ماہنامہ الفاران
ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۳
محرم الحرام کا مہینہ! شرعی حیثیت، احکامات
حضرت مولانا ومفتی محمد اسجد صاحب، استاد حدیث و تفسیر، مدرسہ فیضان رحیمی، مرزاپور پول،ضلع سہارنپور
نئے ہجری سال کی ابتدا مدینہ منورہ کی طرف ہجرت ِ نبوی سے لے کر اب تک چودہ سو چھتیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے، چودہ سو سینتیسواں سال شروع ہو چکا ہے۔ محرم الحرام اسلامی تقویم ہجری کا پہلا مہینہ ہے، کتنے ہی تعلیم یافتہ ، دیندار لوگ ایسے ہیں جنہیں اسلامی تقویم کا علم ہی نہیں، ان سے اسلامی مہینوں کے نام معلوم کر لیں وہ آپ کو نہیں سنا سکیں گے، ان سے روزانہ کی اسلامی تاریخ معلوم کی جائے تو وہ نہیں بتلا پائیں گے۔
جب کہ اس کے برخلاف شمسی تقویم، اس کے مہینوں کے نام اور تاریخ ہرکسی کومعلوم ہوتی ہے۔ کسی بھی دن کسی سے بھی پوچھ لیں کہ آج کیا تاریخ ہے؟ تو فوراً بتا دیں گے۔ جب شمسی سال کے پہلے مہینے جنوری کی ابتدا ہوتی ہے تو’’نیوائیرنائٹ ‘‘پر وہ خوشیاں بھی مناتے ہیں، خوب ہلّہ غلّہ کرتے ہیں، گویا اس طریقے سے وہ نئے سال کاآغاز کرتے ہیں۔ اس مقام پر ہم نے غور وفکر یہ کرنا ہے کہ ’’نیو ائیر‘‘کی اس طرز پر ابتدا ہم نے کہاں سے لی؟! ہمارے لیے تو ’’نیوائیر‘‘ کی ابتدا محرم الحرام کے بابرکت مہینہ سے شروع ہوتی ہے، اور چونکہ ہم مسلمان زندگی گزارنے کے طور طریقوں کے معاملے میں مستقل ایک کامل تہذیب کے مالک ہیں،اس لیے ہمیں اپنی زندگی کی راہ ورسم میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر بھکاری پن اختیار کرنا مسلمان کی مسلمانیت کے خلاف ہے، ہمیں کسی کے در پر جھکنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہم تو خود ساری دنیاکوتہذیب وشائستگی کے آداب وطریقے سکھانے والے ہیں۔ نئے مہینے کے استقبال کا اسلامی طریقہ ’’نئے سال ‘‘کی ابتدا ہو یا ’’نئے مہینے ‘‘کی، شریعت میں جب بھی یہ (’’نئے سال ‘‘ یا ’’نئے مہینے ‘‘کا) لفظ بولا جائے گا اس سے مراد اسلامی مہینہ ہی ہوگا، نہ کہ شمسی مہینہ۔ چنانچہ اس مہینے کی ابتدا کا مسنون طریقہ شریعت کی طرف سے صرف یہ سامنے آتا ہے کہ مہینے کے اختتام پر نئے مہینے کے چاند کو دیکھنے کا اہتمام کیا جائے، یہ عمل مسنون ہے اور جب چاند نظر آجائے تو نیا چاند دیکھنے کی دعا بھی پڑھی جائے، یہ بھی مسنون ہے۔ اس مسنون طریقے کے ہی اپنانے میں اور دعاؤں کا اہتمام کرنے میں برکت، حفاظت اورثواب ہے۔ ہمیں فضول قسم کی رسومات اور خرافات سے بچتے ہوئے اسی کااہتمام کرکے سچے مسلمان اور محب النبی ہونے کاثبوت دیناچاہیے۔امام ابن السنی نے مہینہ کی ابتدا کے بارے میں آپ کی سنت وعادت شریفہ کایوںذکرفرمایاہے : ’’إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا رأی الھلالَ قال: ’’اللّٰھم اجعلہ ھلال یمنٍ و برکۃٍ۔‘‘ (عمل الیوم واللیلۃ لابن السنیؒ، ص:۵۹۶، رقم الحدیث: ۶۴۱، مکتبۃ الشیخ، کراچی) ترجمہ:’’حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی رات کے چاند کو دیکھتے تو یوں دعا مانگتے: اے اللہ! ہمارے لیے اس چاند کوخیرو برکت والا بنادے ۔‘‘
ایک دوسری روایت میں اس وقت یہ دعا پڑھنے کاذکر ہے : ’’ أللّٰھم أَھِلَّہٗ علینا بالیُمْنِ والإِیْمَانِ والسَّلامَۃِ والإِسلامِ، ربِّیْ ورَبُّکَ اللّٰہ‘‘۔ (مسند أحمد بن حنبل، مسند أبی محمد طلحہ بن عبید اللہ، رقم الحدیث: ۱۳۹۷،ج: ۲،ص:۱۷۹، دارالحدیث، القاھرۃ) ترجمہ:’’ اے اللہ! اس پہلی رات کے چاند کو امن وسلامتی اورایمان واسلام کے ساتھ ہم پر طلوع فرما، (اے چاند! ) میرا اور تمہارا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے۔‘‘ ہمیں بھی مہینے کی ابتدا اُسی طرح کرنی چاہیے، جیسا کہ آپ کا طریقہ تھا ، تاکہ برکتیں اور رحمتیں حاصل ہوں ، چہ جائیکہ! ہم رسوم و بدعات سے ابتدا کریں ۔
اسلامی کیلنڈر استعمال کرنے کی اہمیت دوسری بات یہ کہ ہمیں چاہیے ہم اسلامی تقویم ہجری کے استعمال کی عادت ڈالیں، اپنے روز مرہ کے استعمال میں اس تقویم کو سامنے رکھیں، اگرچہ! دوسری تقویمات ، تاریخوں اورکیلنڈروں کااستعمال گناہ نہیں ہے، شرعاً اس کے اختیار کرنے میں بھی ممانعت نہیں ہے، لیکن شمسی تقویم کا ایسا استعمال کہ ہم اسلامی تقویم کو بالکلیہ بھلا ہی بیٹھیں، یہ کسی طرح درست نہیں، اس لیے کہ اسلامی تقویم ہجری کی حفاظت بھی مسلمانوںکافرض ہے اوراس کے استعمال میں ثواب ہے جس سے محروم نہیں ہوناچاہیے۔ نیز! اپنی شناخت اور اپنے امتیاز کو باقی رکھنابھی ایک غیرت مند مسلمان کے لیے بڑی اہمیت رکھتاہے، اس معاملے میں اس کی بہترشکل یہ ہے ۔ہم قمری تاریخ کے استعمال کوترجیحی بنیادوں پر دوسری تقویم کے مقابلے میں استعمال کریں، خدا نخواستہ اگر سب مسلمان اسلامی تقویم ہجری کو چھوڑ بیٹھیں اور بھلا دیں تو سب کے سب اللہ کے ہاں مجرم ٹھہریں گے، اس لیے کہ اسلام کی بہت ساری عبادات کا تعلق وربط اسی تقویم کے ساتھ ہے۔
حضرت حکیم الأمت اپنی تفسیر’’بیان القرآن ‘‘ میں ر قمطرازہیں: ’’ البتہ چونکہ احکام شرعیہ کامدار حساب ِقمری پرہے، اس لیے اس کی حفاظت ’’فرض علی الکفایہ‘‘ ہے، پس اگرساری امت دوسری اصطلاح کواپنا معمول بنالیوے، جس سے حساب ِقمری ضائع ہوجاوے (تو)سب گنہگار ہوں گے اوراگر وہ محفوظ رہے تودوسرے حساب کااستعمال بھی مباح ہے، لیکن خلافِ سنتِ سلف ضرور ہے اورحسابِ قمری کابرتنا بوجہ اُس کے فرض کفایہ ہونے کے لابُدَّ افضل واحسن ہے ۔‘‘(بیان القرآن، سورۃ التوبہ:۳۶، ج:۳،ص:۱۳۱، مکتبہ رحمانیہ، لاہور)
اسلامی سال کے اس پہلے مہینے کی اللہ کے ہاں بڑی قدر ہے، یہ عظمت والے مہینوں میں سے ہے، تاریخی روایات کے مطابق اس مہینے میں بہت سے عظیم الشان واقعات پیش آئے،احکامات کے اعتبار سے صحیح اور مستند احادیث سے جو امور سامنے آتے ہیں، وہ صرف دو ہیں: ماہِ محرم الحرام میں پہلا حکم اس ماہِ مبارک میں مطلقاً کسی بھی دن روزہ رکھنا رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ شمار ہوتا ہے، نیز!نو اور دس محرم یا دس اور گیارہ محرم کا روزہ رکھنا اور بھی زیادہ فضیلت کی چیز ہے، چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث میں واردہے :’’ أفضل الصّیام بعد رمضان شہر اللّٰہ المحرم، وأفضل الصّلاۃ بعد الفریضۃ صلٰوۃ اللیل‘‘۔ (صحیح مسلم،کتاب الصوم، باب فضل صوم المحرم، رقم الحدیث: ۲۰۲ ) ترجمہ:’’رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل اللہ کے مہینہ محرم کے روزے ہیں، اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل رات کی نماز(تہجد)ہے۔‘‘ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں : ’’حین صام رسول اللّٰہ یوم عاشوراء وأمر بصیامہٖ، قالوا: یا رسول اللّٰہ! إنہ یوم تُعظِّمہ الیہود والنصاری؟ فقال رسول اللّٰہ: ’’فإذا کان العام المقبل إن شاء اللّٰہ صُمنا الیوم التاسع، قال: فلم یأت العام المقبل حتی توفی رسول اللّٰہ‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب: أیّ یوم یصام فی عاشورائ؟ رقم الحدیث:۱۱۳۴،ج: ۲،ص:۷۹۷، دارالکتب العلمیہ ۔ـّّّّ ترجمہ:جب حضرت رسول اللہ نے عاشورا کے دن خود روزہ رکھا اورحضرات صحابہ کوروزہ رکھنے کاحکم فرمایا، تواِس پرحضرات صحابہ کرام نے عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسول ! اس دن کی تویہود ونصاریٰ بھی تعظیم کرتے ہیں؟ (غالباً یہ عرض کرنا مقصود ہو گا کہ روزہ رکھ کر تو ہم نے بھی اس دن کی تعظیم کی ، گویا ہم ایک عمل میں ان کی مشابہت اختیار کرنے لگے ) تواِس پرآ پ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر اللہ نے چاہا تو اگلے سال ہم نویں تاریخ کوبھی روزہ رکھیں گے‘‘۔ (اس طرح سے مشابہت کاشبہ باقی نہیں رہے گا)حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی آپ کا وصال ہوگیا ۔‘‘ اسی وجہ سے فقہاء کرامؒ فرماتے ہیں : صرف عاشورا کا روزہ نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے ساتھ ۹ یا ۱۱ محرم کاروزہ بھی ملا لیا جائے، تاکہ یہود کے ساتھ مشابہت سے بچ سکیں، اس نبوی تعلیم سے یہ بات سمجھ لینا چنداں مشکل نہیں کہ کسی کارِخیر میں بھی یہود سے مشابہت یا موافقت کو حضرت رسول اللہ نے پسند نہیں فرمایا، چہ جائیکہ ! دوسری عادات یا معاملات میں ان سے مشابہت کوقبول کرلیاجائے ! صحیح مسلم کی ہی ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش بھی زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے: ’’عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت: کانت قریش تصوم عاشوراء فی الجاہلیۃ، وکان رسول اللّٰہ یصومہٗ ، فلما ھاجر إلی المدینۃ صامہٗ وأمر بصیامہٖ، فلما فرض شھر رمضان، قال: من شاء صامہٗ ومن شاء ترکہٗ‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب صوم عاشورا، رقم الحدیث:۱۱۲۵،ج: ۲،ص:۷۹۲، دارالکتب العلمیۃ) ترجمہ: ’’حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے اور جناب رسول اللہ بھی روزہ رکھتے تھے، جب آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی ـتو وہاں بھی عاشورہ کاروزہ رکھا اورحضرات صحابہ کرام کوبھی روزہ رکھنے کاحکم فرمایا، پھر جب ماہ ِرمضان میں روزہ رکھنے کی فرضیت کاحکم آیا توآپنے لوگوں کو اختیار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’جوچاہے عاشورا کاروزہ رکھے، جوچاہے نہ رکھے ‘‘۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہواکہ ہجرت سے قبل بھی حضورکی اپنی عادت شریفہ روزہ رکھنے کی تھی اورہجرت کے بعد دوسروں کوبھی تاکید فرمائی تھی۔ ماہِ محرم الحرام میں دوسراحکم عاشورا کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے یا کسی بھی اعتبار سے وسعت کرنا،اس کی خاص فضیلت واردہے، چنانچہ حضرت ابن مسعود،حضرت ابوسعید خدری،حضرت ابوہریرہ اورحضرت جابر سے منقول ہے کہ جناب رسول اللہنے ارشاد فرمایا: ’’من وسَّع علی عیالہٖ فی یوم عاشورائ، وسع اللّٰہ علیہ السنۃ کلہا‘‘۔ (شعب الإیمان للبیہقی، کتاب الصیام، صوم التاسع والعاشر، ج: ۳،ص:۳۶۵) ترجمہ:’’جوشخص عاشورا کے دن اپنے گھروالوںپرخرچ کرنے میں وسعت وفراخی کرے گا، اللہ تعالیٰ ساراسال اس پر(رزق میں) وسعت فرمائے گا۔‘‘ اگرچہ اس حدیث کی اسنادی حیثیت پرکلام ہے، مگرمحدثین کی تصریحات کے مطابق ایسی روایات جو مختلف طرق سے مروی ہوں ، ان کی مختلف اسناد کی وجہ سے ان میں قوت پیداہوجاتی ہے ، اس لیے اس کو فضائل میں بیان کرنے پر کوئی بڑا اشکال باقی نہیں رہتا۔امام بیہقی اس مضمون کی روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’ھذہ الأسانید وإن کانت ضعیفۃ، فہی إذا ضم بعضہا إلی بعض، أخذت قوۃ، واللّٰہ أعلم‘‘۔ (شعب الإیمان للبیہقی، کتاب الصیام، صوم التاسع والعاشر،ج: ۳،ص:۳۶۵) ترجمہ:’’اگرچہ ان روایات کی سندوں میں ضعف ہے، لیکن ان میں مجموعی طورپراتنی بات ضرور پائی جاتی ہے کہ ان اسانید کو ملا لیا جائے تو قوّت کی شکل بن جاتی ہے۔‘‘ محرم الحرام میں سوگ کرنے کا حکم ایک اور چیز جس کا رواج عام طور پر بہت زیادہ ہو چکا ہے کہ یہ مہینہ غم کا مہینہ ہے، اس مہینے میں خوشی نہیں منانی چاہیے، کیوں؟! اس لیے کہ اس مہینے میں نواسۂ رسول حضرت حسین اور ان کے خاندان کے چھوٹوں اور بڑوں کو ظالمانہ طور پر نہایت بے دردی سے شہید کر دیا گیا، ان کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کے لیے غم منانا، سوگ کرنا اور ہر خوشی والے کام سے گریز کرنا ضروری ہے، سوچنا تو یہ ہے کہ ہمیں اس بارے میں شریعت کی طرف سے کیا راہنمائی ملتی ہے؟ اس بارے میں سب سے پہلے علامہ ابن کثیرکا ایک قول ملاحظہ کرتے ہیں : ’’فکل مسلمٍ ینبغی لہ أن یُحزنہٗ ھذا الذی وقع من قتلہ رضی اللّٰہ عنہ، فإنہ من سادات المسلمین وعلماء الصحابۃؓ، وابن بنت رسول اللّٰہ التی ھی أفضل بناتہ، وقد کان عابداً وشجاعاً وسخیا ، وقد کان أبوہ أفضل منہ، وھم لا یتخذون مقتلہ مأتَماً کیوم مقتل الحسینؓ، فإن أباہ قتل یوم الجمعۃ وھو خارج إلی صلاۃ الفجر فی السابع عشر من رمضان سنۃ أربعین، وکذالک عثمانؓ کان أفضل من علیؓ عند أھل السنۃ والجماعۃ، وقد قتل وھو محصور فی دارہٖ فی أیام التشریق من شھر ذی الحجۃ سنۃ ست وثلاثین، وقد ذُبح من الورید إلی الورید، ولم یتخذِ الناسُ یوم مقتلہ مأتمًا، وکذالک عمرؓ بن الخطاب، وھو أفضل من عثمانؓ وعلیؓ، قتل وھو قائم یصلی فی المحراب صلاۃ الفجر، وھو یقرأ القرآن، ولم یتخذ الناس یوم مقتلہ مأتما، ورسول اللّٰہ ﷺ سید ولد آدم فی الدنیا والآخرۃ، وقد قبضہ اللّٰہ إلیہ کما مات الأنبیاء قبلہ، ولم یتخذِ أحد یوم موتہٖ مأتما‘‘۔(البدایۃ والنھایۃ، سنۃ إحدی وستین، فصل: فی الإخبار بمقتل الحسین بن علی رضی اللہ عنہ، ج:۱۱، ص:۵۷۹،دار الھجر للطباعۃ والنشر والتوزیع) ’’ہر مسلمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ اس کو حضرت حسین کی شہادت کا واقعہ غمگین کر دے، اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے سردار اور اہلِ علم صحابہ میں سے تھے۔ آپ جناب رسول اللہ کی سب سے افضل لختِ جگر کے بیٹے یعنی آپ کے نواسے تھے، آپ عبادت کرنے والے، بڑے بہادر اور بہت زیادہ سخی تھے۔ آپ کے والد(حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ) آپ سے زیادہ افضل تھے، اُن کو چالیس ہجری سترہ رمضان جمعہ کے دن جب کہ وہ اپنے گھر سے نمازِ فجر کے لیے تشریف لے جا رہے تھے‘ شہید کر دیاگیا، اسی طرح حضرت عثمان غنی اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے افضل ہیں، جنہیں چھیالیس ہجری عید الاضحی کے بعد انہی کے گھر میں شہید کر دیا گیا، لیکن لوگوں نے ان کے قتل کے دن کو بھی اس طرح ماتم نہیں کیا،اسی طرح حضرت عمر بن خطاب ان دونوں حضرات (حضرت عثمان اور حضرت علی ) سے افضل ہیں، جن کو مسجد کے محراب میں نماز کی حالت میں جب کہ وہ قراء ت کر رہے تھے‘ شہید کر دیا گیا، لیکن ان کے قتل کے دن بھی اس طرح ماتم نہیں کیا جاتا، اور جناب نبی اکرم جو دنیا وآخرت میں بنی آدم کے سردار ہیں ، ان کی وفات کے دن کو بھی کسی نے ماتم کا دن قرار نہیں دیا۔‘‘ اس قول کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ سمجھنا چاہیے کہ ’’شہادت ‘‘کا مرتبہ خوشی کا ہے یا غم اور سوگ کا ؟تعلیماتِ نبویہ سے تو یہ سبق ملتا ہے کہ شہادت کا حصول تو بے انتہا سعادت کی بات ہے: حضرت فاروقِ اعظم کا شوقِ شہادت یہی وجہ تھی حضرت عمر فاروق مستقل حصولِ شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے۔(صحیح البخاری، کتاب فضائل مدینہ، باب کراہیۃ النبی أن تعری المدینۃ، رقم الحدیث: ۱۸۹۰، ج:۳،ص:۲۳، دارطوق النجاۃ) حضرت خالد بن ولید کا شوقِ شہادت حضرت خالد بن ولید جنہیں بارگاہِ رسالت سے سیف اللہ کا خطاب ملا تھا، وہ ساری زندگی شہادت کے حصول کی تڑپ لیے ہوئے قتال فی سبیل اللہ میں مصروف رہے، لیکن اللہ کی شان انہیں شہادت نہ مل سکی، تو جب ان کی وفات کا وقت آیا تو پھوٹ پھوٹ کے رو پڑے کہ میں آج بستر پر پڑا ہوا اونٹ کے مرنے کی طرح اپنی موت کا منتظر ہوں۔ (البدایہ والنھایہ، سنۃ احدی وعشرین، ذکر من توفی احدی وعشرین،ج:۷،ص:۱۱۴، مکتبۃ المعارف، بیروت)
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شوق شہادت شہادت تو ایسی عظیم سعادت اور دولت ہے، جس کی تمنا خود جناب رسول اللہ نے اپنے لیے کی اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی، حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے جس میں حضور نے ارشاد فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں، پھر شہید کر دیا جاؤں، (پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروںاور شہید کر دیا جاؤں(پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروںاورپھر شہید کر دیا جاؤں‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجھاد والخروج فی سبیل اللہ، رقم الحدیث: ۴۹۶۷)
الغرض یہاں تو صرف یہ دکھلانا مقصود ہے کہ شہادت تو ایسی نعمت ہے جس کے حصول کی شدت سے تمنا کی جاتی تھی، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر افسوس اور غم منایا جائے، اگر اس عمل کو صحیح تسلیم کر لیا جائے توپھر ہمیں بتلایا جائے کہ پورے سال کا ایسا کون سا دن ہے جس میں کسی نہ کسی صحابیِ رسول کی شہادت نہ ہوئی ہو، کتب تاریخ اور سیر کو دیکھ لیا جائے، ہر دن میں کسی نہ کسی کی شہادت مل جائے گی، جس کا مقتضا یہ ہے کہ اس دن کو اظہارِ غم اور افسوس بنایا جائے، نیز! اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ جناب رسول اللہ کی حیاتِ طیبہ میں بھی تو کئی عظیم اور نبی کی محبوب شخصیات کو شہادت ملی، لیکن کیا ہمارے پیارے نبی نے بھی ان کی شہادت کے دن کو اس طرح منایا؟ نہیں !بالکل نہیں! تو پھر کیا ہم اپنے نبی سے زیادہ غم محسوس کرنے والے ہیں؟۔
خدارا! ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اس قسم کی رسومات اورفضول اعمال سے بچنے کی مکمل کوشش کریں۔ محرم الحرام میں شادی کرنے کا حکم اوپر ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اس ماہِ مبارک میں سوگ کرنا بالکلیہ بے اصل اور دین کے نام پر دین میں زیادتی ہے، جس کا ترک لازم ہے، لہٰذا جب سوگ جائز نہیں ہے تو پھر شرعاً اس مہینے میں شادی کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے، بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی حضرت فاطمہ الزہراء سے شادی اسی ماہِ مبارک میں ہوئی۔ (ملاحظہ ہو: تاریخ مدینۃ الدمشق لابن عساکر، باب ذکر بنیہ وبناتہ علیہ الصلاۃ والسلام وأزواجہ، ج: ۳، ص:۱۲۸، دار الفکر۔ تاریخ الرسل والملوک للطبری، ذکر ما کان من الأمور فی السنۃ الثانیۃ، غزوۃ ذات العشیرۃ، ج:۲، ص:۴۱۰، دار المعارف بمصر)
اس مہینے میں شادی نہ ہونے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اس مہینے میں نحوست ہے، جب کہ شرعاً یہ بات بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے، بلکہ یہ عقیدہ یا ذہن رکھنا ہی گناہ ہے، اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی دن یا زمانے میں کسی قسم کی نحوست نہیں رکھی گئی۔ اکابرین مفتیانِ عظام کے فتاویٰ میں اس کی تصریحات موجود ہیں، ذیل میں فتاویٰ رحیمیہ سے اسی مسئلے کا جواب نقل کیا جاتا ہے: ’’(الجواب): ماہ محرم کو ماتم اور سوگ کا مہینہ قرار دینا جائز نہیں، حدیث میں ہے کہ عورتوں کو ان کے خویش واقارب کی وفات پر تین دن ماتم اور سوگ کرنے کی اجازت ہے اور اپنے شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ منانا ضروری ہے، دوسرا کسی کی وفات پر تین دن سے زائد سوگ منانا جائز نہیں ، حرام ہے، آنحضرت کا فرمان ہے: ’’ لا یحل لامرأۃ تؤمن باللّٰہ والیوم الآخر أن تحد علی میت فوق ثلٰث لیال إلا علٰی زوج أربعۃ أشھر وعشراً۔‘‘ (بخاری، باب: تحد المتوفی عنھا أربعۃ أشھر وعشراً إلخ، ص: ۸۰۳، ج:۲) ترجمہ: ’’جو عورت خدا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے، اس کے لیے جائز نہیں کہ کسی کی موت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے، مگر شوہر اس سے مستثنیٰ ہے کہ اس کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کرے۔‘‘ ماہِ مبارک محرم میں شادی وغیرہ کرنا نامبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے۔
اسلام نے جن چیزوںکو حلال اور جائز قرار دیا ہو، اعتقاداً یاعملًا ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کا خطرہ ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ خوب احتیاط برتیں، ان رسومات سے علیحدہ رہیں، اس لیے کہ ان میں شرکت حرام ہے۔ ’’مالابد منہ‘‘ میں ہے: ’’مسلم تر اتشبہ بہ کفار وفساق حرام است۔‘‘ یعنی:’’ مسلمانوںکو کفار وفساق کی مشابہت اختیار کرنی حرام ہے۔‘‘ (ص: ۱۳۱) ماہ مبارک میں شادی وغیرہ کے بارے میں دیوبندی اور بریلوی میں اختلاف بھی نہیں ہے۔ مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کا فتویٰ پڑھیے: ’’(سوال) بعض سنی جماعت عشرۂ محرم میں نہ تو دن بھر میں روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں،کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی۔ ۲: ان دس دن میں کپڑے نہیں اتارتے۔ ۳:ماہِ محرم میں کوئی بیاہ شادی نہیں کرتے، اس کا کیا حکم ہے؟ (الجواب) تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔‘‘ (احکام شریعت، ص: ۹۰، ج:۱) فقط واللہ اعلم بالصواب۔‘‘ (فتاوی رحیمیہ، کتاب البدعۃ والسنۃ،ج:۲،ص:۱۱۵، دارالاشاعت، کراچی ) اسی طرح فتاویٰ حقانیہ (کتاب البدعۃ والرسوم،محرم الحرام میں شادی کرنے کا حکم ج:۲، ص:۹۶، جامعہ حقانیہ، اکوڑہ خٹک)میں بھی موجود ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کے منکرات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اور افراط وتفریط سے بچتے ہوئے صراطِ مستقیم پر گامزن رکھے، آمین ۔
جب کہ اس کے برخلاف شمسی تقویم، اس کے مہینوں کے نام اور تاریخ ہرکسی کومعلوم ہوتی ہے۔ کسی بھی دن کسی سے بھی پوچھ لیں کہ آج کیا تاریخ ہے؟ تو فوراً بتا دیں گے۔ جب شمسی سال کے پہلے مہینے جنوری کی ابتدا ہوتی ہے تو’’نیوائیرنائٹ ‘‘پر وہ خوشیاں بھی مناتے ہیں، خوب ہلّہ غلّہ کرتے ہیں، گویا اس طریقے سے وہ نئے سال کاآغاز کرتے ہیں۔ اس مقام پر ہم نے غور وفکر یہ کرنا ہے کہ ’’نیو ائیر‘‘کی اس طرز پر ابتدا ہم نے کہاں سے لی؟! ہمارے لیے تو ’’نیوائیر‘‘ کی ابتدا محرم الحرام کے بابرکت مہینہ سے شروع ہوتی ہے، اور چونکہ ہم مسلمان زندگی گزارنے کے طور طریقوں کے معاملے میں مستقل ایک کامل تہذیب کے مالک ہیں،اس لیے ہمیں اپنی زندگی کی راہ ورسم میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر بھکاری پن اختیار کرنا مسلمان کی مسلمانیت کے خلاف ہے، ہمیں کسی کے در پر جھکنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہم تو خود ساری دنیاکوتہذیب وشائستگی کے آداب وطریقے سکھانے والے ہیں۔ نئے مہینے کے استقبال کا اسلامی طریقہ ’’نئے سال ‘‘کی ابتدا ہو یا ’’نئے مہینے ‘‘کی، شریعت میں جب بھی یہ (’’نئے سال ‘‘ یا ’’نئے مہینے ‘‘کا) لفظ بولا جائے گا اس سے مراد اسلامی مہینہ ہی ہوگا، نہ کہ شمسی مہینہ۔ چنانچہ اس مہینے کی ابتدا کا مسنون طریقہ شریعت کی طرف سے صرف یہ سامنے آتا ہے کہ مہینے کے اختتام پر نئے مہینے کے چاند کو دیکھنے کا اہتمام کیا جائے، یہ عمل مسنون ہے اور جب چاند نظر آجائے تو نیا چاند دیکھنے کی دعا بھی پڑھی جائے، یہ بھی مسنون ہے۔ اس مسنون طریقے کے ہی اپنانے میں اور دعاؤں کا اہتمام کرنے میں برکت، حفاظت اورثواب ہے۔ ہمیں فضول قسم کی رسومات اور خرافات سے بچتے ہوئے اسی کااہتمام کرکے سچے مسلمان اور محب النبی ہونے کاثبوت دیناچاہیے۔امام ابن السنی نے مہینہ کی ابتدا کے بارے میں آپ کی سنت وعادت شریفہ کایوںذکرفرمایاہے : ’’إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا رأی الھلالَ قال: ’’اللّٰھم اجعلہ ھلال یمنٍ و برکۃٍ۔‘‘ (عمل الیوم واللیلۃ لابن السنیؒ، ص:۵۹۶، رقم الحدیث: ۶۴۱، مکتبۃ الشیخ، کراچی) ترجمہ:’’حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی رات کے چاند کو دیکھتے تو یوں دعا مانگتے: اے اللہ! ہمارے لیے اس چاند کوخیرو برکت والا بنادے ۔‘‘
ایک دوسری روایت میں اس وقت یہ دعا پڑھنے کاذکر ہے : ’’ أللّٰھم أَھِلَّہٗ علینا بالیُمْنِ والإِیْمَانِ والسَّلامَۃِ والإِسلامِ، ربِّیْ ورَبُّکَ اللّٰہ‘‘۔ (مسند أحمد بن حنبل، مسند أبی محمد طلحہ بن عبید اللہ، رقم الحدیث: ۱۳۹۷،ج: ۲،ص:۱۷۹، دارالحدیث، القاھرۃ) ترجمہ:’’ اے اللہ! اس پہلی رات کے چاند کو امن وسلامتی اورایمان واسلام کے ساتھ ہم پر طلوع فرما، (اے چاند! ) میرا اور تمہارا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے۔‘‘ ہمیں بھی مہینے کی ابتدا اُسی طرح کرنی چاہیے، جیسا کہ آپ کا طریقہ تھا ، تاکہ برکتیں اور رحمتیں حاصل ہوں ، چہ جائیکہ! ہم رسوم و بدعات سے ابتدا کریں ۔
اسلامی کیلنڈر استعمال کرنے کی اہمیت دوسری بات یہ کہ ہمیں چاہیے ہم اسلامی تقویم ہجری کے استعمال کی عادت ڈالیں، اپنے روز مرہ کے استعمال میں اس تقویم کو سامنے رکھیں، اگرچہ! دوسری تقویمات ، تاریخوں اورکیلنڈروں کااستعمال گناہ نہیں ہے، شرعاً اس کے اختیار کرنے میں بھی ممانعت نہیں ہے، لیکن شمسی تقویم کا ایسا استعمال کہ ہم اسلامی تقویم کو بالکلیہ بھلا ہی بیٹھیں، یہ کسی طرح درست نہیں، اس لیے کہ اسلامی تقویم ہجری کی حفاظت بھی مسلمانوںکافرض ہے اوراس کے استعمال میں ثواب ہے جس سے محروم نہیں ہوناچاہیے۔ نیز! اپنی شناخت اور اپنے امتیاز کو باقی رکھنابھی ایک غیرت مند مسلمان کے لیے بڑی اہمیت رکھتاہے، اس معاملے میں اس کی بہترشکل یہ ہے ۔ہم قمری تاریخ کے استعمال کوترجیحی بنیادوں پر دوسری تقویم کے مقابلے میں استعمال کریں، خدا نخواستہ اگر سب مسلمان اسلامی تقویم ہجری کو چھوڑ بیٹھیں اور بھلا دیں تو سب کے سب اللہ کے ہاں مجرم ٹھہریں گے، اس لیے کہ اسلام کی بہت ساری عبادات کا تعلق وربط اسی تقویم کے ساتھ ہے۔
حضرت حکیم الأمت اپنی تفسیر’’بیان القرآن ‘‘ میں ر قمطرازہیں: ’’ البتہ چونکہ احکام شرعیہ کامدار حساب ِقمری پرہے، اس لیے اس کی حفاظت ’’فرض علی الکفایہ‘‘ ہے، پس اگرساری امت دوسری اصطلاح کواپنا معمول بنالیوے، جس سے حساب ِقمری ضائع ہوجاوے (تو)سب گنہگار ہوں گے اوراگر وہ محفوظ رہے تودوسرے حساب کااستعمال بھی مباح ہے، لیکن خلافِ سنتِ سلف ضرور ہے اورحسابِ قمری کابرتنا بوجہ اُس کے فرض کفایہ ہونے کے لابُدَّ افضل واحسن ہے ۔‘‘(بیان القرآن، سورۃ التوبہ:۳۶، ج:۳،ص:۱۳۱، مکتبہ رحمانیہ، لاہور)
اسلامی سال کے اس پہلے مہینے کی اللہ کے ہاں بڑی قدر ہے، یہ عظمت والے مہینوں میں سے ہے، تاریخی روایات کے مطابق اس مہینے میں بہت سے عظیم الشان واقعات پیش آئے،احکامات کے اعتبار سے صحیح اور مستند احادیث سے جو امور سامنے آتے ہیں، وہ صرف دو ہیں: ماہِ محرم الحرام میں پہلا حکم اس ماہِ مبارک میں مطلقاً کسی بھی دن روزہ رکھنا رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ شمار ہوتا ہے، نیز!نو اور دس محرم یا دس اور گیارہ محرم کا روزہ رکھنا اور بھی زیادہ فضیلت کی چیز ہے، چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث میں واردہے :’’ أفضل الصّیام بعد رمضان شہر اللّٰہ المحرم، وأفضل الصّلاۃ بعد الفریضۃ صلٰوۃ اللیل‘‘۔ (صحیح مسلم،کتاب الصوم، باب فضل صوم المحرم، رقم الحدیث: ۲۰۲ ) ترجمہ:’’رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل اللہ کے مہینہ محرم کے روزے ہیں، اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل رات کی نماز(تہجد)ہے۔‘‘ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں : ’’حین صام رسول اللّٰہ یوم عاشوراء وأمر بصیامہٖ، قالوا: یا رسول اللّٰہ! إنہ یوم تُعظِّمہ الیہود والنصاری؟ فقال رسول اللّٰہ: ’’فإذا کان العام المقبل إن شاء اللّٰہ صُمنا الیوم التاسع، قال: فلم یأت العام المقبل حتی توفی رسول اللّٰہ‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب: أیّ یوم یصام فی عاشورائ؟ رقم الحدیث:۱۱۳۴،ج: ۲،ص:۷۹۷، دارالکتب العلمیہ ۔ـّّّّ ترجمہ:جب حضرت رسول اللہ نے عاشورا کے دن خود روزہ رکھا اورحضرات صحابہ کوروزہ رکھنے کاحکم فرمایا، تواِس پرحضرات صحابہ کرام نے عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسول ! اس دن کی تویہود ونصاریٰ بھی تعظیم کرتے ہیں؟ (غالباً یہ عرض کرنا مقصود ہو گا کہ روزہ رکھ کر تو ہم نے بھی اس دن کی تعظیم کی ، گویا ہم ایک عمل میں ان کی مشابہت اختیار کرنے لگے ) تواِس پرآ پ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر اللہ نے چاہا تو اگلے سال ہم نویں تاریخ کوبھی روزہ رکھیں گے‘‘۔ (اس طرح سے مشابہت کاشبہ باقی نہیں رہے گا)حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی آپ کا وصال ہوگیا ۔‘‘ اسی وجہ سے فقہاء کرامؒ فرماتے ہیں : صرف عاشورا کا روزہ نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے ساتھ ۹ یا ۱۱ محرم کاروزہ بھی ملا لیا جائے، تاکہ یہود کے ساتھ مشابہت سے بچ سکیں، اس نبوی تعلیم سے یہ بات سمجھ لینا چنداں مشکل نہیں کہ کسی کارِخیر میں بھی یہود سے مشابہت یا موافقت کو حضرت رسول اللہ نے پسند نہیں فرمایا، چہ جائیکہ ! دوسری عادات یا معاملات میں ان سے مشابہت کوقبول کرلیاجائے ! صحیح مسلم کی ہی ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش بھی زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے: ’’عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت: کانت قریش تصوم عاشوراء فی الجاہلیۃ، وکان رسول اللّٰہ یصومہٗ ، فلما ھاجر إلی المدینۃ صامہٗ وأمر بصیامہٖ، فلما فرض شھر رمضان، قال: من شاء صامہٗ ومن شاء ترکہٗ‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب صوم عاشورا، رقم الحدیث:۱۱۲۵،ج: ۲،ص:۷۹۲، دارالکتب العلمیۃ) ترجمہ: ’’حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے اور جناب رسول اللہ بھی روزہ رکھتے تھے، جب آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی ـتو وہاں بھی عاشورہ کاروزہ رکھا اورحضرات صحابہ کرام کوبھی روزہ رکھنے کاحکم فرمایا، پھر جب ماہ ِرمضان میں روزہ رکھنے کی فرضیت کاحکم آیا توآپنے لوگوں کو اختیار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’جوچاہے عاشورا کاروزہ رکھے، جوچاہے نہ رکھے ‘‘۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہواکہ ہجرت سے قبل بھی حضورکی اپنی عادت شریفہ روزہ رکھنے کی تھی اورہجرت کے بعد دوسروں کوبھی تاکید فرمائی تھی۔ ماہِ محرم الحرام میں دوسراحکم عاشورا کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے یا کسی بھی اعتبار سے وسعت کرنا،اس کی خاص فضیلت واردہے، چنانچہ حضرت ابن مسعود،حضرت ابوسعید خدری،حضرت ابوہریرہ اورحضرت جابر سے منقول ہے کہ جناب رسول اللہنے ارشاد فرمایا: ’’من وسَّع علی عیالہٖ فی یوم عاشورائ، وسع اللّٰہ علیہ السنۃ کلہا‘‘۔ (شعب الإیمان للبیہقی، کتاب الصیام، صوم التاسع والعاشر، ج: ۳،ص:۳۶۵) ترجمہ:’’جوشخص عاشورا کے دن اپنے گھروالوںپرخرچ کرنے میں وسعت وفراخی کرے گا، اللہ تعالیٰ ساراسال اس پر(رزق میں) وسعت فرمائے گا۔‘‘ اگرچہ اس حدیث کی اسنادی حیثیت پرکلام ہے، مگرمحدثین کی تصریحات کے مطابق ایسی روایات جو مختلف طرق سے مروی ہوں ، ان کی مختلف اسناد کی وجہ سے ان میں قوت پیداہوجاتی ہے ، اس لیے اس کو فضائل میں بیان کرنے پر کوئی بڑا اشکال باقی نہیں رہتا۔امام بیہقی اس مضمون کی روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’ھذہ الأسانید وإن کانت ضعیفۃ، فہی إذا ضم بعضہا إلی بعض، أخذت قوۃ، واللّٰہ أعلم‘‘۔ (شعب الإیمان للبیہقی، کتاب الصیام، صوم التاسع والعاشر،ج: ۳،ص:۳۶۵) ترجمہ:’’اگرچہ ان روایات کی سندوں میں ضعف ہے، لیکن ان میں مجموعی طورپراتنی بات ضرور پائی جاتی ہے کہ ان اسانید کو ملا لیا جائے تو قوّت کی شکل بن جاتی ہے۔‘‘ محرم الحرام میں سوگ کرنے کا حکم ایک اور چیز جس کا رواج عام طور پر بہت زیادہ ہو چکا ہے کہ یہ مہینہ غم کا مہینہ ہے، اس مہینے میں خوشی نہیں منانی چاہیے، کیوں؟! اس لیے کہ اس مہینے میں نواسۂ رسول حضرت حسین اور ان کے خاندان کے چھوٹوں اور بڑوں کو ظالمانہ طور پر نہایت بے دردی سے شہید کر دیا گیا، ان کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کے لیے غم منانا، سوگ کرنا اور ہر خوشی والے کام سے گریز کرنا ضروری ہے، سوچنا تو یہ ہے کہ ہمیں اس بارے میں شریعت کی طرف سے کیا راہنمائی ملتی ہے؟ اس بارے میں سب سے پہلے علامہ ابن کثیرکا ایک قول ملاحظہ کرتے ہیں : ’’فکل مسلمٍ ینبغی لہ أن یُحزنہٗ ھذا الذی وقع من قتلہ رضی اللّٰہ عنہ، فإنہ من سادات المسلمین وعلماء الصحابۃؓ، وابن بنت رسول اللّٰہ التی ھی أفضل بناتہ، وقد کان عابداً وشجاعاً وسخیا ، وقد کان أبوہ أفضل منہ، وھم لا یتخذون مقتلہ مأتَماً کیوم مقتل الحسینؓ، فإن أباہ قتل یوم الجمعۃ وھو خارج إلی صلاۃ الفجر فی السابع عشر من رمضان سنۃ أربعین، وکذالک عثمانؓ کان أفضل من علیؓ عند أھل السنۃ والجماعۃ، وقد قتل وھو محصور فی دارہٖ فی أیام التشریق من شھر ذی الحجۃ سنۃ ست وثلاثین، وقد ذُبح من الورید إلی الورید، ولم یتخذِ الناسُ یوم مقتلہ مأتمًا، وکذالک عمرؓ بن الخطاب، وھو أفضل من عثمانؓ وعلیؓ، قتل وھو قائم یصلی فی المحراب صلاۃ الفجر، وھو یقرأ القرآن، ولم یتخذ الناس یوم مقتلہ مأتما، ورسول اللّٰہ ﷺ سید ولد آدم فی الدنیا والآخرۃ، وقد قبضہ اللّٰہ إلیہ کما مات الأنبیاء قبلہ، ولم یتخذِ أحد یوم موتہٖ مأتما‘‘۔(البدایۃ والنھایۃ، سنۃ إحدی وستین، فصل: فی الإخبار بمقتل الحسین بن علی رضی اللہ عنہ، ج:۱۱، ص:۵۷۹،دار الھجر للطباعۃ والنشر والتوزیع) ’’ہر مسلمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ اس کو حضرت حسین کی شہادت کا واقعہ غمگین کر دے، اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے سردار اور اہلِ علم صحابہ میں سے تھے۔ آپ جناب رسول اللہ کی سب سے افضل لختِ جگر کے بیٹے یعنی آپ کے نواسے تھے، آپ عبادت کرنے والے، بڑے بہادر اور بہت زیادہ سخی تھے۔ آپ کے والد(حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ) آپ سے زیادہ افضل تھے، اُن کو چالیس ہجری سترہ رمضان جمعہ کے دن جب کہ وہ اپنے گھر سے نمازِ فجر کے لیے تشریف لے جا رہے تھے‘ شہید کر دیاگیا، اسی طرح حضرت عثمان غنی اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے افضل ہیں، جنہیں چھیالیس ہجری عید الاضحی کے بعد انہی کے گھر میں شہید کر دیا گیا، لیکن لوگوں نے ان کے قتل کے دن کو بھی اس طرح ماتم نہیں کیا،اسی طرح حضرت عمر بن خطاب ان دونوں حضرات (حضرت عثمان اور حضرت علی ) سے افضل ہیں، جن کو مسجد کے محراب میں نماز کی حالت میں جب کہ وہ قراء ت کر رہے تھے‘ شہید کر دیا گیا، لیکن ان کے قتل کے دن بھی اس طرح ماتم نہیں کیا جاتا، اور جناب نبی اکرم جو دنیا وآخرت میں بنی آدم کے سردار ہیں ، ان کی وفات کے دن کو بھی کسی نے ماتم کا دن قرار نہیں دیا۔‘‘ اس قول کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ سمجھنا چاہیے کہ ’’شہادت ‘‘کا مرتبہ خوشی کا ہے یا غم اور سوگ کا ؟تعلیماتِ نبویہ سے تو یہ سبق ملتا ہے کہ شہادت کا حصول تو بے انتہا سعادت کی بات ہے: حضرت فاروقِ اعظم کا شوقِ شہادت یہی وجہ تھی حضرت عمر فاروق مستقل حصولِ شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے۔(صحیح البخاری، کتاب فضائل مدینہ، باب کراہیۃ النبی أن تعری المدینۃ، رقم الحدیث: ۱۸۹۰، ج:۳،ص:۲۳، دارطوق النجاۃ) حضرت خالد بن ولید کا شوقِ شہادت حضرت خالد بن ولید جنہیں بارگاہِ رسالت سے سیف اللہ کا خطاب ملا تھا، وہ ساری زندگی شہادت کے حصول کی تڑپ لیے ہوئے قتال فی سبیل اللہ میں مصروف رہے، لیکن اللہ کی شان انہیں شہادت نہ مل سکی، تو جب ان کی وفات کا وقت آیا تو پھوٹ پھوٹ کے رو پڑے کہ میں آج بستر پر پڑا ہوا اونٹ کے مرنے کی طرح اپنی موت کا منتظر ہوں۔ (البدایہ والنھایہ، سنۃ احدی وعشرین، ذکر من توفی احدی وعشرین،ج:۷،ص:۱۱۴، مکتبۃ المعارف، بیروت)
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شوق شہادت شہادت تو ایسی عظیم سعادت اور دولت ہے، جس کی تمنا خود جناب رسول اللہ نے اپنے لیے کی اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی، حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے جس میں حضور نے ارشاد فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں، پھر شہید کر دیا جاؤں، (پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروںاور شہید کر دیا جاؤں(پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروںاورپھر شہید کر دیا جاؤں‘‘۔ (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الجھاد والخروج فی سبیل اللہ، رقم الحدیث: ۴۹۶۷)
الغرض یہاں تو صرف یہ دکھلانا مقصود ہے کہ شہادت تو ایسی نعمت ہے جس کے حصول کی شدت سے تمنا کی جاتی تھی، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر افسوس اور غم منایا جائے، اگر اس عمل کو صحیح تسلیم کر لیا جائے توپھر ہمیں بتلایا جائے کہ پورے سال کا ایسا کون سا دن ہے جس میں کسی نہ کسی صحابیِ رسول کی شہادت نہ ہوئی ہو، کتب تاریخ اور سیر کو دیکھ لیا جائے، ہر دن میں کسی نہ کسی کی شہادت مل جائے گی، جس کا مقتضا یہ ہے کہ اس دن کو اظہارِ غم اور افسوس بنایا جائے، نیز! اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ جناب رسول اللہ کی حیاتِ طیبہ میں بھی تو کئی عظیم اور نبی کی محبوب شخصیات کو شہادت ملی، لیکن کیا ہمارے پیارے نبی نے بھی ان کی شہادت کے دن کو اس طرح منایا؟ نہیں !بالکل نہیں! تو پھر کیا ہم اپنے نبی سے زیادہ غم محسوس کرنے والے ہیں؟۔
خدارا! ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اس قسم کی رسومات اورفضول اعمال سے بچنے کی مکمل کوشش کریں۔ محرم الحرام میں شادی کرنے کا حکم اوپر ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اس ماہِ مبارک میں سوگ کرنا بالکلیہ بے اصل اور دین کے نام پر دین میں زیادتی ہے، جس کا ترک لازم ہے، لہٰذا جب سوگ جائز نہیں ہے تو پھر شرعاً اس مہینے میں شادی کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے، بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی حضرت فاطمہ الزہراء سے شادی اسی ماہِ مبارک میں ہوئی۔ (ملاحظہ ہو: تاریخ مدینۃ الدمشق لابن عساکر، باب ذکر بنیہ وبناتہ علیہ الصلاۃ والسلام وأزواجہ، ج: ۳، ص:۱۲۸، دار الفکر۔ تاریخ الرسل والملوک للطبری، ذکر ما کان من الأمور فی السنۃ الثانیۃ، غزوۃ ذات العشیرۃ، ج:۲، ص:۴۱۰، دار المعارف بمصر)
اس مہینے میں شادی نہ ہونے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اس مہینے میں نحوست ہے، جب کہ شرعاً یہ بات بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے، بلکہ یہ عقیدہ یا ذہن رکھنا ہی گناہ ہے، اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی دن یا زمانے میں کسی قسم کی نحوست نہیں رکھی گئی۔ اکابرین مفتیانِ عظام کے فتاویٰ میں اس کی تصریحات موجود ہیں، ذیل میں فتاویٰ رحیمیہ سے اسی مسئلے کا جواب نقل کیا جاتا ہے: ’’(الجواب): ماہ محرم کو ماتم اور سوگ کا مہینہ قرار دینا جائز نہیں، حدیث میں ہے کہ عورتوں کو ان کے خویش واقارب کی وفات پر تین دن ماتم اور سوگ کرنے کی اجازت ہے اور اپنے شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ منانا ضروری ہے، دوسرا کسی کی وفات پر تین دن سے زائد سوگ منانا جائز نہیں ، حرام ہے، آنحضرت کا فرمان ہے: ’’ لا یحل لامرأۃ تؤمن باللّٰہ والیوم الآخر أن تحد علی میت فوق ثلٰث لیال إلا علٰی زوج أربعۃ أشھر وعشراً۔‘‘ (بخاری، باب: تحد المتوفی عنھا أربعۃ أشھر وعشراً إلخ، ص: ۸۰۳، ج:۲) ترجمہ: ’’جو عورت خدا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے، اس کے لیے جائز نہیں کہ کسی کی موت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے، مگر شوہر اس سے مستثنیٰ ہے کہ اس کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کرے۔‘‘ ماہِ مبارک محرم میں شادی وغیرہ کرنا نامبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے۔
اسلام نے جن چیزوںکو حلال اور جائز قرار دیا ہو، اعتقاداً یاعملًا ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کا خطرہ ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ خوب احتیاط برتیں، ان رسومات سے علیحدہ رہیں، اس لیے کہ ان میں شرکت حرام ہے۔ ’’مالابد منہ‘‘ میں ہے: ’’مسلم تر اتشبہ بہ کفار وفساق حرام است۔‘‘ یعنی:’’ مسلمانوںکو کفار وفساق کی مشابہت اختیار کرنی حرام ہے۔‘‘ (ص: ۱۳۱) ماہ مبارک میں شادی وغیرہ کے بارے میں دیوبندی اور بریلوی میں اختلاف بھی نہیں ہے۔ مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کا فتویٰ پڑھیے: ’’(سوال) بعض سنی جماعت عشرۂ محرم میں نہ تو دن بھر میں روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں،کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی۔ ۲: ان دس دن میں کپڑے نہیں اتارتے۔ ۳:ماہِ محرم میں کوئی بیاہ شادی نہیں کرتے، اس کا کیا حکم ہے؟ (الجواب) تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔‘‘ (احکام شریعت، ص: ۹۰، ج:۱) فقط واللہ اعلم بالصواب۔‘‘ (فتاوی رحیمیہ، کتاب البدعۃ والسنۃ،ج:۲،ص:۱۱۵، دارالاشاعت، کراچی ) اسی طرح فتاویٰ حقانیہ (کتاب البدعۃ والرسوم،محرم الحرام میں شادی کرنے کا حکم ج:۲، ص:۹۶، جامعہ حقانیہ، اکوڑہ خٹک)میں بھی موجود ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کے منکرات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اور افراط وتفریط سے بچتے ہوئے صراطِ مستقیم پر گامزن رکھے، آمین ۔