ماہنامہ الفاران

ماہِ شوال المکرم - ۱۴۴۳

عید الفطر جائزہ کا دن

مولانا ارشد کبیر خاقان المظاہری،سکریٹری:تنظیم فلاح ملت، مرکزی دفتر:مدرسہ نور المعارف،مولانا علی میاں نگر، دیا گنج،ضلع ارریہ:مدیر مسئول ماہنامہ "الفاران"

دنیا میں بسنے والا ہر انسان فطری طور پر مسرّت اور خوشی کا متلاشی رہا ہے جس دن کو وہ سارے غم و اندوہ بھلا کر اپنے قومی جشن کی یادگار سمجھ کر اپنے رسم و رواج کے مطابق مناتا ہے۔کسی میں لہو و لعب کا رنگ غالب ہوتا ہے،کوئی شراب و کباب کی مستی سے لطف اندوز ہوتا ہے تو کوئی ناچ و گانے میں مگن رہتا ہے، غرض کہ خوشی منانے کے ایّام اور ان کے طور طریقے ہر قوم کی تہذیب کے ترجمان ہوتے ہیں، عید الفطر بھی خوشی کا ایک اہم اور عظیم الشان دن ہے، مگر اسکی نوعیت کچھ اور ہی ہے دراصل اللہ نے دنیا کی چیزوں میں سر وَ پری اور بلندی انسان کو عطا کی۔
زمین سے لیکر آسمان تک،رائی سے پربت تک جتنی بھی چیزیں ہیں وہ انسان کی ضروریات مکمل کرنے کیلئے بنائی گئی ہیں اور انسان کو خدا نے اس بات کا مکلف اور ذمّہ دار ٹھرایا ہے کہ وہ اپنی حدود میں رہ کر ساری چیزوں سے فائدہ حاصل کرے اور خدا کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق زندگی بسر کرے۔
خدا کی طرف سے دی گئی ذمّہ داریوں میں انسان پر اہم ذمّہ داری رمضان کے ایک ماہ کا مسلسل روزہ بھی ہے جسمیں بندوں کو صبح سے لیکر شام تاک کھانے پینے، بیوی سے میل ملاپ،جھوٹ فریب، ظلم و زیادتی اور دوسری تمام برائیوں سے دور رہنے کا پابند بنایا گیا ہے۔
جس سے یہ سبق مقصود ہے کہ خدا کے بندوں، جس طرح تم نے ایک ماہ تک مجاہدانہ زندگی گزاری ہے، رب کی ہدایت پر عمل کیا ہے،بقیہ زندگی بھی تم اپنے نفس پر کنٹرول اور قابو پا کر خدا کے حکم کے دائرے میں بسر کرو!چنانچہ ہر سال روزہ ایک ریفریشر کورس کے مطابق اسی پیغام کو دوہرانے کے لئے فرض کیا گیا ہے۔
جب بندہ پورے ایک ماہ پابندی کے ساتھ روزہ اور اسکے متعلق احکامات پر عمل کرلیتا ہے جس سے خدا کی یاد، موت کا خوف اور خدا کے بندوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ اس کے دل و دماغ میں رچ بس جاتا ہے،من چاہی زندگی پر رب چاہی زندگی کا رنگ چڑھ جاتا ہے تو خدا اس کڑی آزمائش اور سخت امتحان کے بدلے یہ خوشی کا دن عطا کرتا ہے جس کو ہم،،عید الفطر،، کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
عید الفطر کا دن بڑا مبارک ہے جس میں خدا نے بہشت کو پیدا فرمایا طوبیٰ کا درخت اس میں نصب کیا،جبرئیل کو پیغامِ خدا وندی لے جانے کے واسطے عید کا دن منتخب کیا،فرعون کے جادوگروں نے عید کے دن نور ہدایت پایا، اور خدا نے انکو بخشش سے نوازا۔
یہ دن روزہ رکھنے والوں کے لئے مسلسل مجاہدہ اور نفس کشی کے بعد انعام کے طور پر اپنے دامن میں ہزاروں خوشیوں اور مسرّتوں کا پیغام لے کر آتا ہے اوربندہ اس عظیم انعام کے شکریہ میں خوشی بخوشی گھر سے باہر نماز ِ عید ادا کرنے جاتا ہے اور زبانِ حال سے کہتا ہے۔
اے دونوں جہاں کے مالک! تو نے ہماری ہدایت کے لئے رمضان میں قرآن نازل کیا،جس کی بدولت ہمیں سیدھا راستہ ملا، رمضان کے روزے فرض قرار دیکر ہمارے اندر کی غلاظت اور ناپاکی دور کی، اپنی محبت اور اپنے بندے کی ہمدری اور غم خواری کی صفت پیدا کرائی۔
اے خدا!ہم نے تیرے ہی توفیق اور مدد سے روزے رکھے رات میں تراویح میں قرآن پڑھا،سنا،زبان کو، ہاتھ پاؤں کو، آنکھ کان کو بری چیزو ں کے دیکھنے سے اور دوسروں پر زیادتی کرنے سے بچائے رکھا۔
بیشک! ان نیک کاموں پر چلنے کی سعادت تونے بخشی، آج ہم اس فرض کی ادائیگی پر عید الفطر کی نماز پڑھ کر تیری بڑائی اور شکریہ ادا کرتے ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے،عید کے دن اللہ کی طرف سے روزہ داروں کو پیغام سنایا جاتا ہے اے روزہ دارو! اپنے اس پروردگار کی عبادت کیلئے چلو جو تھوڑی عبادت قبول کر لیتا ہے اور اس کا ثواب بہت دیتا ہے اور بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے،فرشتے درخواست کرتے ہیں،اے میرے آقا! فرمانبردار مزدورکی مزدوری عطا فرمادیجئے،خدا کا حکم ہوتا ہے اے فرشتو!گواہ رہنا!میں اپنے بندوں کو انکے روزے،نماز اور تلاوت کے بدلے اپنی مغفرت کا پروانہ عطا کرتا ہوں، وہ اس حال میں عید گاہ سے اپنے گھر واپس لوٹیں کہ میں ان سے راضی ہوں۔
آج کا دن جس طرح روزہ رکھنے والوں کے لئے امن اور اما ن اور نیک پیغام کا ہے، اسی طرح خدا کے نا فرمانوں کیلئے عبرت،ندامت اور محرومی کا دن بھی ہے۔
روزہ کا مہینہ، اسکے بعد عید الفطر کا یہ دن ہمیں زندگی اور موت کے بعد آنے والی کیفیت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نیک لوگوں کی زندگی دنیا میں ایک آزمائش ہوتی ہے اور موت کے بعد کی زندگی سدا بہاری سے پُر ہوتی ہے۔
روزہ۔ مرنے سے پہلے کے حالات کی طرف اشارہ کرتا ہے اور عید، مرنے کے بعد کی خوشی کی جانب۔
یاد رکھیئے! خوشی کے اس مبارک دن میں خدا کی نظر میں اسکی خوشی،خوشی نہیں جو ضرورت مندوں،بیکسوں،ناداروں،پڑوسیوں اور شہروالوں کو بھلا کر بزم ِمسرّت سجاتا ہو۔ اسلئے آج سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ ضرورت مند اور پریشان حال کو تلاش کرکے اسکی حاجت روائی کرے۔ ہمدرد بن کے درد،نہ بانٹا تو کیا جیئے
کچھ درد دل بھی، چاہیئے انسان کیلئے
مرنا بھلا ہے، اس کا جو اپنے لئے جیئے
جیتا ہے وہ،جو مر چکا ہو غیر کے لئے

عید الفطر ہمیں اس حقیقت کی یاد بھی دلاتی ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد ایک ایسے معاشرہ اور سماج کی تشکیل کرنا ہے جسمیں انسان محسن بن کر جیئے!
اسی طرح ہر فرد نہ یہ کہ صرف ظاہری صاف اور پاکیزہ رہے بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی مکمل حسین اور دلکش بنائے،یارانِ وطن کی خدمت کرنا،ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا اپنی خوشیوں کا اہم حصہ جانے۔
اسی طرح عید ہمیں دوستوں سے محبت،غیروں سے کرم نوازی کا سبق دیتی ہے، اسلئے عید مناتے وقت ہم اس عہد کی تجدید کریں کہ ہم ہمیشہ اپنے بھائیوں کیلئے ایثار کرینگے،،عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں گے، دوسروں کے درد کو اپنی تکلیف سمجھیں گے، اپنے روٹھے بھائیوں کو منانے، انکے جائز حقوق اور مطالبہ کی ادائیگی کی سعی کریں گے، اور ملک کی حفاظت اور اسکی ترقی اور بقاء کیلئے ہر ممکن قربانی سے دریغ نہ کریں گے۔
آ ج ہم ملک اور قوم کی سلامتی کے لئے خدا کے دربار میں دعا کرتے ہیں اور خوفِ خدا،غریبوں کے ساتھ ہمدردی کی صفت اور بھلائی کا جذبہ جو رمضان میں حاصل کیا ہے اسے کسی حال میں بھی ضائع نہ ہونے دیں گے۔ فرشِ زمیں پہ ضوفشاں،عرشِ بریں کی طلعتیں
آج حدِ نگاہ سے،دور بہت ہیں ظلمتیں
عید سعید کی خوشی،صوم و صلوٰۃ کی جزا
آج ہمیں نصیب ہیں،دونوں جہاں کی نعمتیں

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی