ماہنامہ الفاران
ماہِ رمضان المبارک - ۱۴۴۳
پاون پَرو! عید الفطر
حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش، سرپرست :ماہنامہ الفاران
نصیبِ خاطر نوحہ کناں، کو مل جائیں
دکھلانے عید آئی ہے صورت بہار کی
در اصل عید الفطر کا تعلق قرآن پاک کے نزول،رمضان المبارک اور اسکے روزے سے ہے عید حقیقۃً دو جہاں کے پالنہار کا ایک انعام ہے۔
اسکی حقیقی مسرت اور سچی خوشی تو اسی کو حاصل ہوتی ہے اور اسے ہی عید منانے کا پورا پورا حق ہے جس کو یہ سعادت ہو کہ وہ رمضان کا پورا مہینہ اپنے پروردگار کا حکم بجا لائے،جس نے قرآن کریم کے مطابق زندگی گذاری،روزے رکھے اور اسے خدا کا حکم سمجھ کر پورا کیا۔
اسی لئے پیرانِ پیر حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ نے”غنیۃ الطالبین“میں لکھا ہے کہ ”عید انکی نہیں‘جنھوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا بلکہ عید تو ان کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے ڈر گئے، عید ان کی نہیں، جنھوں نے بہت سی خوشیاں منائی بلکہ عید تو ان کی ہے جنھوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اسپر قائم رہا، عید ان کی نہیں،جنھوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور بہت سے کھانے پکائے بلکہ عید تو ان کی ہے جنھوں نے مقدور حد تک نیک بننے کی کوشش کی اور سعادت حاصل کی، عید ان کی نہیں جو دنیاوی زیب و زینت کے ساتھ نکلے بلکہ عید تو ان کی ہے جنھوں نے تقویٰ اور خوفِ خداوندی اختیار کیا،عید ان کی نہیں جنھوں نے اپنے مکان میں چراغاں کیا بلکہ عید تو ان کی ہے جو دوزخ کے پل سے گزر گئے“
در حقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ نے روزے فرض قرار دیکر انسانوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ دنیا میں خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچ کر زندگی بسر کریں۔ چنانچہ رمضان میں چند چیزوں کو چھڑا کر یہ پریکٹس کرائی جاتی ہے کہ وہ ساری عمر ان چیزوں کو چھوڑ دے جو اسکے رب کو نا پسند ہیں، یہ چھوڑنا اس بات کی پہچان ہے کہ بندہ خدا کے حکم کے ماتحت ہے، وہ ہر اس چیز کو چھوڑنے کیلئے تیار ہوجاتا ہے جس کے چھوڑنے کا خدا اسکو حکم دے۔
روزہ کے مہینہ میں قرآن شریف کا نازل کرنا اشارہ ہے کہ قرآن بھی تمھارے لئے ایک خدائی افطار ہے، تم ہدایت کے معاملہ میں بھوکے تھے، خدا نے اپنی نعمت ہدایت،قرآن کے ذریعہ تم کو سیراب کیا۔ قرآن بندے کے اوپر اللہ کا انعام ہے اور روزہ اس انعام کا عملی اعتراف و اقرار ہے تو عید الفطر خداکے انعام و اکرام پر شکر گذاری کا ایک انمول نمونہ ہے، بندہ عید الفطر کے موقع پر دل سے کہتا ہے کہ اے خدا! تونے قرآن جیسی بیش قیمت کتابِ ہدایت رمضان میں اتاری اسکے روزے ہمارے اوپر فرض قرار دئیے تا کہ ہمارے اندر کی ناپاکی دور ہو۔ خدا کا ڈر اور اسکے بندوں سے ہمدردی اور غم خواری کی خصلت پیدا ہو۔
اے میرے مالک! میں نے تیرے احکام تیری دی ہوئی توفیق سے پورے کئے، دن میں روزہ رکھا، رات میں تراویح پڑھی، زبان کو ہر گندی چیز سے محفوظ رکھا، ہاتھ اور پیر کو غلط راستے پر چلنے سے روکا، آنکھ اور کان کو بری چیزوں کے سننے اور دیکھنے سے بچائے رکھا۔
اے میرے آقا! ان چیزوں پر عمل کرنے کی سعادت تو نے ہی بخشی، آج ہم اس فرض کی ادائیگی پر خوشی بخوشی عیدالفطر کی دو رکعت نماز پڑھ کر تیری تعریف بیان کرتے ہیں ۔
بھائیوں! عید مسرّتوں اور خوشیوں کا دن ضرور ہے مگر ان لوگوں کے لئے،جنھوں نے پورے اہتمام کے ساتھ روزے رکھے،خداکی عبادت کی اور جن لوگوں نے رمضان بھر نفس کے مطابق مَن چاہی زندگی بسر کی، واہیات اور بیہودگی میں وقت بسر کیا، نماز، روزہ اور دوسرے نیک کاموں سے بیگانہ رہے، ان کے لئے آج کا دن تازیانہئ عبرت اور بڑی شرم و ندامت کا دن ہے، کہ اس نے پالنہار کے حکم کو نہیں مانا، حیوان جیسی زندگی گذاری اور مبارک مہینہ کی بے حرمتی اور بے عزتی کی۔
آج ایسے آدمی ضرور عمدہ لباس اور پوشاک زیب تن کیے ہوں گے، مگر اندر سےان کا دل رو رہا ہوگا، وہ شرمندہ اور اداس ہوں گے کہ ہم نے خدا کی نا فرمانی کی۔ آج شہر اور محلہ کے لوگ،خاندان کے افراد حسرت بھری نگاہوں سے دیکھیں گے خدا کی ناراضگی اور پھٹکار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعاء ان پر پڑ رہی ہوگی اور فرشتے لعنت کر رہے ہوں گے۔
آقا ء مدنی محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!جب عید الفطر کا دن آتا ہے خدا کے فرشتے تمام راستوں کے نکّڑ پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں اے روزہ دارو! رب کے پاس چلو جو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے، جو نیکی اور بھلائی کی باتیں بتاتا اور اسپر عمل کرنے کی توفیق دیتا ہے پھر اس پر بھاری انعام دیتا ہے۔ تمھیں اللہ کی طرف سے تراویح پڑھنے کا پابند کیا گیا تم نے تراویح پڑھی، روزے رکھنے کا حکم ملا، تم نے روزے رکھ کر اپنے رب کی اطاعت گذاری کی، اب چلو اپنا انعام لے لو۔
آج قطار میں کھڑے اطاعت گذار اور فرمانبردار بھی ہوں گے، نا فرمان اور غدّار بھی، مگر انعام و اکرام کا حق دار وہی ہوگا جس کے ہاتھوں میں آج بندگی کا شناختی کارڈ ہوگا۔
دیہات کا یک لڑکا شہر آیا،اسکول کی عمارت کے سامنے اسکا گذر ہوا یہ اسکول کے تعلیمی جشن کا دن تھا، سیکڑوں لڑکے لائن میں کھڑکی کی طرف بڑھ رہے تھے، دیہاتی لڑکے نے نزدیک جا کر دیکھا تو معلوم ہوا اس کھڑکی پر مٹھائی تقسیم ہو رہی ہے، وہ لڑکا بھی لائن میں جا کھڑا ہوا، ہر ایک کے ساتھ وہ آگے بڑھتا رہا، وہ اس خیال میں تھا جب میری باری آئے گی تو مٹھائی کا پیکٹ میرے ہاتھ میں بھی ہوگا، بڑھتے ہوئے وہ لڑکا کھڑکی کے سامنے پہنچا، بخوشی اس نے بھی اپنا ہاتھ کھڑکی کی طرف بڑھایا، کھڑکی کے پیچھے سے آواز آئی! تمھارا شناختی کارڈ؟ کیونکہ وہ اسکول کا طالبِ علم نہیں تھا، کارڈ پیش نہ کر سکا، وہ کھڑکی سے ہٹا دیا گیا، اب لڑکے کو معلوم ہوا کہ یہ مٹھائی اسکول کے پڑھنے والے ان لڑکوں کیلئے تقسیم ہو رہی تھی جنھوں نے سال بھر محنت سے پڑھائی کی تھی نہ کہ ایسے کے لئے جو اچانک کھڑکی پر آ کھڑا ہو۔
دوستوں!کچھ ایسا ہی مسئلہ آج عید الفطر کے دن کا بھی ہے،آج خدا کے انعام و اکرام کے تقسیم کا دن ضرور ہے، لیکن اسکے مستحق وہی ہوں گے جنھوں نے رمضان کی قدر اور اس کے روزے رکھے ہوں گے نہ کہ ان لوگوں کیلئے جنھوں نے دن میں گل چھرّوں اور رات خوابِ غفلت کے خرّاٹوں میں گذاری ہوگی۔
حضرت شبلی ؒ کو، عید کے دن نہایت پریشان حالت میں دیکھ لوگوں نے وجہ دریافت کی؟ توآپ نے فرمایا!میں اسلئے پریشان ہوں کہ لوگ عید میں مصروف ہو کر وعید (عذابِ خدا) کو بھو ل گئے۔
حضرت وہب بن منبہ کو،عید کے دن روتے دیکھ کر کسی نے کہا ھٰذا یوم الزینۃ و السرور یہ تو خوشی اور زینت کا دن ہے؟ حضر ت وہب نے فرمایا! بیشک یہ خوشی کا دن ہے لیکن اس کیلئے جس کے روزے قبول ہو گئے ہوں۔
بھائیوں! خوشیوں کی بھر پور فضا میں اپنے غریب بھائیوں کو یاد رکھنا انسانیت ہے، اپنی خوشیوں میں انکو شریک کرنا سعادت ہے، بیواؤں اور یتیموں کی خدمت کرنا عبادت ہے، دوسروں کو اپنی خوشی میں شامل کرنا اور دوسروں کے رنج و غم میں شریک ہونا یہی عید کے اس مبارک دن کی روح ہے اور مذہبِ اسلام سارے ماننے والوں کے دلوں میں یہی اسپرٹ پیدا کرنا چاہتا ہے۔