ماہنامہ الفاران
ماہِ شعبان المعظم - ۱۴۴۳
معاشرے کی اصلاح سے پہلے جلسہ اصلاح معاشرہ کی اصلاح کی ضرورت!
حضرت مولانا و مفتی اطہرصاحب القاسمی، نائب صدر: جمعیۃ علما، بہار
اس وقت اصلاح معاشرہ کے ایک جلسے میں ہوں۔مغرب کی نماز ہوچکی ہے۔جلسہ گاہ آتے ہوئے راستے میں دیکھا کہ دو کیلومیٹر پہلے سے ہی سڑک کے دونوں کنارے پر مردوں اور عورتوں کا ہجوم ہے۔ان میں سماج کی نوجوان بیٹیوں کی تعداد زیادہ ہے جن کے ارد گرد منچلے شہزادوں کی ٹولیاں ہیں جو کبھی ادھر اور کبھی ادھر اس طرح تاک جھانک رہے ہیں جیسے کہ وہ کسی کی نظروں سے چھپنا چاہ رہے ہوں۔مغرب کی نماز کی ادائیگی کے آدھے پون گھنٹے گذر جانے کے بعد تک صرف شعر و شاعری کا ہی دور چلتا رہا۔پون گھنٹے کے بعد ایک مختصر سی تقریر ہوئی جو گویا مجمع کو جمانے،ذہن کو بنانے اور مزاج کو گرمانے یعنی آنے والے خطباء کے لئے مقدمۃ الجیش کے طور پر تھی۔رات کے آٹھ بج کر چالیس منٹ پر عشاء کی اذان ہوئی اور پنڈال میں جماعت عشاء کے بعد اناؤنسر صاحب نے دوبارہ اپنے مواعظ حسنہ سے لوگوں کو مستفیض فرمایا اور پھر دوبارہ تلاوت قرآن کریم اور نعتیہ کلام کے ساتھ نو بج کر پچاس منٹ پر دوسرے خطیب کو دعوت سخن دی گئی۔2017 کی علالت اور چہرے کے آپریشن کے بعد سے اجلاس میں میرا معمول بعد مغرب خطاب کا ہے لیکن آج معمول کے برخلاف میرا نمبر ساڑھے دس بجے کے بعد آنے والا تھا۔موقع غنیمت سمجھا اس لئے اپنی کھوپڑی کی آنکھوں سے کئے گئے موجودہ جلسہ اصلاح معاشرہ کے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں آج یہ چند سطور بڑے درد کے ساتھ لکھنے بیٹھ گیا۔
ان سطور کے لکھتے ہوئے میں نے یہ دیکھا کہ پنڈال کے دونوں طرف چھ سے دس سال کے پچاسوں بچے اس طرح گلاٹی مار مار کر اچھل کود رہے ہیں گویا کوئی میلہ سجادیا گیاہے اور دنیا و مافیہا سے بےخبر یہ بچے اس رنگ برنگے میلے میں مست و مگن ہیں۔اس سے زیادہ بے غیرتی کی بات یہ تھی کہ سامنے جلسہ گاہ سے متصل ایک بازار اس طرح سجائی گئی کہ گویا قطار در قطار مینابازار کی خوبصورت مارکیٹ ہو جہاں شاہی خاندان کی دوشیزائیں زیب وزینت کے من پسند سامانوں کی خریداری کررہی ہوں۔
اور دیکھئے ابھی چند منٹ قبل مجھے قضاء حاجت کے لئے جلسہ گاہ کے ایک کنارے میں بنے ہوئے استنجاء خانے کی طرف جانا ہوا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ وہاں دھندلی روشنی میں پٹرول اور آگ آس پاس موجود تھے۔یہ دونوں یہاں اندھیرے میں کیوں کھڑے تھے مجھے نہیں معلوم۔
گھڑی نے ساڑھے دس بجائی تو اناؤنسر صاحب نے میرے نام کا اعلان کردیا۔میں نے خطبہ پڑھتے ہوئے بلا کسی تمہید کے گفتگو کا آغاز کچھ اس طرح کیا:محترم حاضرین اجلاس!
آج کے اجلاس کا عنوان ہے اصلاح معاشرہ۔اصلاح معاشرہ کے اس جلسے میں لوگوں کی دو جماعت ہے۔ایک منتظمین کی اور دوسرے سامعین کی۔آپ دونوں یعنی منتظمین و سامعین حضرات اپنے کلیجے پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ اصلاح معاشرہ کے جس جلسے کے انعقاد کے لئے مہینوں قبل بڑوں کے ساتھ معصوم معصوم بچوں کے ہاتھوں میں رسید اور کوپن تھماکر گاؤں گاؤں،محلہ محلہ،گھر گھر حتیٰ کہ آنگن آنگن چندہ اکٹھا کیا جائے،اجلاس کے دن پروگرام کا کوئی ٹھوس نظام الاوقات مرتب نہ ہو،خطباء کے لئے عناوین متعین نہ ہوں،وقت کی کوئی پابندی نہ ہو،شعر و شاعری میں گھنٹوں برباد کر دیئے جاتے ہوں،پنڈال میں موجود سامعین سے کئی گنا زیادہ لوگ مارکیٹ میں گھوم رہے ہوں،جلسے کے نام پر جہاں چائے کی دکانوں پر چسکیاں لی جارہی ہوں،سڑک کے دونوں طرف مردوں اور عورتوں کا بےمہابا ہجوم ہو،بھیڑ ایسی ہو کہ مسافروں کے لئے راستہ عبور کرنا مشکل ہو،جلسہ گاہ کے سامنے سجائی گئی دوکانوں پر لڑکیوں کے گہنے اور بچوں کے کھلونے فروخت ہورہے ہوں،مسلمانوں کی جوان لڑکیاں بن سنور کر رات کے اندھیرے میں جلسہ گاہ کے ارد گرد منڈلارہی ہوں،پنڈال اور اسٹیج پر ایسے رنگ برنگے شامیانے لگائے گئے ہوں گویا یہ کوئی مسرت و شادمانی کی محفل ہو،زکوٰۃ و صدقات سے حاصل شدہ رقم سے غریبوں کے ساتھ امیروں کے لئے بھی دسترخوان شیراز بچھادی گئی ہو،چندہ کے پیسوں سے خوب دھوم دھام سے اجلاس بلائے گئے ہوں،علاقائی علماء کرام اور مقامی شعراء عظام کو نظر انداز کرتے ہوئے ہزاروں لاکھوں روپے کے اخراجات پر باہر سے پیشہ ور یا انتہائی مہنگے مقررین اور ایک شب کا پچاس پچاس ہزار روپے نذرانہ لینے والے نام نہاد شعراء بلائے گئے ہوں اور اصلاح معاشرہ کے جس جلسے میں مغرب سے فجر تک دن بھر کھیت کھلیان یا دیگر کاروبار میں کام کرنے والی سیدھی سادی عوام کی سماعتوں میں اکٹھے اصلاح اعمال کی اتنی باتیں انڈیل دی گئی ہوں کہ اسے کچھ پتہ ہی نہ ہو کہ کسے یاد رکھنا ہے اور کسے بھول جانا ہے دراں حالیکہ وہ اختتام اجلاس پر مدہوشی کے عالم میں اپنے گھر پہونچ کر کان میں تیل ڈال کر فجر سے پہلے اس طرح سوجاتی ہو جیسے نوعروس جوڑوں کو نیند آجاتی ہے اور جب سورج کی گرماہٹ سے اس کی نیند کھلتی ہو تو وہ اپنی آنکھیں مسلتے ہوئے چائے خانوں میں گذشتہ شب کے خطباء پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی کو اول کسی کو دوم تو کسی بیچارے خطیب کو سوم پوزیشن دیکر اصلاح معاشرہ کے جلسے کا قصہ تمام کردیتی ہو تو لوگو! ایمان داری کے ساتھ دل پر ہاتھ رکھ کر بولو کہ پھر معاشرہ کی اصلاح کی ضرورت ہے یا جلسہ اصلاح معاشرہ خود ہی اصلاح کا محتاج ہے۔؟
میرا سوال ختم نہیں ہوا کہ پورا مجمع بیک آواز کہ اٹھا کہ ان حالات میں اصلاح معاشرہ کے ان جلسوں کی ہی اصلاح کی ضرورت ہے۔
العیاذ باللہ میری اس آپ بیتی سے اصلاح معاشرہ کے جلسوں کی ذرہ برابر تنقیص مقصود نہیں ہےکیونکہ مجھے بیس سال فراغت کو ہوئے ہیں اور تب سے درس وتدریس اور تنظیم و تحریک کے ساتھ اس شعبہ دعوت وتبلیغ یعنی اصلاح معاشرہ کے اجلاس میں لگاتار شرکت کررہاہوں اور حسب موقع ان جلسوں میں بھی اپنا درد بلاتکلف رکھ دیتا ہوں۔
واقعہ یہ ہے کہ اصلاح معاشرہ کے جلسوں کی اپنی ایک شاندار تاریخ رہی ہے۔معاشرے کی اصلاح میں ان جلسوں کا نمایاں کردار رہا ہے۔ضلالت و گمراہی اور فسق وفجور میں مبتلاء عام مسلمانوں کی زندگیوں میں اصلاح معاشرہ کے ان جلسوں نے ایسے انقلابات لائے ہیں کہ ان کی زندگیاں صراط مستقیم پر گامزن ہوگئی ہیں اور وہ فسق وفجور سے توبہ کرکے صالح مومن بن کر اللہ والوں کی طرز زندگی پر چل پڑے ہیں۔اسی لئے امت کی عمومی بیداری،ملت کی دینی آبیاری،شعور و وجدان کی آگہی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی کے لئے اکابرین امت اصلاح معاشرہ کے جلسے کرتے رہے ہیں۔لہذا ان جلسوں کے کارنامے سونے کے سنہرے حروف سے تاریخ میں درج ہیں اور تاقیامت یہ اپنی افادیت و معنویت کا سہرا اپنے نام جاری و ساری رکھیں گے انشاءاللہ۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرور ایام اور احوال زمانہ کے ساتھ ہر عمل جائزہ اور محاسبہ کا متقاضی ہوتاہے۔اس لئے موجودہ اصلاح معاشرہ کے جلسوں کا بھی جائزہ اور محاسبہ کیا جانا واجب و ضروری اور قوم کی بیدارمغزی کی نشانی ہے تاکہ اصلاح معاشرہ کے جلسوں سے جو مقاصد مطلوب ہیں وہ حاصل ہوسکیں اور یہ جلسے،جلسے ہی رہیں؛رسومات و خرافات کا مجموعہ،تفریح طبع یا فیشن اور اصلاح کے نام پر فتنہ و فسادات کا ذریعہ نہ بنیں۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ جلسے کے انعقاد سے قبل جلسے کے اہداف و مقاصد طے کئے جائیں اور اپنا ٹارگیٹ متعین کیا جائے۔پھر ان ہی مقاصد کے حصول کے لئے جدو جہد اور دوڑ دھوپ کی جائے حتیٰ کہ جلسے کے بعد جائزہ لیا جائے کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا!
بدقسمتی سے منتظمین اجلاس نے اپنے ذہنوں میں یہ غلط فہمی پال رکھی ہے کہ جلسے کی کامیابی یہ ہے کہ اس میں فلاں شہر کے فلاں مشہور مقرر کی تقریر ہو،قوم کے لوگ اپنے ہی لوگوں کے لئے ہٹو بچو کے نعرہ لگارہی ہو،دور دور تک لائٹنگ بھاری بھرکم مائکنگ اور ایک بڑے رقبے پر پنڈال کا سلسلہ ہو،سامعین کی تعداد بہت زیادہ ہو،خوب سے خوب چندہ اکٹھا ہو اور دیر رات تک وہ جلسہ اپنی آن بان شان کے ساتھ چلتا رہا ہو وغیرہ وغیرہ۔
نہیں ہرگز نہیں۔یہ جلسے کی کامیابی کا معیار ہرگز نہیں ہوسکتے۔اصلاح معاشرہ کے جلسوں کی حقیقی کامیابی یہ ہے کہ وہ جس علاقے میں منعقد ہوا ہو وہاں کی عوام جو دین و مذہب سے دور تھی؛ان کی زندگیوں میں صالح تبدیلی اور مثبت انقلاب برپا کرنے میں وہ کتنا مفید و موثر رہا،اصلاح معاشرہ کے جلسوں نے عوام کے ذہن و فکر اور دل و دماغ کو جھنجھوڑنے،ان کے دل کی گہرائیوں میں دستک دےکر انہیں اسلامی زندگی گزارنے پر آمادہ کرنے،انہیں غفلت سے بیدار کرکے اپنے شب و روز کا محاسہ کرنے اور ذاتی اصلاح کے ساتھ اپنے خاندان اور پورے معاشرہ کی اصلاح کی تشکیل میں ان کی ذہن سازی میں اس جلسے نے کتنی کامیابی حاصل کی؟یعنی برائیوں سے لت پت معاشرہ کی اس سے کیا اصلاح ہوئی،کس برائی کا اس سے خاتمہ ہوا اور کس اچھائی کے فروغ کا وہ سبب بن سکا؟
یہی وہ مقاصد ہیں جو اصلاح معاشرہ کے جلسوں سے مطلوب ہیں جن سے آج کے اصلاح معاشرہ کے جلسے یکسر خالی ہوتے چلے جارہے ہیں۔بلکہ اوپر میں نے صرف ایک جلسے کی جو آپ بیتی پیش کی ہے یہ صرف ایک جلسہ کی دردناک کہانی نہیں ہے بلکہ تقریباً یہی حال تمام جلسوں کے ہوگئے ہیں؛اس سے آسانی سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ آج کے اصلاح معاشرہ کے جلسے کتنے مفید اور اپنے مقاصد میں کتنے کامیاب ہیں یا وہ کن کن مفاسد کی آماج گاہ بن کر خود ہی اصلاح کے سخت محتاج ہوگئے ہیں۔
الحاصل اصلاح معاشرہ کے جلسوں سے مطلوب یہی ہونا چاہئے کہ کس طرح آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری امت میں یہ احساس بیدار ہوجائے کہ انہیں ان کے خالق و مالک نے ایک خاص مقصد عبدیت کے لئے دنیا میں بھیجا ہے۔ان کی زندگی کے دن متعین اور موت کی تاریخ تک مقرر ہے اور پھر اسے اپنے خالق و مالک کے پاس حاضر ہوکر اپنی نیکی و بدی کا حساب دینا ہے۔
گفتگو کی طوالت کے لئے معذرت خواہ ہوں۔سردست ہمارے علاقے میں مروجہ اصلاح معاشرہ کے جلسوں میں جن بنیادی اصلاحات کی اشد ترین ضرورت ہے ان کی نشاندہی اس امید کے ساتھ کی جاتی ہے کہ جلسہ اصلاح معاشرہ کے منتظمین ہمیں ہدف ملامت بنانے کے بجائے سنجیدگی کے ساتھ ان قابل اصلاح کمیوں پر غور کرنے کی زحمت گوارہ فرمائیں گے۔ اپنی ناقص و محدود معلومات کے مطابق ضروری اصلاحات درج ذیل ہیں:
(01)جلسہ کے انعقاد سے قبل جلسہ کے اہداف طے کرلئے جائیں۔
(02)مشاورت سے جلسہ کے رضاکاروں میں دین دار لوگوں کو ترجیح دی جائے۔
(03)چندہ کا نظام باوقار بنایا جائے اور کسی بھی قیمت پر مدرسہ یا محلے کے معصوم بچوں کا استعمال نہ کیا جائے۔
(04)آٹو وغیرہ کے ذریعے جلسے کا اعلان ضرور کروایا جائے لیکن اس سے گاؤں گاؤں اور علاقہ علاقہ چندہ کا رواج بند کیا جائے۔
(05)نعت رسول مقبول کو اعلان کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
(06)اشتہارات بالکل سادہ چھپوائے جائیں اور ملٹی کلر میں پیسے کو ہرگز ضائع نہ کئے جائیں۔
(07)اشتہار میں جلسہ کے نظام الاوقات کی وضاحت ضرور کردی جائے۔
(08)مقرر کی اجازت و منظوری کے بعد ہی اشتہار میں ان کے نام شائع کئے جائیں۔
(09)مقررین کی تعداد کم سے کم رکھی جائے مثلاً دو سے تین یا چار اور بس۔
(10)ہر مقرر کے لئے وقت کی تعیین کردی جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔
(11)اصلاح معاشرہ ایک کثیر العناوین موضوع ہے اس لئے اجلاس میں سلگتے ہوئے اہم عناوین پہلے سے متعین کرلئے جائیں۔مثلاً تعلیم،تربیت،زکوۃ،منشیات،جہیز،حجاب وغیرہ
(12)ہر مقرر کو پہلے سے ہی ان کا عنوان بتادیا جائے۔
(13)ایک مقرر کے خطاب کا دورانیہ تیس منٹ سے کم اور پینتالیس منٹ سے زیادہ نہ ہو۔
(14)اناؤنسر صاحب مختصر تمہیدی کلمات کے علاوہ ہر تقریر پر طویل تبصرے کے بجائے صرف ایک دو جملے کے تعارفی کلمات کے ساتھ مقررین کو بلالیں۔
(15)کورونا اور لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ملک کے حالات بالکل بدل چکے ہیں اس لئے بڑے اور مہنگے اجلاس کے بجائے چھوٹے اور کم اخراجات والے اجلاس منعقد کئے جائیں۔
(16)اولین کوشش یہ کی جائے کہ اجلاس مسجدوں میں کئے جائیں۔
(17)اگر میدان میں جلسہ ہو تو اسٹیج اور پنڈال علماء کی شان کے مطابق سادہ اور سمپل تیار کروائے جائیں۔
(18)جلسہ کے مرتب نظام الاوقات میں درمیان میں کسی قسم کی مداخلت گوارہ نہ کی جائے۔
(19)جلسے کا وقت مختصر اور جامع بنایا جائے،مغرب بعد فوراً شروع کر دیا جائے اور ہر حال میں دس یا گیارہ بجے شب تک ختم کردیا جائے۔تاکہ عوام جلسہ بھی سن لے،آرام بھی کرلے اور جماعت کے ساتھ فجر کی نماز بھی ادا کرلے۔
(20)اجلاس کو مستورات سے بالکل پاک رکھا جائے۔
(21)اگر خواتین کی بھی اصلاح مقصود ہو تو ان کے لئے رات کے بجائے دن میں پردہ کے ساتھ مخصوص پروگرام کرلیاجائے۔
(22)کسی بھی حال میں جلسہ کے نام پر کسی بھی قسم کی مارکیٹ نہ لگنے دیا جائے۔
(23)منتظمین آپسی مشاورت سے جلسہ کے اخراجات کا ایسا بجٹ بنائیں جس میں لازمی ضروریات ہی شامل ہوں،دھوم دھام،ٹھاٹ باٹھ اور فضولیات سے بجٹ مکمل پاک ہو۔
(24)جلسہ کے اخراجات کے سلسلے میں از اول تا اخیر یہ حقیقت ہر لمحہ ملحوظ خاطر رہے کہ چندہ سے اکٹھا کی گئی یہ رقم اسی ملت کی گاڑھی کمائی سے حاصل کی گئی ہے جو مجموعی اعتبار سے غریب،پس ماندہ اور محتاج ہے۔جن کی گھریلو ضروریات،بچوں کی ابتدائی تعلیم،علاج و معالجہ،بچیوں کی شادی اور سرچھپانے کے لئے جن کے پاس مناسب آشیانے تک نہیں ہیں لیکن انہوں نے منتظمین اجلاس کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے اپنی ذاتی دکھ بھری داستان کو دفن کرتے ہوئے اپنے جان و مال کی قربانی اس لئے پیش کردی ہے کہ یہ میرے دین اور سماج و معاشرے کا مسئلہ ہے۔(مضمون لکھتے لکھتے اس عنوان پر مزید مطالعہ کی خواہش ہوئی تو قندیل میں شائع مولانا اسعد اعظمی صاحب کی ایک قیمتی تحریر نظر نواز ہوئی۔ہم نے اس سے خوب استفادہ کیا۔اللہ تعالیٰ انہیں خوب خوب جزاء خیر عطافرمائے!)
رب العالمین سے دست بہ دعاء ہوں کہ وہ محض اپنے فضل وکرم اور توفیق و عنایت سے امت مسلمہ کی اصلاح کی غرض سے ایک بڑا و قدیم نظام یعنی جلسہ اصلاح معاشرہ کے حوالے سے جو چند سطور تحریرکئے گئے ہیں انہیں وہ اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے سرفراز فرمادے اور منتظمین اجلاس کھلے دل کے ساتھ ان حقائق پر سنجیدگی سے غور فرمائیں۔ والسلام
ان سطور کے لکھتے ہوئے میں نے یہ دیکھا کہ پنڈال کے دونوں طرف چھ سے دس سال کے پچاسوں بچے اس طرح گلاٹی مار مار کر اچھل کود رہے ہیں گویا کوئی میلہ سجادیا گیاہے اور دنیا و مافیہا سے بےخبر یہ بچے اس رنگ برنگے میلے میں مست و مگن ہیں۔اس سے زیادہ بے غیرتی کی بات یہ تھی کہ سامنے جلسہ گاہ سے متصل ایک بازار اس طرح سجائی گئی کہ گویا قطار در قطار مینابازار کی خوبصورت مارکیٹ ہو جہاں شاہی خاندان کی دوشیزائیں زیب وزینت کے من پسند سامانوں کی خریداری کررہی ہوں۔
اور دیکھئے ابھی چند منٹ قبل مجھے قضاء حاجت کے لئے جلسہ گاہ کے ایک کنارے میں بنے ہوئے استنجاء خانے کی طرف جانا ہوا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ وہاں دھندلی روشنی میں پٹرول اور آگ آس پاس موجود تھے۔یہ دونوں یہاں اندھیرے میں کیوں کھڑے تھے مجھے نہیں معلوم۔
گھڑی نے ساڑھے دس بجائی تو اناؤنسر صاحب نے میرے نام کا اعلان کردیا۔میں نے خطبہ پڑھتے ہوئے بلا کسی تمہید کے گفتگو کا آغاز کچھ اس طرح کیا:محترم حاضرین اجلاس!
آج کے اجلاس کا عنوان ہے اصلاح معاشرہ۔اصلاح معاشرہ کے اس جلسے میں لوگوں کی دو جماعت ہے۔ایک منتظمین کی اور دوسرے سامعین کی۔آپ دونوں یعنی منتظمین و سامعین حضرات اپنے کلیجے پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ اصلاح معاشرہ کے جس جلسے کے انعقاد کے لئے مہینوں قبل بڑوں کے ساتھ معصوم معصوم بچوں کے ہاتھوں میں رسید اور کوپن تھماکر گاؤں گاؤں،محلہ محلہ،گھر گھر حتیٰ کہ آنگن آنگن چندہ اکٹھا کیا جائے،اجلاس کے دن پروگرام کا کوئی ٹھوس نظام الاوقات مرتب نہ ہو،خطباء کے لئے عناوین متعین نہ ہوں،وقت کی کوئی پابندی نہ ہو،شعر و شاعری میں گھنٹوں برباد کر دیئے جاتے ہوں،پنڈال میں موجود سامعین سے کئی گنا زیادہ لوگ مارکیٹ میں گھوم رہے ہوں،جلسے کے نام پر جہاں چائے کی دکانوں پر چسکیاں لی جارہی ہوں،سڑک کے دونوں طرف مردوں اور عورتوں کا بےمہابا ہجوم ہو،بھیڑ ایسی ہو کہ مسافروں کے لئے راستہ عبور کرنا مشکل ہو،جلسہ گاہ کے سامنے سجائی گئی دوکانوں پر لڑکیوں کے گہنے اور بچوں کے کھلونے فروخت ہورہے ہوں،مسلمانوں کی جوان لڑکیاں بن سنور کر رات کے اندھیرے میں جلسہ گاہ کے ارد گرد منڈلارہی ہوں،پنڈال اور اسٹیج پر ایسے رنگ برنگے شامیانے لگائے گئے ہوں گویا یہ کوئی مسرت و شادمانی کی محفل ہو،زکوٰۃ و صدقات سے حاصل شدہ رقم سے غریبوں کے ساتھ امیروں کے لئے بھی دسترخوان شیراز بچھادی گئی ہو،چندہ کے پیسوں سے خوب دھوم دھام سے اجلاس بلائے گئے ہوں،علاقائی علماء کرام اور مقامی شعراء عظام کو نظر انداز کرتے ہوئے ہزاروں لاکھوں روپے کے اخراجات پر باہر سے پیشہ ور یا انتہائی مہنگے مقررین اور ایک شب کا پچاس پچاس ہزار روپے نذرانہ لینے والے نام نہاد شعراء بلائے گئے ہوں اور اصلاح معاشرہ کے جس جلسے میں مغرب سے فجر تک دن بھر کھیت کھلیان یا دیگر کاروبار میں کام کرنے والی سیدھی سادی عوام کی سماعتوں میں اکٹھے اصلاح اعمال کی اتنی باتیں انڈیل دی گئی ہوں کہ اسے کچھ پتہ ہی نہ ہو کہ کسے یاد رکھنا ہے اور کسے بھول جانا ہے دراں حالیکہ وہ اختتام اجلاس پر مدہوشی کے عالم میں اپنے گھر پہونچ کر کان میں تیل ڈال کر فجر سے پہلے اس طرح سوجاتی ہو جیسے نوعروس جوڑوں کو نیند آجاتی ہے اور جب سورج کی گرماہٹ سے اس کی نیند کھلتی ہو تو وہ اپنی آنکھیں مسلتے ہوئے چائے خانوں میں گذشتہ شب کے خطباء پر تبصرہ کرتے ہوئے کسی کو اول کسی کو دوم تو کسی بیچارے خطیب کو سوم پوزیشن دیکر اصلاح معاشرہ کے جلسے کا قصہ تمام کردیتی ہو تو لوگو! ایمان داری کے ساتھ دل پر ہاتھ رکھ کر بولو کہ پھر معاشرہ کی اصلاح کی ضرورت ہے یا جلسہ اصلاح معاشرہ خود ہی اصلاح کا محتاج ہے۔؟
میرا سوال ختم نہیں ہوا کہ پورا مجمع بیک آواز کہ اٹھا کہ ان حالات میں اصلاح معاشرہ کے ان جلسوں کی ہی اصلاح کی ضرورت ہے۔
العیاذ باللہ میری اس آپ بیتی سے اصلاح معاشرہ کے جلسوں کی ذرہ برابر تنقیص مقصود نہیں ہےکیونکہ مجھے بیس سال فراغت کو ہوئے ہیں اور تب سے درس وتدریس اور تنظیم و تحریک کے ساتھ اس شعبہ دعوت وتبلیغ یعنی اصلاح معاشرہ کے اجلاس میں لگاتار شرکت کررہاہوں اور حسب موقع ان جلسوں میں بھی اپنا درد بلاتکلف رکھ دیتا ہوں۔
واقعہ یہ ہے کہ اصلاح معاشرہ کے جلسوں کی اپنی ایک شاندار تاریخ رہی ہے۔معاشرے کی اصلاح میں ان جلسوں کا نمایاں کردار رہا ہے۔ضلالت و گمراہی اور فسق وفجور میں مبتلاء عام مسلمانوں کی زندگیوں میں اصلاح معاشرہ کے ان جلسوں نے ایسے انقلابات لائے ہیں کہ ان کی زندگیاں صراط مستقیم پر گامزن ہوگئی ہیں اور وہ فسق وفجور سے توبہ کرکے صالح مومن بن کر اللہ والوں کی طرز زندگی پر چل پڑے ہیں۔اسی لئے امت کی عمومی بیداری،ملت کی دینی آبیاری،شعور و وجدان کی آگہی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی کے لئے اکابرین امت اصلاح معاشرہ کے جلسے کرتے رہے ہیں۔لہذا ان جلسوں کے کارنامے سونے کے سنہرے حروف سے تاریخ میں درج ہیں اور تاقیامت یہ اپنی افادیت و معنویت کا سہرا اپنے نام جاری و ساری رکھیں گے انشاءاللہ۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرور ایام اور احوال زمانہ کے ساتھ ہر عمل جائزہ اور محاسبہ کا متقاضی ہوتاہے۔اس لئے موجودہ اصلاح معاشرہ کے جلسوں کا بھی جائزہ اور محاسبہ کیا جانا واجب و ضروری اور قوم کی بیدارمغزی کی نشانی ہے تاکہ اصلاح معاشرہ کے جلسوں سے جو مقاصد مطلوب ہیں وہ حاصل ہوسکیں اور یہ جلسے،جلسے ہی رہیں؛رسومات و خرافات کا مجموعہ،تفریح طبع یا فیشن اور اصلاح کے نام پر فتنہ و فسادات کا ذریعہ نہ بنیں۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ جلسے کے انعقاد سے قبل جلسے کے اہداف و مقاصد طے کئے جائیں اور اپنا ٹارگیٹ متعین کیا جائے۔پھر ان ہی مقاصد کے حصول کے لئے جدو جہد اور دوڑ دھوپ کی جائے حتیٰ کہ جلسے کے بعد جائزہ لیا جائے کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا!
بدقسمتی سے منتظمین اجلاس نے اپنے ذہنوں میں یہ غلط فہمی پال رکھی ہے کہ جلسے کی کامیابی یہ ہے کہ اس میں فلاں شہر کے فلاں مشہور مقرر کی تقریر ہو،قوم کے لوگ اپنے ہی لوگوں کے لئے ہٹو بچو کے نعرہ لگارہی ہو،دور دور تک لائٹنگ بھاری بھرکم مائکنگ اور ایک بڑے رقبے پر پنڈال کا سلسلہ ہو،سامعین کی تعداد بہت زیادہ ہو،خوب سے خوب چندہ اکٹھا ہو اور دیر رات تک وہ جلسہ اپنی آن بان شان کے ساتھ چلتا رہا ہو وغیرہ وغیرہ۔
نہیں ہرگز نہیں۔یہ جلسے کی کامیابی کا معیار ہرگز نہیں ہوسکتے۔اصلاح معاشرہ کے جلسوں کی حقیقی کامیابی یہ ہے کہ وہ جس علاقے میں منعقد ہوا ہو وہاں کی عوام جو دین و مذہب سے دور تھی؛ان کی زندگیوں میں صالح تبدیلی اور مثبت انقلاب برپا کرنے میں وہ کتنا مفید و موثر رہا،اصلاح معاشرہ کے جلسوں نے عوام کے ذہن و فکر اور دل و دماغ کو جھنجھوڑنے،ان کے دل کی گہرائیوں میں دستک دےکر انہیں اسلامی زندگی گزارنے پر آمادہ کرنے،انہیں غفلت سے بیدار کرکے اپنے شب و روز کا محاسہ کرنے اور ذاتی اصلاح کے ساتھ اپنے خاندان اور پورے معاشرہ کی اصلاح کی تشکیل میں ان کی ذہن سازی میں اس جلسے نے کتنی کامیابی حاصل کی؟یعنی برائیوں سے لت پت معاشرہ کی اس سے کیا اصلاح ہوئی،کس برائی کا اس سے خاتمہ ہوا اور کس اچھائی کے فروغ کا وہ سبب بن سکا؟
یہی وہ مقاصد ہیں جو اصلاح معاشرہ کے جلسوں سے مطلوب ہیں جن سے آج کے اصلاح معاشرہ کے جلسے یکسر خالی ہوتے چلے جارہے ہیں۔بلکہ اوپر میں نے صرف ایک جلسے کی جو آپ بیتی پیش کی ہے یہ صرف ایک جلسہ کی دردناک کہانی نہیں ہے بلکہ تقریباً یہی حال تمام جلسوں کے ہوگئے ہیں؛اس سے آسانی سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ آج کے اصلاح معاشرہ کے جلسے کتنے مفید اور اپنے مقاصد میں کتنے کامیاب ہیں یا وہ کن کن مفاسد کی آماج گاہ بن کر خود ہی اصلاح کے سخت محتاج ہوگئے ہیں۔
الحاصل اصلاح معاشرہ کے جلسوں سے مطلوب یہی ہونا چاہئے کہ کس طرح آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری امت میں یہ احساس بیدار ہوجائے کہ انہیں ان کے خالق و مالک نے ایک خاص مقصد عبدیت کے لئے دنیا میں بھیجا ہے۔ان کی زندگی کے دن متعین اور موت کی تاریخ تک مقرر ہے اور پھر اسے اپنے خالق و مالک کے پاس حاضر ہوکر اپنی نیکی و بدی کا حساب دینا ہے۔
گفتگو کی طوالت کے لئے معذرت خواہ ہوں۔سردست ہمارے علاقے میں مروجہ اصلاح معاشرہ کے جلسوں میں جن بنیادی اصلاحات کی اشد ترین ضرورت ہے ان کی نشاندہی اس امید کے ساتھ کی جاتی ہے کہ جلسہ اصلاح معاشرہ کے منتظمین ہمیں ہدف ملامت بنانے کے بجائے سنجیدگی کے ساتھ ان قابل اصلاح کمیوں پر غور کرنے کی زحمت گوارہ فرمائیں گے۔
(01)جلسہ کے انعقاد سے قبل جلسہ کے اہداف طے کرلئے جائیں۔
(02)مشاورت سے جلسہ کے رضاکاروں میں دین دار لوگوں کو ترجیح دی جائے۔
(03)چندہ کا نظام باوقار بنایا جائے اور کسی بھی قیمت پر مدرسہ یا محلے کے معصوم بچوں کا استعمال نہ کیا جائے۔
(04)آٹو وغیرہ کے ذریعے جلسے کا اعلان ضرور کروایا جائے لیکن اس سے گاؤں گاؤں اور علاقہ علاقہ چندہ کا رواج بند کیا جائے۔
(05)نعت رسول مقبول کو اعلان کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
(06)اشتہارات بالکل سادہ چھپوائے جائیں اور ملٹی کلر میں پیسے کو ہرگز ضائع نہ کئے جائیں۔
(07)اشتہار میں جلسہ کے نظام الاوقات کی وضاحت ضرور کردی جائے۔
(08)مقرر کی اجازت و منظوری کے بعد ہی اشتہار میں ان کے نام شائع کئے جائیں۔
(09)مقررین کی تعداد کم سے کم رکھی جائے مثلاً دو سے تین یا چار اور بس۔
(10)ہر مقرر کے لئے وقت کی تعیین کردی جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔
(11)اصلاح معاشرہ ایک کثیر العناوین موضوع ہے اس لئے اجلاس میں سلگتے ہوئے اہم عناوین پہلے سے متعین کرلئے جائیں۔مثلاً تعلیم،تربیت،زکوۃ،منشیات،جہیز،حجاب وغیرہ
(12)ہر مقرر کو پہلے سے ہی ان کا عنوان بتادیا جائے۔
(13)ایک مقرر کے خطاب کا دورانیہ تیس منٹ سے کم اور پینتالیس منٹ سے زیادہ نہ ہو۔
(14)اناؤنسر صاحب مختصر تمہیدی کلمات کے علاوہ ہر تقریر پر طویل تبصرے کے بجائے صرف ایک دو جملے کے تعارفی کلمات کے ساتھ مقررین کو بلالیں۔
(15)کورونا اور لاک ڈاؤن کے نتیجے میں ملک کے حالات بالکل بدل چکے ہیں اس لئے بڑے اور مہنگے اجلاس کے بجائے چھوٹے اور کم اخراجات والے اجلاس منعقد کئے جائیں۔
(16)اولین کوشش یہ کی جائے کہ اجلاس مسجدوں میں کئے جائیں۔
(17)اگر میدان میں جلسہ ہو تو اسٹیج اور پنڈال علماء کی شان کے مطابق سادہ اور سمپل تیار کروائے جائیں۔
(18)جلسہ کے مرتب نظام الاوقات میں درمیان میں کسی قسم کی مداخلت گوارہ نہ کی جائے۔
(19)جلسے کا وقت مختصر اور جامع بنایا جائے،مغرب بعد فوراً شروع کر دیا جائے اور ہر حال میں دس یا گیارہ بجے شب تک ختم کردیا جائے۔تاکہ عوام جلسہ بھی سن لے،آرام بھی کرلے اور جماعت کے ساتھ فجر کی نماز بھی ادا کرلے۔
(20)اجلاس کو مستورات سے بالکل پاک رکھا جائے۔
(21)اگر خواتین کی بھی اصلاح مقصود ہو تو ان کے لئے رات کے بجائے دن میں پردہ کے ساتھ مخصوص پروگرام کرلیاجائے۔
(22)کسی بھی حال میں جلسہ کے نام پر کسی بھی قسم کی مارکیٹ نہ لگنے دیا جائے۔
(23)منتظمین آپسی مشاورت سے جلسہ کے اخراجات کا ایسا بجٹ بنائیں جس میں لازمی ضروریات ہی شامل ہوں،دھوم دھام،ٹھاٹ باٹھ اور فضولیات سے بجٹ مکمل پاک ہو۔
(24)جلسہ کے اخراجات کے سلسلے میں از اول تا اخیر یہ حقیقت ہر لمحہ ملحوظ خاطر رہے کہ چندہ سے اکٹھا کی گئی یہ رقم اسی ملت کی گاڑھی کمائی سے حاصل کی گئی ہے جو مجموعی اعتبار سے غریب،پس ماندہ اور محتاج ہے۔جن کی گھریلو ضروریات،بچوں کی ابتدائی تعلیم،علاج و معالجہ،بچیوں کی شادی اور سرچھپانے کے لئے جن کے پاس مناسب آشیانے تک نہیں ہیں لیکن انہوں نے منتظمین اجلاس کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے اپنی ذاتی دکھ بھری داستان کو دفن کرتے ہوئے اپنے جان و مال کی قربانی اس لئے پیش کردی ہے کہ یہ میرے دین اور سماج و معاشرے کا مسئلہ ہے۔(مضمون لکھتے لکھتے اس عنوان پر مزید مطالعہ کی خواہش ہوئی تو قندیل میں شائع مولانا اسعد اعظمی صاحب کی ایک قیمتی تحریر نظر نواز ہوئی۔ہم نے اس سے خوب استفادہ کیا۔اللہ تعالیٰ انہیں خوب خوب جزاء خیر عطافرمائے!)
رب العالمین سے دست بہ دعاء ہوں کہ وہ محض اپنے فضل وکرم اور توفیق و عنایت سے امت مسلمہ کی اصلاح کی غرض سے ایک بڑا و قدیم نظام یعنی جلسہ اصلاح معاشرہ کے حوالے سے جو چند سطور تحریرکئے گئے ہیں انہیں وہ اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے سرفراز فرمادے اور منتظمین اجلاس کھلے دل کے ساتھ ان حقائق پر سنجیدگی سے غور فرمائیں۔ والسلام