ماہنامہ الفاران
ماہِ رمضان المبارک - ۱۴۴۳
یہ مُلاَّاور دُرْوِیْش اگرنہ رہے!
حضرت مفتی خالدانورپورنوی المظاہری،ایڈیٹر "ترجمان ملت" پٹنہ استاذ حدیث و فقہ:جامعہ مدنیہ،سبل پور، پٹنہ
اسلام کی نشرواشاعت کا بہترین ذریعہ ؛مدارس ِاسلامیہ ہیں،یہ مدارس جیسے بھی ہیں، او ر جس حالت میں بھی ہیں،یہ ملک وقوم کی سب سے بڑی ضرورت ہیں،اس کے ذریعہ قوموں کی تقدیریں لکھی اور سنواری جاتی ہیں،یہاں کےپڑھنے والے طلبہ چٹائیوں پر ضرورتعلیم حاصل کررہے ہوتے ہیں ، لیکن ان کی فکر،اور سوچ آسمان کی بلندیوں تک ہوتی ہے۔
مدرسوں میں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہیں بھلے ہی معمولی،اور ضروریات زندگی سے بھی کم ہوں،لیکن قوموں کے دردسے ان کا گہرا اور مضبوط رشتہ ہوتاہے؛چونکہ ان کی نسبت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے،جس کے بارے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:علماء ابنیاء کے وارث ہیں۔
یہ دنیااوراس میں بسنے والے کچھ لوگ بھلے ہی مدرسوں میں تعلیم حاصل کررہے بچوں کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہوں؛مگر سچ یہ بھی ہے کہ پاکیزہ سماج کی تشکیل میں ان مدرسوں کا بڑاکردار رہا ہے ، اس لئے کہ اس گئے،گذرے ماحول میں بھی یہ مدرسے امن کے سفیروپیامبر کی حیثیت سے گائوں، گائوں،تک اسلام کے پیامِ امن کو پہونچانے کیلئے انتھک محنت کررہے ہیں،اور سب سے مقدس کتاب قرآن کریم کے ذریعہ اس ملک اور عوام کو ظلمت وتاریکی سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف وسرگرم ہیں ۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے فرمایاتھا: ان مکتبوں اور مدرسوں کو اسی حالت میں رہنے دو،غریب مسلمان کے بچوں کو انہی مدرسوں میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ وہ جو کچھ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستان کے مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے، تو بالکل اسی طرح جس طرح اندلس (اسپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس حکومت کے با وجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈراور الحمراء اور باب الاخوتین کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے اثر کاکوئی نقش نہیں ملتا؛ ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کاکوئی نشان نہیں ملے گا۔
اوریہ سچ ہے کہ ان مدرسوں نے اس وقت بھی جب یہ ملک انگریزوں کا غلام تھا،اور ملک کی آزادی کے بعدبھی،تمام تر مصائب اور مشکلات کے باوجوداسلام کے تحفظ،اور اس کی بقا میں جو کردار پیش کیاہے،تاریخ کے صفحات میں آج بھی درج ہے،جس سے انکارکی گنجائش ممکن نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب انگریز اس ملک کے سیاہ وسفید کامالک بن گیا،تو سب سے پہلے دینی مدرسوں کو مسمار کیا، اور مدرسوں میںپڑھانے والے ’’ملا،اوردرویش ‘‘کو پھانسی دی،جیلوں میں ڈالا، کالاپانی ، اور دوسری اذیت ناک سزائیں دیں کہ جن کے تذکرہ سے انسانی روح کانپ اٹھتی ہے،مگر اس کے باوجودان خرقہ پوش،اور بوریہ نشیں مولویوں کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی،بلکہ اس ملک کے عام مسلمانوں، اوردوسرے برادران وطن کو جگاتے رہے،اور انہی کی قربانیوں کے نتیجہ میں اس ملک کو آزادی ملی۔
