ماہنامہ الفاران
ماہِ رمضان المبارک - ۱۴۴۳
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
حضرت مولانا شاہد عادل صاحب القاسمی، ناظم :مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ،ارریہ،ضلع ارریہ
آج صبح سے ہی کسی مہمان کی آمد کی تمنا لیے دل ودماغ مکمل بے قرار تھا،آج سورج کی حکومت نہ جانے کیوں غروب کے آغوش میں جانے سے کترا رہی تھی،آج آفتاب نہ جانے کیوں اپنے آپ کو ثابت کرنے میں دیری کررہا تھا،آج کے دن کی سپیدی نہ جانے کیوں اتنی لمبی عمر لے کر طلوع ہوئ تھی؟واقعتا انتظار کی گھڑی قیامت ہوتی ہے، آج عملی مشاہدہ ہوا،اگتے شمس کو ڈھلنا اور چھپنا تو ضرور ہے، اسی سوچ میں آخر سورج کی بلندی کو آسمان میں گم ہوتے بھی دیکھا گیا،مگر ابرآلود موسم نے قمر کو اگنے سے روکے رکھا،لاکھوں نظریں آسمان کوپھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھیں، مگر نامرادی اور مایوسی ہی نصیب ہوئ، خلق خدا کی زبانیں کیا سےکیا بک رہیں تھیں وہ تو وہی جانیں، مگرانوار و الطاف کی بارشیں موسلا دھار تھیں،سرمئ شام اس قدر حسین اور نورانی ہوں گی وہم وگمان تک نہ تھا،سرد اورگرم ہواؤں کا سنگم،پروا اور پچھوا کی ہمرکابی نے تو آج اودھ کے بے شمار شام کو پھیکا کررکھا تھا،جسم پر سجے کپڑے اور لگے خوشبو سے تو آج ہی عید کی دید لگ رہی تھی،ایک ہی طرزمیں ملبوس مخلوق آج فرشتوں کو بھی مات دے رہی تھی،سبھی سماعتیں اعلان کے لیے بے چین،سبھی بصارتیں اسکرین پر منحصر،سبھی انگشت کی بورڈ پر منجمداور سبھی دل ودماغ خبر کی صداقت کے لیے بے چین،کچھ ہی وقفے میں سماعتیں اور بصارتیں سبھی پریقین ہوگئیں کہ آمد مہمان دروازے پر ہوچکی ہے،استقبال مہماں کے لیے ہم سبھی چشم براہ ہیں،اھلا وسھلا مرحبا کے بول ہمارے لبوں پرتیرنے لگے ہیں،بابرکت مہماں کو خیر مقدم کہنے کے لیے ہم کمر بستہ ہیں،
مبارکبادیوں کا تسلسل ہے،ایک دوسرے کو آمد مہماں کی خوشخبری عام ہے،دو سال سے شوسل میڈیا جو مبارکبادی کا فریضہ انجام دے رہا تھا آج حضرت انسان خود روبرو اس امرمسرت کو نبھا رہا ہے،انھیں خوشیوں اور پیغاموں کے بیچ "حی علی الفلاح"کے پیغام سے شہر گونج اٹھا،سڑکیں تنگ اور راستے کم پڑنے لگے،انسانوں کا میلہ گھروں سے نکلنے لگا،چوک چوراہوں پر کرفیو جیسا ماحول بن گیا،دکانیں ساری مقفل ہونے لگیں، انسانوں کی روح میں آج الگ ہی نشاط تھی،کوئ مایوس ہے اور نہ ہی کوئ تشنہ کام،سبھوں کے قدم ایک ہی طرف،سبھوں کی منزل ایک ہی جیسی،سبھوں کا ارادہ ایک ہی جیسا،روٹھے رب کومنانا ہے،زندگی کو منشاۓ رب چلانا ہے،اسی جھرمٹ میں سیاہ کار کے بھی قدم آگے بڑھ گئے،سجدہ گاہیں مطلع انوار ہیں،تجلیات ربانی کے نقوش انگنت ہیں،ایمانی جذبات سے سرشار مخلوق خدا اپنے رب کے حضور محو التجا ہے،فریاد کش فریاد رس کے بارگاہ میں سجدہ ریز ہے،خطاؤں کا سمندر رحمتوں کی کشتی میں سوارہونے کے لیے قطار میں ہے،برکتوں کے محتاج برکتوں کے مالک سے اپنی حاجت روائ کے لیے طلبگار ہے،ذلالت وگمراہی کے مسافر رشد وہدایت کی ڈگرپرجانے کے لیے کوشاں ہے،کوتاہ رزق وسعت رزق کے لیے رزاق کے در کا سائل بنا ہواہے،کمزور جسم لافانی ذات سے مضبوط جسم کی چاہ لیے دونوں ہاتھ منہ کے سامنے لیے بدبدا رہا ہے، عجب منظر اور خدائ سماں ہے،نور ونکہت میں ڈوبی رات آج کچھ الگ ہی جلوہ بکھیر رہی ہے،دوسال سے سسکتی مسجدیں اور بلکتی عبادت گاہیں آج شاید بہت خوش ہوں گی،دو سال جس کی گود سونی اور خالی رہی ہو، آج ان کی گود بھرائ شاید انھیں بھی ایک نئ زندگی عطاکی ہو،کتنوں نے اس بے رحم وبا سے ہم سے جدائ لی،کتنوں نے ہم سےمنہ موڑااور نہ جانے کتنے اس سعادت سے محروم رہے،دو سال اللہ کے مہماں کا ہم استقبال نہ کرسکے،دوسال ہم مسجدوں سے رحمت کے سیزن میں غائب رہے،برکت ومغفرت کے موسم کا مکمل لطف نہ اٹھا سکے،دل میں ایک وہم بخوبی گردش کررہاتھا کہ پتہ نہیں یہ سیزن ہمارے حصے میں اب کبھی آۓ یا نہ آۓ،لاکھ لاکھ احسان پاک پروردگار کا ،جنھوں نے یہ لمحہ پھر میسر کرایا، کہ برسوں بعد آج بےخوف و خطر تراویح کی نماز ہزاروں کی معیت میں مقدر ہوئی۔
والسلام
مبارکبادیوں کا تسلسل ہے،ایک دوسرے کو آمد مہماں کی خوشخبری عام ہے،دو سال سے شوسل میڈیا جو مبارکبادی کا فریضہ انجام دے رہا تھا آج حضرت انسان خود روبرو اس امرمسرت کو نبھا رہا ہے،انھیں خوشیوں اور پیغاموں کے بیچ "حی علی الفلاح"کے پیغام سے شہر گونج اٹھا،سڑکیں تنگ اور راستے کم پڑنے لگے،انسانوں کا میلہ گھروں سے نکلنے لگا،چوک چوراہوں پر کرفیو جیسا ماحول بن گیا،دکانیں ساری مقفل ہونے لگیں، انسانوں کی روح میں آج الگ ہی نشاط تھی،کوئ مایوس ہے اور نہ ہی کوئ تشنہ کام،سبھوں کے قدم ایک ہی طرف،سبھوں کی منزل ایک ہی جیسی،سبھوں کا ارادہ ایک ہی جیسا،روٹھے رب کومنانا ہے،زندگی کو منشاۓ رب چلانا ہے،اسی جھرمٹ میں سیاہ کار کے بھی قدم آگے بڑھ گئے،سجدہ گاہیں مطلع انوار ہیں،تجلیات ربانی کے نقوش انگنت ہیں،ایمانی جذبات سے سرشار مخلوق خدا اپنے رب کے حضور محو التجا ہے،فریاد کش فریاد رس کے بارگاہ میں سجدہ ریز ہے،خطاؤں کا سمندر رحمتوں کی کشتی میں سوارہونے کے لیے قطار میں ہے،برکتوں کے محتاج برکتوں کے مالک سے اپنی حاجت روائ کے لیے طلبگار ہے،ذلالت وگمراہی کے مسافر رشد وہدایت کی ڈگرپرجانے کے لیے کوشاں ہے،کوتاہ رزق وسعت رزق کے لیے رزاق کے در کا سائل بنا ہواہے،کمزور جسم لافانی ذات سے مضبوط جسم کی چاہ لیے دونوں ہاتھ منہ کے سامنے لیے بدبدا رہا ہے، عجب منظر اور خدائ سماں ہے،نور ونکہت میں ڈوبی رات آج کچھ الگ ہی جلوہ بکھیر رہی ہے،دوسال سے سسکتی مسجدیں اور بلکتی عبادت گاہیں آج شاید بہت خوش ہوں گی،دو سال جس کی گود سونی اور خالی رہی ہو، آج ان کی گود بھرائ شاید انھیں بھی ایک نئ زندگی عطاکی ہو،کتنوں نے اس بے رحم وبا سے ہم سے جدائ لی،کتنوں نے ہم سےمنہ موڑااور نہ جانے کتنے اس سعادت سے محروم رہے،دو سال اللہ کے مہماں کا ہم استقبال نہ کرسکے،دوسال ہم مسجدوں سے رحمت کے سیزن میں غائب رہے،برکت ومغفرت کے موسم کا مکمل لطف نہ اٹھا سکے،دل میں ایک وہم بخوبی گردش کررہاتھا کہ پتہ نہیں یہ سیزن ہمارے حصے میں اب کبھی آۓ یا نہ آۓ،لاکھ لاکھ احسان پاک پروردگار کا ،جنھوں نے یہ لمحہ پھر میسر کرایا، کہ برسوں بعد آج بےخوف و خطر تراویح کی نماز ہزاروں کی معیت میں مقدر ہوئی۔
والسلام