ماہنامہ الفاران

ماہِ شعبان المعظم - ۱۴۴۳

ماہ شعبان المعظم کے فضائل ومسائل وواقعات وبدعات۔

حضرت مفتی نفیس احمد جمالپوری صاحب المظاہری، استاد حدیث و تفسیر: مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا (ہماچل پردیش)

شعبان ہجری تقویم کا آٹھواں مہینہ ہے؛جواپنی رحمتوں، برکتوں اورسعادتوں کے اعتبارسے ماہ رمضان کے لئے پیش خیمہ کی حیثیت رکھتاہے،اس مہینے میں رمضان المبارک کے استقبال کاموقع ملتاہے،غور کیاجائے تو مستندروایات اور تاریخی واقعات کے تناظر میں اس ماہ کی بڑی فضیلت اوراہمیت معلوم ہوتی ہے۔
شعبان نام رکھنے کی وجہ۔
شعبان کے لغوی معنی پھیلنے کے ہیں اس مہینے میں اہل عرب حرمت والے آخری مہینے رجب المرجب کے بعدلوٹ مار کے لیے منتشرہو جاتے تھے اس مناسبت سے اس کو شعبان کہتے تھے
بعض علماء نے شَعبان کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ شعبۃ سے ماخوذ ہے؛جس کے معنی حصہ کے ہیں،اس مہینے میں اللہ تعالی کی رحمت وفضل کے خاص شعبہ جات اترنا شروع ہوجاتے ہیں؛اس لئے بھی اسے شعبان سے موسوم کیاجاتاہے۔
ماہ شعبان کو شعبان کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ شعب یشعب سے ماخوذ ہے، جس کا معنی ہے ''نکلنا، ظاہر ہونا، پھوٹنا''، چونکہ اس مہینے میں خیر کثیر ظاہر ہوتی ہے، اسی وجہ سے اس مہینہ کا نام شعبان رکھ دیا گیا۔(غیاث الغات: ص، 410، مکتبہ، قدیمی کتب خانہ)
اہم تاریخی واقعات:
اس مہینے میں بہت سارے اہم اورتایخی واقعات رونما ہوئے: آپ ﷺکی دیرینہ تمناپوری ہوئی اورتحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا،اسی مہینے میں تاریخ اسلام کا عظیم غزوہ، غزوہ بنوالمصطلق پیش آیا،اسی مہینے میں آپ ﷺنے حضرت حفصہ اور جویریہ رضی اللہ عنہما سے نکاح فرمایا،تیمم سے متعلق احکام کا نزول اسی مہینے میں ہوا،اسی مہینے میں حضرت حسین بن علیؓ،حضرت زین العابدین اور حضرت فضل ابن عباس وغیرہم کی ولادت ہوئی اور صحابہ وتابعین میں حضرت مغیرہؓ ابن شعبہ،حضرت انسؓ ابن مالک،حضرت عرباضؓ ابن ساریہ،اور امام ابوحنیفہ ؒ کی وفات بھی اسی ماہ میں ہوئی۔
اس ماہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بکثرت روزے رکھنا:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں روحانیت اور ملکوتیت کو بڑھانے کے لیے جہاں فرض روزوں کی تعلیم فرمائی، وہیں نفل روزے رکھنے کی بھی ترغیب دی بالخصوص ماہ شعبان میں آپ سے بہ کثرت روزے رکھنا منقول ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب روزے رکھنا شروع فرماتے تو ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ رکھنا ختم نہ کریں گے اور جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہ رکھنے پہ آتے تو ہم یہ کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ کبھی نہ رکھیں گے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان شریف کے علاوہ کسی اور مہینہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اورمیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔ (بخاری حدیث نمبر 19,69)
ماہ شعبان کے فضائل:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:شَہْرُ رَمَضَانَ شَہْرُ اللہِ، وَشَہْرُ شَعْبَانَ شَہْرِی، شَعْبَانُ الْمُطَہِّرُ وَرَمَضَانُ الْمُکَفِّرُ.ماہِ رمضان ا? تعالیٰ کا مہینہ ہے، اور ماہِ شعبان میرا مہینہ ہے، شعبان (گناہوں سے) پاک کرنے والا ہے اور رمضان (گناہوں کو) ختم کر دینے والا مہینہ ہے۔(کنزالعمال: حدیث نمبر، 23685)
ماہ شعبان کو رسول اللہ نے اپنا مہینہ قرار دیا اور اس کو اپنی جانب منسوب کیا ہے، اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو مہینہ حضور علیہ السلام کا ہوگا، وہ عظمت و بزرگی میں کس قدر غیر معمولی مقام رکھتا ہوگا۔
شعبان کی اسی اہمیت کے پیش نظر اصحاب کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین شعبان کا چاند دیکھتے ہی پہلے سے زیادہ عبادت میں مشغول ہوجاتے تھے، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے جلیل القدر اصحاب شعبان کا چاند دیکھتے ہی قرآن کریم کی (عام دنوں سے زیادہ) تلاوت میں مشغول ہوجاتے تھے، مسلمان اس مہینے میں اپنے مال کی زکوۃ نکالا کرتے تھے، تاکہ غریب اور مسکین لوگ فائدہ اٹھا سکیں۔(غنیۃ الطالبین مترجم: ص،?۵?، نعمانی کتب خانہ)
شب برات کے متعلق احادیث اور ان کی اسنادی حیثیت:
واضح رہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ شبِ برات کے حوالے سے افراط و تفریط کا شکار ہیں، کچھ لوگ تو سرے سے اس کی فضیلت ہی کے قائل نہیں ہیں، بلکہ اس کی فضیلت سے متعلق تمام احادیثِ مبارکہ کو ضعیف یا موضوع(من گھڑت) سمجھتے ہیں، جبکہ بعض لوگ اس کی فضیلت کے تو قائل ہیں، لیکن انہوں نے بہت ساری رسومات و بدعات کو بھی اِس رات کی عبادت کا ایک حصہ بنالیا ہے۔
یہ دونوں فریق راہ اعتدال سے دور ہیں:
پندرھویں شعبان کی رات کی فضیلت کے بارے میں راہ اعتدال یہ ہے کہ اس بارے میں تقریبا 17 صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنھم اجمعین سے روایات مروی ہیں، جن میں کچھ تو سند کے اعتبار سے انتہائی کمزور درجے کی ہیں اور کچھ روایات کم درجہ ضعیف ہیں اور بعض احادیث حسن درجے کی ہیں۔
محدثین کے اصول کے مطابق مجموعی اعتبار سے ان احادیث کے تمام طرق ملانے سے ان احادیث کا مضمون صحیح لغیرہ بن جاتا ہے اور اگر تمام طرق ضعیف مان لیے جائیں تو بھی محدثین کے قواعد کے مطابق یہ احادیث حسن لغیرہ کے درجے تک پہنچتی ہیں۔
ان روایات میں سے چار روایات کو ذکر کیا جاتا ہے، جو سند کے اعتبار سے مضبوط ہیں۔
(1) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت:
معَاذ بن جبل سے روایت ہے: عَن النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم قَالَ یطلع اللہ إِلَی جَمِیع خلقہ لَیْلَۃ النّصْف من شعْبَان فَیغْفر لجَمِیع خلقہ إِلَّا لِمُشْرِکٍ أَو مُشَاحِن۔(الترغیب و الترھیب للمنذری:ج:3،ص: 307، ط: دار الکتب العلمیۃ)ترجمہ:حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات (اپنے بندوں پر) نظر فرماتا ہے، پھر مشرک اور (مسلمان بھائی سے) دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ اس روایت کو درج ذیل کتب میں ذکر کیا گیا ہے:المعجم الکبیر للطبرانی(ج:20،ص: 108،)شعب الایمان للبیھقی(ج: ص: ط: مکتبہ الرشد)، صحیح ابن حبان(ج:12،ص: 482،ط: موسسۃالرسالۃ)،فضائل الاوقات للبھیقی(ص:،ط: مکتبۃ المنارۃ).
مذکورہ بالا روایت کی اسنادی حیثیت: علامہ منذری نے'' الترغیب و الترھیب'' میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: رَوَاہُ الطَّبَرَانِیّ فِی الْأَوْسَط وَابْن حبَان فِی صَحِیحہ وَالْبَیْہَقِیّ وَرَوَاہُ ابْن مَاجَہ بِلَفْظِہِ من حَدِیث أبی مُوسَی الْأَشْعَرِیّ وَالْبَزَّار وَالْبَیْہَقِیّ من حَدِیث أبی بکر الصّدیق رَضِی اللہ عَنہُ بِنَحْوِہِ بِإِسْنَاد لَا بَأْس بِہِ(ج:3،ص: 307، ط: دار الکتب العلمیۃ)ترجمہ:اس روایت کو طبرانی نے اوسط میں اور ابن حبان نے اپنی صحیح ابن حبان اور بیھقی نے شعب میں ذکر کیا ہے اور ابن ماجہ نے انہیں الفاظ کے ساتھ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور مسند بزار اور بیھقی نے اسی طرح ابوبکر صدیق کی روایت کو بھی ایسی ہی سند سے ذکر کیا ہے، جس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
علامہ ھیثمی نے اس روایت کے رجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔رَوَاہُ الطَّبَرَانِیُّ فِی الْکَبِیرِ وَالْأَوْسَطِ وَرِجَالُہُمَا ثِقَاتٌ(مجمع الزوائد للنور الدین الہیثمی، ج: 6 ص:65،ط: مکتبۃ القدسی) علامہ ناصر الدین البانی نے السنۃ للابن ابی عاصم کے حاشیہ میں اس حدیث کی سند پر کلام کرتے ہوئے اس کو صحیح کہا ہے۔حدیث صحیح ورجالہ موثقون لکنہ منقطع بین مکحول ومالک بن یخامر ولولا ذلک لکان الإسناد حسنا ولکنہ صحیح بشواہدہ المتقدمۃ وہو مخرج فی ''الصحیحۃ'' کما سبقت الإشارۃ إلی ذلک.(ج:1،ص: 223،ط: المکتب الاسلامی بیروت)
علامہ ناصر الدین البانی نے سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ میں اس حدیث کرنے کے بعد فرمایا:حدیث صحیح، روی عن جماعۃ من الصحابۃ من طرق مختلفۃ یشد بعضہا بعضا وہم معاذ ابن جبل وأبو ثعلبۃ الخشنی وعبد اللہ بن عمرو وأبی موسی الأشعری وأبی ہریرۃ وأبی بکر الصدیق وعوف ابن مالک وعائشۃ. وجملۃ القول أن الحدیث بمجموع ہذہ الطرق صحیح بلا ریب والصحۃ تثبت بأقل منہا عددا ما دامت سالمۃ من الضعف الشدید کما ہو الشأن فی ہذا الحدیث(ج:? ص: ط:مکتبۃ المعارف).ترجمہ:یہ حدیث صحیح ہےاور صحابہ کرام کی ایک جماعت سے متعدد طرق سے مروی ہے، جو طرق ایک دوسرے کو قوت بخشتے ہیں،وہ حضرات یہ ہیں: معاذبن جبل،أبو ثعلبۃ الخشنی،عبد اللہ بن عمرو، أبو موسی الأشعری، أبو ہریرۃ،أبو بکر الصدیق،عوف ابن مالک اورعائشۃ رضوان اللہ تعالی عنھم اجمعین اور پھر ان حضرات کی احادیث کی تخریج ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ حدیث ان متعدد طرق سے مروی ہونے کی وجہ سے بالکل صحیح ہے اور حدیث کی صحت تو عدد کے اعتبار سے اس سے کم سندوں سے بھی ثابت ہوجاتی ہے) 2حضرت ابوثعلبہ کی روایت: عَنْ أَبِی ثَعْلَبَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ''إِذَا کَانَ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ یَطَّلِعُ اللَّہُ عَزَّ وجل إلی خلقہ فیغفرلِلْمُؤْمِنِینَ وَیَتْرُکُ أَہْلَ الضَّغَاءِنِ وَأَہْلَ الحقد بحقدہم''. (''شعب الإیمان للبیہقی:(5/359)3551:، ''فضائل الاوقات للبیھقی'':120،مکتبۃالمنار، ''المعجم الکبیر للطبرانی'':223/22، السنۃ للابن أبی عاصم'':224/1المکتب الاسلامی)ترجمہ:حضرت ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ”جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں‘پس تمام مخلوق کو بخش دیتے ہیں اور کافروں کو ڈھیل دیتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے بغض کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کو ترک کر دیں۔“علامہ البانی نے''السنۃ للابن أبی عاصم'' کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔(تفصیل کیلیے دیکھیے، السنۃ للابن أبی عاصم'':224/1المکتب الاسلامی) (3) حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت:عَنْ أَبِی مُوسَی الْأَشْعَرِیِّ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّہَ لَیَطَّلِعُ فِی لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیعِ خَلْقِہِ إِلَّا لِمُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر:1390) ترجمہ:حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات (اپنے بندوں پر) نظر فرماتا ہے، پھر مشرک اور (مسلمان بھائی سے) دشمنی رکھنے والے کے سوا ساری مخلوق کی مغفرت فرما دیتا ہے۔علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔(تفصیل کیلیے دیکھیے، السنۃ للابن أبی عاصم'':224/1المکتب الاسلامی) مشہور غیر مقلد عالم ”علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ“ سنن ترمذی کی شرح میں پندرھویں شعبان سے متعلق روایات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”اعْلَمْ أَنَّہُ قَدْ وَرَدَ فِی فَضِیلَۃِ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ عِدَّۃُ أَحَادِیثَ مَجْمُوعُہَا یَدُلُّ عَلَی أَنَّ لَہَا أَصْلًا۔ فَہَذِہِ الْأَحَادِیثُ بِمَجْمُوعِہَا حُجَّۃٌ عَلَی مَنْ زَعَمَ أَنَّہُ لَمْ یَثْبُتْ فِی فَضِیلَۃِ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ شَیْءٌ۔(تحفۃ الاحوذی، باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان: ج:3،ص: 365،ط: دار الکتب العلمیۃ)ترجمہ:پندرھویں شعبان کی فضیلت کے بارے میں متعدد روایات وارد ہیں، جن کا مجموعہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان روایات کی اصل موجود ہے۔اور یہ تمام حدیثیں مجموعی اعتبار سے اس شخص کے خلاف حجت ہیں،جس نے گمان کیا کہ پندرہویں شعبان کی رات کی فضیلت کے سلسلے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔ (4) حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت: حدثنا احمد بن منیع، حدثنا یزید بن ہارون، اخبرناالحجاج بن ارطاۃ، عن یحیی بن ابی کثیر، عن عروۃ، عنعائشۃ، قالت: فقدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ، فخرجت فإذا ہو بالبقیع، فقال: '' اکنت تخافین ان یحیف اللہ علیک ورسولہ؟ '' قلت: یا رسول اللہ، إنی ظننت انک اتیت بعض نسائک، فقال: '' إن اللہ عز وجل ینزل لیلۃ النصف من شعبان إلی السماء الدنیا، فیغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب ''. وفی الباب عن ابی بکر الصدیق. قال ابو عیسی: حدیث عائشۃ لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ من حدیث الحجاج، وسمعت محمدا یضعف ہذا الحدیث، وقال یحیی بن ابی کثیر: لم یسمع من عروۃ، والحجاج بن ارطاۃ، لم یسمع من یحیی بن ابی کثیر.(سنن الترمذی حدیث نمبر:739۔ سنن ابن ماجہ: حدیث نمبر: 1379،وأحمدحدیث نمبر: 26018، شعب الإیمان حدیث نمبر: 3825)ترجمہ:ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب پایا۔ تو میں (آپ کی تلاش میں)باہر نکلی تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپ بقیع قبرستان میں ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم ڈر رہی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرا گمان تھا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے ہاں گئے ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ پندرھویں شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے“۔ حدیث عائشہ کی اسنادی حیثیت:
حضرت عائشہؓ کی یہ حدیث حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاۃَ سے مروی ہے اور حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاۃَاگرچہ ضعیف روای ہے، لیکن ان کا ضعف حفظ کی جہت سے ہے، نہ کہ کذب کی جہت سے، اس لیے یہ روایت دوسری اسناد سے مل کر حسن کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔
خلاصہ کلام: پندرھویں شعبان کی فضیلت سے متعلق روایات کثرت طرق کی بناء پر حسن لغیرہ(قابل قبول) ہیں اور امت مسلمہ کا ابتدا سے اس پر عمل رہا ہے، چنانچہ ان روایات کے پیشِ نظر اہلسنت والجماعت ہمیشہ سے شعبان کی پندرہویں شب یعنی شب برأت کی فضیلت و بزرگی کا اعتقاد رکھتے چلے آئے ہیں۔چنانچہ علامہ علائالدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں شب میں رات کو جاگ کر عبادت کرنا مستحب ہے۔(الدر المختار: ص، 92، مکتبہ، دارالکتب العلمیہ)یہاں یہ بات ضرور پیش نظر رہے کہ اگرچہ شب برائت انتہائی فضیلت والی رات ہے اور فقہاء کرام رحمھم اللہ نے اس رات میں جاگ کر عبادت کرنے کو مستحب قرار دیا ہے، لیکن اس رات میں کوئی خاص عبادت مقرر نہیں ہے۔
اس بارے میں حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتھم العالیہ کا قول ملاحظہ ہو: ''اس رات میں جاگنا، اس میں عبادت کرنا باعث اجر و ثواب ہے اور اس کی خصوصی اہمیت ہے، البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقہ سے عبادت کی جائے، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے، وہ اس رات میں انجام دی جائیں، نفلی نماز پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں، ذکر کریں، تسبیح پڑھیں، دعائیں کریں، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جا سکتی ہیں، لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔
شب برائت میں قبرستان جانا:
اس رات میں ایک اور عمل ہے، جو ایک روایت سے ثابت ہے، وہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے تھے، اس لیے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شب برائت میں قبرستان جائیں، لیکن جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہو، اسے اسی درجہ میں رکھنا چاہیے، اس سے آگے نہیں بڑھانا چاہیے، اور چونکہ ساری حیات طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دفعہ جنت البقیع میں جانا ثابت ہے، اس لیے اگر کوئی ایک دفعہ اس نیت سے چلا جائے تو ٹھیک ہے، لیکن ہر شب برائت میں جانے کا اہتمام کرنا، اس کو ضروری سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ اس کے بغیر شب برائت نہیں ہوئی، یہ اس کو اس کے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے، لہذا اگر کبھی کوئی شخص اس نیت سے قبرستان چلا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تھے، لہذا میں بھی آپ علیہ السلام کی اتباع میں جا رہا ہوں تو ان شاء اللہ اجر و ثواب ملے گا، اس کے ساتھ کسی سال ناغہ بھی کر لیا جائے، ہر سال اہتمام کے ساتھ جانے کی پابندی نہ کی جائے۔ لیکن اس موقع پر قبرستان میں چراغاں کرنا، قوالیاں گانا، عورتوں اور مردوں کا مخلوط اجتماع یا اسی طرح کی خرافات و بدعات کرنا شرعا ناجائز ہیں اور شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
پندرہ شعبان کا روزہ: سارے ذخیرہ احادیث میں اس روزے کے بارے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برائت کے بعد والے دن روزہ رکھو، اگرچہ یہ روایت ضعیف ہے، لیکن چونکہ فضیلت ضعیف روایت سے بھی ثابت ہوجاتی ہے اور یہ دن ایام بیض میں سے بھی ہیں (ایام بیض سے مراد ہر ماہ کی 13،14، اور 15 تاریخ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ ان تین دنوں میں روزہ رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے) اس لیے نفل روزے کی نیت سے پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا مستحب ہے، البتہ اس دن کے روزے کو باقاعدہ سنت قرار دینے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔
شب برائت اور حلوہ
ویسے تو سارے سال میں کسی دن بھی حلوہ پکانا جائز اور حلال ہے، جس کا جب دل چاہے پکا کر کھا لے، لیکن خاص شب برائت میں حلوہ بنانے کا اس قدر اہتمام کرنا (کہ فرائض و واجبات کو ادا کرنے کا اس قدر اہتمام نہیں ہوتا، جتنا حلوہ بنانے کا اہتمام ہوتا ہے) درست نہیں بلکہ بدعت ہے، نہ قرآن میں اس کا ثبوت ہے اور نہ حدیث میں اس بارے میں کوئی روایت ہے، نہ صحابہ کے آثار ہیں اور نہ ہی تابعین اور بزرگان دین کے عمل میں اس کا کہیں کوئی تذکرہ ہے، لہذا ان فضولیات اور بدعات سے بچنا چاہیے۔ (افادات از اصلاحی خطبات: ج، 4،ص، 307 تا 318، مکتبہ، میمن اسلامک پبلشرز)
شب برات میں نوافل کی باجماعت نماز
اس رات میں نوافل کی باجماعت نماز کی ادائیگی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے، جن میں سر فہرست صلاۃ التسبیح کی باجماعت ادائیگی ہے، اس حوالے سے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شریعت نے عبادت کو جس انداز میں ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اسے ویسے ہی ادا کرنا چاہیے، شریعت نے نماز پنج گانہ اور جمعہ وعیدین وغیرہ کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن نوافل کو انفراداً ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اس لئے کسی نفلی نماز کو (خواہ صلوۃ التسبیح ہو یا کوئی اور) جماعت سے ادا کرنا منشائے شریعت کے خلاف ہے، اس لیے حضرات فقہاء نے نفل نماز کی جماعت کو (جبکہ مقتدی دو سے زیادہ ہوں) مکروہ لکھا ہے اور خاص راتوں میں اجتماعی نماز ادا کرنے کو بدعت قرار دیا ہے، لہذا شب برائت میں (یا کسی اور خاص رات میں) اجتماعی نوافل ادا کرنا بدعت ہے۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل: ج، 3، ص، 85 تا 88، مکتبہ، لدھیانوی)۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور پوری امت کو سنت وسیرت کے مطابق بقیہ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور مرنے سے پہلے تمام کی ادائیگی اور کامل ایمان عطاء فرمائے اور آخرت میں اعلی علیین میں جگہ عطاء فرمائے آمین۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی