ماہنامہ الفاران
ماہِ رمضان المبارک - ۱۴۴۳
زکوٰۃ کے مصرف کی تحقیق کے بغیر ادائیگی، مال میں بے برکتی کا سبب: مستند حوالوں کیساتھ ایک تحقیقی مقالہ
حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش، سرپرست :ماہنامہ الفاران
اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی حضرت محمدﷺ کے احکامات کی پیروی، کفر اورگمراہی سے دنیا کو بچانے والی سب سے بڑی تحریک دنیا میں مدارس اسلامیہ کی شکل میں ہے اگربغور دیکھا جائے تو دین کی تبلیغ اور اسلا م کے احیا ء و سربلندی کے لیے تمام تنظیمیں اور تحریکیں مدارس اسلامیہ ہی سے غذ ا حاصل کر رہی ہیں۔ اس لئے کہ یہ اسلامی احکامات قرآن وحدیث کی تعلیم وتحقیق کا مخزن اور گہوار ہ ہے۔ اس وجہ سے اسکی بنیا د کا استحکام ملت اسلامیہ کادینی اور ملی فریضہ ہے۔جس میں وقتی عطایا ت،زکوٰۃ و صدقات سے اسکی ضروریات کی کفالت کرنا ہر امتی کا فرض منصبی ہے۔
زکوٰۃ کی اگر صحیح اور ایمان دارانہ ادائیگی ہو تو ملت میں کوئی غریب اور دست گر نہ رہے گااگر قرآن و حدیث کی تعلیم کی اہمیت و فرضیت ملت محسوس کرلے تو ہر تعلیمی ادارہ سکون و اطمینان سے اپنے نظام تعلیم اورتبلیغ بحسن وخوبی انجام دے سکے گا۔
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ خدانے زکوٰۃ کی تقسیم کو نبی یا غیر نبی کسی کی مرضی پر نہیں چھوڑ ا بلکہ بذ ات خود اسکے مصارف متعین کردی ہیں جو آٹھ ہیں (۱) فقراء (جن کے پا س کچھ نہ ہو) (۲) مساکین (جن کو بقدر حاجت میسر نہ ہو) (۳)”عاملین“جو اسلامی حکومت کی طرف سے تحصیل صدقات وغیر ہ کے کاموں پر مامور ہو ں (۴)مؤلفۃ القلوب (جن کے اسلام لانے کی امید ہو یا اسلام میں کمزور ہوں وغیر ذالک من الانواع اکثر علماء کے نزدیک حضور ﷺکی وفات کے بعد یہ مَد نہیں رہی (۵) رقاب(غلاموں کے بدل کتابت اداکرکے آزادی دلائی جائے یا خرید کر آزاد کیئے جائیں، یا اسیر وں کا فدیہ دے کر رہا کرائے جائیں) (۶)”غارمین“جن پر کوئی حادثہ پڑ ا اور مقروض ہوگئے، یا کسی ضمانت وغیر ہ کے بار میں دب گئے (۷) سبیل للہ (جہاد وغیر ہ میں جانے والوں کی اعانت کی جائے۔ (۸) ابن السبیل(یعنی مسافر جو حالت سفر میں مالک نصاب نہ ہو گو مکان پر دولت رکھتاہو۔ ”حنفیہ کے یہاں تملیک ہر صورت میں ضروری ہے اور فقر شرط ہے“
حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کا بیان ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنا کھانا پر ہیز گاروں کو کھلایا کرو اور اپنا لباس ایمان والوں کو دیا کرو! جب تو نے اپنا کھانا کسی پر ہیز گا ر کو کھلایا اور اس کے دنیا وی امور میں اس کا معاون بنا توجو کچھ وہ عمل کرے گا اس میں توبھی شریک ہوگیا اور اس کے اجر میں سے کچھ بھی کمی نہیں ہوگی کیونکہ تو نے اس کے مقصود (یعنی عبادت پوری کرنے) میں اس کی مدد کی اور اس کے (فکر معاش کے) بوجھ کو اس سے اٹھا لیا اور (اس کا پیٹ بھر دینے کی وجہ سے) اس کے قدم حق تعالیٰ کی طرف بڑھوائے اور جب تونے اپنا کھانا ریاکا ر، نافرمان،منافق کو کھلایا اور اس کے دنیوی معاملات میں اس کی مدد کی توجو کچھ وہ بد اعمالیاں کرے گا اس میں توبھی شریک ہوگیا اور اس کی سزامیں کچھ بھی کمی نہ ہوگی کیونکہ (اس کو روٹی کھلاکر) حق تعالیٰ کی نافرمانی میں تو اس کا مدد گار بناہے پس اس کا اثر بد تیری طرف بھی لوٹے گا (الفتح الربانی ص ۰۵۲،۱۵۲)
احیا ء العلوم میں امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مبارک ہمیشہ اپنی زکوٰۃ و خیرات اہل علم پر ہی خرچ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں درجہ ئ نبوتکے بعد علماء کے درجہ سے افضل کسی کا مرتبہ نہیں دیکھتاہوں اگر اہل علم تنگدست ہو گئے تو دینی خدمت نہ ہوسکے گی! نتیجتاًامور دینیہ میں نقص آجائے گا لہٰذا علمی خدمت کے لئے ان کو فارغ و بے فکر کردینا سب سے بہتر ہے۔
احیاء العلوم میں ہے کہ زکوٰۃ وغیرہ دینے کے لئے ایسے دیندار لوگوں کو تلاش کرے جو دنیاکی طمع و طلب ترک کر کے تجارت آخرت میں مشغول ہوں۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد پا ک ہے تم پاک غذا کھاؤ اور پاک آدم زاد کو کھلاؤ! نیز آنحضرت ﷺ کا ارشاد پاک ہے ”کار خیر کرنے والے ہی کو اپنا کھانا کھلا ؤ! کہ وہ لوگ ا للہ کی طرف متوجہ ہیں جب وہ لوگ تنگدست ہوتے ہیں تو ان کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ لہٰذ ا ایک شخص کومتوجہ الی اللہ کر دینا یہ بہت افضل ہے ایسے ہزارہا اشخاص کو دینے سے جن کی توجہ دنیا ہی کی طر ف ہوتی ہے پرہیز گاروں میں سے بھی ایسے اہل علم کو خاص کردیں جو اپنے علم سے لوجہ اللہ لوگوں کو نفع پہونچارہے ہیں اور مذہب اسلام کی پختگی اور اشاعت علوم دینیہ اور تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ علم تمام عبا دتوں سے افضل عبا دت ہے!
حضرت امام ربانی مجدد ی الف ثانی شیخ احمد سرہندی ؒ نے فرمایا ہے، واقعہ یہ ہے کہ علوم دینیہ کے طلبہ کو مقدم رکھنے میں شریعت کی ترویج اور اشاعت ہے کیونکہ حاملان شریعت یہی طلبہ ہیں انہیں کے ذریعہ ملت مصطفویہ ظہور فرماہے قیامت کے دن شریعت ہی کی پوچھ ہوگی۔
فضائل العلم و العلماء میں حدیث منقول ہے کہ جس نے کسی طالب علم کو ایک درہم دیا تو گو یا اس نے راہ خدا میں جبل ِ اُحد کے مثل بہتر ین سونا خیرات کیا۔ مجالس الابرابر میں لکھا ہے کہ زکوٰۃ پر ہیز گار کو دوکہ وہ اس امداد سے امداد فی العبادۃ حاصل کرتاہے تو اس کو دینے والے بھی ان کی عبا دت کے ثواب میں شریک بن جائیں گے۔یازکوٰۃ عالم دین کو دوکہ عالم کی خدمت کرنا اس کے علم میں امداد کرناہے اور علم دین افضل العبادات و اشرف ہے۔ یہاں تک کہ اگلے بعض بزرگ اپنی زکوٰۃ اہل علم کو ہی دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ مقام نبوت کے بعد علماء کے مرتبہ سے بڑا رتبہ کسی کا نہیں۔ زکوٰۃ اہم فریضہ ہے اسلئے اس کی ادا ئیگی نہایت فکر و احتیاط سے مسائل کی روشنی میں کرنا چاہئے جس طر ح دوسرے فرائض میں وقت، جگہ اور مہینے کی رعایت ہوتی ہے اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی کیلئے اپنی آمدنی کی تمام شکلوں اور مصرف کی صحیح جگہوں کو تلاش کرنا ضروری ہے۔
امیر تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب ؒ کا فرمان ہے”زکوٰۃ دینے والے پر انکی تلاش ضروری ہے جن پر خرچ کی جائے جیسے نماز پڑھنے والے پر پاک پانی کا تلاش کرنا ضروری ہے۔
آج کل مال والے پیشہ ور مانگنے والوں کو زکوٰۃ دیکر سمجھ لیتے ہیں کہ زکوٰۃ اداہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ زکوٰۃ اداکرنے کے بعد مالوں میں بر کت نہیں حالانکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ زکوٰۃ سے مال میں برکت ہوتی ہے بس جو لوگ زکوٰۃ اداکرنے کے بعد اپنے مال میں برکت نہ دیکھیں ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ زکوٰۃ صحیح جگہ نہیں دی گئی اور انہوں نے صحیح جگہ کی تلاش نہیں کی“۔
زکوٰۃ کی اگر صحیح اور ایمان دارانہ ادائیگی ہو تو ملت میں کوئی غریب اور دست گر نہ رہے گااگر قرآن و حدیث کی تعلیم کی اہمیت و فرضیت ملت محسوس کرلے تو ہر تعلیمی ادارہ سکون و اطمینان سے اپنے نظام تعلیم اورتبلیغ بحسن وخوبی انجام دے سکے گا۔
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ خدانے زکوٰۃ کی تقسیم کو نبی یا غیر نبی کسی کی مرضی پر نہیں چھوڑ ا بلکہ بذ ات خود اسکے مصارف متعین کردی ہیں جو آٹھ ہیں (۱) فقراء (جن کے پا س کچھ نہ ہو) (۲) مساکین (جن کو بقدر حاجت میسر نہ ہو) (۳)”عاملین“جو اسلامی حکومت کی طرف سے تحصیل صدقات وغیر ہ کے کاموں پر مامور ہو ں (۴)مؤلفۃ القلوب (جن کے اسلام لانے کی امید ہو یا اسلام میں کمزور ہوں وغیر ذالک من الانواع اکثر علماء کے نزدیک حضور ﷺکی وفات کے بعد یہ مَد نہیں رہی (۵) رقاب(غلاموں کے بدل کتابت اداکرکے آزادی دلائی جائے یا خرید کر آزاد کیئے جائیں، یا اسیر وں کا فدیہ دے کر رہا کرائے جائیں) (۶)”غارمین“جن پر کوئی حادثہ پڑ ا اور مقروض ہوگئے، یا کسی ضمانت وغیر ہ کے بار میں دب گئے (۷) سبیل للہ (جہاد وغیر ہ میں جانے والوں کی اعانت کی جائے۔ (۸) ابن السبیل(یعنی مسافر جو حالت سفر میں مالک نصاب نہ ہو گو مکان پر دولت رکھتاہو۔ ”حنفیہ کے یہاں تملیک ہر صورت میں ضروری ہے اور فقر شرط ہے“
حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کا بیان ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنا کھانا پر ہیز گاروں کو کھلایا کرو اور اپنا لباس ایمان والوں کو دیا کرو! جب تو نے اپنا کھانا کسی پر ہیز گا ر کو کھلایا اور اس کے دنیا وی امور میں اس کا معاون بنا توجو کچھ وہ عمل کرے گا اس میں توبھی شریک ہوگیا اور اس کے اجر میں سے کچھ بھی کمی نہیں ہوگی کیونکہ تو نے اس کے مقصود (یعنی عبادت پوری کرنے) میں اس کی مدد کی اور اس کے (فکر معاش کے) بوجھ کو اس سے اٹھا لیا اور (اس کا پیٹ بھر دینے کی وجہ سے) اس کے قدم حق تعالیٰ کی طرف بڑھوائے اور جب تونے اپنا کھانا ریاکا ر، نافرمان،منافق کو کھلایا اور اس کے دنیوی معاملات میں اس کی مدد کی توجو کچھ وہ بد اعمالیاں کرے گا اس میں توبھی شریک ہوگیا اور اس کی سزامیں کچھ بھی کمی نہ ہوگی کیونکہ (اس کو روٹی کھلاکر) حق تعالیٰ کی نافرمانی میں تو اس کا مدد گار بناہے پس اس کا اثر بد تیری طرف بھی لوٹے گا (الفتح الربانی ص ۰۵۲،۱۵۲)
احیا ء العلوم میں امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن مبارک ہمیشہ اپنی زکوٰۃ و خیرات اہل علم پر ہی خرچ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں درجہ ئ نبوتکے بعد علماء کے درجہ سے افضل کسی کا مرتبہ نہیں دیکھتاہوں اگر اہل علم تنگدست ہو گئے تو دینی خدمت نہ ہوسکے گی! نتیجتاًامور دینیہ میں نقص آجائے گا لہٰذا علمی خدمت کے لئے ان کو فارغ و بے فکر کردینا سب سے بہتر ہے۔
احیاء العلوم میں ہے کہ زکوٰۃ وغیرہ دینے کے لئے ایسے دیندار لوگوں کو تلاش کرے جو دنیاکی طمع و طلب ترک کر کے تجارت آخرت میں مشغول ہوں۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد پا ک ہے تم پاک غذا کھاؤ اور پاک آدم زاد کو کھلاؤ! نیز آنحضرت ﷺ کا ارشاد پاک ہے ”کار خیر کرنے والے ہی کو اپنا کھانا کھلا ؤ! کہ وہ لوگ ا للہ کی طرف متوجہ ہیں جب وہ لوگ تنگدست ہوتے ہیں تو ان کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ لہٰذ ا ایک شخص کومتوجہ الی اللہ کر دینا یہ بہت افضل ہے ایسے ہزارہا اشخاص کو دینے سے جن کی توجہ دنیا ہی کی طر ف ہوتی ہے پرہیز گاروں میں سے بھی ایسے اہل علم کو خاص کردیں جو اپنے علم سے لوجہ اللہ لوگوں کو نفع پہونچارہے ہیں اور مذہب اسلام کی پختگی اور اشاعت علوم دینیہ اور تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ علم تمام عبا دتوں سے افضل عبا دت ہے!
حضرت امام ربانی مجدد ی الف ثانی شیخ احمد سرہندی ؒ نے فرمایا ہے، واقعہ یہ ہے کہ علوم دینیہ کے طلبہ کو مقدم رکھنے میں شریعت کی ترویج اور اشاعت ہے کیونکہ حاملان شریعت یہی طلبہ ہیں انہیں کے ذریعہ ملت مصطفویہ ظہور فرماہے قیامت کے دن شریعت ہی کی پوچھ ہوگی۔
فضائل العلم و العلماء میں حدیث منقول ہے کہ جس نے کسی طالب علم کو ایک درہم دیا تو گو یا اس نے راہ خدا میں جبل ِ اُحد کے مثل بہتر ین سونا خیرات کیا۔ مجالس الابرابر میں لکھا ہے کہ زکوٰۃ پر ہیز گار کو دوکہ وہ اس امداد سے امداد فی العبادۃ حاصل کرتاہے تو اس کو دینے والے بھی ان کی عبا دت کے ثواب میں شریک بن جائیں گے۔یازکوٰۃ عالم دین کو دوکہ عالم کی خدمت کرنا اس کے علم میں امداد کرناہے اور علم دین افضل العبادات و اشرف ہے۔ یہاں تک کہ اگلے بعض بزرگ اپنی زکوٰۃ اہل علم کو ہی دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ مقام نبوت کے بعد علماء کے مرتبہ سے بڑا رتبہ کسی کا نہیں۔ زکوٰۃ اہم فریضہ ہے اسلئے اس کی ادا ئیگی نہایت فکر و احتیاط سے مسائل کی روشنی میں کرنا چاہئے جس طر ح دوسرے فرائض میں وقت، جگہ اور مہینے کی رعایت ہوتی ہے اسی طرح زکوٰۃ کی ادائیگی کیلئے اپنی آمدنی کی تمام شکلوں اور مصرف کی صحیح جگہوں کو تلاش کرنا ضروری ہے۔
امیر تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب ؒ کا فرمان ہے”زکوٰۃ دینے والے پر انکی تلاش ضروری ہے جن پر خرچ کی جائے جیسے نماز پڑھنے والے پر پاک پانی کا تلاش کرنا ضروری ہے۔
آج کل مال والے پیشہ ور مانگنے والوں کو زکوٰۃ دیکر سمجھ لیتے ہیں کہ زکوٰۃ اداہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ زکوٰۃ اداکرنے کے بعد مالوں میں بر کت نہیں حالانکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ زکوٰۃ سے مال میں برکت ہوتی ہے بس جو لوگ زکوٰۃ اداکرنے کے بعد اپنے مال میں برکت نہ دیکھیں ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ زکوٰۃ صحیح جگہ نہیں دی گئی اور انہوں نے صحیح جگہ کی تلاش نہیں کی“۔