ماہنامہ الفاران

ماہِ شعبان المعظم - ۱۴۴۳

مفکر اسلام حضرت مولانا سیدمحمد ولی رحمانی صاحبؒ اور عصری تعلیم

حضرت مفتی خالد انور صاحب مظاہری،ایڈیٹر "ترجمان ملت" و استاد حدیث و فقہ:جامعہ مدنیہ،سبل پور،پٹنہ

تعلیم ضروری ہے ، اس کے بغیر قوموں کی تعمیر وترقی نہیں ہوسکتی ہے ، اسی لئے مذہب اسلام نے تعلیم پر سب سے زیادہ زور دیا ، اللہ کے رسول پیارے نبی محمد مصطفی ﷺ کی آمد سے قبل سرزمین عرب میں دنیا کی ساری برائیاں موجود تھیں، کفر وشرک کے ساتھ سیاسی، سماجی، معاشرتی، تہذیبی ،تمدنی، غرض ہر طرح کی بیماریوں میں وہ لوگ مبتلا تھے، لیکن اسلام نے ان چیزوں سے قطع نظر تعلیم کی طرف توجہ دلائی، اور حکم دیا کہ پڑھو،اپنے رب کے نام سے۔ اس بات کو بتلانے کے لئے کہ تعلیم کے بغیر سماج میں روشنی نہیں آسکتی ہے ، تاریکی کو ختم کرنے ، اور سماج میں بیداری لانے کے لئے تعلیم سے رشتہ مضبوط کرنا انتہائی ضروری ہے ۔
ولی کامل ،مفکراسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب ؒ آج دنیا میں نہیں ہیں، مگردینی تعلیم کے ساتھ،عصری تعلیم کے لئے ان کی کوششیں اور عملی اقدامات ہمیشہ یاد کئے جائیں گے، قوموں کا رشتہ تعلیم سے کس طرح مضبوط ہو؟ اس کے لئے تعلیم کو ایک تحریک کی طرح انہوں نے دنیا کے سامنے پیش کیا، اور اس تحریک میں انہیں صد فی صد کامیابی بھی ملی!
مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب ؒصرف سوچتے نہیں تھے، زمینی سطح پر اس کا عملی نفاذ بھی کرتے تھے۔ دینی، دنیوی، سیاسی ، سماجی، وہ ہر اعتبار سے ولی کامل تھے۔ اس لئے دین کے ساتھ، دنیوی اور سماجی اعتبار سے مسلمانوں کے لئے لائحہ عمل تیارکرنے میں ہمیشہ مصروف وسرگرداں نظر آتے ۔ ہاں یہ بھی سچ ہے کہ خانقاہ رحمانی مونگیر کے وہ سجادہ نشیں تھے، مگر گوشہ نشینی نہیں تھی، ملت اسلامیہ کے نوجوان کس طرح آگے بڑھیں گے؟ دین کے ساتھ زمانہ کے تقاضے کے مطابق دنیوی علوم میں درجہ کمال کو کس طرح پہونچیں؟ اس کے لئے در در بھٹکتے، لوگوں کو جگاتے، کئی طرح کی بیماریوں، نقاہت اور کمزوریوں کے باوجود انہوں نے پیچھے مڑکر کبھی نہیں دیکھا ،جدھرگئے،ہواکارخ ہی انہوں نے موڑدیا، عزم واستقلال کے اس پہاڑ کی یہ خدمات ہم سب کے لئے مشعل راہ ہیں!
حضرت مولاناسیدمحمدولی رحمانی صاحبؒ؛مفکراسلام اور ماہر تعلیم ہونےکے ساتھ ،بھارت کے آئین اور اس کے داؤ پیچ سے بھی پوری طرح واقف تھے، 1996 تک بہار قانون ساز کونسل کے رکن رہے ، اور دوبار ڈپٹی چئر مین بھی بنائے گئے، اس لئے وہ جانتے تھے کہ جب تک ہمارے نوجوان آئی آئی ٹی، میڈیکل ، سائنس اور وکالت کے اہم میدانوں میں قدم نہیں جمائیں گے ، قوم مسلم کی ترقی ممکن نہیں ہے ، اس لئے انہوں نے سب سے پہلے رحمانی فاؤنڈیشن ،پھر رحمانی 30، رحمانی بی ایڈ کالج،اور امارت اسکول کی نہ صرف بنیاد ڈالی بلکہ ایک تحریک اور مشن کی طرح دنیا کے سا منے متعارف کرایا۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
کسی بھی قوم اور ملک کی کامیابی ،فتح اور عروج نوجوانوں کے بغیرممکن نہیں ہے،نوجوان معاشرہ کا وہ خوبصورت چہرہ اور سرمایہ ہیں،جو معاشرہ کی اساس ، مستقبل کی امیداورمعمارہیں،لیکن انہیں نکھاراکیسے جائے؟جس سے وہ ملک کی ضرورت بن کر مسلم سماج کی ترقی کا ذریعہ بن سکیں؟اس کے لئے مفکراسلام حضرت مولاناسیدمحمدولی رحمانی صاحب ؒنے 1996میں رحمانی فاؤنڈیشن قائم کیا،مونگیرمیں واقع راٹن ہاؤس جسے کھگڑیا کے قصبہ راٹن کے نواب صلاح الدین احمدخان نے تعمیر کروایا تھا ، حضرت مولاناسیدمحمدولی رحمانی صاحب ؒ کے نام وقف کردیا،اور مولانامرحوم نے اس وسیع اور قیمتی اثاثہ کو قوم کی خدمت کے لئے وقف کردیا،رحمانی فاؤنڈیش اسی وسیع و عریض عمارت میں واقع ہے۔
رحمانی فاؤنڈیشن کے بینرتلےقومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی کے اشتراک سے کمپیوٹر کورس کا نظام چلایاگیا، جس سے جڑ کر ہزاروں نوجوان بر سر روزگار ہوئے، ہنر پروگرام کے تحت لڑکیوں کو سلائی اور کشیدہ کاری کی تعلیم دی گئی،ووکیشنل کورسیز کرائے گئے ، مونگیر شہر میں دوسو سے زائد مکاتب بھی قائم کئے گئے، اور انہیں مکاتب میں کمزور وبے سہارا بچوں کو تعلیم وتربیت سے آراستہ کرکے انہیں سکول تک پہونچایا گیا، اسکول کے بچوں اور بچیوں کو کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم دی گئی، صحافیوں کو بھی کمپیوٹر سکھانے کا اہتمام کیا گیا، اس کے علاوہ اس کے تحت وہ تمام پروگرامس چلائے گئے، جس سے دین کے ساتھ عصری اعتبار سے بھی ہمارے نوجوان مضبوط ہوں،اور وہ بہترمستقبل کی ضمانت بن سکیں! مسلم نوجوان بھی ملک کے مستقبل کے لئے قائدانہ کردار اداکرسکتے ہیں،ان میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں ہے،لیکن مناسب اور بروقت رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے وہ آگے نہیں بڑھ پاتے،اس فکرکے تحت حضرت مولاناسیدمحمدولی رحمانی صاحب ؒ نے 2008میں، رحمانی 30 کے نام سے ایک تعلیمی تحریک شروع کی، اس کو مستحکم اور منظم کرنے کے لئے بہارکے مشہورماہرتعلیم ابھیانند(ڈی جی پی) سے مددلی،اس کے تحت مقابلہ جاتی امتحانوں(IIT) جے ای ای(JEE ) چارڈ اکاؤنٹ(Chartered Accountant) سائنٹسٹ(Scientist) وکلا(Advocate) پری میڈیکل ٹیسٹ(Pre Medical Test) ایمس(AIMS) اور سی ایم سی(CMC) وغیرہ میں داخلہ کے لئے تیاری کرائی گئی۔ 10 مسلم طالب علموں سے ہی اس کی شروعات ہوئی،لیکن اس میں زبردست کامیابی ملی، 10 میں سے 10 طلبہ آئی آئی ٹی کے امتحان میں کامیاب ہوئے ۔ پھر آئندہ سالوں میں طلبا کی تعداد بڑھتی رہی اور مسلم طلبا آئی آئی ٹی اور این آئی ٹی میں اپنا داخلہ کراکر کامیاب ہونے لگے،آئندہ سالوں میں مزید اضافہ ہوا اس وقت بہار کے علاوہ حیدرآباد اور ممبئی ودیگرصوبوں میں بھی طلبہ کی کوچنگ کی جاری ہے ، جہاں پر ماہر اساتذہ کرام کی نگرانی میں تعلیم کے ساتھ تربیت اور شخصیت سازی پربھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔
مسلم طلبہ کو چار ٹرڈ اکاؤنٹنٹ (Chartered Accountant) اور سائنٹسٹ (Scientist) بنانے کے بھی حضرت مولانامحمدولی رحمانی صاحب نے قابل قدر کوششیں کیں، سی اے(CA) کی تیاری پونہ میں اور سائنٹسٹ کی تیاری نئی دہلی میں کرائی جارہی ہے ۔رحمانی 30کی ایک تعلیمی تحریک جو صوبہ بہار وبنگال سے شروع ہوئی تھی،آج ملک کے کونے کونے میں وہ پہونچ چکی ہے،رحمانی 30 کے اس اقدام سے مسلم طلبہ میں ایک نئی امنگیں پیداہوئی ہیں،اس لئے اب انہوں نےعالمی سطح کے مشکل مقابلوں میں قسمت آزمانا شروع کردیاہے،اس سمت انہیں زبردست کامیابی بھی ملی، میتھ میڈیکل اولمپیاڈ، فزکس اولمپیا ڈ، کیمسٹری اور میڈیکل کے عالمی سطح کے مقابلوں میں بھی رحمانی 30 کے طلبہ بہترین مظاہرہ کرچکے ہیں۔
مسلمانوں میں ایسے افراد کا ہونابھی ضروری ہے،جو ملکی قانون اور اس کی باریکیوں سے باخبرہوں،ضرورت پڑنے پر مسلمانوں کے معاملات کی اچھے اندازمیں پیروی بھی کرسکیں،اور جج کی کرسی پر بیٹھ کرمظلوموں کو انصاف ،اور ظالموں کو ان کے کئے کی سزابھی دلاسکیں،اس کے لئے رحمانی 30کے زیراہتمام 2013سے ہی (CLAT)کی تیاری کرائی جارہی ہے، الحمدللہ اس جہت میں بھی رحمانی 30 کے طلبہ کامیابی درج کراچکے ہیں،ہمیں امیدہے کہ اس سے مسلمانوں میں لگاتار آرہی ججوں اور وکیلوں کی کمی پر قابو پانے میں مدد ملے گی ،اسی طرح2013 سے ہی میڈیکل کی بھی تیاری کرائی جارہی ہے ، اس میں بھی کامیابی ملنے لگی ہے ، اور مسلم طلبہ کے لئے میڈیکل کی راہ ہموار ہور ہی ہے ، 2014 سے لڑکیوں کو بھی میڈیکل کی تعلیم وتربیت کے لئے منتخب کیا گیا ہے !
رحمانی 30کوئی معمولی تحریک نہیں ہے،مفکراسلام حضرت مولاناسیدمحمدولی رحمانی ؒ نے فرمایاتھا:میں نے مدارس اسلامیہ کی 1200سالہ تاریخ کے نظام سے جو کچھ سمجھا،اسے عصری اداروں پر منطبق کیا،تو رحمانی تھرٹی وجودمیں آیا،اگرمدرسہ کے پڑھنے والے اور مدرسہ کے نئے فارغین کے لئے ہم کوئی معیاری تربیت گاہ بناسکیں ، جہاں یہ ہیرے اپنی آب وتاب کو نکھارسکیں،اور چندبرس رہ کر زیادہ کام کے بن سکیں ،تو یہ تربیت گاہ کون جانے نیابیت الحکمۃ ثابت ہو،اسی طرح اسکول کی سطح پر اگر ذہین ترین طلبہ کا انتخاب کرکے انہیں مدرسہ کے طرز کے اداروں میں اسکول وکالج کی تعلیم دیں،ان کی ذہانت اور تلاش کی قوت کو سائنس سے جوڑیں،ان کے اندرچھپی ادبی صلاحیت کو ادیب کا قلم دیں،ان کی قانونی نکتہ رس طبیعت کو قانون دانوں کا جامہ پہنائیں ،ان کی صلاحیت اور قوتِ فیصلہ کو ایڈمنسٹریشن کے علم سے ملاقات کرادیں ، تو یقین جانئے ،بیس برس گذرتے گذرتے ایسی تبدیلی آئے گی کہ دیکھاکرے کوئی،یہ کوئی خواب نہیں ،تجربہ ہے ،اور میری زندگی کا کامیاب تجربہ،اسی تجربہ گاہ کانام رحمانی تھرٹی ہے۔
رحمانی 30 کے بانی ،حضرت مولاناسیدمحمدولی رحمانی صاحب آج دنیامیں نہیں ہیں،لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ ان کے دولائق وفائق فرزند امیرشریعت حضرت مولانااحمدولی فیصل رحمانی صاحب اور انجینئر فہدرحمانی اس تعلیمی تحریک کو آگے بڑھانے اور ملک وقوم کے لئے بامقصد بنانے کے لئے مسلسل کوشاں ہیں،اللہ انہیں جزائے خیردے،ہم سب کی ذمہ داری بھی ہے کہ رحمانی تھرٹی کے نام سے انہوں نے جو تحریک شروع کی تھی،اس کا حصہ بنیں،اورتحریک کو فروغ دینے کے لئے جو کچھ بھی کرسکتے ہیں ،بخالت سے کام نہ لیں!
امارت شرعیہ پھلواری شریف،پٹنہ کے امیرشریعت بنتے ہی ،امارت شرعیہ کے بینر تلے امیر شریعت سابع ،مفکراسلام حضرت مولانا سیدمحمد ولی رحمانی ؒ صاحب نے عصری تعلیمی اداروں کے قیام کی طرف خصوصی توجہ مبذول فرمائی تھی ، گریڈیہہ اور رانچی میں امارت پبلک اسکول کے نام سے ادارہ قائم کیا،رانچی کے اربا میں امارت انٹرنیشنل اسکول کی بنیاد آپ نے ہی ڈالی،اس موقع پر آپ نے تعلیم کی اہمیت پر اہم خطاب بھی فرمایا،اس سے سمجھ میں آتاہے کہ وہ دینی تعلیم کے ساتھ ،عصری تعلیم کے تئیں کس قدر پرجوش اورپرعزم تھے۔فرماتے ہیں: اسلام میں جو تعلیم کی اہمیت ہے وہ بالکل واضح ہے،قرآن مجید جب نازل ہونا شروع ہوا تو سب سے پہلا لفظ جو اترا وہ ہے’ اقرأ’ یعنی پڑھئے، یہی لفظ ہے جواسلام کی بنیاد بنا ، ہر ایک کو سمجھنا چاہئے کہ اسلام کا تعلیم کے سلسلہ میں کیا وِزن ہے ، اسلام تعلیم کے بغیر نہیں چلتا اور رسول اللہﷺکی مرضی تھی کہ مسلمان تعلیم کے بغیر نہ چلے ۔تعلیم ایسی نعمت ہے جہاں ملے ،جس ذریعہ سے ملے، حاصل کرنی چاہئے، تعلیم و ہ بنیاد ہے ، جس کے نتیجے میں قومیں بڑھتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں، اگر ہم نے تعلیم و ٹیکنالوجی کو حاصل نہیں کیا تو نہ صر ف ہم پیچھے رہیں گے بلکہ ملک پیچھے رہے گا ۔ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تعلیم کے میدان میں آگے بڑھیں ، یہ ایک بنیادی ضرورت ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ آج جو تعلیم ہو رہی ہے وہ ہماری تہذیب سے مطابقت نہیں رکھتی ،آج ہمارے یہاں یورپ کے تعلیمی نظام کی تقلید کی جاتی ہے ، جہاں اخلاقی اقدار ، رشتے کا احترام جیسی انسانی اور اخلاقی اقدار اور خوبیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ آج ہم نے دلوں میں اتنی آگ لگا دی ہے کہ انسان انسان نہ رہا ، بلکہ پیسے کا غلام اور جانور بن کر رہ گیا ہے ۔تعلیم کا مقصد انسان بننا ہے ، اچھا شہری بننا ہے ، تعلیم تو عظمت کی ڈگری ہے ، ہماری بے لگا م خواہشوں کی بنیاد مغربی تہذیب اور ان کا تعلیمی نظام ہے ، جس کو ہم نے قبول کر لیا ہے۔آپ نے مزید کہا کہ آج نہ طالب علم کو استاذ کی قدر ہے، نہ استاذ کو شاگردوں سے محبت، امارت شرعیہ کا مقصد ایسا نظام قائم کرنا ہے جہاں لوگ تعلیم یافتہ بھی ہوں اور تہذیب یافتہ بھی ہوں، ان کے اندر انسانیت پیدا ہو۔
ریاستِ بہارمیں واقع ضلع کشن گنج کثیرمسلم آبادی پرمشتمل ہے،لیکن تعلیمی اعتبارسے یہاں کی صورت حال بہت ہی تکلیف دہ اور ناگفتہ بہ ہے،تعلیمی ترقی کا خواب لے کر حضرت مولاناسیدمحمدولی رحمانی صاحبؒ یہاں پہونچے،اور اس ضرورت کی تکمیل کے لئے 2011میں 285ایکڑ زمین خریدی،تاکہ اس وسیع وعریض زمین پر تعلیمی،صنعتی ودیگرپیشہ وارانہ ادارے کھولے جائیں،اگر اس میں حضرت مولاناکو کامیابی مل جاتی تو دس ہزارسے زائد طلبہ وطالبات پلس ٹو تک کی تعلیم دینی ماحول میں حاصل کرتے،مگر چندوجوہ کی بناء یہ خواب شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکا،موجودہ امیرشریعت حضرت مولانااحمدولی فیصل رحمانی صاحب ،اور نائب امیرشریعت حضرت مولانامحمدشمشاد صاحب رحمانی ،قاسمی بھی اس وقت امیرشریعت سابعؒ کے نقش قدم پر تعلیمی اعتبارسے مسلمانوں کو آسمان کی بلندی تک پہونچاناچاہتے ہیں ،ان سے ہم گذارش کرتےہیں کہ آپ کشن گنج کی طرف توجہ فرمائیں،اس سے ان شاء اللہ ایک شدیدضرورت کی تکمیل ہوگی!
دینی وعصری دونوں میدانوں میں یقیناکام کرنے والے افرادکی کمی نہیں ہے، لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں جو نوجوانوں کو دینی ماحول میں عصری تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکرکو ایک تحریک کی شکل دے دیں،یعنی تعلیم برائے تعلیم نہیں،بلکہ ایک مشن،مقصداور ایک تحریک بناکرپیش کریں،مفکراسلام حضرت مولاناسیدمحمدولی رحمانی صاحبؒ کی یہی سب سے بڑی خوبی تھی،آئیے!آج ہم عہدکرتے ہیں کہ ان کی اس تحریک کو زندہ رکھیں گے،آگے بڑھائیں گے،اور مزیداداروں کے قیام کو یقینی بنائیں گے!
مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے جشن صدسالہ(2012) کے موقع پر اداروں کے قیام کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انہوں نے بہت ہی اہم خطاب فرمایاتھا،اس کاایک حصہ آپ کے سامنے پیش کرکے بات کو مکمل کرتے ہیں۔فرماتے ہیں: ‘ ‘ اپنے پیسوں کو صحیح مصرف میں خرچ کیجئے، خاص طور سے تعلیم کی راہ میں لگائیے،اج لوگ مکان بنانے میں ، شادیوں میں اور دوسری تقریبات میں بڑی بڑی رقمیں خرچ کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں سمجھتے ،کہ اخراجات کی یہ فضول خرچی نہ ہمارے کام کی ہے نہ ملت کے کام کی، اس لئے آپ اپنے پیسے اداروں کے قیام میں لگائیے، یہ آپ کی دینی ذمہ داری بھی ہے ، اور ایمانی وانسانی ذمہ داری بھی، کیوں کہ آپ کے یہ ادارے ہی آپ کی توانائی ہیں۔ میں جانتاہوں کہ ادارے قائم کرنا آسان نہیں ہے، اس میں مشکلات ہیں، لیکن بھلابتائیے کہ آپ اگر چیلنجوں کو قبول نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ اگر آپ چیلنجوں کو قبول نہیں کریں گے تو یاد رکھئے!آنے والے دنوں میں آپ کی اولاد اور آپ کی نسلیں سر اٹھا کر اس سر زمین پر نہیں چل سکیں گی، اس لئے چاہے مشکلات ہوں، چاہے آسانیاں، آنے والے دنوں میں آپ کی نسلوں کو سر اٹھاکر چلنے کے لئے اپنے ادارے قائم کرنا ضروری ہے ، ایسا ادارہ جس میں ہر ہندوستانی پڑھ سکے اور یہ سمجھے کہ مسلمان صرف لینے والی ملت نہیں ہے ، دینے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے ،اور یہ دینے کی پوزیشن میں ہے ، آپ اپنی اس پوزیشن کو سمجھئے اور مضبوط کیجئے!! ‘ ‘
دعاء ہےکہ اللہ رب العزت مفکراسلام حضرت مولاناسیدمحمدولی رحمانی صاحبؒ کی مغفرت فرمائے،ان کے درجات کو بلندفرمائے،تعلیم کے لئے ان کی کوششوں کو صدقہ جایہ بنائے۔آمین یارب العالمین

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی