ماہنامہ الفاران
ماہِ رجب المرجب - ۱۴۴۳
عملی سیاست کی ضرورت و اہمیت
حضرت مولانا(ڈاکٹر )ظفردارک صاحب القاسی (علیگ)
موجودہ وقت میں ہندوستان کے سیاسی اور سماجی حالات کے تقاضے اور ضروریات کیا ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ البتہ ان کو سنجیدگی اور متانت سے سمجھنا ،متوازن اور متناسب تجزیہ کرنا نیزپھراپنی منصوبہ بندی طے کرنا ، قوم کو مثبت فکر اور نظریہ دینا یا اس کی مجموعی قوت کااعتراف کرنا اس وقت کی سب سے بڑی دانشمندی کی بات ہے۔ اس ضمن میں راقم یہ کہنا چاہے گا کہ بسا اوقات ہی نہیں بلکہ اکثر وبیشتر ہمارے اکابرین و عمائدین اور قائدین نے اپنے دور کے سیاسی، سماجی منظر نامے اور اس سے اٹھنے والی آوازوں کو سنجیدگی سے نہ سنا ، جس کی وجہ سے ملت کو بہت کچھ جھیلنا پڑا ہے۔ اس کی جہاں بہت ساری وجوہات ہیں وہیں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اور ہماری قیادت کرنے والوں نے جذبات کا سہارا لے کر مسائل اور حالات کو سمجھنے یا ان کا حل نکالنے کی سعی کی ہے۔ علاوہ ازیں اپنے مفادات اور ذاتی حصول یابیوں کو مد نظر رکھ کر فیصلہ اور لائحہ عمل مرتب کیا گیا ہے۔ چنانچہ اب ضرورت اور وقت کا تقاضا ہے کہ ہم رواں حالات کو سمجھیں، نوشتہ دیوار پڑھنے کے ساتھ ساتھ ملک میں جاری تمام سماجی اور سیاسی احوال کی تصویر کو سامنے رکھیں۔ ملک اور قوم کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے ضروری اقدامات کریں۔ سماجی زمین کے کیا تقاضے ہیں ؟ سیاسی منشاء کیا ہے ؟ یہ سب باتیں اب بیانات، مضامین اور خطبات وجلسوں میں کرنے کی نہیں ہیں بلکہ قوم کے قائدین اور رہنماؤں کو بڑی بصیرت کے ساتھ گہرائی اور گیرائی سے سوچنا ہوگا تبھی جاکر کوئی فیصلہ کرنا مناسب ہوتا ہے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشیں رہے کہ انسانی فکر اور نظریہ میں یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ اس کے سیاسی شعور میں کس حدتک تک توازن و اعتدال ہے۔ معتدل سیاست داں ایک ایسے سماج اور معاشرے کا خواہاں ہوتا ہے کہ جس میں انسانیت کی بنیاد پر رشتوں اور تعلقات کو استوار کیا جائے۔ ملک وسماج میں امن و امان اور رواداری کا بول بالا ہو، اسی کے ساتھ ایسےسیاسی افکار و نظریات اور خیالات ہر صاحب فکر و نظر کے نزدیک قابل تردید ہوتے ہیں جن میں انسانی رشتوں اور تعلقات کی بنیاد مذہب، دھرم اور رنگ و نسل پر رکھی جاتی ہے۔ گویا ایک سچا اور انسانیت کا ہمدرد سیاست داں وہی کہلانے کے مستحق ہوتا ہے جس کی فکرو نظر کے دائرے میں انسانی حقوق کی اہمیت اور سماجی تقاضوں و ضروریات کی غرض پنہاں ہوتی ہے۔
آ ج ہم اپنے ارد گرد اور معاشرے میں دیکھ رہے ہیں کہ زمینی سیاست سے جڑے ہوئے زیادہ تر افراد اپنے اپنے ذاتی مفادات پر توجہ دیتے ہیں ۔ سماجی رابطوں اور ان کی مطلوبہ ضروریات سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے حالانکہ ان کا ظاہری عمل کچھ اور ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جب انتخابات کا وقت آ تا ہے تو وہی سیاست داں عوام کے پاس جاتا ہے تو اس کی زبان اور کردار میں بہت حدتک عاجزی،انکساری ہوتی ہے اور وہ خودعوامی خدمت کے جذبہ سے موجزن نظر آ تا ہے مگر جب وہ عملی سیاست میں اجاتا ہے یا اپنا مطلوبہ انتخاب فتح کرلیتا ہے تو یکایک اس کا رویہ اور کردار بدل جاتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
