ماہنامہ الفاران

ماہِ شعبان المعظم - ۱۴۴۳

روزہ اور اس کے مقاصد

حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش۔سرپرست ماہنامہ "الفاران"

یہ تقریر اٰ کا شوانی پٹنہ کے ۶ جون ۸۵۹۱؁ء کے نشریہ میں شامل کی گئی
رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک بندوں کیلئے بڑی خیر و برکت کا مہینہ ہے، قرآن پاک جیسی عظیم الشان کتاب جس کی بدولت ساری دنیا میں ہدایت کی روشنی پھیلی، گمراہی اور جہالت کی تاریکی دور ہوئی، اسی ماہِ مبارک میں نازل ہوئی۔
رمضان شریف کی بنیادی اور اسلامی عبادت کا اہم رکن روزہ ہے،قرآن پاک کے دوسرے پارے میں روزہ کا مقصد اور روزے کی فرضیت اس طور پر پیان کی گئی ہے، یٰاَ یُہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔اے ایمان والو! جس طرح ان لوگوں پر جو تم سے پہلے گزرچکے ہیں روزہ فرض کیا گیا تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیا گیا ہے تا کہ تم تقوی والے بن جاؤ۔
تقوی یہ ہے کہ آدمی دنیا میں خدا کے منع کی ہوئی چیزوں سے بالکلّیہ بچ کر زندگی گذارے وہ ان چیزوں سے رکا رہے،جن سے خدا نے اس کوروکا ہے،وہی کرے جس کے کرنے کی خدا نے اجازت دی ہے۔
روزہ کی ظاہری صورت کھانا پینا چھوڑدینا ہے، یہ چھوڑنا اس بات کی پہچان ہے کہ بندہ اپنے رب کا فرمانبردار ہے، وہ ہر اس چیز کو چھوڑنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے جس کو چھوڑنے کا اسے خدا حکم دے۔ یہاں تک کہ وہ کھانے پینے جیسی ضروری چیزوں کو بھی تعمیل ِحکم میں چھوڑ دے۔
روزہ کا اہم مقصد یہ صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ آدمی کی زندگی،پابندِ زندگی ہو نہ کہ آزاد۔
روزہ کی حالت میں چند چیزوں کو چھڑاکر پریکٹس کرائی جاتی ہے کہ وہ ساری عمر خدا سے ڈر کر اوراسکے حکم کے مطابق بسر کریگا، وہ ان چیزوں کو چھوڑ دیگا، جو اسکے رب کو نا پسند ہیں۔اسی لئے روزہ دار خدا اور اس کے رسول ﷺ کی نظر میں محبوب و مقبول ہوتے ہیں۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ اگر لوگوں کویہ معلوم ہو جائے کہ رمضان کی حقیقت کیا ہے تو میری امت یہ تمنا کرے کہ سارا سال ہی رمضان ہو جائے۔خداوند قدوس کا فرمانِ عالی ہے، روزہ خاص میرے لئے ہے اور روزہ کا بدلہ میں خود ہی دوں گا۔
قیامت کے دن جب لوگوں کے آپسی حقوق کا فیصلہ کیا جا ئے گا، اگر کسی کے ذمّہ کچھ حقوق العباد ہوں گے تو ان کے بدلہ میں اسکی نیکیاں اہلِ حقوق کو دیدی جائیں گی یہاں تک کہ اس کا کوئی نیک عمل باقی نہیں رہے گا مگر جب نوبت روزہ کی آئے گی تو حق تعالیٰ اسکے روزہ کو حقوق اور جرم کے بدلہ میں نہ دیں گے اور یہ فرمائینگے ”اسے رہنے دو یہ توخالص میرے لئے تھا“
اس شخص کے دوسرے بقیہ مظالم کو خودرکھ لیں گے اور اہلِ حقوق کو اپنے پاس سے ثواب دیکر راضی فرماویں گے۔چنانچہ روزہ اسکے ساتھ ہو کر اسکو جنّت میں لے جائے گا بخشنے پہ آئے، جب امت کے گناہوں کو
تحفہ میں گنہگاروں کو،رمضان دیتاہے

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! روزہ اور قرآن دونوں بندے کی شفاعت کریں گے، روزہ کہے گا!اے میرے پروردگار! میں نے اسکو کھانے اور شہوات سے روک رکھا تھا، لہٰذا اسکے بارے میں میری شفاعت قبول فر مائیے اور قرآن کہے گا میں نے اس کو رات میں سونے سے روک رکھا تھا (تراویح ادا کی تھی) لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول کیجئے۔ جب وہ امت کو بخشنے پہ آتاہے
تو تحفہ میں رمضان دیتاہے

اس مہینہ کو رسول ِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کا مہینہ فرمایا ہے۔روزہ دار روزہ رکھ کر کھانے پینے اور بہت سے ناجائز امور اور لذتوں سے نفس کو روکتا ہے۔
بلا شبہ! صبر زندگی کی سب سے بڑی طاقت ہے جسمیں تمام فتوحات اور کامیابیوں کا راز پوشیدہ ہے۔
سرورِ کائنات علیہ الصلوٰۃ و التسلیم نے فرمایا! یہ غم خواری کا مہینہ ہے، خود بھوکے پیاسے رہ کر غریب اور لا چار انسان کی تکلیف کا اندازہ کرانا ہے، جس سے معاشرہ کے اندر ہمدردی، غم خواری، بھائی چارگی اور برداشت کی صفت پیدا کرا کر ایک صاف ستھرا اور پاکیزہ معاشرہ کو ترقی دینا اور بھوکا پیاسا رکھ کر جسم و روح کی اصلاح کرنا ہے اور یہ صلاحیت بھی پیدا کرنا ہے کہ آدمی کی پابند زندگی ہو نہ کہ بے مہار زندگی۔
خدا نے اس مہینہ کو بڑا قیمتی بنایا ہے، اسکے ہر ہر لمحے کی نا قدرکرنا ہماری خوش نصیبی ہے،اللہ تعالی کے انعامات کو دیکھئے! وہ اس مہینے میں نیکیوں کے بھاؤ کو بڑھا دیتا ہے، چھوٹا سا کام کیجئے اور بڑی سی نیکی کمائیے۔حدیث شریف میں ہے کہ اس مبارک مہینہ میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستّر سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! ہر چیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔
در حقیقت روزہ ایسی جامع اور منفرد حیثیت کی عبادت ہے کہ آپ جاگ رہے ہوں توروزہ دار، سو رہے ہوں تو روزہ دار، پاخانہ پیشاب کی حالت میں ہوں تو روزہ دار، غرض کہ کسی حال میں یہ آپ سے جدا نہیں ہوتا۔
حدیث میں ہے جو شخص بلا شرعی عذر کے ایک روزہ بھی چھوڑ دے تو اسکے بدلہ اگر تمام عمر بھی روزہ رکھے تو بھی ثواب میں رمضان کے ایک روزہ کی برابری نہیں کر سکتے۔
بد قسمت خدا کے مجرم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ناراضگی اور بد دعاء کے مستحق ہیں وہ لوگ جو روزہ نہیں رکھتے، زمین اور آسمان بھی ایسے لوگوں کیلئے بد دعاء کرتے ہیں، یہاں تک کہ جس جگہ کھایا پیا ہوگا وہ بھی قیامت کے دن گواہی دیگی۔
رمضان خیر و برکت سے دامنِ مراد بھرنے، اللہ کی فرمانبرداری کا ثبوت پیش کرنے اور مقبول بارگاہ ہونے کا مہینہ ہے۔
اللہ روزہ دار کی دعاء بہت جلد قبول کرتا ہے سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین قسم کے لوگوں کی دعائیں کبھی رد نہیں ہوئیں۔
(۱) روزہ دار کی دعاء (۲) انصاف کرنے والے بادشاہ کی دعاء (۳) مظلوم کی دعاء، فرمانِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے! جو شخص روزہ کی حالت میں کھانا پینا تو چھوڑ دے مگر خدا کی منع کی ہوئی دوسری چیزیں مثلاً جھوٹ، فریب، ظلم، فساد، بدکاری اور چغلخوری کرتا رہے تو اسنے بھوکے رہنے کے سوا اپنے لئے کچھ نہیں پایا۔
در اصل رمضان ٹریننگ کا مہینہ ہے اور روزہ تمام برائی چھوڑ نے کا دوسرا نام ہے اسی کا روزہ، روزہ ہے جو اس کیلئے زندگی کے تمام معاملات میں برائی چھوڑنے کا ہم معنٰی بن جا ئے۔
اسلام یہی ہے کہ آدمی خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچ کر زندگی گذارے روزہ ہر سال یہی سبق دہرانے کیلئے ہر عاقل و بالغ پر فرض کیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! رمضان کی آخری رات میں اللہ تعالیٰ میری امت کے صائمین کی مغفرت فرمادیتے ہیں، عرض کیا گیا یا رسول اللہ! کیا وہ لیلۃ القدر ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں! مگر بات یہ ہے کہ مزدور کی مزدوری، کام ختم ہوجانے پر دی جایا کرتی ہے۔ نیکی نیکی،صبح وشام
اللہ اللہ، ماہ صیام

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی