ماہنامہ الفاران
ماہِ رمضان المبارک - ۱۴۴۳
ماہ رمضان کے فضائل و مسائل
حضرت مولانا و مفتی نفیس احمد جمالپوری صاحب المظاہری، استاذ حدیث و تفسیر:مدرسہ قادریہ،مسروالا، ہماچل پردیش
ماہ رمضان کے فضائل و مسائل۔ ماہ رمضان برکتوں والا مہینہ ہے رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم کی آگ سے نجات کا ہے۔رمضان المبارک اسلامی تقویم (کیلنڈر) میں وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم نازل فرمایا۔ رمضان المبارک کی ہی ایک بابرکت شب آسمانِ دنیا پر پورے قرآن کا نزول ہوا لہٰذا اس رات کو ﷲ رب العزت نے تمام راتوں پر فضیلت عطا فرمائی اور اسے شبِ قدر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ۔سورۃالقدر،آیت 3۔شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے باب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیماتحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِيْنُبخاری حدیث نمبر 3103۔
جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارک سے لگایا جا سکتا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّإِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِهِ بخاری حدیث نمبر1910 ،جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی برابری و ہم سری نہیں کر سکتے۔
قیامِ رمضان کی فضیلت سے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، إِيْمَاناً وَاحْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ بخاری،حدیث نمبر37 جس نے رمضان میں بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف واکرم بنایا، اس کی فطرت میں نیکی اور بدی، بھلائی اور برائی ، تابعداری وسرکشی اور خوبی وخامی دونوں ہی قسم کی صلاحیتیں اور استعدادیں یکساں طور پر رکھ دی ہیں۔ اسی کا ثمرہ اور نتیجہ ہے کہ کسی بھی انسان سے اچھائی اور برائی دونوں ہی وجود میں آسکتی ہیں۔ ایک انسان سے حسنات بھی ممکن ہیں اور سیئات بھی، اس کے باوجود کوئی سیئات ومعصیات سے مجتنب ہوکر اپنی زندگی اور اس کے قیمتی لمحات کو حسنات وطاعات سے مزین اور آراستہ کرلے تو یہ اس کے کامیاب اور خالق ومخلوق کے نزدیک اشرف واکرم ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے اور یہی تقویٰ وپرہیزگاری ہے جو روزہ کا مقصدِ اصلی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ أَیَّامًامَّعْدُوْدَاتٍ۔‘‘ سورۃالبقرۃ:183، 184)’’اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزہ، جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر، تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ، چند روز ہیں گنتی کے۔‘‘
تقویٰ کا معنی ہے: نفس کو برائیوں سے روکنا اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ روزہ ہے، جیسا کہ ایک صحابیؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول مجھے کسی ایسے عمل کا حکم دیجیے جس سے حق تعالیٰ مجھے نفع دے‘‘ ، آپ نے ارشاد فرمایا: ’’علیک بالصوم، فإنہٗ لامثل لہٗ سنن نسائی یعنی روزہ رکھا کرو، اس کے مثل کوئی عمل نہیں۔ اب رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، گویا یہ مہینہ نیکیوں اور طاعات کے لیے موسمِ بہار کی طرح ہے، اسی لیے رمضان المبارک سال بھر کے اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ عظمتوں، فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اپنی رضا، محبت وعطا، اپنی ضمانت واُلفت اور اپنے انوارات سے نوازتے ہیں۔ اس مہینہ میں ہر نیک عمل کا اجروثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں جب ایمان اور احتساب کی شرط کے ساتھ روزہ رکھا جاتا ہے تو اس کی برکت سے پچھلی زندگی کے تمام صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور جب رات کو قیام (تراویح) اسی شرط کے ساتھ کیا جاتا ہے تو اس سے بھی گزشتہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس ماہ میں ایک نیکی فرض کے برابر اور فرض ستر فرائض کے برابر ہوجاتا ہے، اس ماہ کی ایک رات جسے شبِ قدر کہا جاتا ہے وہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دی گئی ہے۔
رمضان کا روزہ فرض اور تراویح کو نفل (سنت مؤکدہ) بنایا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور خیرخواہی کا مہینہ ہے، اس میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، اس میں روزہ افطار کرانے والے کی مغفرت، گناہوں کی بخشش اور جہنم سے آزادی کے پروانے کے علاوہ روزہ دار کے برابر ثواب دیا جاتا ہے، چاہے وہ افطار ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ کرائے، ہاں! اگر روزہ دار کو پیٹ بھرکر کھلایا یا پلایا تو اللہ تعالیٰ اسے حوضِ کوثر سے ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔ اس ماہ کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔ جس نے اس ماہ میں اپنے ماتحتوں کے کام میں تخفیف کی تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس کی مغفرت اور اسے جہنم سے آزادی کا پروانہ دیں گے۔ پورا سال جنت کو رمضان المبارک کے لیے آراستہ کیا جاتا ہے۔ عام قانون یہ ہے کہ ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک دیا جاتا ہے، مگر روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’روزہ صرف میرے لیے ہے اور اس کا اجر میں خود دوں گا۔‘‘ روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں: ایک افطار کے وقت کہ اس کا روزہ مکمل ہوا اور دعا قبول ہوئی، اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے روزہ افطار کیا اور دوسری خوشی جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوگی۔ روزہ دار کے منہ کی بو (جو معدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے آتی ہے) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ خوشبودار ہے۔ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندے کی شفاعت کریں گے اور بندے کے حق میں دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
اب چند وہ باتیں عرض کی جاتی ہیں، جن کا حضورصلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اہتمام کیا کرتے تھے اور اُمت کو بھی اس کی تعلیم اور تلقین فرماتے تھے:حضور صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کی تاریخوں کی جس قدر نگہداشت فرماتے تھے اتنا دوسرے مہینوں کی نہیں فرماتے تھے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رمضان کی خاطر شعبان کے چاند کا اہتمام کیا کرو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کھانے کا حکم فرمایا کہ:سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔اور فرمایا:ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے۔ یعنی اہلِ کتاب کو سوجانے کے بعد کھانا پینا ممنوع تھا اور ہمیں صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک اس کی اجازت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ (غروب آفتاب کے بعد) افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔
افطار کی دعا:ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔پیاس جاتی رہی، انتڑیاں تربتر ہوگئیں اور اجر ان شاء اللہ ثابت ہوگیااسی طرح اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ۔اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے رزق سے افطار کیا رمضان میں ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس ماہ میں مانگنے والا بے مراد نہیں رہتا۔روزہ دار کی روزانہ ایک دعا قبول ہوتی ہے۔رمضان میں روزانہ بہت سے لوگ دوزخ سے آزاد کیے جاتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے اخیرعشرہ میں خود بھی شب بیدار رہتے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی بیدار رکھتے۔-حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شبِ قدر کو رمضان کے اخیر عشرہ میں تلاش کرو۔جب لیلۃ القدر آتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی معیت میں نازل ہوتے ہیں اور ہر بندہ جو کھڑا یا بیٹھا اللہ تعالیٰ کا ذکر کررہا ہو (اس میں تلاوت، تسبیح وتہلیل اور نوافل سب شامل ہیں، الغرض کسی طریقے سے ذکر وعبادت میں مشغول ہو) اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔
لیلۃ القدر کی دعا: ’’اَللّٰہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ۔اے اللہ! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں، معافی کو پسند فرماتے ہیں، پس مجھے بھی معاف فرمادیجیے،اگر کسی نے بغیر عذر اور بیماری کے رمضان کا ایک روزہ چھوڑدیا ، خواہ وہ ساری زندگی روزہ رکھتا رہے، وہ اس کی تلافی نہیں کرسکتا۔
رمضان میں چار کام کثرت سے کیے جائیں: دو کام جن سے اللہ راضی ہوتے ہیں:1 ’’لاإلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کی کثرت، 2استغفار زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے۔اور دو کام جو ہر انسان کی ضرورت ہیں1 اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کیا جائے،2جہنم سے پناہ مانگی جائے۔
تراویح کے بار ے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جس نے ایمان کے جذبے سے اور ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا، اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے، اور جس نے رمضان (کی راتوں) میں قیام کیا، ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔‘‘
اعتکاف کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے رمضان میں (آخری) دس دن کا اعتکاف کیا، اس کو دو حج اور دوعمرے کا ثواب ہوگا۔ دوسری حدیث میں ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر ایک دن کا بھی اعتکاف کیا، اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایسی تین خندقیں بنادیں گے کہ ہر خندق کا فاصلہ مشرق ومغرب سے زیادہ ہوگا۔رمضان میں قرآن کریم کا دور اور جودوسخاوت کی جائے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جود وسخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کرتے تھے اور رمضان میں آپ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے۔
روزہ کی حالت میں بے ہودہ باتوں : مثلا: غیبت، بہتان، گالی گلوچ، لعن ، طعن، غلط بیانی، تمام گناہوں سے پرہیز کیا جائے، ورنہ سوائے بھوکا پیاسا رہنے کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اگر کوئی دوسرا آکر ناشائستہ بات کرے تو یہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں، کیونکہ روزہ ڈھال ہے، جب تک کوئی اس کو پھاڑے نہیں اور یہ ڈھال جھوٹ اور غیبت سے پھٹ جاتی ہے۔
یہ مہینہ گویا ایمان اور اعمال کو ریچارج کرنے کے لیے آتا ہے۔ رمضان عربی کا لفظ ہے، جس کےاُردو میں معنی ہی شدتِ حرارت کے ہیں، یعنی اس ماہ میں اللہ رب العزت روزہ کی برکت اور اپنی رحمتِ خاصہ کے ذریعہ اہلِ ایمان کے گناہوں کو جلا دیتے اور ان کی بخشش فرمادیتے ہیں،’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں، اور ایک روایت میں بجائے ابوابِ جنت کے ابوابِ رحمت کھول دیئے جانے کا ذکر ہے۔
قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : یہ حدیث ظاہری معنوں پر بھی محمول ہوسکتی ہے، لہٰذا جنت کے دروازوں کا کھلنا، دوزخ کے دروازوں کا بند ہونا اور شیطانوں کا قید ہونا اس مہینے کی آمد کی اطلاع اور اس کی عظمت اور حرمت وفضیلت کی وجہ سے ہے، شیاطین کا بند ہونا اس لیے ہوسکتا ہے کہ وہ اہلِ ایمان کو وسوسوں میں مبتلا کرکے ایمانی وروحانی اعتبار سے ایذا نہ پہنچاسکیں، جیسا کہ دستورِ زمانہ بھی ہے کہ جب کوئی اہم موقع ہوتا ہے تو خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں، تمام شرپسندوں کو قید کردیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس موقع پر کوئی رخنہ وفتنہ پیدا نہ کریں، اور حکومت اپنے حفاظتی دستوں کو ہر طرف پھیلادیتی ہے، یہی حال رمضان المبارک میں بھی ہوتا ہے کہ شیطانوں کو قید کردیا جاتا ہے۔اور اس سے مجازی معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں، کیوں کہ شیاطین کا اُکسانا اس ماہ میں کم ہوجاتا ہے، اس لیے گویا وہ قید ہوجاتے ہیں۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ جنت کے دروازے کھولنے سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر طاعات اور عبادات کے دروازے اس ماہ میں کھول دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جو عبادتیں کسی اورمہینے میں عام طور پر واقع نہیں ہوسکتیں، وہ عموماً رمضان میں بآسانی ادا ہوجاتی ہیں،یعنی روزے رکھنا، قیام کرنا، وغیرہ (نووی شرحِ مسلم، از برکاتِ رمضان ، ص:44)
الغرض رمضان المبارک کی بڑی فضیلت ہے، اسی وجہ سے کہا گیا کہ اگر لوگوں کو رمضان المبارک کی ساری فضیلتوں اور برکتوں کا پتہ چل جائے تووہ تمنائیں کریں کہ کاش! سارا سال رمضان ہوجائے۔
رمضان المبارک کی بے شمار خصوصیتیں ہیں،جن میں چند ایک یہ ہیں:سال بھر کے مہینوں میں رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآن کریم میں آتا ہے، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْأٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّـنٰتٍ مِّنَ الْـہُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔‘‘ سورۃالبقرۃ:آیت:185)’’رمضان وہ (مبارک) مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے راہنمائی، ہدایت اور حق وباطل میں تمیز کرنے کا ذریعہ ہے، پس جو کوئی یہ (مبارک) مہینہ پائے اُسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے۔‘‘اسی ماہ کو شبِ قدر میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر مکمل قرآن کریم کا نزول ہوا، جیسا کہ ارشادِ خدواندی ہے: ’’إِنَّا أَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ تَنَزَّلُ الْـمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ أَمْرٍ سَلٰمٌ ہِيَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔‘‘ سورۃالقدر:3-5)’’بلا شبہ ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا، اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شبِ قدر کیسی چیز ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر معاملہ لے کر حاضر ہوتے ہیں، یہ رات سراسر سلامتی ہے، وہ یعنی اس کی خیر وبرکت صبح طلوعِ فجر تک رہتی ہے۔‘‘گویا رمضان اور قرآن کریم دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے کہ قرآن رمضان میں آیا تو رمضان کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا، اس لیے بعض علماء فرماتے ہیں کہ: رمضان اور قرآن کا جسم اور روح کاسا تعلق ہے۔ رمضان جسم ہے تو قرآن کریم روح ہے۔ روزے کے طبی فوائد آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں صُومُوا تَصِحُّوْا روزے رکھو تا کہ تمہاری صحت اچھی ہو۔اور صحت تبھی اچھی ہو سکتی ہے کہ اگرآپ روزوں سے یہ سبق سیکھیں کہ ہم جو بہت زیادہ کھایا کرتے ہیں بڑی سخت بے وقوفی تھی۔ رمضان نے ہمیں یہ کھانے کا سلیقہ سمجھا دیا ہے ۔
درحقیقت اس سے بہت کم پرہمارا گزارہ ہو سکتاہے جو ہم پہلے کھایاکرتے تھے۔ تو اپنی خوراک بچاؤ اور اس کے ساتھ اپنی صحت کی حفاظت کرو ۔اب امرواقعہ یہ ہے کہ اس سے بہتر ڈائٹنگ کا اور کوئی طریق نہیں ہے جوروزوں نے ہمیں سکھایااسرائیل میں اس مضمون پر ریسرچ ہوئی اور ان کی نیت بظاہر یہی معلوم ہوتی تھی کہ وہ ثابت کریں کہ مسلمانوں کا یہ جو طریق ہے روزے رکھنے کا یہ ان کے لئےنقصان دہ ہے اور بچوں کو بھی نقصان پہنچتا ہےبڑوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے چنانچہ پوری گہری ریسرچ کی گئی ،ایک بڑی ٹیم نے اس پہ کام کیا اور یہ بھی پیش نظر تھا کہ روزے کے دنوں میں تو بعض لوگ پہلے سے بھی بڑھ کر کھاتے ہیں اور زیادہ کھانے کے نتیجہ میں اور بیچ میں افاقہ رہنے کے نتیجے میں ایسا نقصان ان کو پہنچ سکتا ہے کہ پھر وہ بعد میں سنبھل نہ سکیں۔جو ریسرچ کا ماحصل تھا ۔اس نے ان کو حیران کر دیابالکل برعکس نتیجہ نکلا۔جس چیز کی تلاش میں تھے اس کے بجائے یہ کہنے پر مجبور ہو گئےکہ جتنی تحقیق کی گئی ہےاس کے نتیجے میں رمضان کے مہینے کے بعد انسان بہتر صحت کے ساتھ باہر نکلتا ہے،کمزور ہو کے نہیں نکلتا۔ہر پہلو سے اس کے جائزے لئے گئے ۔کولیسڑول لیول کے لحاظ سےجائزے لئے گئے۔میٹابولزم کے آپس میں توازن کے لحاظ سے لئے گئےغرضیکہ باقاعدہ ریسرچ کا جو حق ہے۔وہ ادا کیا گیا اور نتیجہ یہ نکلاہے۔ پس آنحضرت ﷺ نے چودہ سو سال پہلےجو بات فرمائی ،دیکھیں کیسی صحت کے ساتھ وہ بات فرمائی،کتنی سچی بات فرمائی ‘‘ صُومُوا تَصِحُّوْا’’ روزے رکھا کروصحت اچھی ہو جائے گی۔اللہ ہم سب کو مبارک ماہ کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارک سے لگایا جا سکتا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّإِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِهِ بخاری حدیث نمبر1910 ،جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی برابری و ہم سری نہیں کر سکتے۔
قیامِ رمضان کی فضیلت سے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، إِيْمَاناً وَاحْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ بخاری،حدیث نمبر37 جس نے رمضان میں بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف واکرم بنایا، اس کی فطرت میں نیکی اور بدی، بھلائی اور برائی ، تابعداری وسرکشی اور خوبی وخامی دونوں ہی قسم کی صلاحیتیں اور استعدادیں یکساں طور پر رکھ دی ہیں۔ اسی کا ثمرہ اور نتیجہ ہے کہ کسی بھی انسان سے اچھائی اور برائی دونوں ہی وجود میں آسکتی ہیں۔ ایک انسان سے حسنات بھی ممکن ہیں اور سیئات بھی، اس کے باوجود کوئی سیئات ومعصیات سے مجتنب ہوکر اپنی زندگی اور اس کے قیمتی لمحات کو حسنات وطاعات سے مزین اور آراستہ کرلے تو یہ اس کے کامیاب اور خالق ومخلوق کے نزدیک اشرف واکرم ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے اور یہی تقویٰ وپرہیزگاری ہے جو روزہ کا مقصدِ اصلی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ أَیَّامًامَّعْدُوْدَاتٍ۔‘‘ سورۃالبقرۃ:183، 184)’’اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزہ، جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر، تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ، چند روز ہیں گنتی کے۔‘‘
تقویٰ کا معنی ہے: نفس کو برائیوں سے روکنا اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ روزہ ہے، جیسا کہ ایک صحابیؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول مجھے کسی ایسے عمل کا حکم دیجیے جس سے حق تعالیٰ مجھے نفع دے‘‘ ، آپ نے ارشاد فرمایا: ’’علیک بالصوم، فإنہٗ لامثل لہٗ سنن نسائی یعنی روزہ رکھا کرو، اس کے مثل کوئی عمل نہیں۔ اب رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، گویا یہ مہینہ نیکیوں اور طاعات کے لیے موسمِ بہار کی طرح ہے، اسی لیے رمضان المبارک سال بھر کے اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ عظمتوں، فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اپنی رضا، محبت وعطا، اپنی ضمانت واُلفت اور اپنے انوارات سے نوازتے ہیں۔ اس مہینہ میں ہر نیک عمل کا اجروثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس ماہ میں جب ایمان اور احتساب کی شرط کے ساتھ روزہ رکھا جاتا ہے تو اس کی برکت سے پچھلی زندگی کے تمام صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور جب رات کو قیام (تراویح) اسی شرط کے ساتھ کیا جاتا ہے تو اس سے بھی گزشتہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس ماہ میں ایک نیکی فرض کے برابر اور فرض ستر فرائض کے برابر ہوجاتا ہے، اس ماہ کی ایک رات جسے شبِ قدر کہا جاتا ہے وہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دی گئی ہے۔
رمضان کا روزہ فرض اور تراویح کو نفل (سنت مؤکدہ) بنایا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور خیرخواہی کا مہینہ ہے، اس میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، اس میں روزہ افطار کرانے والے کی مغفرت، گناہوں کی بخشش اور جہنم سے آزادی کے پروانے کے علاوہ روزہ دار کے برابر ثواب دیا جاتا ہے، چاہے وہ افطار ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ کرائے، ہاں! اگر روزہ دار کو پیٹ بھرکر کھلایا یا پلایا تو اللہ تعالیٰ اسے حوضِ کوثر سے ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔ اس ماہ کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔ جس نے اس ماہ میں اپنے ماتحتوں کے کام میں تخفیف کی تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس کی مغفرت اور اسے جہنم سے آزادی کا پروانہ دیں گے۔ پورا سال جنت کو رمضان المبارک کے لیے آراستہ کیا جاتا ہے۔ عام قانون یہ ہے کہ ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک دیا جاتا ہے، مگر روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’روزہ صرف میرے لیے ہے اور اس کا اجر میں خود دوں گا۔‘‘ روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں: ایک افطار کے وقت کہ اس کا روزہ مکمل ہوا اور دعا قبول ہوئی، اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے روزہ افطار کیا اور دوسری خوشی جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوگی۔ روزہ دار کے منہ کی بو (جو معدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے آتی ہے) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ خوشبودار ہے۔ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندے کی شفاعت کریں گے اور بندے کے حق میں دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
اب چند وہ باتیں عرض کی جاتی ہیں، جن کا حضورصلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اہتمام کیا کرتے تھے اور اُمت کو بھی اس کی تعلیم اور تلقین فرماتے تھے:حضور صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کی تاریخوں کی جس قدر نگہداشت فرماتے تھے اتنا دوسرے مہینوں کی نہیں فرماتے تھے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رمضان کی خاطر شعبان کے چاند کا اہتمام کیا کرو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کھانے کا حکم فرمایا کہ:سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔اور فرمایا:ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے۔ یعنی اہلِ کتاب کو سوجانے کے بعد کھانا پینا ممنوع تھا اور ہمیں صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک اس کی اجازت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ (غروب آفتاب کے بعد) افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔
افطار کی دعا:ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔پیاس جاتی رہی، انتڑیاں تربتر ہوگئیں اور اجر ان شاء اللہ ثابت ہوگیااسی طرح اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ۔اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے رزق سے افطار کیا رمضان میں ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے اور اس ماہ میں مانگنے والا بے مراد نہیں رہتا۔روزہ دار کی روزانہ ایک دعا قبول ہوتی ہے۔رمضان میں روزانہ بہت سے لوگ دوزخ سے آزاد کیے جاتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے اخیرعشرہ میں خود بھی شب بیدار رہتے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی بیدار رکھتے۔-حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شبِ قدر کو رمضان کے اخیر عشرہ میں تلاش کرو۔جب لیلۃ القدر آتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی معیت میں نازل ہوتے ہیں اور ہر بندہ جو کھڑا یا بیٹھا اللہ تعالیٰ کا ذکر کررہا ہو (اس میں تلاوت، تسبیح وتہلیل اور نوافل سب شامل ہیں، الغرض کسی طریقے سے ذکر وعبادت میں مشغول ہو) اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔
لیلۃ القدر کی دعا: ’’اَللّٰہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ۔اے اللہ! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں، معافی کو پسند فرماتے ہیں، پس مجھے بھی معاف فرمادیجیے،اگر کسی نے بغیر عذر اور بیماری کے رمضان کا ایک روزہ چھوڑدیا ، خواہ وہ ساری زندگی روزہ رکھتا رہے، وہ اس کی تلافی نہیں کرسکتا۔
رمضان میں چار کام کثرت سے کیے جائیں: دو کام جن سے اللہ راضی ہوتے ہیں:1 ’’لاإلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کی کثرت، 2استغفار زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے۔اور دو کام جو ہر انسان کی ضرورت ہیں1 اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کیا جائے،2جہنم سے پناہ مانگی جائے۔
تراویح کے بار ے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جس نے ایمان کے جذبے سے اور ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا، اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے، اور جس نے رمضان (کی راتوں) میں قیام کیا، ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔‘‘
اعتکاف کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے رمضان میں (آخری) دس دن کا اعتکاف کیا، اس کو دو حج اور دوعمرے کا ثواب ہوگا۔ دوسری حدیث میں ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر ایک دن کا بھی اعتکاف کیا، اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایسی تین خندقیں بنادیں گے کہ ہر خندق کا فاصلہ مشرق ومغرب سے زیادہ ہوگا۔رمضان میں قرآن کریم کا دور اور جودوسخاوت کی جائے، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جود وسخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کرتے تھے اور رمضان میں آپ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے۔
روزہ کی حالت میں بے ہودہ باتوں : مثلا: غیبت، بہتان، گالی گلوچ، لعن ، طعن، غلط بیانی، تمام گناہوں سے پرہیز کیا جائے، ورنہ سوائے بھوکا پیاسا رہنے کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اگر کوئی دوسرا آکر ناشائستہ بات کرے تو یہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں، کیونکہ روزہ ڈھال ہے، جب تک کوئی اس کو پھاڑے نہیں اور یہ ڈھال جھوٹ اور غیبت سے پھٹ جاتی ہے۔
یہ مہینہ گویا ایمان اور اعمال کو ریچارج کرنے کے لیے آتا ہے۔ رمضان عربی کا لفظ ہے، جس کےاُردو میں معنی ہی شدتِ حرارت کے ہیں، یعنی اس ماہ میں اللہ رب العزت روزہ کی برکت اور اپنی رحمتِ خاصہ کے ذریعہ اہلِ ایمان کے گناہوں کو جلا دیتے اور ان کی بخشش فرمادیتے ہیں،’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ، اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں، اور ایک روایت میں بجائے ابوابِ جنت کے ابوابِ رحمت کھول دیئے جانے کا ذکر ہے۔
قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : یہ حدیث ظاہری معنوں پر بھی محمول ہوسکتی ہے، لہٰذا جنت کے دروازوں کا کھلنا، دوزخ کے دروازوں کا بند ہونا اور شیطانوں کا قید ہونا اس مہینے کی آمد کی اطلاع اور اس کی عظمت اور حرمت وفضیلت کی وجہ سے ہے، شیاطین کا بند ہونا اس لیے ہوسکتا ہے کہ وہ اہلِ ایمان کو وسوسوں میں مبتلا کرکے ایمانی وروحانی اعتبار سے ایذا نہ پہنچاسکیں، جیسا کہ دستورِ زمانہ بھی ہے کہ جب کوئی اہم موقع ہوتا ہے تو خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں، تمام شرپسندوں کو قید کردیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس موقع پر کوئی رخنہ وفتنہ پیدا نہ کریں، اور حکومت اپنے حفاظتی دستوں کو ہر طرف پھیلادیتی ہے، یہی حال رمضان المبارک میں بھی ہوتا ہے کہ شیطانوں کو قید کردیا جاتا ہے۔اور اس سے مجازی معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں، کیوں کہ شیاطین کا اُکسانا اس ماہ میں کم ہوجاتا ہے، اس لیے گویا وہ قید ہوجاتے ہیں۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ جنت کے دروازے کھولنے سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر طاعات اور عبادات کے دروازے اس ماہ میں کھول دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جو عبادتیں کسی اورمہینے میں عام طور پر واقع نہیں ہوسکتیں، وہ عموماً رمضان میں بآسانی ادا ہوجاتی ہیں،یعنی روزے رکھنا، قیام کرنا، وغیرہ (نووی شرحِ مسلم، از برکاتِ رمضان ، ص:44)
الغرض رمضان المبارک کی بڑی فضیلت ہے، اسی وجہ سے کہا گیا کہ اگر لوگوں کو رمضان المبارک کی ساری فضیلتوں اور برکتوں کا پتہ چل جائے تووہ تمنائیں کریں کہ کاش! سارا سال رمضان ہوجائے۔
رمضان المبارک کی بے شمار خصوصیتیں ہیں،جن میں چند ایک یہ ہیں:سال بھر کے مہینوں میں رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآن کریم میں آتا ہے، جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:’’شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْأٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّـنٰتٍ مِّنَ الْـہُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔‘‘ سورۃالبقرۃ:آیت:185)’’رمضان وہ (مبارک) مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے راہنمائی، ہدایت اور حق وباطل میں تمیز کرنے کا ذریعہ ہے، پس جو کوئی یہ (مبارک) مہینہ پائے اُسے چاہیے کہ وہ اس کے روزے رکھے۔‘‘اسی ماہ کو شبِ قدر میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر مکمل قرآن کریم کا نزول ہوا، جیسا کہ ارشادِ خدواندی ہے: ’’إِنَّا أَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ تَنَزَّلُ الْـمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِإِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ أَمْرٍ سَلٰمٌ ہِيَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔‘‘ سورۃالقدر:3-5)’’بلا شبہ ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا، اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ شبِ قدر کیسی چیز ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس رات میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے ہر معاملہ لے کر حاضر ہوتے ہیں، یہ رات سراسر سلامتی ہے، وہ یعنی اس کی خیر وبرکت صبح طلوعِ فجر تک رہتی ہے۔‘‘گویا رمضان اور قرآن کریم دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے کہ قرآن رمضان میں آیا تو رمضان کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا، اس لیے بعض علماء فرماتے ہیں کہ: رمضان اور قرآن کا جسم اور روح کاسا تعلق ہے۔ رمضان جسم ہے تو قرآن کریم روح ہے۔ روزے کے طبی فوائد آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں صُومُوا تَصِحُّوْا روزے رکھو تا کہ تمہاری صحت اچھی ہو۔اور صحت تبھی اچھی ہو سکتی ہے کہ اگرآپ روزوں سے یہ سبق سیکھیں کہ ہم جو بہت زیادہ کھایا کرتے ہیں بڑی سخت بے وقوفی تھی۔ رمضان نے ہمیں یہ کھانے کا سلیقہ سمجھا دیا ہے ۔
درحقیقت اس سے بہت کم پرہمارا گزارہ ہو سکتاہے جو ہم پہلے کھایاکرتے تھے۔ تو اپنی خوراک بچاؤ اور اس کے ساتھ اپنی صحت کی حفاظت کرو ۔اب امرواقعہ یہ ہے کہ اس سے بہتر ڈائٹنگ کا اور کوئی طریق نہیں ہے جوروزوں نے ہمیں سکھایااسرائیل میں اس مضمون پر ریسرچ ہوئی اور ان کی نیت بظاہر یہی معلوم ہوتی تھی کہ وہ ثابت کریں کہ مسلمانوں کا یہ جو طریق ہے روزے رکھنے کا یہ ان کے لئےنقصان دہ ہے اور بچوں کو بھی نقصان پہنچتا ہےبڑوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے چنانچہ پوری گہری ریسرچ کی گئی ،ایک بڑی ٹیم نے اس پہ کام کیا اور یہ بھی پیش نظر تھا کہ روزے کے دنوں میں تو بعض لوگ پہلے سے بھی بڑھ کر کھاتے ہیں اور زیادہ کھانے کے نتیجہ میں اور بیچ میں افاقہ رہنے کے نتیجے میں ایسا نقصان ان کو پہنچ سکتا ہے کہ پھر وہ بعد میں سنبھل نہ سکیں۔جو ریسرچ کا ماحصل تھا ۔اس نے ان کو حیران کر دیابالکل برعکس نتیجہ نکلا۔جس چیز کی تلاش میں تھے اس کے بجائے یہ کہنے پر مجبور ہو گئےکہ جتنی تحقیق کی گئی ہےاس کے نتیجے میں رمضان کے مہینے کے بعد انسان بہتر صحت کے ساتھ باہر نکلتا ہے،کمزور ہو کے نہیں نکلتا۔ہر پہلو سے اس کے جائزے لئے گئے ۔کولیسڑول لیول کے لحاظ سےجائزے لئے گئے۔میٹابولزم کے آپس میں توازن کے لحاظ سے لئے گئےغرضیکہ باقاعدہ ریسرچ کا جو حق ہے۔وہ ادا کیا گیا اور نتیجہ یہ نکلاہے۔ پس آنحضرت ﷺ نے چودہ سو سال پہلےجو بات فرمائی ،دیکھیں کیسی صحت کے ساتھ وہ بات فرمائی،کتنی سچی بات فرمائی ‘‘ صُومُوا تَصِحُّوْا’’ روزے رکھا کروصحت اچھی ہو جائے گی۔اللہ ہم سب کو مبارک ماہ کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