ملک کی آزادی کے بعدبھی کئی موڑ آئے،اسلامی تہذیب وتمدن کو کئی بارخطرہ لاحق ہوا،ارتداد کی آندھی چلی،عیسائیت کو فروغ دیاجانے لگا،ایسے میں مدرسوں کے یہی’’ ملااور درویش‘‘ میدان میں آئے، چھوٹے، چھوٹے مکاتب،اور مدارس کے ذریعہ اس طرح کے فتنوں کا مقابلہ کیا،آج اگر اسلام اپنی تمام ترخوبیوں کے ساتھ نظر آرہاہے،تو انہی مدارس اسلامیہ کا مرہون ِ منت ہے،مختلف تحریکوں کی شکل میں مسلمانوں کی اخلاقی،وسماجی اصلاح کا جو جال بچھاہوا،ہرسمت آپ دیکھ رہے ہیں،بلکہ کسی بھی جگہ دین کا شعلہ،یااس کی تھوڑی سی رمق اور سلگتی ہوئی چنگاری آپ کی نظروں کے سامنے ہے، ،گائوں، گائوں، شہرشہر، چھوٹی،بڑی کچی،پکی جو بھی مساجدآبادنظر آرہے ہیں، انہیں مدارس کے فیض کا اثرہے،اور انہی’’ ملاودرویش‘‘ کی قربانیوں کا ثمرہ ہے۔
مدارس کی اہمیت وضرورت کا تذکرہ کرتے ہوئے، علامہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں:’’ہم کو یہ صاف کہنا ہے کہ عربی مدرسوں کی جتنی ضرورت آج ہے، کل جب ہندوستان کی دوسری شکل ہوگی اس سے بڑھ کر ہوگی، یہ ہندوستان میں اسلام کی بنیاد اور مرکز ہوں گے، لوگ آج کی طرح کل بھی عہدوں اور ملازمتوں کے پھیر اور اربابِ اقتدار کی چاپلوسی میں لگے ہوں گے اور یہی دیوانے آج کی طرح کل بھی ہوشیار رہیں گے؛اس لیے یہ مدارس جہاں بھی ہوں، جیسے بھی ہوں، ان کا سنبھالنا، اور چلانا مسلمانوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے، اگر ان عربی مدرسوں کا کوئی دوسراہ فائدہ نہیں تو یہی کیا کم ہے کہ یہ غریب طبقوں میں مفت تعلیم کا ذریعہ ہیں، اور ان سے فائدہ اٹھا کر ہمارا غریب طبقہ کچھ اور اونچاہوتا ہے اور اس کی اگلی نسل کچھ اور اونچی ہوتی ہے، اور یہی سلسلہ جاری رہتا ہے، غور کی نظر اس نکتہ کو پوری طرح کھول دے گی‘‘۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے تو یہاں تک فرمایاہے کہ: ’’ دنیا میں اگر اسلام کے بقاء کی کوئی صورت ہے تو یہ مدارس ہیں‘‘۔مولانا علی میاں ندوی ؒنے ایک بار دارالعلوم دیوبند میں خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا:’’مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے، جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتاہے، جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں، مدرسہ عالم اسلام کا بجلی گھر ہے، جہاں سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے، مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب ونگاہ اور ذہن ودماغ ڈھلتے ہیں، مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتاہے اور پوری زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے، مدرسہ کا تعلق کسی تمدن، کسی عہد، کسی کلچر اور زبان وادب سے نہیں کہ اس کی قدامت کا شبہ اور اس کے زوال کا خطرہ ہو،اس کاتعلق براہ راست نبوت محمدی سے ہے جو عالم گیر بھی ہے اور زندہ جاوید بھی‘‘۔
یہ مدرسے یقیناکارخانہ حیات ہیں،یہاں سے انسانوں کو نئی زندگی فراہم ہوتی ہے،اور انسانیت وآدمیت کے آداب واحترام کے زریں اصول سکھلائے جاتے ہیں،اس کی نسبت اصحاب صفہ سے ہے،اور ہزارخامیوں کے باوجودیہ مدرسے اپنے مشن پر پوری مضبوطی سے قائم ہیں،اس وقت ملک کی جو تازہ ترین صورتِ حال ہے،اس سے آپ بخوبی واقف ہیں،کروناوائرس مہاماری کی وجہ سے انسانی زندگی تھم سی گئی ہے،لوگ اپنے گھروں میں قیدہوگئے ہیں،ان کاکام،کاج بندہوگیاہے،یہ مدرسے چونکہ عوامی تعاون سے ہی تعلیم وتربیت کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیتے آرہے ہیں،ایسے میں مدرسوں کا پوری مضبوطی سے اپنے مشن پر قائم رہناکسی چیلینج سے کم نہیں ہے؟
یادرکھئے!انسانی زندگی کی بقا کے لئے خوراک انتہائی ضروری ہے،اس کے بغیر انسانی صحت کو بحال وبرقرار رکھناممکن نہیں ہے،ٹھیک اسی طرح اسلامی تعلیم،اور اس کی تہذیب وثقافت کی حفاظت کے لئے یہ مدرسے مضبوط قلعہ ہیں کی مانند ہیں، شایداسی لئے دشمنانِ اسلام کی کوششیں اسی سمت کام کررہی ہیں کہ یہ مدرسے بندہوجائیں،ایسے میں یہ دینی مدرسے کس طرح باقی رہیں گے؟اس کے تحفظ کی کیاشکل ہوگی؟اس کے لئے سوچنا،اور غوروفکرکرنا،اور اس کی بہترشکلوں پر غورکرنا ہم سب کا دینی اور ایمانی فریضہ ہے۔
مدرسوں میں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہیں بھلے ہی معمولی،اور ضروریات زندگی سے بھی کم ہوں،لیکن قوموں کے دردسے ان کا گہرا اور مضبوط رشتہ ہوتاہے؛چونکہ ان کی نسبت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے،جس کے بارے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:علماء ابنیاء کے وارث ہیں۔
یہ دنیااوراس میں بسنے والے کچھ لوگ بھلے ہی مدرسوں میں تعلیم حاصل کررہے بچوں کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہوں؛مگر سچ یہ بھی ہے کہ پاکیزہ سماج کی تشکیل میں ان مدرسوں کا بڑاکردار رہا ہے ، اس لئے کہ اس گئے،گذرے ماحول میں بھی یہ مدرسے امن کے سفیروپیامبر کی حیثیت سے گائوں، گائوں،تک اسلام کے پیامِ امن کو پہونچانے کیلئے انتھک محنت کررہے ہیں،اور سب سے مقدس کتاب قرآن کریم کے ذریعہ اس ملک اور عوام کو ظلمت وتاریکی سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف وسرگرم ہیں ۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے فرمایاتھا: ان مکتبوں اور مدرسوں کو اسی حالت میں رہنے دو،غریب مسلمان کے بچوں کو انہی مدرسوں میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ وہ جو کچھ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستان کے مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے، تو بالکل اسی طرح جس طرح اندلس (اسپین) میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس حکومت کے با وجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈراور الحمراء اور باب الاخوتین کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے اثر کاکوئی نقش نہیں ملتا؛ ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کاکوئی نشان نہیں ملے گا۔
اوریہ سچ ہے کہ ان مدرسوں نے اس وقت بھی جب یہ ملک انگریزوں کا غلام تھا،اور ملک کی آزادی کے بعدبھی،تمام تر مصائب اور مشکلات کے باوجوداسلام کے تحفظ،اور اس کی بقا میں جو کردار پیش کیاہے،تاریخ کے صفحات میں آج بھی درج ہے،جس سے انکارکی گنجائش ممکن نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب انگریز اس ملک کے سیاہ وسفید کامالک بن گیا،تو سب سے پہلے دینی مدرسوں کو مسمار کیا، اور مدرسوں میںپڑھانے والے ’’ملا،اوردرویش ‘‘کو پھانسی دی،جیلوں میں ڈالا، کالاپانی ، اور دوسری اذیت ناک سزائیں دیں کہ جن کے تذکرہ سے انسانی روح کانپ اٹھتی ہے،مگر اس کے باوجودان خرقہ پوش،اور بوریہ نشیں مولویوں کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی،بلکہ اس ملک کے عام مسلمانوں، اوردوسرے برادران وطن کو جگاتے رہے،اور انہی کی قربانیوں کے نتیجہ میں اس ملک کو آزادی ملی۔
ملک کی آزادی کے بعدبھی کئی موڑ آئے،اسلامی تہذیب وتمدن کو کئی بارخطرہ لاحق ہوا،ارتداد کی آندھی چلی،عیسائیت کو فروغ دیاجانے لگا،ایسے میں مدرسوں کے یہی’’ ملااور درویش‘‘ میدان میں آئے، چھوٹے، چھوٹے مکاتب،اور مدارس کے ذریعہ اس طرح کے فتنوں کا مقابلہ کیا،آج اگر اسلام اپنی تمام ترخوبیوں کے ساتھ نظر آرہاہے،تو انہی مدارس اسلامیہ کا مرہون ِ منت ہے،مختلف تحریکوں کی شکل میں مسلمانوں کی اخلاقی،وسماجی اصلاح کا جو جال بچھاہوا،ہرسمت آپ دیکھ رہے ہیں،بلکہ کسی بھی جگہ دین کا شعلہ،یااس کی تھوڑی سی رمق اور سلگتی ہوئی چنگاری آپ کی نظروں کے سامنے ہے، ،گائوں، گائوں، شہرشہر، چھوٹی،بڑی کچی،پکی جو بھی مساجدآبادنظر آرہے ہیں، انہیں مدارس کے فیض کا اثرہے،اور انہی’’ ملاودرویش‘‘ کی قربانیوں کا ثمرہ ہے۔
مدارس کی اہمیت وضرورت کا تذکرہ کرتے ہوئے، علامہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں:’’ہم کو یہ صاف کہنا ہے کہ عربی مدرسوں کی جتنی ضرورت آج ہے، کل جب ہندوستان کی دوسری شکل ہوگی اس سے بڑھ کر ہوگی، یہ ہندوستان میں اسلام کی بنیاد اور مرکز ہوں گے، لوگ آج کی طرح کل بھی عہدوں اور ملازمتوں کے پھیر اور اربابِ اقتدار کی چاپلوسی میں لگے ہوں گے اور یہی دیوانے آج کی طرح کل بھی ہوشیار رہیں گے؛اس لیے یہ مدارس جہاں بھی ہوں، جیسے بھی ہوں، ان کا سنبھالنا، اور چلانا مسلمانوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے، اگر ان عربی مدرسوں کا کوئی دوسراہ فائدہ نہیں تو یہی کیا کم ہے کہ یہ غریب طبقوں میں مفت تعلیم کا ذریعہ ہیں، اور ان سے فائدہ اٹھا کر ہمارا غریب طبقہ کچھ اور اونچاہوتا ہے اور اس کی اگلی نسل کچھ اور اونچی ہوتی ہے، اور یہی سلسلہ جاری رہتا ہے، غور کی نظر اس نکتہ کو پوری طرح کھول دے گی‘‘۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے تو یہاں تک فرمایاہے کہ: ’’ دنیا میں اگر اسلام کے بقاء کی کوئی صورت ہے تو یہ مدارس ہیں‘‘۔مولانا علی میاں ندوی ؒنے ایک بار دارالعلوم دیوبند میں خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا:’’مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے، جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتاہے، جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں، مدرسہ عالم اسلام کا بجلی گھر ہے، جہاں سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے، مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب ونگاہ اور ذہن ودماغ ڈھلتے ہیں، مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتاہے اور پوری زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے، مدرسہ کا تعلق کسی تمدن، کسی عہد، کسی کلچر اور زبان وادب سے نہیں کہ اس کی قدامت کا شبہ اور اس کے زوال کا خطرہ ہو،اس کاتعلق براہ راست نبوت محمدی سے ہے جو عالم گیر بھی ہے اور زندہ جاوید بھی‘‘۔
یہ مدرسے یقیناکارخانہ حیات ہیں،یہاں سے انسانوں کو نئی زندگی فراہم ہوتی ہے،اور انسانیت وآدمیت کے آداب واحترام کے زریں اصول سکھلائے جاتے ہیں،اس کی نسبت اصحاب صفہ سے ہے،اور ہزارخامیوں کے باوجودیہ مدرسے اپنے مشن پر پوری مضبوطی سے قائم ہیں،اس وقت ملک کی جو تازہ ترین صورتِ حال ہے،اس سے آپ بخوبی واقف ہیں،کروناوائرس مہاماری کی وجہ سے انسانی زندگی تھم سی گئی ہے،لوگ اپنے گھروں میں قیدہوگئے ہیں،ان کاکام،کاج بندہوگیاہے،یہ مدرسے چونکہ عوامی تعاون سے ہی تعلیم وتربیت کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیتے آرہے ہیں،ایسے میں مدرسوں کا پوری مضبوطی سے اپنے مشن پر قائم رہناکسی چیلینج سے کم نہیں ہے؟
یادرکھئے!انسانی زندگی کی بقا کے لئے خوراک انتہائی ضروری ہے،اس کے بغیر انسانی صحت کو بحال وبرقرار رکھناممکن نہیں ہے،ٹھیک اسی طرح اسلامی تعلیم،اور اس کی تہذیب وثقافت کی حفاظت کے لئے یہ مدرسے مضبوط قلعہ ہیں کی مانند ہیں، شایداسی لئے دشمنانِ اسلام کی کوششیں اسی سمت کام کررہی ہیں کہ یہ مدرسے بندہوجائیں،ایسے میں یہ دینی مدرسے کس طرح باقی رہیں گے؟اس کے تحفظ کی کیاشکل ہوگی؟اس کے لئے سوچنا،اور غوروفکرکرنا،اور اس کی بہترشکلوں پر غورکرنا ہم سب کا دینی اور ایمانی فریضہ ہے۔