ماہنامہ الفاران

ماہِ شعبان المعظم - ۱۴۴۳

عصرحاضرکےمسلمان، جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود۔

حضرت مولانا منصوراحمدحقانی، مہتمم :دارالعلوم حقانیہ بگڈھرا ،ارریہ بہار۔

اسلام ایک آفاقی اور لافانی مذہب ہے اس نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں اپنے ماننے والوں کو نہایت ہی عمدہ، بہترین اور مکمل اصول و ضوابط کے ساتھ عدل وانصاف پر مبنی مکمل قوانین پیش کیا ہے، انفرادی و اخلاقی زندگی ہو یا اجتماعی و معاشرتی، ہرگوشہ کیلئے اسلام کی جامع ہدایات موجود ہیں اور ان ہدایات کی جانکاری کیلئے علم ازحد ضروری ہے۔علم کی بدولت قوموں نے عروج پایا۔ علم نے آدمیت کو انسانیت کے رنگ میں ڈھالا، ورنہ آدمی کھانے پینے اور اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کو اپنا عروج سمجھتا تھا۔ زندگی گزارنے کا مقصد نفسانی خواہشات کی تکمیل کے سوا کچھ نہ تھا۔ انسان تہذیب وثقافت سے عاری تھا۔ نیکی اور بدی کی تمیز سے نابلد تھا۔ علم نے تہذیب سکھائی۔ اچھائی اور برائی کی تمیز سکھائی۔ علم کا مقصد سمجھ بوجھ اور فہم و فراست میں پاکی حاصل کرنا ہے، جیسا کہ ڈاکٹرعلامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ:"علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد"
دنیا کی ترقی کا دارو مدار علم پر ہے۔ علم ہی دنیا اور آخرت میں عزت کا باعث بنتا ہے۔ اسی لئے مسلمان جب تک علم سے وابستہ رہے۔ دنیا میں نمایاں رہے۔ ایجادات میں پیش پیش رہے۔ تسخیرِ کائنات میں آگے رہے۔ نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، لیکن جب مسلمانوں نے علم کے دامن سے اپنے آپ کو آزاد کیا اور میدانِ علم سے بھاگے تو ہر میدان میں پسپا ہوئے۔ اسی بات پر حیرت اور افسوس کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں اپنے درد کا اظہار یوں کیاہے:- حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا

ڈاکٹرعلامہ اقبال نے اس بات کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب ﷺ پر وحی کا نزول اقراء سے کیا تھا یعنی پڑھئے۔ اس لئےپڑھنا لکھنا تو مسلمان کی گھٹی میں پڑاہوا ہونا چاہئے۔ علامہ اقبا ل نے بچوں کے لئے جو نظمیں لکھیں ہیں، ان میں آداب و اخلاق کے ساتھ علم کی طرف بھی راغب کیا ہے۔ علامہ اقبال نے بچوں میں ابتداء ہی سے علم کے حصول کا جذبہ بیدار کرنے کی کوشش کی ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی مشہور دعائیہ نظم ”لب پہ آتی ہے دعابن کے تمنا میری“ میں علم کے متعلق ایک دعا لکھتے ہیں :- زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب
یعنی جب طلبہ اور طالبات اپنے تعلیمی ادارے میں اس نظم کو پڑھین گے تو یقیناًان کے دلوں میں علم کی محبت بڑھے گی اور وہ جوں جوں با شعور ہوتے جائین گے علم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے آگے کی اور رواں دواں رہین گے۔ علم کا یہی جذبہ علامہ اقبال قوم کے ہر فرد میں چاہتے تھے۔ ڈاکٹرعلامہ اقبال نے درجنوں بارمسلمانوں میں تعلیمی شعور بیدار کرنے کی کوشش کیں۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمان تعلیمی میدان میں پیچھے رہ گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ترقی بھی نہ کرسکے۔ علم کو چھوڑ کر عیش پرستی میں پڑ گئے۔ دولت کے حصول میں لگ گئے۔ علم کو چھوڑ کر عیش و عشرت میں لگ گئے۔ علامہ اقبال ایسے علم کے حصول سے منع کرتے تھے،جوجسمانی لذتوں اور آسائشوں تک محدود ہو۔جیسا کہ ان کا ہی شعر ہے:- وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کاحاصل ہےجہاں میں دو کفِ جَو
در حقیقت بغیرتعلیم وتعلم کے کوئی چارہ نہیں ہے، اسلئے اسلام نے انسانوں کو پہلا سبق تعلیم وتعلم کا دیا ہے اور بغیر اس کے حصولِ ارتقاء ناممکن ہے اور تاریخ کے سنہرے اوراق بھی اس بات سے بھرے ہوئے ہیں کہ جس قوم نے بھی ترقی کی ان میں تین خوبیاں ضرور موجود تھیں، (١) وہ علمی اعتبار سے برتر تھے، (٢) ان کی معیشت مضبوط تھی اور(٣) اور ان کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ یہی نسخۂ کیمیا آج تک دنیا میں کارفرما ہے لیکن افسوس، صد افسوس! مسلمانوں نے اپنی اور دیگر اقوام کی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور آج ہم مسلمانان ان تینوں شعبوں میں دنیا سے بہت پیچھے ہیں اس وقت دنیا میں مسلمانوں کی تعداد تقریباََ ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے، دنیا میں ایک ہندو اور ایک بدھ مت کے مقابلے میں دو مسلمان اور ایک یہودی کے مقابلے میں ایک سو مسلمان ہیں۔ آج دنیا میں اکسٹھ اسلامی ممالک ہیں، ان میں سے ستاون ملک مسلمانوں کی عالمی تنظیم او آئی سی کے رکن ہیں لیکن ہم دنیا کی تیسری بڑی قوت ہونے کے باوجود بھی انتہائی کمزور ، حقیر اور بے بس نظر آتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ؟ اور کون ہیں اس کے ذمہ دار؟ اگر باریک بینی کی عینک سے ہم اورآپ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھین گے تو اس کےقصور وار کوئی اور نہیں بلکہ ہم مسلمان ہی ہیں۔ آج کے دور میں اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ مسلمانوں کے حالات خراب ہیں، تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کہنے والا شخص ناواقف ہے انہیں کسی چیز اور سچائی کا کوئی گیان اور معلومات فراہم نہیں ہے۔ آج کے دور میں مسلمانوں کے حالات خراب نہیں ہیں، بلکہ مسلمان خود خراب ہیں، بہت آسان ہے کسی کو غلط ٹھہرانا، کسی پر انگشت نمائی کرنا اور کسی پر تنقید کرنا، مگر اپنی غلطی کو تسلیم کرنا بڑا مشکل کام ہے، کیوں کہ ہم مسلمانان اپنے دامن کو نہیں دیکھتے بلکہ دوسروں کے تجسس اور ان کے ٹوہ میں رہنا ہم اپنا بہترین مشغلہ سمجھ رہے ہیں۔ آج دنیا کا کوئی ایسا عیب نہیں جو مسلمانوں میں موجود نہ ہوں، اگر میں یہ کہوں کہ ایک ہزار مسلمانوں میں بمشکل ایک یا دو شخص کلی طور پر مسلمان ہون گے، تو شاید بے جا نہ ہوگا اور نہ ہی مبالغہ آرائی ہوگی۔ الغرض ہر اعتبار سے مسلمانوں نے اپنی شناخت کو مٹا دیا ہے، ہاں مسلمانوں میں ایک جماعت ہے جسے دنیا "تبلیغی جماعت" کے نام سے جانتی ہے اس جماعت کو ہمارے اکابر و اسلاف نے جس مقصد کے تحت اس کی بنیاد رکھی تھی اور جس غرض اور مقصد کے پیشِ نظر اس کا آغاز کیا تھا، ان اغراض ومقاصد کو بالکل بھلادیا گیا ہے۔ اس جماعت نے اسلامی وضع قطع کو تو محفوظ رکھا ہے، مگر منافقانہ حرکتوں میں ملوث ہوکر جس منظم سازش کے تحت اسلامی عقائد پران افراد کی جانب سے جو ڈاکہ ڈالا جارہا ہے، اتنا کسی فرقہ یا جماعت نے نہیں ڈالا۔ دنیا کا یہ واحد جماعت ہے، جس نے مسلمانوں کے دلوں دماغ سے جہاد جیسے عظیم عقیدہ کو نکال پھینکا ہے۔ آج جہاد کا نام سنتے ہی مسلمان کانپ اٹھتے ہیں، جبکہ جہاد مسلمانوں کی آن بان اور شان ہے۔ جہاد کے عقیدے کو مسلمانوں کے دلوں سے مسلنے کیلئے ماضی میں بھی بے شمار تحریکیں سر بلند کیں اور ہزاروں جماعتیں آئیں، مگر ہر ایک ناکام ہی رہیں، افسوس کہ جو کام بڑی بڑی تحریکیں یہاں تک کہ قادیانی جیسی جماعتوں نے نہیں کر پایا وہ کام موجودہ دور کے تبلیغی جماعت بخوبی انجام دے رہی ہے، اس لئے آج کے مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ خدارا سدھر جاؤ ورنہ یاد رکھو باری تعالیٰ نے جہاں انسانوں کی رشد و ہدایت کیلئے چار آسمانی کتابیں نازل کیں وہیں اپنے برگزیدہ نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے پانچواں عصا بھی بھیجا ہے تاکہ جو قوم اللہ کی قیامت تک من وعن باقی رہنے والی کتاب سے راہ راست پر نہ آسکے اس کو عصائے موسیٰ سے صراط مستقیم پر لایا جائےگا، اوراللہ تعالیٰ یہ عصاء کسی کے بھی ہاتھوں میں دے سکتا ہے موجودہ حالات کے پیش نظر ہم اور آپ جو مشاہدہ کر رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ عصاء اسلام دشمنوں کے ہاتھوں میں ہے اور یہ ہونا ہی تھا، کیونکہ اس وقت مسلمان اپنے اسلام کو بھول چکا ہے۔ اسے معلوم ہی نہیں ہے کہ اسلام کا اصل مفہوم کیا ہے آج مسلمانوں کو سب سے زیادہ اگر کسی سے خطرہ ہے تو وہ خود اپنے مسلمان بھائیوں سے ہی ہے۔ آج کا مسلمان اتنا بڑا نِکمہ اور کاہل ہے کہ سب کام کاج چھوڑ کر صرف مسلمانوں کے پیچھے پڑا رہنے کو ہی کامیابی سمجھتا ہے۔ مثلاً کون کیا کر رہا ہے اور کون کہاں جارہا ہے اور فلاں نے اتنی ترقی کیوں کی ؟ ، فلاں اتنا خوشحال کیوں ہے؟ وغیرہ۔
یہ تو ہے آج کے مسلمانوں کا حال اگر اخلاق کی بات کریں تو ان کی بد اخلاقی کو دیکھ کر شیطان بھی شرما جائے۔ ایک وہ دور تھا کہ مسلمان اپنے اخلاق و کردار سے پہچانے جاتے تھے مگر آج معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ عصر حاضر میں سب سے زیادہ جھوٹ، فریب، مکاری، دھوکا دھڑی اور قول و فعل میں تضاد، مسلمانوں کے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، پھر پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتا ہے کہ ہم پریشان ہیں اور ہم ناگفتہ بہ حالات کے شکار ہیں اور دوسرے کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ فلاں حکومت نے ایسا کردیا اور فلاں نے ویسا، حالانکہ ان سب کے ذمہ دار کوئی اور نہیں صرف اور صرف مسلمان ہی ہیں اور یہ بات میں نہیں رب کا قرآن کہ رہا ہے:- وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ [الشورى: 30]
آج اگرمسلمان اپنے اخلاق و کردار کو سنوار لیں تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوجائین گے، مگر آج کے مسلمانوں کے حالات دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب قیامت بہت قریب ہے میرے نبیؐ نے فرمایا کہ "مسلمان ایک جسم کے مانند ہے"، مگر آج سرراہ مسلمانوں کو قتل کر دیا جاتا ہے لیکن کسی کی بھی ایمانی غیرت جوش میں نہیں آتی ہے کہ اس کے دفاع کیلئے من راء منکرا فلیغیرہ بیدہ پر عمل کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں یا کوئی ایسی معقول تدابیر اختیار کریں کہ جس سے ظالم کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔ عصر حاضر میں تو اکرام مسلم کے نام پر مسلمان خود مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں، حال ہی میں مسلمانوں کی بداخلاقی اور اس کی بدتمیزی سے متعلق راقم الحروف کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کو سن کر شیطان لعین بھی کہے گا کہ واہ میرے دوست! تو نے انسانی جماعت سےکیا ہی خوب تربیت حاصل کیا، جو کام میں نہیں کر سکتا تھا، اس کو تونے کر دکھایا۔ اللہ تجھے جہنم کے خوفناک وادیوں میں جگہ عنایت کرے!
واقعہ مختصراً یہ ہے کہ مدھیہ پردیش میں ایک ضلع راجگڑھ ہے جس کا ایک قصبہ ہے سارنگپور جہاں ہمارا جانا ہوا۔ نمازِ جمعہ کے بعد میں اور میرے ساتھیوں نے اپنا سامان سفر ایک "شاہی جامع مسجد میں رکھ کر چلا گیا بعد نمازِ عشاء جب ہم لوگ مسجد پہونچے تو گیٹ بند ہوچکا تھا کسی مقامی شخص کے ذریعہ معلوم ہوا کہ اس مسجد کا امام مولانا محمد زبیر صاحب (گجراتی) سامنے مکان میں رہتے ہیں تو ہم تمام ہمسفر ساتھی امام صاحب سے ملنے گئے تو امام صاحب بڑے ہی خوش اخلاقی سے ملے اور حال و احوال دریافت کرنے کے بعد کھانا کھلایا پھر موبائل سے رابطہ کر کے مسجد کا گیٹ کھلوایا بعدازاں ہم لوگ مسجد پہونچ گئے اور اپنا اپنا بستر بچھا کر لیٹ گئے، میرا ایک ساتھی وضوء کرکے تہجد کی نیت باندھ چکا تھا اس وقت رات کے تقریباً ساڑھے بارہ بج رہا تھا، اتنے میں ایک باریش اور جوکر نماں لمبے لمبے بال والا شخص نمودار ہوا اور آتے ہی کہنے لگا تم لوگ کس کی اجازت سے یہاں قیام کئے ہو؟ میں نے کہا جناب! امام صاحب نے ہی تو ہمارے لئے مسجد کا دروازہ کھلوایا اور انہی کی اجازت سے ہم لوگ یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں، اگر آپ کو کوئی اعتراض ہو تو ہم فجر کی نماز پڑھ کر یہاں سے چلے جائیں گے تو وہ شخص ہاتھی کے مانند گرج کر بولا کہ میں نے تم لوگوں کو کل بھی منع کیا تھا اورآج بھی تم لوگ یہیں ہو!، میں نے کہا جناب والا! ہم تو آج ہی آۓ ہیں آپ نے کل کسی اور کو منع کیا ہوگا! تو محترم مزید دہاڑتے ہوئےکہنے لگے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، مسجد سے باہر نکل جاؤ! اور جہاں جانا ہو چلے جاؤ اس کے علاوہ ایسے ایسے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا اور بد سلوکی سے پیش آیا جس کو میں اپنی تحریر میں نقل نہیں کر سکتا ہوں نتیجہ یہ ہوا کہ میرے ساتھی کو نماز کی نیت توڑوا دیا اور رات کی تاریکی میں سردی کے موسم میں مسجد سے باہر کروا کر ہی دم لیا۔ اب آپ ذرا غور کریں! وہ عالم دین جو دارالعلوم دیوبند سے اول نمبرات سے فراغت حاصل کرکے (۲۷) ستائیس سال تک قال اللہ اور قال رسول کی تعلیم دی ہو جس نے مشکوٰۃ، جلالین، ترمذی، ابوداؤد اور بخاری شریف جلد ثانی کی درس دیا ہو پھر وہ شخص صاحب نسبت بزرگ کے ہاتھوں پر بیعت ہو ایسے حضرات کے ساتھ جب یہ سلوک کیا جائے گا تو آپ ہی بتائیے کہ اس قوم کا کیا ہوگا؟ جب موجودہ دور کے علماء کی اتنی ناقدری اور توہین ہونے لگے تو پھر آنے والی نسلوں تک دین کیسے پہونچے گا، آخر کون سمجھائے گا ہم مسلمانوں کو دین، جب دینی رہنماؤں کو ہی لوگوں نے اپنا دشمن سمجھ لیا ہے کیا دین صرف چھ نمبر میں ہی موقوف ہے؟ اگر یہی حال رہا تو پھر یاد رکھیں! ابھی صرف سعودی عرب میں ہی پابندی عائد کی گئی ہے، اگر انہوں نے اپنی حالت نہیں بدلی تو غالب گمان ہے کہ کہیں پوری دنیا کے ممالک ہی ان پر پابندیاں ہی نہ عائد کردیں۔ اصل تبلیغ اپنے اخلاق و کردار سے دوسرے کو متاثر کرنا ہے نہ کہ مسلمانوں کو تشکیل کر کے چلے چار ماہ کے لئے گھر اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر نکلوانا، آج تبلیغی جماعت سے منسلک افراد نے قرآن و حدیث کی جو غلط اور من گھڑت تشریحات لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں، خاص طور پر جہادی آیات اور احادیث کو جس طرح توڑ مروڑکر سیدھے سادھے مسلمانوں کے سامنے بیان کر کرکے ان کو بزدل بنارہے ہیں۔
آج پوری دنیا میں برما ہو یا شام ، فلسطین ہو یا افغانستان ، افریقہ ہو یا امریکہ ، عراق ہو یا یمن ، ہر ملک اور دنیا کے ہر خطہ میں مسلم قوم تاریخ کے جس بدترین دور سے گزر رہی ہے، اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم مسلمان خود ہیں اور خاص طور پر تبلیغی جماعت کے امیر صاحبان سن لیں! آج کی تاریخ میں پوراکرہٴ ارض مسلمانوں کے خون سے رنگین کیا جارہا ہے ، دنیا کا یہ گھروندہ اور یہ سیارہ ارضی ہر طرف سے مسلمانوں کی آہ وبکا اور چیخ و پکار سے گونج رہا ہے ، اس دورظلم و ستم میں مسلمانوں کا خون سب سے زیادہ آسان اور ارزاں ہوگیا ہے۔ نیز دنیا کے کسی گوشہ سے بھی مسلمانوں کی ہمدردی اور حمایت میں کوئی آواز نہیں اٹھ رہی ہے۔ ایک منظم اور گہری سازش کے ساتھ دنیا کے ہر آباد خطہ میں امت مسلمہ کو نشانہ بنایا جارہا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ تمام اقوام عالم نے کوئی ٹھوس اور انتہائی خطرناک معاہدہ اور اتفاق کیا ہو،جس معاہدہ پر دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام طاقتیں عمل پیرا نظر آتی ہیں۔ امت مسلمہ کی جان و مال ، عزت و آبر اور دینی و ملی تشخص سب داوٴ پرلگے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کی اقتصادی ذرائع بھی نشانہ پر ہیں ، جان بھی خطرے میں ہے ، عزت وآبرو بھی پامالی کی دہانے پر ہے اور دین ومذہب تو اغیار کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے ۔
تمام اقوام عالم نے یک زبان ہو کر دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑدیا ہے اورجس طرح مسلمانان پوری دنیا میں بدترین حالت سے دوچار ہیں، اس سے بالکل صاف اور واضح نظر آتا ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ پریشان، بدنام مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسری قوم نہیں ہے مگر پھر بھی مسلمان ہوش میں نہیں آرہے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں مسلمانوں کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے : ” تم بہترین امت ہو “یعنی دنیا کی سب سے اچھی امت ہو ؛حالانکہ سب سے اچھی امت اسے کہتے ہیں جسے دنیا میں عز ت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے، دیگر اقوام جسے نمونہ بنائیں، اس کی پیروی کی جائے، اس کی تہذیب کو اپنایا جائے نیز وہ ایسی امت ہو کہ خوش حالی کی زندگی گزارے ، تمام طرح کی دنیاوی پریشانیوں سے مامون ومحفوظ ہو، مگر موجودہ دور کے مسلمانوں میں ان میں سے کوئی چیز بظاہر دیکھنے کو نہیں ملتی، جس کی وجہ سے ذہن میں یہ سوال گردش کرتا ہے کہ مسلمان” بہترین امت“ کیسے ہیں؟ جب کہ ہمارا کامل ایمان وراسخ عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کے فرمان میں کسی طرح کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:” ومن اصدق من اللہ قیلا“ اللہ سے زیادہ سچی بات کس کی ہوگی؟ ۔ دراصل اللہ کی بات صد فیصد سچ ہے مگر ہم مسلمانان صحیح نہیں ہیں۔ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں مذہب اسلام کا شاید ہی کوئی عمل ہم روز مرہ کی زندگی میں کرتے ہوں گے تو پھر ہم دنیا میں ذلیل و خوار نہیں ہوں گے، تو کیا کوئی اور ہوگا ؟ اس وقت مسلمانوں کو اخلاق و کردار کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کرنے کی شدید ضرورت ہے، تاریخ شاہد ہے کہ دین اسلام جتنا اخلاق سے پھیلا ہے اتنا کسی اور طریقۂ کار سے بلندیوں کو نہیں چھویاہے، اسلئے مسلمانوں کا اندرونی حسن اخلاق اور عقائد پاکیزہ اور صاف ستھرے ہونا چاہئے اور ظاہری وضع قطع بھی اسلامی تعلیمات کے روشی میں ہونا چاہئے اور دیکھنے والے کو ایک مسلمان ہر اعتبار سے ممتاز لگنا چاہیے۔ ہمارے ظاہری اخلاق سے ، معاملات سے اور شب روز کے معمولات سے دیکھتے ہی ان کو پتہ لگنا چاہئیے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم دنیا کے اس سفر میں ایسی خوب صورت مثال پیش کریں کہ دنیا والے ہمارے اخلاق و کردار کی مثالیں دیں ، ہمارے لباس کی نقل اتاریں اور ہمارے دین و مذہب کو قدر کی نگاہوں سے دیکھیں اورہماری بھی قدر و منزلت سلامت رہے، ورنہ دنیا اور ہمارے غیر یہ کہنے لگین گے کہ:- و ضع میں تم ہونصاری تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کرشرمائیں یہود۔
یقیناً ہمارا ماضی بڑا ہی شاندار،جاندار اور دم دارتھا، کیوں کہ کل تک ہماری ثقافت اور ہمارے اخلاق حقیقی حسن سے مزین تھے اور آج ہمارا اخلاق اتنا گر چکا ہے کہ ہم ذرہ برابر بھی اسلامی تہذیب کا پاس ولحاظ نہیں رکھ رہے ہیں، بلکہ دوسروں کے کلچراوراس کے رسوم کو پسند کرکے اسے اختیارکئے جارہے ہیں۔ ایساکرنے والے کے دل سے اسلام کی روح نکل جاتی ہے اور وہ گویا اپنے طرززندگی سے غیراسلامی طریقہ اور شعارکو اسلام کے مقابلے میں شعوری یا غیرشعوری طورپر بہترقراردے رہاہے، گویا ہم نے صرف اکرام مسلم جان تو لیا، مگر عملی اعتبار سے ہم عاری اور خالی ہیں، اسی لئے تو ناکامی ہماری مقدر بن چکی ہے،جس کی سچی تصویر ڈاکٹر علامہ اقبال نے یوں کھینچی ہے:- وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
پاک پروردگار ہمیں اپنی نازل کردہ اور تاقیامت اپنی اصلی حالت میں باقی رہنے والی کتاب "قرآن کریم" پر عمل کی توفیق نصیب کرے! آمین ثم آمین یارب العالمین۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی