ماہنامہ الفاران
ماہِ شوال المکرم - ۱۴۴۳
استاذ! فرش سے عر ش تک پہونچانے والی ذات؛ قسط۔6۔(علمی گہرائی اور عمق کیلئے خود سپردگی ضروری! )
حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش، سرپرست :ماہنامہ الفاران
کسی استاذ میں جو اعلیٰ درجہ کا کمال آتاہے علمی گہرائی اور عمق ہی اس کااصل سبب ہے۔
علامہ زرنوجی ؒ نے فرمایا کہ حضرت امام ابویوسف ؒ کا مشہور مقولہ ہے اَلْعِلْمُ لَا ےُعْطِیْکَ بَعْضَہٗ حَتّٰی تُْعْطِےَہٌ کُلَّکَ۔یعنی علم تم کو اپنا کچھ حصہ نہ دیگا جب تک کہ تم اس کو اپنا سب کچھ نہ دے دو۔
بِقَدْرِالْکَدِّ تُکْتَسَبُ الْمَعَالِیْ
وَمَنْ طَلَبَ الْعُلیٰ سَھَرَاللَّےَالِی
انسان اپنی کوشش ومحنت کے بقدر بلند مقامات حاصل کرسکتاہے اور جو شخص بلند مقامات پر فائز ہونا چاہتاہے تو اس کا اولین فریضہ یہی ہوگا کہ راتوں کی نیند قربان کردے۔
تَرُوْمُ اْلعِزَّ ثُمَّ تَنَامُ لَےْلاً
ےَغُوصُ البَحْرَمَنْ طَلَبَ الَّلاٰلِی
تم عزت وترقی کی خواہش کرتے ہو اور پھر تمام رات چین کی نیند سوتے ہو حالانکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ جس کو موتیوں کی طلب ہوتی ہے اسے سمندر میں غوطہ زنی کرنی پڑتی ہے
عُلُوُّالکَعْبِ بِالْھِمَمِ العَوالِی
وَعِزُّ المَرْءِ فِیْ سَھْرِ اللَّےَالِیْ
بلند عزائم اور بلند ارادوں کے ذریعہ سے ہی انسان مقام اور شان وشوکت کی بلندی کو پہنچ سکتاہے اور راتوں کو جاگناہی انسان کی عزت وشرف کا باعث بن سکتاہے۔
وَمَنْ رَامَ الْعُلَا مِنْ غَےْرِ کَدِّ
اَضَاعَ الْعُمَرَ فِیْ طَلَبِ الْمُحَال
اور جوشخص بغیر مشقت و محنت کے بلند مقام حاصل کرنے کی فکر کرتاہے وہ ایک محال کام کی تلاش میں اپنی عمر عزیز کو ضائع کرتاہے کیونکہ بغیر مشقت ومحنت کے دنیا میں کوئی انسان کامیاب نہیں ہوسکتا۔
حضرت امام مالک ؒ فرماتے تھے کہ یہ علم اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ کچھ نہ کچھ فقر وفاقہ اور تنگ دستی کا ذائقہ نہ چکھ لے۔
حضرت امام شافعی ؒ نے فرمایا کہ جو شخص علم دین مالی وسعت اور اپنے اعزاز کیساتھ حاصل کریگا وہ کبھی کامیاب نہ ہوگا۔اس کے برخلاف جو شخص ذلت،عاجزی،تنگ دستی اور علم کے اکرام کیساتھ حاصل کریگا وہی کامیاب ہوگا۔لارڈ میکالے کی دعا تھی ”مروں تو کتب خانہ میں مروں“
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی ؒ کا فرمان ہے کہ کتابیں مشکل نہیں اگر استاذقابل ہے تو وہ کسی بھی کتاب سے طالب علم کی مناسبت پیدا کرادیگا آپ نے فرمایا کہ طویل تجربہ کے بعد حضرت مولانا سید سلیمان ندوی ؒ اس نتیجہ پر پہونچے تھے کہ اصل استاذہے استاذ با صلاحیت ہے تو طالب علم کو کسی بھی کتاب سے مناسبت پیداکرادیگا۔
اگر استاذ کے اندر صلاحیت ہی نہ ہوتووہ ادھر ادھرکچھ اردو کتابوں کو دیکھ کر ہانک رہاہوتو پھر درسگاہ کا اللہ ہی مالک!ادھورے علم اَن ٹرینڈ اور غیر تربیت یافتہ استاذ درسگاہ کیلئے بہت نافع نہیں۔بلکہ بسااوقات نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔واقعہ ہیکہ اکثر علم وتحقیق میں چاشنی کا نہ ہوناشاگردوں کا اساتذہ کرام سے دوری کا باعث ہوتاہے۔ درس کا انداز سیکھئے!
ایک استاذ کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ طالب علم سے جو کہے وہ نہایت وضاحت کے ساتھ ہو پیچیدگی اور الجھاؤ نہ ہو۔حضرت انس ؓفرماتے ہیں کہ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بات کو تین بار دُہرایا کرتے تھے۔
امام ماوردی ؒ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اب واضح ہوتا اسمیں بھر پور دلیل ہوتی ہر بات خواہ کتنی ہی پیچیدہ ہو اسے نہایت واضح کرکے بیا ن فرماتے۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم میں افضل اور اچھا اسلوب اختیار کرتے تھے جو مخاطب پر زیا دہ اثر کرے اسکے عقل و فہم سے قریب تر ہو اور اسکے ذہن و دماغ میں جاگزیں ہو۔
معلم انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ذہن و مزاج کی رعایت، چھوٹی وبڑی عمر کالحاظ، مردوں اور عورتوں کا خیال کرتے ہوئے در س دیا کرتے تھے۔یہ اس استاذ کی صفت ہوتی ہے جس کا مطالعہ عمیق ہوجسکو علم و فن پر عبور اور د سترس ہو۔ سرسری مطالعہ کرنے والے کو یہ لذت یہ چاشنی اور حقائق کہاں نصیب! ماہر استاذ بن نے کے تین گر!
ماہر علم وفن ازہر ہند دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے مدرسہ قادریہ مسروالا ہماچل پردیش کے طلبہ واساتذہ سے خطاب میں ماہر استاذ بننے کیلئے تین گربتاتے ہوئے فرمایاتھا۔
علم کبھی پڑھانے سے نہیں آتا بلکہ پڑھنے سے آتاہے استاذ کا پڑھنے کا طریقہ یہ ہیکہ جو سبق پڑھائے اس کو مطالعہ کے بعد ایک کاغذ پر نوٹ کرلے پھر اس کا خلاصہ ایک چھوٹے پر چہ پر نوٹ کر لے اور اسکو یاد کر کے درسگاہ میں جائے اور اس پر چی کو محفوظ رکھے پھر ہفتہ میں ایک دن ساری پرچیوں کو یاد کرے تو اس طرح کتاب یاد ہوجائے گی۔ حضرت والا نے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ماہر تعلیم کیلئے تین چیزیں ضروری ہیں (۱)دین سیکھنا(۲)اس پر عمل کرنا (۲)علم دین سکھلانا۔ سلسلہ بیان میں آپ نے فرمایا سیکھنے اور عمل کرنے کے دو طریقے ہیں ایک اپنی طبیعت سے دوسرے اوپر کے دباؤ سے اپنی طبیعت سے یہ ہیکہ اس پر کوئی نگرانی کرنے والا ہو یا نہ ہو اپنے شوق اور لگن سے سبق کی پابندی کرتا ہو اور نماز کا اہتمام کرتاہو۔ اپنے شوق ولگن سے جو علم حاصل ہوتا ہے اس کے بے انتہا فائدے ہیں اور جو دباؤ سے حاصل ہوتاہے وہ بالکل بے فائدہ تو نہیں بلکہ وہ بھی فائدہ مند ہے لیکن اس کا فائدہ کم ہے۔طلبہ کیلئے نمونہئ عمل؟
استاذ الا ساتذہ حضرت مولانا عبد اللہ کاپودرویؒ سابق شیخ الجامعہ فلاح دارین تر کیسر گجرات کا تجربہ۔
مجھے ایک استاذ کے بارے میں اچھے طریقے سے معلوم ہے کہ وہ استاذ اپنے درجہ میں بیٹھ کر گٹکھاکھاتے تھے تو اس کا یہ اثر یہ ہوا کہ اس استاذ کے پاس پڑھنے والے بہت سارے بچے گٹکھا کھانے کے عادی بنے۔
وَمَنْ طَلَبَ الْعُلیٰ سَھَرَاللَّےَالِی
ےَغُوصُ البَحْرَمَنْ طَلَبَ الَّلاٰلِی
وَعِزُّ المَرْءِ فِیْ سَھْرِ اللَّےَالِیْ
اَضَاعَ الْعُمَرَ فِیْ طَلَبِ الْمُحَال
حضرت امام مالک ؒ فرماتے تھے کہ یہ علم اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ کچھ نہ کچھ فقر وفاقہ اور تنگ دستی کا ذائقہ نہ چکھ لے۔
حضرت امام شافعی ؒ نے فرمایا کہ جو شخص علم دین مالی وسعت اور اپنے اعزاز کیساتھ حاصل کریگا وہ کبھی کامیاب نہ ہوگا۔اس کے برخلاف جو شخص ذلت،عاجزی،تنگ دستی اور علم کے اکرام کیساتھ حاصل کریگا وہی کامیاب ہوگا۔لارڈ میکالے کی دعا تھی ”مروں تو کتب خانہ میں مروں“
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی ؒ کا فرمان ہے کہ کتابیں مشکل نہیں اگر استاذقابل ہے تو وہ کسی بھی کتاب سے طالب علم کی مناسبت پیدا کرادیگا آپ نے فرمایا کہ طویل تجربہ کے بعد حضرت مولانا سید سلیمان ندوی ؒ اس نتیجہ پر پہونچے تھے کہ اصل استاذہے استاذ با صلاحیت ہے تو طالب علم کو کسی بھی کتاب سے مناسبت پیداکرادیگا۔
اگر استاذ کے اندر صلاحیت ہی نہ ہوتووہ ادھر ادھرکچھ اردو کتابوں کو دیکھ کر ہانک رہاہوتو پھر درسگاہ کا اللہ ہی مالک!ادھورے علم اَن ٹرینڈ اور غیر تربیت یافتہ استاذ درسگاہ کیلئے بہت نافع نہیں۔بلکہ بسااوقات نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔واقعہ ہیکہ اکثر علم وتحقیق میں چاشنی کا نہ ہوناشاگردوں کا اساتذہ کرام سے دوری کا باعث ہوتاہے۔ درس کا انداز سیکھئے!
ایک استاذ کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ طالب علم سے جو کہے وہ نہایت وضاحت کے ساتھ ہو پیچیدگی اور الجھاؤ نہ ہو۔حضرت انس ؓفرماتے ہیں کہ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بات کو تین بار دُہرایا کرتے تھے۔
امام ماوردی ؒ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اب واضح ہوتا اسمیں بھر پور دلیل ہوتی ہر بات خواہ کتنی ہی پیچیدہ ہو اسے نہایت واضح کرکے بیا ن فرماتے۔
شیخ عبد الفتاح ابو غدہ ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم میں افضل اور اچھا اسلوب اختیار کرتے تھے جو مخاطب پر زیا دہ اثر کرے اسکے عقل و فہم سے قریب تر ہو اور اسکے ذہن و دماغ میں جاگزیں ہو۔
معلم انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ذہن و مزاج کی رعایت، چھوٹی وبڑی عمر کالحاظ، مردوں اور عورتوں کا خیال کرتے ہوئے در س دیا کرتے تھے۔یہ اس استاذ کی صفت ہوتی ہے جس کا مطالعہ عمیق ہوجسکو علم و فن پر عبور اور د سترس ہو۔ سرسری مطالعہ کرنے والے کو یہ لذت یہ چاشنی اور حقائق کہاں نصیب! ماہر استاذ بن نے کے تین گر!
ماہر علم وفن ازہر ہند دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے مدرسہ قادریہ مسروالا ہماچل پردیش کے طلبہ واساتذہ سے خطاب میں ماہر استاذ بننے کیلئے تین گربتاتے ہوئے فرمایاتھا۔
علم کبھی پڑھانے سے نہیں آتا بلکہ پڑھنے سے آتاہے استاذ کا پڑھنے کا طریقہ یہ ہیکہ جو سبق پڑھائے اس کو مطالعہ کے بعد ایک کاغذ پر نوٹ کرلے پھر اس کا خلاصہ ایک چھوٹے پر چہ پر نوٹ کر لے اور اسکو یاد کر کے درسگاہ میں جائے اور اس پر چی کو محفوظ رکھے پھر ہفتہ میں ایک دن ساری پرچیوں کو یاد کرے تو اس طرح کتاب یاد ہوجائے گی۔ حضرت والا نے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ماہر تعلیم کیلئے تین چیزیں ضروری ہیں (۱)دین سیکھنا(۲)اس پر عمل کرنا (۲)علم دین سکھلانا۔ سلسلہ بیان میں آپ نے فرمایا سیکھنے اور عمل کرنے کے دو طریقے ہیں ایک اپنی طبیعت سے دوسرے اوپر کے دباؤ سے اپنی طبیعت سے یہ ہیکہ اس پر کوئی نگرانی کرنے والا ہو یا نہ ہو اپنے شوق اور لگن سے سبق کی پابندی کرتا ہو اور نماز کا اہتمام کرتاہو۔ اپنے شوق ولگن سے جو علم حاصل ہوتا ہے اس کے بے انتہا فائدے ہیں اور جو دباؤ سے حاصل ہوتاہے وہ بالکل بے فائدہ تو نہیں بلکہ وہ بھی فائدہ مند ہے لیکن اس کا فائدہ کم ہے۔
مجھے ایک استاذ کے بارے میں اچھے طریقے سے معلوم ہے کہ وہ استاذ اپنے درجہ میں بیٹھ کر گٹکھاکھاتے تھے تو اس کا یہ اثر یہ ہوا کہ اس استاذ کے پاس پڑھنے والے بہت سارے بچے گٹکھا کھانے کے عادی بنے۔