ماہنامہ الفاران

ماہِ شوال المکرم - ۱۴۴۳

پیغام عید الفطر

حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش، سرپرست :ماہنامہ الفاران

دنیا میں کوئی بھی ایسا انسان نہیں، جسے خوشی اور غم کی حقیقتوں سے دوچار نہ ہونا پڑتا ہو، ہر آدمی کی زندگی خوشی اور غم کی بہاروں اورخزاؤں سے معمور ہوتی ہے۔ زندگی کے صحن میں غم کی دھوپ بھی پڑتی ہے اور خوشی کی چھاؤں بھی، آزمائش خوشی اور غم کا روپ دھار کرآتی ہے، غم کے موقعوں پر صبر کا مظاہرہ کر کے رب کی خوشنودی حاصل کرنا اور خوشی کے پر مُسرت موقعوں پر اللہ کا شکر بجا لانا انسان کاایک اہم فریضہ ہے۔ بشر کا فرض ہے، ہر حال میں شکرِخدا کرنا
مصیبت ہو کہ راحت ہو،نہیں اچھّا گلہ کرنا
عید الفطر مسرّت کا اہم دن ہے جو اپنے دامن میں بے پناہ خوشیوں کی سوغات لاتا ہے، یہ تقریب ابن حبّان کے مطابق ہجرت کے دوسرے سال جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی شاندار فتح کے بعد واپس مدینہ تشریف لائے تو اسکے آٹھ دن بعد منائی گئی کیوں کہ رمضان کے روزے اسی سال شعبان میں فرض ہوئے تھے۔ عید الفطر، دراصل رمضان المبارک کے ایک مہینہ کی سخت آزمائش عبادت اور ریاضت کے صلہ میں ملنے والے انعام کا شکریہ ادا کرنے کیلئے خوشی میں منعقد کی جاتی ہے ۔
رمضان شریف میں ایک ایماندار صبح سے لیکر شام تک ذمّہ دارانہ زندگی گذارتا ہے، نہ وہ حلق کے نیچے کچھ اتارتا ہے نہ وہ دوسری لذتوں سے لطف اندوز ہوتا ہے وہ ساری خواہشوں سے منھ موڑے رکھتا ہے، نہ وہ کسی کی برائی کرتا ہے نہ ہی کسی کو دکھ پہنچاتا ہے، ہر گھڑی خدا کی یاد اورموت کی فکر لیے وقت بسر کرتاہے۔
اسی طرح مسلسل ایک ماہ تک وہ ایک پُر مشقت کورس سے گزرتا ہے،ایک ماہ کے بعد جب بندگی کی انتہائی بلندی پر پہنچ جاتا ہے،صبر و استقلال،خوفِ خدا اور عزم کی کسوٹی پر کھرا اترتا ہے،تو خدا اپنی رحمتوں اور بخششوں سے نوازتا ہے،جس کا ادنیٰ سا بدلہ دنیامیں عید الفطر کی خوشیوں کی شکل میں عطا کرتا ہے اور اس خوشی میں بندہ اپنے رب کے حضور دو رکعت نماز اس انعام پر بطورِ شکرانہ ادا کرتا ہے اور وہ اپنی زبان سے کہتا ہے خدا یا! جس طرح ہم نے ایک ماہ تک پابندی کے ساتھ زندگی گذاری ہے بقیہ زندگی بھی اپنی من چاہی کے بجائے رب چاہی زندگی بسر کریں گے۔
اس موقع پر بندہ خدا کی تعریف، اپنے اور اپنے رشتہ داروں کیلئے، پڑوسیوں کے لئے، حتیٰ کہ تمام انسان، اپنے ملک کی سلامتی اور فلاح و بہبود کے لئے دعائیں کرتا ہے۔
عید الفطر کا یہ تہوار وسیع پیمانے پر اخوت اوربھائی چارے کا درس دیتا ہے خیرخواہی کایہ عالم ہے کہ حکم دیا گیا کہ عید کی نماز پڑھنے سے پہلے ہی گھر کے سبھی افراد کی طرف سے خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا صدقۃالفطر ادا کرے۔ تا کہ وہ بھی اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کر کے عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں، کیونکہ حقیقی خوشی کا حاصل دوسروں کی غمزدہ زندگیوں کو مسرّتوں سے مالامال کرنا ہے۔
اس سے محبت، بھائی چارہ، اتحاد و اتفاق اور میل ملاپ کے جذبات جنم لیتے ہیں، یہ اجتماعی خوشی ایک ایسا نادر موقعہ ہوتا ہے جس سے ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہ ہونے اور انھیں سلجھانے کا کوئی واضح لائحہ عمل مرتب کرنے اور ترقی کیلئے نئے وسائل اور صحیح راہ کے تعین میں بڑی مدد ملتی ہے۔ اس دن کو دنیا میں عید کا مگر آسمانی دنیا میں انعام کا دن کہا جاتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام آبادیوں میں بھیج دیتے ہیں وہ تمام گلیوں اور راستوں کے سروں پر کھڑے ہو کر پکارتے ہیں، اے امّتِ محمدیہ! اس مہربان رب کی طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور بڑا معاف کرنے والا ہے۔
پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف چلتے ہیں، تو حق تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں اے فرشتو! تم گواہ رہو! میں ان کو رمضان کے روزہ اور تراویح کے بدلہ میں اپنی خوشی اور جہنم سے خلاصی کا پروانہ عطا کرتا ہوں۔ تو مجھے نوازدے تو،یہ تیرا کرم ہے ورنہ
تیری رحمتوں کا بدلہ،میری بندگی نہیں ہے

عید اصل میں کردار سازی کی دعوت دیتی ہے اور حقوقِ انسانی کی ادائیگی کا سبق سکھلاتی ہے اگر عید کی مسرّتوں میں ہمسایہ اور نادار بچوں کی فریادیں ہمارے دل ودماغ کو متاثر نہ کر سکیں،تو ہماری یہ خوشیاں،ہمارے ضمیر پر بوجھ ہونگی۔
ایک بار محسنِ انسانیت غمگسار انِ جہاں صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز کے لئے تشریف لے جا رہے تھے، مدینہ کی گلیوں میں چھوٹے چھوٹے بچے نئے کپڑے پہنے عید کی خوشیاں منا رہے تھے، بچوّں کی جھرمٹ میں ایک بچہّ بیحد غمگین اور اداس بیٹھا تھا۔ حسر ت ویاس کے آثار اسکے معصوم اور کُومل چہرہ پر نمودار تھے آنکھوں میں آنسوں تیر رہے تھے، گندے اور میلے کپڑوں میں نہ جانے وہ کیا سوچ رہا تھا۔
تاجدارِ مدینہ یہ منظر دیکھ کر حیران و بے قرار ہو گئے، اس بچہّ کے پاس تشریف لے گئے، فرمایا پیارے! ننھے منے بچےّ کھیل رہے ہیں اور عید کی خوشیوں میں مست ہیں، آخر تجھے کیا ہو گیا ہے تو فکر میں کیوں ڈوبا نظر آتا ہے، یہ بتا تو کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا! بچہّ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! انایتیم میرے ماں باپ زندہ نہیں،میرے پاس مال و دولت نہیں،میرے پاس گھر بار نہیں، میرا اس دنیا میں کوئی غمخوار نہیں کس پر ناز کروں،پھر کیسے عید کی خوشیاں مناؤں۔ بے تکلف دن میں، جو کھاتے تھے انکی عید کیا،چائے سگریٹ، نوش فرماتے تھے ان کی عید کیا
بغض و کینہ لیکے جب،دل میں ملے تو عید کیا ،عید کے دن بھی نہ دل سے،مل سکے تو عید کیا
جن کے دل میں، احترام ِ ماہ رمضاں ہی نہ تھا ،ایسے روزہ خور، انسانوں کی طالب عید کیا
حضرت علی ؓ کو لوگ خلافت کے زمانہ میں عید کی مبارکبادی دینے گئے تو دیکھا جَو کے سوکھے ٹکڑے کھا رہے ہیں، آنے والے نے کہا حضرت! آج تو عید کا دن ہے یہ سن کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ؓنے سرد آہ بھری اور فرمایا! جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں، جن کو یہ ٹکڑ ے بھی میّسر نہیں تو ہمیں عید منانے کا کیو ں کر حق حاصل ہے، پھر فرمایا! عید تو ان کی ہے جو عذابِ آخرت اور مرنے کے بعد کی سزا سے چھٹکارا پا چکے ہیں۔
درحقیقت روزہ اور عید،ہماری موجودہ اور موت کے بعد آنیوالی زندگی کی طرف اہم اشارے کرتے ہیں، روزہ بتاتا ہے نیک لوگوں کیلئے دنیا پابندی کی جگہ اور امتحان کامقام ہے اور عید اس امتحان کا رزلٹ ہے اور پابندی سے چھٹکارے کا دن ہے جو اسمیں کامیاب ہوگا اسکوآخرت میں راحت ہی راحت ملے گی،جہاں پھر کبھی کسی قسم کی کوئی بندش نہ ہوگی۔عید کا مبارک دن اگر روزہ نہ رکھنے والوں کیلئے مرقعِ نصیحت اور باعثِ ندامت ہے تو روزہ کا اہتمام کرنے والوں کیلئے بھی نیکیوں کا لشکر آراستہ کرنے اور روحانیت کی حفاظت کرنے کا ایک حسین موقع ہے۔
عید کا دن اک ریفریشر کورس کے بعد اس عزم و اعتماد کا اعادہ ہے کہ ہم دامنِ عفت و پاکیزگی کے اجلے کپڑوں پر،پھر کبھی داغِ معصیت و گناہ لگنے نہیں دیں گے،جس طرح ایک ماہ عبادت و فرمانبرداری کے ساتھ اوقات گذارے ہیں،سال کے بقیہ دن بھی اسی تقدس و عظمت سے گزارنے کے عہد کی تجدید کرتے ہیں،یہی عید الفطر کی روح ہے اور یہی اسکا پیغام بھی۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی