تُویوکرین کا انسان، میں فلسطین کا مسلمان۔
حضرت مولانا منصوراحمدحقانی صاحب، مہتمم :دارالعلوم حقانیہ بگڈھرا ،ارریہ بہار۔
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں۔ کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہوکہ ہار کا سوگ۔ زندگی میتوں پہ روتی ہے
موجودہ دور سوشل میڈیا کا ہے اور اس نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، آئے دن پورے اقوامِ عالم کی نقل و حرکت سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہتی ہیں، دنیا کے ایک کونے میں کیا ہورہاہے منٹوں میں نہیں سیکنڈوں میں نہیں اسی وقت دنیا کے دوسرے کونے تک خبر پہونچ جاتی ہیں، اسلئے اب کوئی خبر ایسی نہیں ہے جو کہ ایک دوسرے سے مخفی ہو، چند ماہ سے یوکرین اور روس کے درمیان جو جنگ جاری ہے شاید کہ دنیا کا کوئی ایسا غافل شخص ہوگا جو کہ اس سے ناواقف ہوگا، ساری دنیا نے دیکھا کہ یہ جنگ دونوں ممالک کے فوجیوں کے مابین چلتے چلتے عام شہریوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے لگاہے تاہم ملک بھر میں محب وطن یوکرینی باشندے اپنے اپنے طور پر تیاریاں کر رہے تھے اور یہ امید کر رہے تھے کہ ان کی اجتماعی کوشش ماسکو کی فوجی طاقت کے مقابلے میں کچھ نہ کچھ رنگ لائے گی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے عام شہریوں نے روسی فوجیوں کے حملے کا جواب دینے لگ گیا اور یوکرینی صدر نے اپنے عام شہریوں کو ہتھیار تقسیم کرنا شروع کردیا اور یوکرینی صدر بذات خود اپنے مشن پر کاربند ہیں اور وہ یوکرین کے لوگوں کی ثابت قدمی کے ویڈیو پیغامات بھیج رہے ہیں اور ڈٹے رہنے اور لڑنے کا عہد کر رہے ہیں۔
فی الوقت حال یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کے لئے کار پارکنگ، تہہ خانے، میٹرو اسٹیشن ہی ان کے گھر ہیں۔ یوکرینی باشندوں کی روزمرہ کی زندگی اُلجھ کر رہ گئی ہے، دراصل ایک خود مختار قوم پر حملہ جو اکیسویں صدی کی تاریخ کا ایک سنگین مسئلہ ہے، جو ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہو رہا ہے۔ جس کی پوری دنیا مذمت کررہی ہیں اور مذمت ہونی بھی چاہیئے مگر مذمت کے نام پر جو دنیا والوں کا متعصبانہ نظریہ ہے وہ ہر زاویے سے غلط ہے، کیونکہ ہر آدمی یہ تو کہہ رہا ہے کہ یوکرین میں مرنے والے شہری بے گناہ ہیں یوکرینی پر جو ظلم ہورہاہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ بھلے لوگ چاہے کچھ بھی نہ کر پائے لیکن یہ ضرور کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم یوکرینیوں کے ساتھ ہیں اب تو وہاں کے فوجی، پولیس، طبی عملے اور ہتھیار اٹھانے والے شہریوں کی تعریف کی جارہی ہے۔ مگر اس کے مد مقابل اپنی ہی سرزمین اور دین و مذہب کیلئے شہید ہونے والے فلسطینی باشندے دنیا کی نظروں میں دہشت گرد بن جاتے ہیں۔ یہ دنیا کی دوہری پالیسی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ یوکرین کے باشندے اپنی سلامتی کے لئے ہتھیار اٹھا سکتے ہیں لیکن اگر افغانستان اور فلسطین کے لوگ ہتھیار اٹھا لیں تو وہ جہادی اور دہشت گرد بن جاتے ہیں۔ مجھے اس سے کوئی اعتراض نہیں ہے کہ دنیا والے یوکرین میں مرنے والوں کی ماتم کریں مگر افسوس تو یہ ہے کہ یوکرینی انسان ہیں اور فلسطینی مسلمان ہیں۔ بس اسی غلط نظریات نے اقوامِ عالم کو دو حصوں منقسم کردیاہے، یہ الگ بات ہے کہ فی الوقت یوکرین اور روس دنوں برسر پیکار ہیں۔ روس اپنی ایٹمی اور مادی طاقت کے ساتھ حملہ آور ہے اور پوری طاقت کے ساتھ یوکرین کو ہضم کرنے کی سعی کررہا ہے اس کے مقابل میں یوکرین بھی پوری جواں مردی کے ساتھ میدان میں ڈٹا ہوا ہے، ان کے پاؤں بھی اکھڑ نہیں رہے ہیں۔ روس کی اس من مانی اور ہٹ دھرمی کے نتیجے میں ہزاروں لوگ پچھلے کئی روز سے جنگ کے مہیب سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہرطرف خوف و دہشت کا ماحول ہے جس کی چہار جانب سے مذمتیں ہو رہی ہیں اور مصیبت کی اس گھڑی میں بیشتر لوگ یوکرین کی حمایت میں ہیں۔ شوشل میڈیا سے لیکر عالمی میڈیا تک یوکرین کی حمایت میں ہے ہر سمت اس انسانیت کشی پر طعن و تشنیع ہورہا ہے اورپورا عالم سراپا احتجاج بنا ہوا ہے لوگوں کا کہنا ہیکہ یہ انسانیت کے منافی عمل ہے، معصوموں کا کوئی قصور نہیں ہے، اور کسی بھی ملک کو با اختیار ہوکر چلنا اس کا حق ہے اور یوکرین کے لوگ جو اپنے دفاع میں ہتھیار لیث کھڑے ہیں، ہرچہار جانب ان کی واہ واہی اور ستائش ہو رہی ہے اور اس کے صدر کی بھی بڑی تعریفیں ہورہی ہیں۔ ضرور ہونی چاہیئے کیونکہ حکمران تو وہی ہے جو ہر محاذ پر صفحہ اول میں آکرسینہ سپر ہوراور اپنے فوج کی قیادت کرے۔ یقیناً یہ مسند نشیں لوگوں کے اقتدار اور انا کی جنگ ہے اس میں ملک میں رہنے والے باشندوں کی کوئی غلطی نہیں ہے انسانیت سوزی اور مردم کشی کا یہ کھیل یہیں رکنا چاہیئے اور ہم بھی انسانیت کے رشتے سے اس بات کے گواہ ہیں۔ کیوں کہ جنگیں معصوم بچوں کو یتیم ، خواتین کو بیوہ اور ماؤں کو بے سہارا بنا دیتی ہیں،جن سے بچنا اور بچانا عظیم انسانیت ہے اور عالم انسانیت کوجنگ عظیم سے بچانا سب سے بڑی انسانیت ہے،۔
لیکن یاد ہونا چاہیے کہ اسی بر بریت کا مظاہرہ فلسطینی مسلمان کے ساتھ بھی کیا گیا تھا یہی درندگی ان کے ساتھ بھی روا رکھی گئی تھی ان کے سامنے بھی توپوں کے دہانے کھول دئیے گئے تھے اور ان کے بچے بھی اسی طرح یتیم ہو رہے تھے مگر کسی نے ایک لفظ نہیں کہا تھا بلکہ پوری دنیا اسرائیلی بربریت پر خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ ان مظلوم فلسطینیوں کا مطالبہ بھی ان یوکرین کے لوگوں سے کچھ مختلف نہیں تھا جس طرح یہ لوگ اپنی سرحد میں مداخلت سے چیں بہ جبیں ہیں اسی طرح ان فلسطینی مسلمان کا مطالبہ تھا کہ ان کی مقبوضہ مسجد اور شعائر کو انہیں واپس کردیا جائے مگر دونوں جگہ پر عالمی برادری کا رویہ مختلف ہی نہیں بلکہ منافقانہ رہا ایک جگہ ایک ہی چیز بربریت نظر آئی اور یہی چیز دوسری جگہ روا سمجھی گئی۔کشمیریوں کا مطالبہ کیا تھا آخر وہ بھی تو اپنی زمین کی آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے اور ان کی بھی جنگ اسی بات کو لیکر تھی کہ ان کے ساتھ بھی انسان اور انسانیت جیساسلوک کیا جائے ، انہیں بھی اس خطے میں سکون سے رہنے دیا جائے مگر ان کی آواز اور ان کی آہ وبکا کو دوسرے نظریے سے دیکھاجانے لگا ان کو دہشت گرد کہہ کر مارا گیا اور خود کو امن کا علمبردار کہنے والا ادارہ” اقوام متحدہ” اسے آج تک اس کا اپنا حق نہیں دلا سکا۔ آج پورا یوکرین اپنی حفاظت کے لئے ہتھیار سے لیث کھڑا ہے اور کھلے عام اسلحہ سازی کا ویڈیو بھی دیکھنے میں آرہا ہے، جس کی بڑے خوبصورت کیپشن کے ساتھ خوب پذیرائی ہورہی ہے اور ان کے اس عمل کی ستائش بھی خوب جم کر کی جارہی ہیں، مگر یاد کیجئے! جب فلسطینیوں نے ٹینکوں کے مقابل میں تیر آزمائی کی ، توپوں کا مقابل معمولی مشعلوں سے کیا تو ساری دنیا نے ان کو دہشت گردی سے تعبیر کیا ، ساری دنیا کا چینل اسے توپوں سے زیادہ پاور فل باور کرانے لگا اور ان کو پوری دنیا نے دہشت گرد اور فسادی کہا۔ جب کہ دیکھا جائے تو جس چیز کے لئے یہ یوکرینی لڑ رہے ہیں وہی کام فلسطینی لوگوں نے کیا تھا مگر ایک کی پذیرائی ہوئی اور ایک کی رسوائی۔ یوکرینی صدر جب ہتھیار لے کر میدان میں آیا تو اسے بہادر کہا گیا مگر یہی کام جب طالبانی لوگوں نے اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے کیا تو ساری دنیا نے اسے کٹرتا اور مذہبی جنون کا نام دیا ۔
یہی کام جب مسلم حکمرانوں نے کیا تو اسے کٹر کہا گیا اور اسے نفرتی عینک سے دیکھا گیا اور ایک غلط تصویر پیش کی گئی آخر یہ دوغلاپن اور منافقانہ رویہ کیوں؟ اس عالمی حادثے نے سارے سیکولر ، مصنوعی انصاف پسندلوگوں کے چہرے سے منافقت کا نقاب اتار دیا ہے اور ان انصاف کے علمبرداروں کا منافقانہ کردار اور دوہری پالیسیاں سے کھل کر واضح ہوگئی ہیں۔ میں ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں مغربی میڈیا یہ کہہ رہی تھی کہ یوکرینی کو کیوں مار رہے ہو! وہ افغانی، عراقی یا فلسطینی تھوڑے ہے' بلغاریہ کے وزیراعظم کے مطابق یوکرین کی پناہ گزین ترقی یافتہ اور ذہین ہیں مشرقی وسطی کے پناہ گزینوں کی طرح مشکوک نہیں ہیں یعنی ان تہذیب یافتہ ملکوں کے لوگوں کے مطابق یوکرینی لوگ انسان ہیں باقی اور ممالک میں مسلمان ہے' جن ممالک میں مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں وہاں تو شیطانی سلوک جائز ہے۔ میرے حساب سے اس سے زیادہ بدتہذیب لوگ ہو ہی نہیں سکتے جو قوم پرستی اور نسل پرستی کے علمبردار ہوں، خون کو بھی نسل کے ترازو میں تولنے والوں کو کون بتائے کہ:-
خون اپنا ہو یا پرایا ہو۔ نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو یامغرب میں۔ امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پہ گریں کہ سرحد پر۔ روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ غیروں کے۔ زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
جنگ کہیں بھی ہو، جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے، بلکہ جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے اور جنگ تو ڈھیر سارے مسئلے پیدا کرتی ہیں۔ اس لئے جہاں تک ہو سکے جنگ سے سے گریز کرنا چاہیئے۔ جنگ مشرق میں ہو یا مغرب میں اس سے امن عالم مجروح ہوتاہےاور جنگ میں اپنے مریں یا پرائے، خون تو انسان ہی کا بہتا ہے اور بچی ہوئی زندگیاں ان میتوں پر روتی ہیں۔