وہ انکو ماننے سے انکار کردیں تو پھر انکے ساتھ جنگ کی جائے“
اسلامی فوج اس وقت فاتحانہ حیثیت رکھتی تھی اسنے چین جیسے طاقتور ملک کو بھی ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا تھا مگر قاضی نے اپنا فیصلہ صادر کیا تو اسلامی فوج کے سربراہ (commander-in-Chief) نے کسی بحث و تمحیص کے بغیر اس کو تسلیم کر لیا اس نے حکم دیا!پوری فوج سمر قند چھوڑ کر واپس چلی جائے تاہم عمل در آمد کی نوبت نہیں آئی سمر قند کے لوگوں نے جب دیکھا کہ مسلمان اس قدر با اصول اور انصاف پسند ہیں, تو وہ حیران رہ گئے اس سے پہلے انہوں نے کبھی ایسے بے لاگ انصاف کا تجزیہ نہیں کیا تھا انہوں نے فوج کاآنا اپنے لئے رحمت جانا اور بخوشی اسلامی حکومت قبول کرلی۔
جب حق کو حق جانا جاتا تھا انصاف کو نظرِ انصاف سے دیکھا جاتا تھا تو ایک دوسرے سے پیار و محبت تھی اور جب انصاف کو اپنی نظر سے پرکھا جانے لگا، حسب و نسب،علاقہ اور قوم کے مذموم شوشے درمیان میں آگئے تو اسکے تباہ کن اور مضر اثرات کا ہم دن رات مشاہدہ کرتے ہیں۔
کاندھلہ مظفر نگر یو پی کا مشہور مردم خیز قصبہ ہے اس سر زمین نے بے شمار اولیاء اور بزرگان ِ دین پیدا کئے۔
تیرھویں صدی ہجری کے وسط کا واقعہ ہے کہ جب ہندوستان میں انگریزوں کا تسلط تھا، کاندھلہ کی جامع مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو ہندو اور مسلمانو ں کے درمیان ایک زمین کے متعلق جو مسجد سے قریب تھی اختلاف ہوا ہندو کہتے تھے کہ یہ مندر کی جگہ ہے جب کہ مسلمانوں کا دعوی مسجد کی زمین کا تھا۔
مقدمہ انگریز جج کی عدالت میں پیش ہوا انگریز نے الجھے ہوئے بیانات کو سن کر مشورہ دیا کہ دونوں فریق کوئی ایسا شخص پیش کریں جس پر دونوں کو اعتماد ہو،ہندو بھائیوں نے کہا اس بستی میں کوئی قومی مسئلہ سے بلندہو کر حق اور سچی بات اگر کہ سکتا ہے تو وہ مفتی الٰہی ؒبخش ہیں۔
(یہ بزرگ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا محمدالیاس صاحب ؒ کے خاندان سے تھے) انگریز جج کو تعجب ہوا ہندو،مولانا صاحب کانام لے رہیں ہیں جن کے بیان پر مقدمہ کا فیصلہ ہونا ہے ان دنوں مجسٹریٹ کا کیمپ کاندھلہ کے قریب گاؤں ایلم میں تھا چپراسی بھیج کر مولانا کو عدالت میں متعلقہ مسئلہ پر اپنی معلومات پیش کرنے کی ہدایت کی، مولانا نے جواباً کہلوایا!میں نے آج تک انگریز کا چہرہ نہیں دیکھا ہے قسم ہے آئندہ بھی فرنگی کا منہ نہیں دیکھوں گا۔
جج سنجیدہ تھا خبر بھجوائی کہ وہ میرا چہرہ نہ دیکھیں پشت پھیر کر کھڑے ہو جائیں مگر معاملہ کی وضاحت کردیں۔ چپراسی یہ پیغام لیکر مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا مولانا عدالت تشریف لے جا کر جج کی طرف پیٹھ پھیر کر کھڑے ہو گئے جج کے سوال پر کہ”یہ زمین مسجد کی ہے یا مندر کی“ مولانا نے بڑے اطمینا ن کے ساتھ جواب دیا مسلمانوں کا دعویٰ اس بارے میں قطعی بے بنیاد ہے یہ تو مندر کی زمین ہے! اس سچائی اور بے لاگ حق پرستی کے اثرات ہندو بھائیوں پر بہت اچھے پڑے وہ مولانا کی سچائی کا واقعہ انکی دین کی سچائی میں دیکھنے لگے،جس کے نتیجہ میں کئی خاندانوں کو حق قبول کرنے کی سعادت ملی۔
داماد کو پھانسی دے دی گئی اور چوبیس گھنٹے اسکی لاش سولی پر لٹکی ہوئی عبرت کانمونہ پیش کرتی رہی۔ایسے ہی بے لاگ،عدل و انصاف سے انسانیت زندہ رہ سکتی ہے اور امن و امان کی فضا قائم ہو سکتی ہے۔
جب بھی کبھی دھرتی پرظلم و زیادتی، نا انصافی اور حق تلفی کا چلن رہا تباہی آئی، پھر اسکی تمیز نہیں رہی کہ کون مجرم ہے اور کون بے گناہ!سب کے سب برباد اور تباہ حال ہو گئے۔
جس ملک میں انصاف ہو وہ ملک اور قوم برباد نہیں ہوسکتی،جہاں عدل و انصاف نہ ہو ایٹمی طاقت بن کر بھی اپنی حفاظت نہیں کر سکتا۔
اسلئے ضرورت ہے کہ جس طرح انصاف بے رنگ ہے اس کا استعمال بھی بے رنگ ہو۔ انجم سہارنپوری نے اس دور کی ترجمانی اس طرح کی ہے ۔
انصاف بھٹکتا پھرتا ہے،میزانِ عدالت آج کہا ں