ماہنامہ الفاران
ماہِ شعبان المعظم - ۱۴۴۳
استاذ! فرش سے عر ش تک پہونچانے والی ذات؛ قسط۔5۔(طلبہ میں جستجو اور قوت استدلال کی صلاحیت پید اکیجئے! )
حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش، سرپرست :ماہنامہ الفاران
ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو علم دینے کے بجائے ان میں علم حاصل کرنے کی جستجو اور ذوق پید ا کیا جائے۔ ماہر نفسیات خلیل جبران کے بیان کے مطابق اچھا استاذوہ نہیں جو اپنی ذہانت طلبہ میں تقسیم کرتا پھر ے بلکہ ہر طالب علم کو خود اس کے اپنے ہی ذہن کی دہلیز پر لاکھڑا کرے تاکہ وہ جان سکے کہ اس کے اپنے ذہن میں کیا ہے۔
اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگاکہ ہمارا گھر ہمارااٹھنا بیٹھنا ایک استاذ کا ہوگا یا ایک عیش پسند تاجر و حاکم کا،ہمارا چال چلن قوم کے رہبر، عوام کے قائد اور ملک و ملت کے معمار کی طر ح ہوگا یا ان مردوں و عورتوں کی طرح ہوگا جن کے جسم تو بالغ ہوچکے ہیں لیکن جن کے دل و دماغ ابھی تک نابالغ بچوں کی طرح دنیا کی ہر رنگینی کو دیکھ کر اسکی تلاش و جستجو میں لگ جاتے ہیں کہ یہ بھی میرے گھر میں ہویہ بھی میرے پاس ہو۔
اگر علم اپنی اصلی روح کے ساتھ چاہئے تو ان سب کو خیر باد کہنا ہو گا، ان سے جدائی بر دا شت کرنی ہوگی اپنے بیوی بچوں کا بھی یہی ذہن بنانا ہوگا کہ ہمارے گھر سے لوگ سادگی سیکھ کرجائیں دنیا کے فناہونے کا استحضار اور دنیا سے بے رغبتی سیکھ کر جائیں ہمارے گھر پر آنے والے مہمان اس قول مبارک کی تشریح سیکھ کر جائیں۔
دراصل اساتذہ نیک تو پوری امت نیک، اساتذہ ایک تو پوری امت ایک، اساتذہ سادہ و جفاکش تو پوری امت سادہ اور جفاکش بنے گی۔اگر استاذ خیرخواہ، خیر اندیش،مخلص اور صالح ہوتو شاگردوں میں بھی یہ صفت بدرجہ اتم پائی جائے گی۔
اسی طرح ساتذہ کرام بچوں میں بھی اور خود اپنے ساتھیوں میں ”شکریہ“ کارواج ڈالیں کہ اسلام نے ہمیں شکریہ اداکرنے کیلئے جز ا ک اللہ خیر اکی دعاء سکھلائی ہے
شکریہ کا ایک لفظ ہے جو نہ صرف یہ کہ بڑے بڑے مسئلے حل کرواسکتاہے بلکہ آپ کو خوش اخلا ق اساتذہ کی صف میں شامل کرواسکتاہے۔
حدیث شریف میں بھی ترغیب ہے ارشاد نبوی ﷺہے مَنْ لَّم یَشْکُرِالنَّاسَ لَمْ یَشْکُرِاللّٰہ(ترمذی ص ۷۱ ج ۲ مکتبہ البدر دیوبند) جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتاوہ اللہ کا بھی شکر گذار نہیں ہوتا۔مطالعہ کی گہرائی کیسے پیدا ہو!
کامیا ب استاذ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ شاگردوں میں بھی کتب بینی کا ذوق پید ا کرائیں یہ ذوق، ذوق سے بڑھ کر لَتْ اور بیمار ی کی حدتک پہنچ جائے۔
کوئی چھپی ہو ئی صحیح چیز سامنے آجائے تو اسکو پڑھے بغیر نہ چھوڑیں جو لوگ اچھے استاذ کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں انہیں مطالعہ میں گہرائی، گیرائی اور تعمق پیدا کرناچاہئے محض مطالعہ کرلینے سے ہی بات نہیں بنتی بلکہ حاصل کی ہوئی معلومات کو طلبہ تک پہنچانابھی پڑتاہے
سرٹامس براؤن کا قول ہے ”میں اپنے دماغ کو علم کی قبر نہیں بلکہ علم کا خزانہ بنانا چاہتاہوں میں علم کا ٹھیکہ لینے کا خواہاں نہیں بلکہ اس کی عمومیت کا مشتاق ہوں میں مطالعہ صرف اپنی ذات کیلئے پسند نہیں کرتا بلکہ ان لوگوں کیلئے جو خود مطالعہ نہیں کرتے“۔
لارڈ میکالے کا قول ہے ”اگر روئے زمین کی بادشاہت مجھے دے دی جائے اور میرا کتب خانہ مجھ سے لے لیا جائے تو میں اس پر ہرگز رضامند نہ ہوسکوں گا“۔
اساتذہ کو چاہئے کہ سبق پڑھانے سے پہلے اس کا مالہ وماعلیہ کیساتھ عرق ریزی سے مطالعہ کریں کہ یہ امانت ہے۔ اس میں معمولی کوتاہی بھی خیانت ہے طلبہ کی جماعت ان کے والدین اور ادارے کے ذمہ دار احباب نے آ پ پر اعتماد کیا ہے کہ آ پ در سگاہ میں داخل ہونے سے پہلے درس کی پوری تیاری کرکے آئیں گے۔ یعنی اس کی پوری تیا ری کہ درسگاہ کے کمزور سے کمزور بچہ کو کسی بھی طرح سمجھا دیاجائے۔ یہی ایک اچھے استاذ کا کمال اور اس کا طرہئ امتیاز ہے کہ اس میں سمجھانے کی اعلیٰ استعداد ہو۔ خود سمجھ لینا ایک کمال ہے لیکن دوسروں کو سمجھا نا اور پھر جس عمر کا جو بچہ ہے اسی کے معیا ر پر استاذ کو نیچے آ نااس کی زبان میں بولنا یہ اعلیٰ کمال ہے جو محنت، شوق اور لگن سے حاصل ہوا کرتا ہے۔
بزرگوں نے اس کیلئے تین باتیں بتلائیں ہیں o مطالعہ کا اہتمام o دعاؤں کا اہتمام o طلبہ جو کچھ سمجھیں ان سے پوچھنا اور انکو سوالات کرنے کیلئے موقع دینا۔
حضرت امام نووی ؒنے لکھا ہے کہ:معلم ومدرس کو چاہئے کہ ہمیشہ علمی مشغلہ میں منہمک رہے،پڑھنے پڑھانے،مطالعہ ومذاکرہ،تصنیف وتالیف جیسے نفع بخش امور میں لگارہے،اپنے سے کم عمریا حسب ونسب یا شہرت ونامور ی یاکسی اعتبار سے کم درجے کے شخص سے بھی علمی استفادہ کرنے میں نہ شرمائے جو چیز نہ جانتاہوبلاجھجھک پوچھ لے،حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ: ”من رق وجھہ رق علمہ“(بیہقی ودارمی) یعنی جو شخص شرم وحیا سے کام لیتاہے اس کا علم کم اور معمولی ہوتاہے.
مشہور تابعی حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ:”لایتعلم العلم مستحیی ولا مستکبر“(بخاری شریف کتاب العلم)یعنی شرمانے والا اور تکبر کرنے والا کبھی علم حاصل نہیں کرسکتا۔
حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: انسان جب تک علم سیکھتارہتاہے علمی مدارج طے کرتارہتاہے اور جب علم حاصل کرنا چھوڑدیتاہے اپنے آپ کو مستغنیٰ وفارغ سمجھ لیتاہے تو وہ نراجاہل ہوجاتاہے۔اس لئے منصب وعزت کا خیال اس کو علمی استفادہ کرنے سے نہ روکے واقعہ ہیکہ بہت سے اسلاف اپنے طلبہ سے استفادہ کرتے تھے۔ (جاری)
اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگاکہ ہمارا گھر ہمارااٹھنا بیٹھنا ایک استاذ کا ہوگا یا ایک عیش پسند تاجر و حاکم کا،ہمارا چال چلن قوم کے رہبر، عوام کے قائد اور ملک و ملت کے معمار کی طر ح ہوگا یا ان مردوں و عورتوں کی طرح ہوگا جن کے جسم تو بالغ ہوچکے ہیں لیکن جن کے دل و دماغ ابھی تک نابالغ بچوں کی طرح دنیا کی ہر رنگینی کو دیکھ کر اسکی تلاش و جستجو میں لگ جاتے ہیں کہ یہ بھی میرے گھر میں ہویہ بھی میرے پاس ہو۔
اگر علم اپنی اصلی روح کے ساتھ چاہئے تو ان سب کو خیر باد کہنا ہو گا، ان سے جدائی بر دا شت کرنی ہوگی اپنے بیوی بچوں کا بھی یہی ذہن بنانا ہوگا کہ ہمارے گھر سے لوگ سادگی سیکھ کرجائیں دنیا کے فناہونے کا استحضار اور دنیا سے بے رغبتی سیکھ کر جائیں ہمارے گھر پر آنے والے مہمان اس قول مبارک کی تشریح سیکھ کر جائیں۔
دراصل اساتذہ نیک تو پوری امت نیک، اساتذہ ایک تو پوری امت ایک، اساتذہ سادہ و جفاکش تو پوری امت سادہ اور جفاکش بنے گی۔اگر استاذ خیرخواہ، خیر اندیش،مخلص اور صالح ہوتو شاگردوں میں بھی یہ صفت بدرجہ اتم پائی جائے گی۔
اسی طرح ساتذہ کرام بچوں میں بھی اور خود اپنے ساتھیوں میں ”شکریہ“ کارواج ڈالیں کہ اسلام نے ہمیں شکریہ اداکرنے کیلئے جز ا ک اللہ خیر اکی دعاء سکھلائی ہے
شکریہ کا ایک لفظ ہے جو نہ صرف یہ کہ بڑے بڑے مسئلے حل کرواسکتاہے بلکہ آپ کو خوش اخلا ق اساتذہ کی صف میں شامل کرواسکتاہے۔
حدیث شریف میں بھی ترغیب ہے ارشاد نبوی ﷺہے مَنْ لَّم یَشْکُرِالنَّاسَ لَمْ یَشْکُرِاللّٰہ(ترمذی ص ۷۱ ج ۲ مکتبہ البدر دیوبند) جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتاوہ اللہ کا بھی شکر گذار نہیں ہوتا۔
کامیا ب استاذ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ شاگردوں میں بھی کتب بینی کا ذوق پید ا کرائیں یہ ذوق، ذوق سے بڑھ کر لَتْ اور بیمار ی کی حدتک پہنچ جائے۔
کوئی چھپی ہو ئی صحیح چیز سامنے آجائے تو اسکو پڑھے بغیر نہ چھوڑیں جو لوگ اچھے استاذ کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں انہیں مطالعہ میں گہرائی، گیرائی اور تعمق پیدا کرناچاہئے محض مطالعہ کرلینے سے ہی بات نہیں بنتی بلکہ حاصل کی ہوئی معلومات کو طلبہ تک پہنچانابھی پڑتاہے
سرٹامس براؤن کا قول ہے ”میں اپنے دماغ کو علم کی قبر نہیں بلکہ علم کا خزانہ بنانا چاہتاہوں میں علم کا ٹھیکہ لینے کا خواہاں نہیں بلکہ اس کی عمومیت کا مشتاق ہوں میں مطالعہ صرف اپنی ذات کیلئے پسند نہیں کرتا بلکہ ان لوگوں کیلئے جو خود مطالعہ نہیں کرتے“۔
لارڈ میکالے کا قول ہے ”اگر روئے زمین کی بادشاہت مجھے دے دی جائے اور میرا کتب خانہ مجھ سے لے لیا جائے تو میں اس پر ہرگز رضامند نہ ہوسکوں گا“۔
اساتذہ کو چاہئے کہ سبق پڑھانے سے پہلے اس کا مالہ وماعلیہ کیساتھ عرق ریزی سے مطالعہ کریں کہ یہ امانت ہے۔ اس میں معمولی کوتاہی بھی خیانت ہے طلبہ کی جماعت ان کے والدین اور ادارے کے ذمہ دار احباب نے آ پ پر اعتماد کیا ہے کہ آ پ در سگاہ میں داخل ہونے سے پہلے درس کی پوری تیاری کرکے آئیں گے۔ یعنی اس کی پوری تیا ری کہ درسگاہ کے کمزور سے کمزور بچہ کو کسی بھی طرح سمجھا دیاجائے۔ یہی ایک اچھے استاذ کا کمال اور اس کا طرہئ امتیاز ہے کہ اس میں سمجھانے کی اعلیٰ استعداد ہو۔ خود سمجھ لینا ایک کمال ہے لیکن دوسروں کو سمجھا نا اور پھر جس عمر کا جو بچہ ہے اسی کے معیا ر پر استاذ کو نیچے آ نااس کی زبان میں بولنا یہ اعلیٰ کمال ہے جو محنت، شوق اور لگن سے حاصل ہوا کرتا ہے۔
بزرگوں نے اس کیلئے تین باتیں بتلائیں ہیں o مطالعہ کا اہتمام o دعاؤں کا اہتمام o طلبہ جو کچھ سمجھیں ان سے پوچھنا اور انکو سوالات کرنے کیلئے موقع دینا۔
حضرت امام نووی ؒنے لکھا ہے کہ:معلم ومدرس کو چاہئے کہ ہمیشہ علمی مشغلہ میں منہمک رہے،پڑھنے پڑھانے،مطالعہ ومذاکرہ،تصنیف وتالیف جیسے نفع بخش امور میں لگارہے،اپنے سے کم عمریا حسب ونسب یا شہرت ونامور ی یاکسی اعتبار سے کم درجے کے شخص سے بھی علمی استفادہ کرنے میں نہ شرمائے جو چیز نہ جانتاہوبلاجھجھک پوچھ لے،حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ: ”من رق وجھہ رق علمہ“(بیہقی ودارمی) یعنی جو شخص شرم وحیا سے کام لیتاہے اس کا علم کم اور معمولی ہوتاہے.
مشہور تابعی حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ:”لایتعلم العلم مستحیی ولا مستکبر“(بخاری شریف کتاب العلم)یعنی شرمانے والا اور تکبر کرنے والا کبھی علم حاصل نہیں کرسکتا۔
حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: انسان جب تک علم سیکھتارہتاہے علمی مدارج طے کرتارہتاہے اور جب علم حاصل کرنا چھوڑدیتاہے اپنے آپ کو مستغنیٰ وفارغ سمجھ لیتاہے تو وہ نراجاہل ہوجاتاہے۔اس لئے منصب وعزت کا خیال اس کو علمی استفادہ کرنے سے نہ روکے واقعہ ہیکہ بہت سے اسلاف اپنے طلبہ سے استفادہ کرتے تھے۔ (جاری)