ماہنامہ الفاران

ماہِ شعبان المعظم - ۱۴۴۳

خدا کرے کہ جوانی تیری رہے بے داغ!

مولانا ارشد کبیر خاقان المظاہری،سکریٹری:تنظیم فلاح ملت، مرکزی دفتر:مدرسہ نور المعارف،مولانا علی میاں نگر، دیا گنج،ضلع ارریہ:مدیر مسئول ماہنامہ "الفاران"

انسان کو تمام مخلوق پر شرف عطا فرمانے کے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے عقل وشعور اور قوتِ فیصلہ عطا کی ہے، انسان کوجو صفات دوسری مخلوقات سے ممتاز وممیز کرتی ہیں ان میں ایک نمایاں صفت اس کی شرم وحیا کی حِسّ اور جذبہ عفّت بھی ہے۔ انسان کا لباس اسے زیبائش وخوب صورتی فراہم کرنے کے ساتھ موسم کی شدت سے بھی محفوظ رکھتا ہے، لیکن جو اہم مقصد لباس سے حاصل ہوتا ہے وہ ستر کا ڈھانکنا اور اپنی حیاداری کا پاس ہے۔
حیاء اور شرم کسے کہتے ہیں: حیا کے معنی سنجیدگی وقار، اور متانت کے ہیں، یہ بے شرمی، فحاشی اوربے حیائی کی ضد ہے۔ امام راغب اصفہانی نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔ ”حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے۔علامہ ابن حجرؒ کے نزدیک ”حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی نہ کرنے پر اُبھارتا ہے،اسلام کی اصطلاح میں حیا سے مراد وہ شرم ہے جو کسی امرِ منکر کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت کے سامنے اورخدا کے سامنے محسوس کرتا ہے۔“ حیاء قرآن پاک کی روشنی میں: یہ حقیقت ہمارے سامنے قرآن پاک کے ذریعہ واضح ہو جاتی ہے کہ”حیا“مرد اور عورت دونوں کا یکساں اخلاقی وصف ہے۔ یہ وصف ہمیں پوری آب و تاب کے ساتھ آدم و حوا کے قصہ سے معلوم ہو تاتا ہے کہ جب دونوں میاں بیوی نے ابلیس کے دھوکے میں آکر شجرِممنوعہ کا پھل کھالیا تو ان کا جنت کا لباس اُتروا لیا گیا۔ دونوں کو اپنی برہنگی کا احساس ہوا اور اس حالت میں انہیں اور کچھ نہ سْوجھا تو انہوں نے فوراً جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنی شرم گاہیں ڈھانپنے کی کوشش کی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو اْن کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔“ (الاعراف:22)حجاب کا حکم قرآن حکیم کی سورہ نور کی آیت نمبر 31میں بھی نازل ہواہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَآءِہِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَآءِہِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیٓ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیٓ اَخَوَاتِہِنَّ اَوْ نِسَآءِہِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ اَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرَاتِ النِّسَآءِ وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ وَتُوْبُوٓا اِلَی اللّٰہِ جمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔”اے نبی(صلی اللہ علیہ و سلم) مومن عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے، اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں، اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بیٹوں یا خاوند کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں، اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے، اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ“۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ جب سورۃ النور کی آیت نازل ہوئی ترجمہ: اور اپنے سینوں اور اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں تو (مہاجر خواتین نے) اپنے تہہ بند لیے اور انہیں کناروں کی طرف سے پھاڑ کر ان سے اپنے سینوں کو ڈھانپ لیا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھتیجی حفصہ بنت عبدالرحمان ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں اور وہ باریک اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس باریک اوڑھنی کو پھاڑ ڈالا اور حفصہ کو ایک موٹی اوڑھنی اوڑھا دی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ عورتیں جو لباس پہنیں (مگر اتنا باریک یا ناکافی لباس پہنیں کہ پہن کر بھی گویا) عریاں ہیں‘ خود بھی حق سے ہٹیں ہوئی ہیں اور (خاندوں یا دوسرے لوگوں کو بھی) حق سے ہٹاتی ہیں (یا خود دوسروں پر مائل ہوتی ہیں اور اپنے نازو انداز سے دوسروں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں) وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور اس کی خوشبو بھی نہیں پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو پانچ سو برس کی مسافت سے آتی ہے۔ حیاء احادیث نبویہ کی روشنی میں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:نبی پاک ﷺ نے فرمایا: امت کے درمیان سے اٹھا لی جانے والی پہلی شئے ”حیاء اور امانت“ہے پس تم ان دونوں چیزوں کا اللہ تعالی سے سوال کرو! یقینا وہ دور آچکا ہے، شرم و حیاء اٹھ چکی ہے، اسلام کہ جس کا مزاج ومدار ہی حیاء تھا آج اس کے ماننے والے اسی وصفِ حیاء سے عاری ہو چکے ہیں، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:نبی پاک ﷺ نے فرمایا: ”بے شک ہر دین کا ایک خُلُق ہوتا ہے اور اسلام کا خُلُق شرم و حیاء ہے“وصفِ حیاء سے خود کو متصف کرتے ہوئے احساس بھی کرنا ہوگا نیز شرم و حیاء کا یہ پیغام حسبِ طاقت و منصب پھیلانا ہوگا ورنہ کہیں ایسا نہ ہو بے شرمی و بے حیائی کے اس طوفان میں متاعِ ایمان ہاتھ سے نکل جائے، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:نبی پاک ﷺ نے فرمایا: ”حیاء اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے جب جاتے ہیں تو دونوں ساتھ جاتے ہیں“ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ”حیاء اور ایمان دونوں ساتھ ساتھ ہوتے ہیں، ان میں سے اگر ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا خود بخوداٹھ جاتا ہے“یعنی کہ ایمان و حیاء لازم و ملزوم ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشادگرامی ہے: ہر دین کاکوئی نہ کوئی امتیازی وصف ہے اوردین اسلام کا امتیازی وصف حیاء ہے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا: یعنی: اے ابو جعفر! عیش کسے کہتے ہیں؟ آپ نے جواباً فرمایا: ”نفسانی خواہش کا انسان پر سوار ہو جانا اور انسان کا حیاء کو ترک کر دینا“۔حضرت وہب بن منَبَّہ علیہ الرحمہ نے جو بات ارشاد فرمائی تھی ان کے اس قول کو ہمارے معاشرے میں پھیلی ہوئی بے شرمی اور بے حیائی کے تناظر میں دیکھتے ہیں تومستقبل کے حوالے سے مایوسی نظر آتی ہے، حضرت وَہْب بن مُنَبَّہ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا:جب بچے میں دو عادتیں ہوں ”خوف اور شرم و حیاء“ تو اس کی ہدایت کی امید کی جا سکتی ہے۔مسلم معاشرے میں بھی مغربی تہذیب و کلچر کی یلغار نے فحاشی و عریانی کا چلن عام کر دیا ہے۔ علامہ اقبال ؒ ہمیں اپنے انداز میں کچھ اس طرح متنبہ کیا تھا: حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تیری رہے بے داغ
اسلام میں حیااور شرم کی بے پناہ اہمیت ہے۔نبی کریم ﷺنے حیا کو ایمان کا ایک شعبہ قرار دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص میں شرم وحیا نہیں، گویا اس میں ایمان نہیں۔ بے شرم انسان، ہرذلت وپستی میں گرنے کے لیے ہروقت آمادہ وتیار رہتا ہے جب کہ باشرم وحیادار انسان اپنی اس صفت کی وجہ سے تمام مشکلات کے باوجوداپنے شرفِ انسانیت کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی اکرم ﷺکا اخلاق وکردار ہرپیمانے سے منفرد، بے مثال اور قابلِ تقلید ہے۔ آپﷺ میں تمام فضائلِ حسنہ بدرجہ اتم واعلیٰ موجود تھے اور شرم وحیا کی صفت بھی اتنی نمایاں تھی کہ صحابہ کرامؓ آپﷺ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ آپﷺ اعلیٰ خاندان کی پردہ نشین کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شرمیلے تھے۔ (بحوالہ صحیح مسلم، حدیث2320)نبی اکرم ﷺجس معاشرے میں پیدا ہوئے تھے، اس میں دیگر اخلاقی خوبیوں کے معدوم ہوجانے کی طرح شرم وحیا کا وصف بھی تقریباً ختم ہوچکا تھا، بے حیائی کے تمام مظاہر کھلے عام نظر آتے تھے، ایسے ماحول میں پیداہونے کے باوجود آپﷺ اپنے بچپن اور لڑکپن میں بھی کبھی ننگے جسم گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے، آپﷺ نے کبھی مخلوط محفلوں میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔
ایک غیرمحرم مرد اور عوت کا کسی جگہ تنہائی میں اکٹھے ہونا شرم وحیا کے نازک آبگینے کو توڑ دینے کے مترادف ہے، اسی لیے آنحضور ﷺنے ارشاد فرمایا: ”جب دو غیرمحرم مرد اور عورت آپس میں ملتے ہیں تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے“۔ (مسند احمد، ج1، ص18) نبی پاکﷺ نے زندگی بھرقضائے حاجت کے وقت اپنے آپ کو لوگوں کی نظروں سے چھپا کر رکھا حالانکہ عرب کے اس معاشرے میں اس کا ایسا زیادہ اہتمام نہیں ہوتا تھا، آپﷺ شہروں اور آبادیوں سے دور جنگل اور جھاڑیوں کی طرف نکل جایا کرتے تھے،یہ آداب بظاہر معمولی معلوم ہوتے ہیں مگر ان کی بہت بڑی معاشرتی اہمیت ہے۔
آج کل فحاشی وعریانی جدید ثقافت کا اُسی طرح حصہ بن چکی ہے جس طرح جاہلی ثقافت کا حصہ تھی۔ مخلوط محفلیں روشن خیالی اور جدّت وترقی کی دلیل سمجھی جاتی ہیں حالانکہ یہ قدیم جاہلیت کا بھی طُرّہ امتیاز تھا۔کہا جاتا ہے کہ جب کوئی آدمی شرم وحیا کے حصار میں رہتا ہے تو ذلت ورسوائی سے اس کا دامن بچا رہتا ہے، جب وہ اس صفت سے عاری ہوجائے تو پھر رذالت وخباثت کا ہرکام ڈھٹائی کے ساتھ کرتا چلا جاتا ہے۔ حیا، اللہ رب العالمین کی طرف سے بندے کے لیے اس کی حفاظت کا قلعہ ہے۔ حیا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بندوں سے عذاب ٹالتا رہتا ہے۔ حیا سے محرومی بہت بڑی مصیبت اور بدنصیبی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں کو ابتدائی عمرہی میں حیا کے قیمتی زیور سے محروم کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ذرائع ابلاغ نے لوگوں کا مزاج اس قدر بگاڑ دیا ہے کہ شرم وحیا پر مبنی لباس ہو یا ادب، کتاب ہو یا خطاب، اس معاشرے میں اجنبی بن کر رہ گئے ہیں۔ ایک حدیث میں تو یہاں تک وعید آئی ہے کہ حیاسے محروم شخص ایمان سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔(ابنِ ماجہ، ابواب الزّہد،باب الحیا،حدیث4184)آپﷺ کا ارشاد ہے ”اللہ جب کسی بندے کی ہلاکت کافیصلہ کرتا ہے تو اسے حیاسے محروم کردیتا ہے“۔ جب کوئی حیاسے محروم ہوجاتا ہے تو نفرت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ نفرت میں مبتلا ہونے کے بعد امانت ودیانت کی صفت بھی اس سے چھن جاتی ہے۔ خائن آدمی، اللہ کی رحمت کا حق دار نہیں رہتا اور جس سے اللہ کی رحمت روٹھ جائے وہ بدترین لعنت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس لعنت وملامت کی کیفیت میں اس بدقسمت کے دل سے اسلام وایمان بھی رخصت ہوجاتا ہے“۔ (بحوالہ ابن ماجہ)
آپﷺ کے صحابہؓ میں بھی اسلام اور سنت رسولﷺ کی برکات سے شرم وحیا کی اعلیٰ صفات پروان چڑھیں، خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفانؓ کایہ اعزاز تمام صحابہؓ میں ممتاز ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ وہ شرم وحیا کا پتلا تھے، ان کے بارے میں سیرت نگاروں نے بیان کیا ہے کہ زندگی بھر انھوں نے اپنا جسم ننگا نہیں ہونے دیا۔ غسل کے وقت بھی وہ اپنا ستر کسی کپڑے سے ڈھانپنے کا اہتمام کرتے تھے۔نبی اکرمﷺ نے اسی لیے فرمایا کہ اللہ کے فرشتے بھی عثمانؓ سے حیا کرتے ہیں۔ حیا کی ایک تو مخصوص شکل اور تعریف ہے جو عموماً لوگ سمجھتے ہیں مگر ایک اور مفہوم بھی آپﷺ نے امت کے سامنے بیان فرمایا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہﷺ نے حاضرین مجلس سے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے حیاکرو اور پوری طرح حیاجیسے اس سے حیاکرنے کا حق ہے۔ اہلِ مجلس نے بیک زبان کہا: اے اللہ کے نبیﷺ خدا کا شکر ہے کہ ہم تو اللہ سے حیاکرتے ہیں۔ حضورﷺ نے یہ جواب سن کر فرمایا:اللہ سے حیا کرنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ اللہ سے حیا کرنے کا صحیح مطلب یہ ہے کہ:آدمی سر کی حفاظت کرے اور دماغ میں آنے والے خیالات کی بھی نگرانی کرتا رہے۔ پیٹ کے اندر جانے والی غذا کی نگرانی کرے(یعنی حلال کھائے اور حلال پیے) نیز شرم گاہ کی حفاظت کرے (یعنی بدکاری سے بچے)۔ موت کو اور موت کے بعد گل سڑ جانے کو یاد رکھے۔ جو آدمی آخرت کا طالب ہو وہ دنیا کی زیب وزینت ترک کردیتا ہے یعنی آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے۔ پھر حضور ﷺنے فرمایا:جس نے یہ کام کر لیے اس نے گویا اللہ تعالیٰ سے حیا کرنے کا حق ادا کردیا۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، باب 24،حدیث2458)
بلاشبہ حیاء وہ عمدہ اخلاق ہے جو انسان کو ہر برائی سے باز رکھتا ہے ارتکاب معاصی میں حائل ہو کر آدمی کو گناہ سے بچاتا ہے۔ اسلام کا عملاً دارو مدار حیاء پر ہے کیونکہ وہی ایک ایسا قانون شرعی ہے جو تمام افعال کو منظم اور مرتب کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کرام نے حیاء دار اخلاق پر زور دیا ہے، جس میں حیاء ہوتی ہے اس میں نیکی کے تمام اسباب موجود ہوتے ہیں اور جس شخص میں حیاء ہی نہ رہے اس کے نیکی کرنے کے تمام اسباب معدوم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ حیاء انسان اور گناہ کے درمیان میں حائل ہونے والی چیز ہے۔ اگر حیاء قوی ہے تو گناہ کی قوت ماند پڑ جائے گی۔ اور اگر حیاء کمزور پڑ جائے تو گناہ کی قوت غالب آجاتی ہے۔ حیا ایمان سے جُڑ کر حلال و حرام کی تمیز پیدا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن کاموں سے منع کیا ہے، اْن کے کرنے سے روکتی اور جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا، ان کو بجا لانے کی تحریک دیتی ہے۔ جب یہ شعور کی روشنی بنتی ہے تو اس سے اللہ کی وحدانیت کا احساس مضبوط ہوتا ہے۔ اِیمان باللہ کو تقویت ملتی ہے، تَعَلْق بِاللّٰہ میں مضبوطی آتی ہے اور باطن سے حُبُّ اللّٰہ کی شعاعیں پھوٹتی ہیں، تَوَکَّلْ عَلٰی اللّٰہ کی خاصیت اجاگر ہوتی ہے۔
ایک عرب شاعر المتنبی کہتا ہے: اِذَا لَمْ تَخْشَ عَاقِبَۃَ اللَّیَالِیْ،وَ لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَا تَشَآءُ۔
فَلَا وَ اللّٰہِ مَا فِی العَیْشِ خَیْرُ،لَا الدُّنْیَا اِذَا ذَھَبَ الحَیَآءُ۔
یَعِیْشُ المَرْءُ مَا اسْتَحْیَا بِخَیْرِ،وَ یَبْقَی الْعُوْدُ مَا بَقِیَ اللِّحَاءُ۔
اگر آپ راتوں کے (برے کاموں کے) نتیجہ سے خوفزدہ نہیں ہیں اور آپ کو شرم نہیں آتی تو آپ جو چاہیں کریں۔ پس خدا کی قسم، جب زندگی سے حیا چلی جائے تو زندگی اور دنیا میں کوئی بھی بھلائی باقی نہیں رہتی۔آدمی اس وقت تک بھلائی کے ساتھ زندہ رہتا ہے جب تک اس میں حیا باقی رہتی ہے جیسے کہ درخت اس وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک کہ اس کی چھال باقی رہتی ہے۔(بحوالہ گلدستہ علم و ادب)
بے حیائی سے پیدہ شدہ جنسی اشتعال انسان کو جنسی بے راہ روی ناجائز تعلق اور ہم جنس پرستی جیسے سنگین اور کھناؤ نے جرائم پر مجبور کر تا ہے قرآن پا ک کی سورۃ سورہ اعراف میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ:”کہدو میرے پروردگارنے توبے حیائی کی باتوں کو خواہ وہ ظاہری ہوں یا پوشیدہ منع فرمایاہے“ اس سلسلے میں سورہ احزاب کی تلاوت اور مطالعہ بہت ضروری ہے جو مسلمان مرد اور عورت کی عزت و احترام تحفظ، پاکیزگی،پردے کو اپنانے،بے حیائی سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے۔آج ہم شیطان کے حملوں کے سامنے ترنوالہ بن چکے ہیں۔ ہمیں اپنے دین وایمان، ملی تشخص اور دینی روح کو محفوظ کرنے کے لیے شرم وحیا کا کلچر عام کرنا ہوگا۔ہم اس نبی کی امت ہیں، جس نے حیا کو ایمان کا شعبہ قرار دیا اور خود زندگی بھر اس پر یوں کاربندرہے کہ بدترین دشمن کو بھی اس کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں۔ ہمارے معاشرے میں خیروبھلائی اور ہماری زندگیوں میں حسن وخوبی اسی صورت میں پیدا ہوسکتی ہے کہ ہم اپنی ذات، گھر، اداروں، گلی محلوں، تقریبات اور ملبوسات، ہرچیز کو قرآن وسنت کی تعلیمات کے تابع کردیں۔ اس کام کا آغاز اگر ہم اپنی ذات اور گھر سے کردیں تو دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اثرات پھیلنے لگیں گے اور یوں پورا معاشرہ معطّر ہوجائے گا،اسلامی تعلیمات کا مطالعہ اور اس پر عمل انشااللہ ہمارے ماحول اور معاشرے کو بے حیائی اورعریانی کی لعنت سے پاک رکھے گا اساتھ ہی بے پناہ فائدے کا سبب بنے گا، انشاء اللہ۔ کیا ہم یہ عہد کرنے اور یہ قدم اٹھانے کے لیے تیار ہوگئے ہیں؟ جو اب ہر فرد کی ذاتی ذمہ داری ہے۔اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق بخشے۔آمین یا رب العالمین۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی