ماہنامہ الفاران
ماہِ رجب المرجب - ۱۴۴۳
استاذ! فرش سے عر ش تک پہونچانے والی ذات؛ قسط۔4۔(تعلیم وتربیت مفید وموئثر کب؟)
حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش۔سرپرست ماہنامہ "الفاران"
مفکر اسلام جسٹس حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی نے فرمایا”کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم وتربیت جس نے دشمنوں تک کے دل جیتے اور جس نے ایک وحشی قوم کو تہذیب وشائستگی کے بام عروج تک پہنچایا اس کی سب سے بنیاد ی خصوصیت یہ تھی کہ وہ تعلیم محض ایک فکر اور فلسفہ نہیں تھی جسے خوبصورت الفاظ کا خول چڑھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروؤں کے سامنے پیش کردیا بلکہ وہ ایک متواتر اور پیہم عمل سے عبارت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کی ہر ادا مجسم تعلیم تھی، آج اگر ہم اساتذہ کی تعلیم،واعظوں کے وعظ اور خطیبوں کی تقریر یں نتائج کے اعتبار سے بے جان اور اصلاح معاشرہ کے عظیم کام کیلئے بے اثر نظر آتی ہیں،تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ آج ہمارے معلموں،واعظوں اور خطیبوں کے پاس صرف دل کش الفاظ اور خوش نما فلسفے تو ضرور ہیں لیکن ہماری زندگی ان دلکش الفاظ اور خوشنمافلسفوں سے یکسر متضادہے اور ایسی تعلیم وتربیت نہ صرف یہ کہ اثر نہیں چھوڑتی بلکہ بسااوقات اس کا الٹااثر یہ ہوتاہے کہ مخاطب ایک شدید ذہنی کشمکش اور فکری انتشار کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے استاذ کا بیان کیا ہوا فلسفہ اور مقررکی شعلہ بیان تقریریں ایک محدود وقت تک انسانوں کو اپنی طرف متوجہ ضرور کرلیتی ہیں اور بہت زیادہ ہوتو عقل ان کی صحت کو تسلیم کر لیتی ہے؛لیکن دلوں کو متاثر کرنے اور زندگیوں کی کایا پلٹنے کا عظیم کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک معلم کی تعلیم اور وعظ خود اس کی اپنی زندگی میں عملی طور پر رچابسا ہوا نہ ہو “
بڑوں کا بچپن یاد دلائیے!
استاذ محترم!طلبہ کی تربیت کے سلسلے میں حضرات سلف صالحین ؒ کے واقعات اور ان کے زمانہئ طالب علمی کے حالات سنانابے حد مفید ہے تجربہ سے ثابت ہے کہ طلبہ کی ہر قسم کی حالت درست کرنے میں یہ طر یقہ بہت مؤثر ہے۔
کتاب المدرس میں لکھا ہے کہ دوران سبق خواہ کسی بھی فن کی کتاب ہو طالب علم کیلئے اصلا ح کی بات ضرور کیا کریں۔
استاذ کو چاہئے کہ وہ طالب علم کو دینی تعلیم کے سلسلے میں فضائل وغیر ہ سناکر تر غیب دلائیں،حضرات سلف اور اپنے اساتذہئ کرام کے احوال و کوائف سے آگاہ فرماتے رہیں۔طلبہ بھی بیٹے کی طرح!
استاذ شاگر د وں پرشفقت کرے ان کو اپنے بیٹوں کے برابر جانے اس لئے کہ پیغمبرﷺ نے فرمایا انما انا لکم مثل الوالد لولدہ (ابن ماجہ ص۷۲ مکتبہ البدردیوبند)
گویا معلم شاگر د وں کو آخرت کی آگ سے بچاتاہے، والدین دنیا کی آگ سے، اور استاذ اس کی ابد ی زندگانی سنوارنے کا باعث ہے۔
حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے: ”اپنے شاگردوں کے ساتھ ایسے خلوص و محبت سے پیش آؤ کہ دوسرا دیکھے تو سمجھے کہ یہ تمہاری اولاد ہیں۔“
ذہن نشیں کیجئے! کہ اپنے شاگردوں کو اپنے بیٹے کے برابر سمجھ کر پڑھائیں گے تو آپ کے بیٹے کے جسم پر علم کا لباس لازمی طور پر چڑ ھ جائے گا ۔
کسی نے بالکل سچ کہا ہے”استاذمشفق کا لڑکا بھی عالم ہوتاہے کیوں کہ استاذ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے شاگرد عالم بن جائیں اس لئے اس آرزو کی برکت اور اس کی شفقت کی وجہ سے اسکا لڑکا بھی عالم ہوجاتاہے۔“
برہان الائمہ رحمۃ اللہ علیہ متبحر عالم گزر ے ہیں صبح و شام درس و تدریس میں مشغول رہتے تھے۔ اسلئے انہوں نے اپنے دوبیٹوں کو پڑھانے کیلئے دوپہر کا وقت متعین کر رکھا تھا۔
بیٹے نے والد سے شکا یت کی کہ ابو جا ن دوپہر کو کھانے کا وقت ہوتاہے اور کھانے کے بعد پڑھنے میں طبیعت نہیں لگتی تو برہان الائمہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا بیٹے!میرے پاس دور دراز سے طلباپڑھنے کیلئے آتے ہیں لہٰذا میرا دل چاہتاہے کہ پہلے انہیں پڑھاؤں۔ بیٹے بھی عالم کے تھے فورا ًمان گئے اور خوشی بخوشی دوپہر میں پڑھنامنظور کرلیا۔درج ہیکہ برہان الائمہؒ کے یہ دونوں فرزند اپنے زمانہ کے جیَّد عالم ہوئے۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے دنیا واقف ہے۔ آپ کے ایک استاذ کا نام حماد بن ابی سلیمان ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاذ کے گھر کام کاج اور بازار سے سودا سلف لایاکرتے تھے۔ حتیٰ کہ استاذکے گھرکی چکی پیستے اور روئی بھی دھنتے تھے
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ استاذ محترم حماد ایک بار لمبے سفر پر گئے۔ سفر کے کئی دن کی واپسی کے بعد گھر لوٹے توحماد کے صاحبزادوں نے ان سے دریافت کیا کہ ابو آپ کو سفر کے دوران ہم بھائی بہنوں میں زیادہ کو ن یاد آیا کرتاتھا۔ انہوں نے کہا کہ بیٹا! سچی با ت تو یہ ہے کہ تم لوگوں سے زیادہ مجھے ابو حنیفہ یاد آیاکرتاتھا۔علمی افادیت کیلئے درسگاہ کو پر فضا اور بے تکلف بنائیے!
جب استاذ درسگاہ میں داخل ہوں تو سلام وتحیہ کے بعد ہر بچہ کے چہرہ پر نظر ڈالے کہ اس وقت اس کی ذہنیت کیا ہے اور وہ کس موڈ میں ہے؟ استاذ بچوں کی دقَّتوں اور الجھنوں کو از خود سمجھنے کی کوشش کر ے کہ بسااوقات والدین کی جدائی،حالات کی ابتری، کبھی ذہنی کمزوری کیوجہ اورسبق یاد نہ ہونے کے سبب بچہ پریشان اور خائف ہوتاہے۔ ایسے موقع پر استاذ کو چاہئے کہ درسگاہ کے ماحول کو پرسکون بنائے دلجوئی اور حوصلہ افزائی سے بچوں کی ہمت بڑھائے،درسگاہ کی تھکان و تعب دورکرنے کیلئے بچوں کو خوشدلی اور مسکراہٹ کے ساتھ رخصت کیجئے۔
اسی طرح درسگاہ پر استاذ کا مکمل کنٹرول ہو، خاموشی اور مکمل توجہ کی تصویر ہو،دماغ یکجا ہومنتشر نہ ہوتعلیم کی اہمیت اور فضیلت اس طرح بتائی جائے کہ یہ شاگرد کے ذہن میں رچ بس جائے۔جو مضمون استاذ پڑھائیں ضروری نہیں ہر بچہ سمجھ جائے، پہلے سمجھدار بچہ سے دئے ہوئے سبق کو دہرالیں اس سے کم فہم بچہ کی توجہ اپنے سبق کی طرف خو دبخود مائل ہوگی۔اسی طرح استاذ اپنے شاگر د کو سبق یاد کرنے کا سہل طریقہ، مطالعہ کے لئے کتابوں اور مراجع کا انتخاب، آئندہ سبق کی تیاری، قوت حافظہ اور یاد داشت کی حفاظت کا روحانی اور قدرتی نسخہ بھی بتائے۔
(جاری)
استاذ محترم!طلبہ کی تربیت کے سلسلے میں حضرات سلف صالحین ؒ کے واقعات اور ان کے زمانہئ طالب علمی کے حالات سنانابے حد مفید ہے تجربہ سے ثابت ہے کہ طلبہ کی ہر قسم کی حالت درست کرنے میں یہ طر یقہ بہت مؤثر ہے۔
کتاب المدرس میں لکھا ہے کہ دوران سبق خواہ کسی بھی فن کی کتاب ہو طالب علم کیلئے اصلا ح کی بات ضرور کیا کریں۔
استاذ کو چاہئے کہ وہ طالب علم کو دینی تعلیم کے سلسلے میں فضائل وغیر ہ سناکر تر غیب دلائیں،حضرات سلف اور اپنے اساتذہئ کرام کے احوال و کوائف سے آگاہ فرماتے رہیں۔
استاذ شاگر د وں پرشفقت کرے ان کو اپنے بیٹوں کے برابر جانے اس لئے کہ پیغمبرﷺ نے فرمایا انما انا لکم مثل الوالد لولدہ (ابن ماجہ ص۷۲ مکتبہ البدردیوبند)
گویا معلم شاگر د وں کو آخرت کی آگ سے بچاتاہے، والدین دنیا کی آگ سے، اور استاذ اس کی ابد ی زندگانی سنوارنے کا باعث ہے۔
حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے: ”اپنے شاگردوں کے ساتھ ایسے خلوص و محبت سے پیش آؤ کہ دوسرا دیکھے تو سمجھے کہ یہ تمہاری اولاد ہیں۔“
ذہن نشیں کیجئے! کہ اپنے شاگردوں کو اپنے بیٹے کے برابر سمجھ کر پڑھائیں گے تو آپ کے بیٹے کے جسم پر علم کا لباس لازمی طور پر چڑ ھ جائے گا ۔
کسی نے بالکل سچ کہا ہے”استاذمشفق کا لڑکا بھی عالم ہوتاہے کیوں کہ استاذ کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے شاگرد عالم بن جائیں اس لئے اس آرزو کی برکت اور اس کی شفقت کی وجہ سے اسکا لڑکا بھی عالم ہوجاتاہے۔“
برہان الائمہ رحمۃ اللہ علیہ متبحر عالم گزر ے ہیں صبح و شام درس و تدریس میں مشغول رہتے تھے۔ اسلئے انہوں نے اپنے دوبیٹوں کو پڑھانے کیلئے دوپہر کا وقت متعین کر رکھا تھا۔
بیٹے نے والد سے شکا یت کی کہ ابو جا ن دوپہر کو کھانے کا وقت ہوتاہے اور کھانے کے بعد پڑھنے میں طبیعت نہیں لگتی تو برہان الائمہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا بیٹے!میرے پاس دور دراز سے طلباپڑھنے کیلئے آتے ہیں لہٰذا میرا دل چاہتاہے کہ پہلے انہیں پڑھاؤں۔ بیٹے بھی عالم کے تھے فورا ًمان گئے اور خوشی بخوشی دوپہر میں پڑھنامنظور کرلیا۔درج ہیکہ برہان الائمہؒ کے یہ دونوں فرزند اپنے زمانہ کے جیَّد عالم ہوئے۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے دنیا واقف ہے۔ آپ کے ایک استاذ کا نام حماد بن ابی سلیمان ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاذ کے گھر کام کاج اور بازار سے سودا سلف لایاکرتے تھے۔ حتیٰ کہ استاذکے گھرکی چکی پیستے اور روئی بھی دھنتے تھے
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ استاذ محترم حماد ایک بار لمبے سفر پر گئے۔ سفر کے کئی دن کی واپسی کے بعد گھر لوٹے توحماد کے صاحبزادوں نے ان سے دریافت کیا کہ ابو آپ کو سفر کے دوران ہم بھائی بہنوں میں زیادہ کو ن یاد آیا کرتاتھا۔ انہوں نے کہا کہ بیٹا! سچی با ت تو یہ ہے کہ تم لوگوں سے زیادہ مجھے ابو حنیفہ یاد آیاکرتاتھا۔
جب استاذ درسگاہ میں داخل ہوں تو سلام وتحیہ کے بعد ہر بچہ کے چہرہ پر نظر ڈالے کہ اس وقت اس کی ذہنیت کیا ہے اور وہ کس موڈ میں ہے؟ استاذ بچوں کی دقَّتوں اور الجھنوں کو از خود سمجھنے کی کوشش کر ے کہ بسااوقات والدین کی جدائی،حالات کی ابتری، کبھی ذہنی کمزوری کیوجہ اورسبق یاد نہ ہونے کے سبب بچہ پریشان اور خائف ہوتاہے۔ ایسے موقع پر استاذ کو چاہئے کہ درسگاہ کے ماحول کو پرسکون بنائے دلجوئی اور حوصلہ افزائی سے بچوں کی ہمت بڑھائے،درسگاہ کی تھکان و تعب دورکرنے کیلئے بچوں کو خوشدلی اور مسکراہٹ کے ساتھ رخصت کیجئے۔
اسی طرح درسگاہ پر استاذ کا مکمل کنٹرول ہو، خاموشی اور مکمل توجہ کی تصویر ہو،دماغ یکجا ہومنتشر نہ ہوتعلیم کی اہمیت اور فضیلت اس طرح بتائی جائے کہ یہ شاگرد کے ذہن میں رچ بس جائے۔جو مضمون استاذ پڑھائیں ضروری نہیں ہر بچہ سمجھ جائے، پہلے سمجھدار بچہ سے دئے ہوئے سبق کو دہرالیں اس سے کم فہم بچہ کی توجہ اپنے سبق کی طرف خو دبخود مائل ہوگی۔اسی طرح استاذ اپنے شاگر د کو سبق یاد کرنے کا سہل طریقہ، مطالعہ کے لئے کتابوں اور مراجع کا انتخاب، آئندہ سبق کی تیاری، قوت حافظہ اور یاد داشت کی حفاظت کا روحانی اور قدرتی نسخہ بھی بتائے۔
(جاری)