ماہنامہ الفاران
ماہِ رمضان المبارک - ۱۴۴۳
مدارس اسلامیہ نسلوں کے ایمان کے محافظ ہیں،آپ ان کی حفاظت کیجئے!
حضرت مولانا و مفتی اطہرصاحب القاسمی، نائب صدر: جمعیۃ علما، بہار
مدارس اسلامیہ کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے کیونکہ پندرہ سو سال پہلے جس آخری دین کو جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وفادار و جاں نثار ساتھی حضرات صحابہ کے درمیان چھوڑ کر رخصت ہوئے تھے وہ دین بعینہٖ اسی شکل وصورت میں اگر آج تک زندہ ہے تو یہ ان ہی مدارس اسلامیہ کی بدولت ہے۔گویا مدارس اسلامیہ ایسا عالم گیر نظام تعلیم وتربیت ہے جن پر دین اسلام کی حفظ و بقاء اور نشر و اشاعت کا دارومدار ہے۔یعنی صفہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو جماعت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی ومذہبی تحریک کی تبلیغ کا بیڑہ لےکر اٹھی تھی؛پندرہ سو سالہ طویل عرصے کے بعد بھی اس مقدس جماعت کا وہ عالم گیر مشن ان ہی ٹوٹے پھوٹے مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کے ذریعے پورے عالم میں جاری و ساری ہے۔صحابہ کرام کے بعد تابعین،تبع تابعین،محدثین،ائمہ مجتہدین اور فقہاء عظام کے واسطے سے یہ دین ہمارے ملک بھارت میں بھی پہنچا۔ہم نے جب آنکھیں کھولی تو دیکھا کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دین ہمارے اردگرد چاروں طرف مدارس اسلامیہ کی شکل میں جال کی طرح پھیلے ہوئے ہیں اور ہرجگہ قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔جبکہ سقوطِ سلطنتِ مغلیہ کے بعد یہاں ایک دور ایسا بھی آیا جب محسوس ہوا کہ اب یہاں سے دین مکمل رخصت ہوجائے گا کیونکہ صف اول کے مجاہدین آزادی ان ہی مدارس اسلامیہ سے وابستہ اکابر علماء کرام تھے جنہیں جہاد آزادی وطن کی پاداش میں ظالم و جابر انگریزوں نے چن چن کر تختہ دار پر چڑھا دیا تھا اور صدیوں سے آباد مدارسِ اسلامیہ کو نیست و نابود کر دیا تھا۔
لیکن قربان جائیے اکابرین علماء دیوبند پر جنہوں نے اپنی فراست ایمانی سے محسوس کرلیا تھا کہ اگر یہاں دین زندہ رہنا ہے اور ہر حال میں رہنا ہے تو فوری طور پر مدارس اسلامیہ کی داغ بیل ڈالنی ہوگی۔چنانچہ بےسروسامانی کے عالم میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی اور اسی نہج پر ان کے سچے جانشینوں نے اس طرح دینی ادارے قائم کئے کہ الحمد للّٰہ ملک میں مدارس اسلامیہ کے جال پھیل گئے؛گاؤں گاؤں قریہ قریہ نور نبوت کی شمعوں سے منور ہونے لگا اور آج نوبت بایں جا رسید کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے برپا کیا گیا اللہ کا یہ سچا دین،چھوٹے بڑے مدارس اسلامیہ اور مکاتبِ دینیہ کی مختلف شکلوں میں ملک کے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک تسبیح کے خوبصورت دانوں کی طرح ایک دوسرے سے مربوط و منظم ہوکر تعلیم وتربیت کی نوارنی شمعیں جلا رہے ہیں،جس میں روز بروز اضافہ ہی ہورہاہے اور یہ اضافہ قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ اس آخری دین کو کائنات میں پیدا ہونے والے آخری فرد تک پہنچنا ہے۔یریدون لیطفؤا نور اللہ بافواہہم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکفرون۔(الصف/8)وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے مونہوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنا نور پورا کر کے رہے گا اگرچہ کافر برا مانیں۔
دوسری طرف ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ان مدارس سے وابستہ علماء کرام نے دین محمدی کی آبیاری میں خود کو اس طرح وقف کرلیا کہ دنیا ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے کہاں سے کہاں چلی گئی لیکن دیوانوں اور فاقہ کشوں کی یہ مخلص جماعت رفتار زمانہ کے ساتھ چلنے کے بجائے پیچھے بہت پیچھے رہ گئی۔اس طرح مسلمانوں کی نسل نو کی تعلیم وتربیت اور ان کے ایمان و عقائد کے تحفظ میں وہ اپنی ہی دنیاوی ترقی بھول گئی۔جسموں پر پھٹے پرانے کپڑے،موٹے جھوٹے کھانے،آسان و سادہ طرز زندگی،خواہشات پر چلنے کے بجائے ضروریات کی تکمیل پر قناعت،خاموش شب و روز،سماجی و معاشرتی زندگی میں اس طرح اجنبیت کہ نہ کوئی غم خوار و غمگسار،نہ آؤ بھاؤ تاؤ،نہ ہٹو بچو کے نعرے،نہ ہلا ہنگامہ،نہ چیلے چپاٹے اور نہ یاروں کے ساتھ سیر سپاٹے؛بس ملا کی دوڑ مدرسہ یا مسجد تک۔یعنی ایک ہی دھن مسجد،مکتب اور مدرسہ۔سخت لو والی گرمی ہو یا کپکپادینے والی ٹھنڈک یا پھر جھوم جھوم کر برسنے والی برسات؛ان اہل مدارس کے دل و دماغ میں بس ایک ہی فکر دامن گیر رہی کہ مسلمانوں کی نسل نو کو دینی تعلیم وتربیت سے کس طرح آراستہ و پیراستہ کیا جائے اور ان کے ایمان و عقائد کی حفاظت کس طرح کی جائے!
مدارس اسلامیہ سے وابستہ علماء کرام خواہ وہ طلبہ ہوں یا اساتذہ یا پھر منتظمین ان کی اس دھن اور لگن کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں دوطبقے بن گئے،ایک طبقہ مدارس سے وابستہ علماء کرام کا اور دوسرا اصحابِ ثروت و معاونین کا۔الحمد للہ دونوں طبقے ایک دوسرے سے مل کر مدارس اسلامیہ کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔البتہ اسی دوسرے طبقہ میں سے دین بیزاروں کا ایک تیسرا طبقہ اب ایسا بھی پیدا ہوچکا ہے جن کی نظروں میں نہ تو ان مدارس کی کوئی اہمیت و افادیت ہے اور نہ ہی ان سے وابستہ علماء کرام کی کوئی عظمت و رفعت۔اس بےرخی اور دین بیزاری کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک کے چپے چپے میں پھیلے ہوئے خون جگر سے سینچے گئے یہی مدارس خود اپنی ہی برادری کی آنکھوں میں کانٹے بنے ہوئے ہیں۔
ملک بھر میں مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کی تعداد ایک مٹھی بھر جماعت سے زیادہ نہیں ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق یہ قوم مسلم کا محض چار فیصد حصہ ہے۔لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ مدارسِ اسلامیہ مختلف مسائل سے دوچار ہیں اور فی الوقت انتہائی کس مپرسی کے مراحل سے گذررہے ہیں۔بالخصوص عالمی وبا کورونا اور اس کے نتیجے میں وقفے وقفے سے جاری ہونے والے لاک ڈاؤن کے بعد تو بہت سے چھوٹے چھوٹے مدارس یا تو بند ہوگئے ہیں یا پھر مالی بحران کا شکار ہوکر بند ہونے کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔
مدارس اسلامیہ پر آنے والی اس بحرانی کیفیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں ہزاروں لاکھوں معصوم بچے ان مدارس میں تعلیم وتربیت سے آراستہ ہوکر قوم مسلم کی دینی خدمات انجام دینے کے اہل ہورہے تھے؛اب وہ مدارس کا رخ کرنے کے بجائے دہلی ممبئی بنگلور و ہریانہ کام کرنے کے لئے ہجرت کررہےہیں جبکہ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ جن علماء و حفاظ کے کاندھوں پر ملت کے ان نونہالوں کی دینی تعلیم وتربیت کی ذمےداریاں تھیں وہ مسلسل ان حالات سے مایوس ہو کر چھوٹے موٹے کاروبار یا محنت و مزدوری کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح یہ طبقہ بنگلور و حیدرآباد کی فیکٹریوں میں بارہ بارہ گھنٹے کام کرتا ہےاور اپنے وقار و عہدہ کو بھول کر ایک عام مسلمان کے طرز زندگی پر گامزن ہے۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ طبقہ علماء کا کاروبار یا محنت مزدوری کرنا نہ تو ناجائز ہے اور نہ ہی عیب کی بات ہے لیکن یہ بات بھی مسلم ہے کہ ان ہی کے ناتواں کاندھوں پر ملت اسلامیہ ہندیہ کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا بوجھ بھی ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ اگر یہ طبقہ لگاتار اسی روش پر قائم رہا تو آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مستقبل میں قوم مسلم کے معصوموں کے ایمان و عقائد کا کیا حال ہوگا!
الحاصل اسلام دشمن طاقتوں کے اپنے خطرناک ایجنڈے اور عزائم ہیں اور جن اصحابِ ثروت مسلمانوں کو اپنے ان مدارس کا محافظ رہنا چاہئے ان کی جانب سے الگ اشکالات و اعتراضات بلکہ بے رخی و بیزاری ہے۔ان کا حال یہ ہے کہ کوئی رفتار زمانہ کے ساتھ اداروں کی جدید کاری چاہتاہے تو کسی کو ان مدارس کے طلبہ نکمے و فرسودہ نظر آتے ہیں تو کسی کی نظر میں مدارس کی انتظامیہ خائن و مشکوک ہے۔اس لئے ان کے کام کاج پر انہیں اعتماد و اعتبار ہی نہیں ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ موجودہ مدارس اور اہل مدارس میں بھی بہت ساری کمیاں اور خامیاں ہیں اور ماضی کی طرح کماحقہ وہ اپنی خدمات انجام نہیں دے پا رہے ہیں۔لیکن انصاف کے ترازو کے ایک پلڑے میں جب اہل مدارس کی کمیوں اور خامیوں اور دوسرے میں اس کی نافعیت و افادیت کو تولا جائے گا تو لامحالہ ان مدارس کی افادیت و نافعیت کا پلڑا بھاری پڑجائے گا۔
جب سالم لکڑیوں سے ٹیبل کرسی بنائی جاتی ہے تو لکڑیوں کا ایک حصہ آرے کی نوکوں میں پس کر برباد ہوجاتاہے لیکن اگر ایسا نہیں ہوگا تو آپ کو بیٹھنے کے لئے کرسی یا لیٹنے کے لئے پلنگ بھی نہیں مل سکے گی۔ٹھیک اسی طرح عمارت کی تعمیر میں اگر بعض سالم اینٹیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوں گی تو خوبصورت محل کی تعمیر بھی ممکن نہیں ہوسکےگی یا پھر درزی مہنگے کپڑوں کو کاٹ کاٹ کر اس پر سلائی نہیں کرےگا تو آپ عمدہ کپڑے اپنے جسموں پر زیب تن بھی نہیں کرسکیں گے۔تو کسی بھی چیز کا سوفیصد حصہ مکمل کارآمد کبھی نہیں ہوتا،کچھ نہ کچھ حصہ نکما یا ضائع ہوجاتا ہے۔لیکن ان ہی نکمے اور ضائع شدہ حصوں کی بدولت بقیہ حصے کارآمد و خوبصورت بناکرتے ہیں۔
الغرض اپنی تمام تر خامیوں اور کمیوں کے باوجود مدارس اسلامیہ ہی کا نظام ہے جن پر دین اسلام کی حفظ و بقاء اور نشر و اشاعت کا دارومدار ہے۔صفہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو جماعت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی ومذہبی تحریک کا بیڑہ لےکر اٹھی تھی؛پندرہ سو سالہ طویل عرصے کے بعد بھی اس مقدس جماعت کا وہ عالم گیر مشن اگر زندہ ہے تو بخدا یہ ان ہی ٹوٹے پھوٹے مطعون مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کی دین ہے۔
تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک میں جاری فرقہ پرستی کے عروج اور کمرتوڑ مہنگائی کے درمیان آخر کس طرح ہم موجودہ یا آنے والی اپنی نسل کے دین وایمان کا تحفظ کرسکتے ہیں؟تو جواب یہ ہے کہ اس کا واحد راستہ یہی ہے کہ ملک میں جال کی طرح پھیلے ہوئے چھوٹے بڑے مدارس اسلامیہ اور مکاتبِ دینیہ کو پوری قوت کے ساتھ سنبھالا دیا جائے،ان کی کمیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے آپس میں مل بیٹھ کر دور کیا جائے،ان کی تعمیر وترقی میں اپنا موثر کردار ادا کیا جائے،ان سے وابستہ علماء و منتظمین کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کے زخموں پر ایک شفیق ڈاکٹر کی طرح مرہم پٹی کی جائے،انہیں مایوسیوں کے دلدل سے باہر نکالا جائے،ان کی بھرپور حمایت و حوصلہ افزائی کی جائے اور ادارے کے ساتھ ان کی ذاتی ضروریات تک کا خیال کرتے ہوئے ان کے ساتھ داد و دہش اور عزت و تکریم کا معاملہ کیا جائے۔آخر ا ہلِ ثروت اپنے گھربار کی ایک ایک شادی پر لاکھوں کروڑوں خرچ کرسکتے تو مہمانانِ رسول اور وراثت نبوی کے علم برداروں پر اپنا سینہ کشادہ کیوں نہیں کرسکتے!!!
رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رخصت پذیر ہے،جلد ہی دوسرا عشرہ سایہ فگن ہونے والا ہے اور پھر تیسرا عشرہ بھی آجائے گا اور یوں رمضان المبارک ایک سال کے لئے ہم سے پھر رخصت ہوجائےگا۔کل کو کون زندہ رہے گا اور کس کو چار لوگ مل کر قبرستان میں دفن کرآئیں گے۔کل تو کل ہے پل کی خبر نہیں ہے۔قبل اس کے کہ ہم کف افسوس ملیں دیگر تمام تر عبادات کے ساتھ مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام،ائمہ عظام و حفاظ کرام کے ساتھ خصوصی شفقت و مروت کا ایسا مظاہرہ کرلیں کہ خدا بھی خوش ہوجائے اور جب روضہ رسول میں ہمارے ان خوبصورت اعمال کی پیشی ہو تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارکہ بھی ہم سے خوش ہو جائے!
لیکن قربان جائیے اکابرین علماء دیوبند پر جنہوں نے اپنی فراست ایمانی سے محسوس کرلیا تھا کہ اگر یہاں دین زندہ رہنا ہے اور ہر حال میں رہنا ہے تو فوری طور پر مدارس اسلامیہ کی داغ بیل ڈالنی ہوگی۔چنانچہ بےسروسامانی کے عالم میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی اور اسی نہج پر ان کے سچے جانشینوں نے اس طرح دینی ادارے قائم کئے کہ الحمد للّٰہ ملک میں مدارس اسلامیہ کے جال پھیل گئے؛گاؤں گاؤں قریہ قریہ نور نبوت کی شمعوں سے منور ہونے لگا اور آج نوبت بایں جا رسید کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے برپا کیا گیا اللہ کا یہ سچا دین،چھوٹے بڑے مدارس اسلامیہ اور مکاتبِ دینیہ کی مختلف شکلوں میں ملک کے مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک تسبیح کے خوبصورت دانوں کی طرح ایک دوسرے سے مربوط و منظم ہوکر تعلیم وتربیت کی نوارنی شمعیں جلا رہے ہیں،جس میں روز بروز اضافہ ہی ہورہاہے اور یہ اضافہ قیامت تک جاری رہے گا کیونکہ اس آخری دین کو کائنات میں پیدا ہونے والے آخری فرد تک پہنچنا ہے۔یریدون لیطفؤا نور اللہ بافواہہم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکفرون۔(الصف/8)وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنے مونہوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنا نور پورا کر کے رہے گا اگرچہ کافر برا مانیں۔
دوسری طرف ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ان مدارس سے وابستہ علماء کرام نے دین محمدی کی آبیاری میں خود کو اس طرح وقف کرلیا کہ دنیا ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے کہاں سے کہاں چلی گئی لیکن دیوانوں اور فاقہ کشوں کی یہ مخلص جماعت رفتار زمانہ کے ساتھ چلنے کے بجائے پیچھے بہت پیچھے رہ گئی۔اس طرح مسلمانوں کی نسل نو کی تعلیم وتربیت اور ان کے ایمان و عقائد کے تحفظ میں وہ اپنی ہی دنیاوی ترقی بھول گئی۔جسموں پر پھٹے پرانے کپڑے،موٹے جھوٹے کھانے،آسان و سادہ طرز زندگی،خواہشات پر چلنے کے بجائے ضروریات کی تکمیل پر قناعت،خاموش شب و روز،سماجی و معاشرتی زندگی میں اس طرح اجنبیت کہ نہ کوئی غم خوار و غمگسار،نہ آؤ بھاؤ تاؤ،نہ ہٹو بچو کے نعرے،نہ ہلا ہنگامہ،نہ چیلے چپاٹے اور نہ یاروں کے ساتھ سیر سپاٹے؛بس ملا کی دوڑ مدرسہ یا مسجد تک۔یعنی ایک ہی دھن مسجد،مکتب اور مدرسہ۔سخت لو والی گرمی ہو یا کپکپادینے والی ٹھنڈک یا پھر جھوم جھوم کر برسنے والی برسات؛ان اہل مدارس کے دل و دماغ میں بس ایک ہی فکر دامن گیر رہی کہ مسلمانوں کی نسل نو کو دینی تعلیم وتربیت سے کس طرح آراستہ و پیراستہ کیا جائے اور ان کے ایمان و عقائد کی حفاظت کس طرح کی جائے!
مدارس اسلامیہ سے وابستہ علماء کرام خواہ وہ طلبہ ہوں یا اساتذہ یا پھر منتظمین ان کی اس دھن اور لگن کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں دوطبقے بن گئے،ایک طبقہ مدارس سے وابستہ علماء کرام کا اور دوسرا اصحابِ ثروت و معاونین کا۔الحمد للہ دونوں طبقے ایک دوسرے سے مل کر مدارس اسلامیہ کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔البتہ اسی دوسرے طبقہ میں سے دین بیزاروں کا ایک تیسرا طبقہ اب ایسا بھی پیدا ہوچکا ہے جن کی نظروں میں نہ تو ان مدارس کی کوئی اہمیت و افادیت ہے اور نہ ہی ان سے وابستہ علماء کرام کی کوئی عظمت و رفعت۔اس بےرخی اور دین بیزاری کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک کے چپے چپے میں پھیلے ہوئے خون جگر سے سینچے گئے یہی مدارس خود اپنی ہی برادری کی آنکھوں میں کانٹے بنے ہوئے ہیں۔
ملک بھر میں مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کی تعداد ایک مٹھی بھر جماعت سے زیادہ نہیں ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق یہ قوم مسلم کا محض چار فیصد حصہ ہے۔لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ مدارسِ اسلامیہ مختلف مسائل سے دوچار ہیں اور فی الوقت انتہائی کس مپرسی کے مراحل سے گذررہے ہیں۔بالخصوص عالمی وبا کورونا اور اس کے نتیجے میں وقفے وقفے سے جاری ہونے والے لاک ڈاؤن کے بعد تو بہت سے چھوٹے چھوٹے مدارس یا تو بند ہوگئے ہیں یا پھر مالی بحران کا شکار ہوکر بند ہونے کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔
مدارس اسلامیہ پر آنے والی اس بحرانی کیفیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں ہزاروں لاکھوں معصوم بچے ان مدارس میں تعلیم وتربیت سے آراستہ ہوکر قوم مسلم کی دینی خدمات انجام دینے کے اہل ہورہے تھے؛اب وہ مدارس کا رخ کرنے کے بجائے دہلی ممبئی بنگلور و ہریانہ کام کرنے کے لئے ہجرت کررہےہیں جبکہ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ جن علماء و حفاظ کے کاندھوں پر ملت کے ان نونہالوں کی دینی تعلیم وتربیت کی ذمےداریاں تھیں وہ مسلسل ان حالات سے مایوس ہو کر چھوٹے موٹے کاروبار یا محنت و مزدوری کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح یہ طبقہ بنگلور و حیدرآباد کی فیکٹریوں میں بارہ بارہ گھنٹے کام کرتا ہےاور اپنے وقار و عہدہ کو بھول کر ایک عام مسلمان کے طرز زندگی پر گامزن ہے۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ طبقہ علماء کا کاروبار یا محنت مزدوری کرنا نہ تو ناجائز ہے اور نہ ہی عیب کی بات ہے لیکن یہ بات بھی مسلم ہے کہ ان ہی کے ناتواں کاندھوں پر ملت اسلامیہ ہندیہ کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کا بوجھ بھی ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ اگر یہ طبقہ لگاتار اسی روش پر قائم رہا تو آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مستقبل میں قوم مسلم کے معصوموں کے ایمان و عقائد کا کیا حال ہوگا!
الحاصل اسلام دشمن طاقتوں کے اپنے خطرناک ایجنڈے اور عزائم ہیں اور جن اصحابِ ثروت مسلمانوں کو اپنے ان مدارس کا محافظ رہنا چاہئے ان کی جانب سے الگ اشکالات و اعتراضات بلکہ بے رخی و بیزاری ہے۔ان کا حال یہ ہے کہ کوئی رفتار زمانہ کے ساتھ اداروں کی جدید کاری چاہتاہے تو کسی کو ان مدارس کے طلبہ نکمے و فرسودہ نظر آتے ہیں تو کسی کی نظر میں مدارس کی انتظامیہ خائن و مشکوک ہے۔اس لئے ان کے کام کاج پر انہیں اعتماد و اعتبار ہی نہیں ہے۔
ہم مانتے ہیں کہ موجودہ مدارس اور اہل مدارس میں بھی بہت ساری کمیاں اور خامیاں ہیں اور ماضی کی طرح کماحقہ وہ اپنی خدمات انجام نہیں دے پا رہے ہیں۔لیکن انصاف کے ترازو کے ایک پلڑے میں جب اہل مدارس کی کمیوں اور خامیوں اور دوسرے میں اس کی نافعیت و افادیت کو تولا جائے گا تو لامحالہ ان مدارس کی افادیت و نافعیت کا پلڑا بھاری پڑجائے گا۔
جب سالم لکڑیوں سے ٹیبل کرسی بنائی جاتی ہے تو لکڑیوں کا ایک حصہ آرے کی نوکوں میں پس کر برباد ہوجاتاہے لیکن اگر ایسا نہیں ہوگا تو آپ کو بیٹھنے کے لئے کرسی یا لیٹنے کے لئے پلنگ بھی نہیں مل سکے گی۔ٹھیک اسی طرح عمارت کی تعمیر میں اگر بعض سالم اینٹیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوں گی تو خوبصورت محل کی تعمیر بھی ممکن نہیں ہوسکےگی یا پھر درزی مہنگے کپڑوں کو کاٹ کاٹ کر اس پر سلائی نہیں کرےگا تو آپ عمدہ کپڑے اپنے جسموں پر زیب تن بھی نہیں کرسکیں گے۔تو کسی بھی چیز کا سوفیصد حصہ مکمل کارآمد کبھی نہیں ہوتا،کچھ نہ کچھ حصہ نکما یا ضائع ہوجاتا ہے۔لیکن ان ہی نکمے اور ضائع شدہ حصوں کی بدولت بقیہ حصے کارآمد و خوبصورت بناکرتے ہیں۔
الغرض اپنی تمام تر خامیوں اور کمیوں کے باوجود مدارس اسلامیہ ہی کا نظام ہے جن پر دین اسلام کی حفظ و بقاء اور نشر و اشاعت کا دارومدار ہے۔صفہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو جماعت جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی ومذہبی تحریک کا بیڑہ لےکر اٹھی تھی؛پندرہ سو سالہ طویل عرصے کے بعد بھی اس مقدس جماعت کا وہ عالم گیر مشن اگر زندہ ہے تو بخدا یہ ان ہی ٹوٹے پھوٹے مطعون مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام کی دین ہے۔
تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک میں جاری فرقہ پرستی کے عروج اور کمرتوڑ مہنگائی کے درمیان آخر کس طرح ہم موجودہ یا آنے والی اپنی نسل کے دین وایمان کا تحفظ کرسکتے ہیں؟تو جواب یہ ہے کہ اس کا واحد راستہ یہی ہے کہ ملک میں جال کی طرح پھیلے ہوئے چھوٹے بڑے مدارس اسلامیہ اور مکاتبِ دینیہ کو پوری قوت کے ساتھ سنبھالا دیا جائے،ان کی کمیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے آپس میں مل بیٹھ کر دور کیا جائے،ان کی تعمیر وترقی میں اپنا موثر کردار ادا کیا جائے،ان سے وابستہ علماء و منتظمین کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کے زخموں پر ایک شفیق ڈاکٹر کی طرح مرہم پٹی کی جائے،انہیں مایوسیوں کے دلدل سے باہر نکالا جائے،ان کی بھرپور حمایت و حوصلہ افزائی کی جائے اور ادارے کے ساتھ ان کی ذاتی ضروریات تک کا خیال کرتے ہوئے ان کے ساتھ داد و دہش اور عزت و تکریم کا معاملہ کیا جائے۔آخر ا ہلِ ثروت اپنے گھربار کی ایک ایک شادی پر لاکھوں کروڑوں خرچ کرسکتے تو مہمانانِ رسول اور وراثت نبوی کے علم برداروں پر اپنا سینہ کشادہ کیوں نہیں کرسکتے!!!
رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رخصت پذیر ہے،جلد ہی دوسرا عشرہ سایہ فگن ہونے والا ہے اور پھر تیسرا عشرہ بھی آجائے گا اور یوں رمضان المبارک ایک سال کے لئے ہم سے پھر رخصت ہوجائےگا۔کل کو کون زندہ رہے گا اور کس کو چار لوگ مل کر قبرستان میں دفن کرآئیں گے۔کل تو کل ہے پل کی خبر نہیں ہے۔قبل اس کے کہ ہم کف افسوس ملیں دیگر تمام تر عبادات کے ساتھ مدارس اسلامیہ اور ان سے وابستہ علماء کرام،ائمہ عظام و حفاظ کرام کے ساتھ خصوصی شفقت و مروت کا ایسا مظاہرہ کرلیں کہ خدا بھی خوش ہوجائے اور جب روضہ رسول میں ہمارے ان خوبصورت اعمال کی پیشی ہو تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارکہ بھی ہم سے خوش ہو جائے!