در اصل یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ پاکیزہ سیاسی فکر و نظر سے متصف افراد کی ہمارے معاشرے میں بہت حدتک کمی پائی جاتی ہے اس کی متعدد وجوہات ہیں ان میں ایک وجہ تو یہ ہے کہ آ ج بھی مسلم کمیونٹی میں زیادہ تر لوگوں اور افراد کا رجحان عملی سیاست کے حوالے سے بہت زیادہ قابل اطمینان نہیں ہے، اسی پر بس نہیں بلکہ بعض دین دار افراد کو یہ تک کہتے ہوئے سنا ہے کہ سیاست ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ جو سوچ اور فکر ہے اس کو مسلم معاشرے سے نابود کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاست کے مقاصد اور اس کے اہداف نیک ہوں تو یقیناً اس سے معاشرے میں مثبت اور تعمیری پیغام جاتا ہے۔ انسانی رشتوں اور تعلقات کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے۔ عوامی و فلاحی کاموں کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔لہذا مسلم کمیونٹی کے اس طبقہ کو اس بابت سنجیدگی اور متانت سے سوچنا ہوگا کہ سیاسی افکار و نظریات سے لیث فرد اس معاشرے پر بوجھ ہے یا اس کی ضرورت واہمیت ہے؟ اسی طرح یہ بات بھی پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ معتدل سیاسی افکار و نظریات سے حامل فرد پورے سماج اور معاشرے کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ سیاسی مدبر اور مفکر کی اہمیت عملی سیاست دانوں سے زیادہ ہوتی ہے ۔
موجودہ ہندوستان کے سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اور فکری مسائل کے حل کے حوالے سے ہمارے اکابرین کی کیا ذمہ داریاں ہیں اب اس پر بھی کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ آ ج ایک متوازن سوچ، معتدل رویہ اور صالح رجحان کو فروغ دینے کی بنیادی ضرورت ہے۔ نیز ہمارے مفکرین واسکالرس کا عصری کوائف کے بارے میں یہ بھی کہنا ہے کہ اب ایسی مثبت اور تعمیری تحریریں سامنے لائی جائیں کہ جن سے سیاسی شعور اور منظم فکر وعمل میں اضافہ ہو۔ اس طرح کی چیزوں کا منظر عام پر آ نا وقت اور حالات کی ایک اہم ضرورت ہے اس سے ہندوستان جیسے تکثیری معاشرے میں زوال یافتہ اعتماد کو بحال کرنے میں کافی مدد ملے گی۔
اسی کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہندوستان کی عظیم اور روحانی قدروں کے تحفظ اور فکری بصیرت کے پروان چڑھانے میں صالح ادب و لٹریچر کی افادیت و اہمیت کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ہمارا فکری وجدان اور سیاسی شعور اس حد تک حساس اور بیدار ہونا چاہیے کہ ہم حالات و واقعات کا صحیح تجزیہ کرسکیں۔ دوسری اہم اور ضروری بات یہ ہے جب ہمارا سیاسی شعور پوری طرح بالغ ہوگا تو اس سے افہام و تفہیم اور مذاکرات ومکالمات کے دروازے مفتوح ہوں گے جن سے ہماری تہذیبی روایات کو یقینی طور پر استحکام عطا ہوگا۔ آ ج پوری دنیا میں ہمہ ہمی کا دور دورہ ہے۔ اجتماعی مفادات اور قومی و انسانی حقوق کو پامال کیا جارہا ہے۔ یقیناً اس غیر یقینی کیفیت ہے معاشرے کے ہر فرد وشخص اور قوم معاشرہ پر نہایت منفی اثر ڈالا ہے ایسے وقت میں میل ملاپ، بات چیت اور اتحاد و سالمیت کے ساتھ رہنے کی سعی کرنا ،مواصلات و تعلقات کی افادیت انسانی بنیادوں پر قائم رکھنا بہت ضروری ہے ۔
اگر عملی سیاست داں معاشرے کی تعمیر و ترقی اور عروج خوشحالی کے لیے مخلصانہ جد وجہد کرے تو یقیناً اس کے غیر معمولی نتائج معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ بھی ہے کہ عملی سیاست داں معاشرے کی شبیہ کو مجروح ہونے سے بھی پوری طرح بچا سکتا ہے۔ اس لیے عملی سیاست کی قوت اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ عملی سیاست داں پوری توجہ اور انہماک سے اپنے فرائض کو انجام دے۔
آ ج ہم اپنے ارد گرد اور معاشرے میں دیکھ رہے ہیں کہ زمینی سیاست سے جڑے ہوئے زیادہ تر افراد اپنے اپنے ذاتی مفادات پر توجہ دیتے ہیں ۔ سماجی رابطوں اور ان کی مطلوبہ ضروریات سے ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے حالانکہ ان کا ظاہری عمل کچھ اور ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جب انتخابات کا وقت آ تا ہے تو وہی سیاست داں عوام کے پاس جاتا ہے تو اس کی زبان اور کردار میں بہت حدتک عاجزی،انکساری ہوتی ہے اور وہ خودعوامی خدمت کے جذبہ سے موجزن نظر آ تا ہے مگر جب وہ عملی سیاست میں اجاتا ہے یا اپنا مطلوبہ انتخاب فتح کرلیتا ہے تو یکایک اس کا رویہ اور کردار بدل جاتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
در اصل یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ پاکیزہ سیاسی فکر و نظر سے متصف افراد کی ہمارے معاشرے میں بہت حدتک کمی پائی جاتی ہے اس کی متعدد وجوہات ہیں ان میں ایک وجہ تو یہ ہے کہ آ ج بھی مسلم کمیونٹی میں زیادہ تر لوگوں اور افراد کا رجحان عملی سیاست کے حوالے سے بہت زیادہ قابل اطمینان نہیں ہے، اسی پر بس نہیں بلکہ بعض دین دار افراد کو یہ تک کہتے ہوئے سنا ہے کہ سیاست ہمارا کام نہیں ہے۔ یہ جو سوچ اور فکر ہے اس کو مسلم معاشرے سے نابود کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاست کے مقاصد اور اس کے اہداف نیک ہوں تو یقیناً اس سے معاشرے میں مثبت اور تعمیری پیغام جاتا ہے۔ انسانی رشتوں اور تعلقات کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے۔ عوامی و فلاحی کاموں کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔لہذا مسلم کمیونٹی کے اس طبقہ کو اس بابت سنجیدگی اور متانت سے سوچنا ہوگا کہ سیاسی افکار و نظریات سے لیث فرد اس معاشرے پر بوجھ ہے یا اس کی ضرورت واہمیت ہے؟ اسی طرح یہ بات بھی پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ معتدل سیاسی افکار و نظریات سے حامل فرد پورے سماج اور معاشرے کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ سیاسی مدبر اور مفکر کی اہمیت عملی سیاست دانوں سے زیادہ ہوتی ہے ۔
موجودہ ہندوستان کے سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اور فکری مسائل کے حل کے حوالے سے ہمارے اکابرین کی کیا ذمہ داریاں ہیں اب اس پر بھی کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ آ ج ایک متوازن سوچ، معتدل رویہ اور صالح رجحان کو فروغ دینے کی بنیادی ضرورت ہے۔ نیز ہمارے مفکرین واسکالرس کا عصری کوائف کے بارے میں یہ بھی کہنا ہے کہ اب ایسی مثبت اور تعمیری تحریریں سامنے لائی جائیں کہ جن سے سیاسی شعور اور منظم فکر وعمل میں اضافہ ہو۔ اس طرح کی چیزوں کا منظر عام پر آ نا وقت اور حالات کی ایک اہم ضرورت ہے اس سے ہندوستان جیسے تکثیری معاشرے میں زوال یافتہ اعتماد کو بحال کرنے میں کافی مدد ملے گی۔
اسی کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہندوستان کی عظیم اور روحانی قدروں کے تحفظ اور فکری بصیرت کے پروان چڑھانے میں صالح ادب و لٹریچر کی افادیت و اہمیت کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ہمارا فکری وجدان اور سیاسی شعور اس حد تک حساس اور بیدار ہونا چاہیے کہ ہم حالات و واقعات کا صحیح تجزیہ کرسکیں۔ دوسری اہم اور ضروری بات یہ ہے جب ہمارا سیاسی شعور پوری طرح بالغ ہوگا تو اس سے افہام و تفہیم اور مذاکرات ومکالمات کے دروازے مفتوح ہوں گے جن سے ہماری تہذیبی روایات کو یقینی طور پر استحکام عطا ہوگا۔ آ ج پوری دنیا میں ہمہ ہمی کا دور دورہ ہے۔ اجتماعی مفادات اور قومی و انسانی حقوق کو پامال کیا جارہا ہے۔ یقیناً اس غیر یقینی کیفیت ہے معاشرے کے ہر فرد وشخص اور قوم معاشرہ پر نہایت منفی اثر ڈالا ہے ایسے وقت میں میل ملاپ، بات چیت اور اتحاد و سالمیت کے ساتھ رہنے کی سعی کرنا ،مواصلات و تعلقات کی افادیت انسانی بنیادوں پر قائم رکھنا بہت ضروری ہے ۔
اگر عملی سیاست داں معاشرے کی تعمیر و ترقی اور عروج خوشحالی کے لیے مخلصانہ جد وجہد کرے تو یقیناً اس کے غیر معمولی نتائج معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ بھی ہے کہ عملی سیاست داں معاشرے کی شبیہ کو مجروح ہونے سے بھی پوری طرح بچا سکتا ہے۔ اس لیے عملی سیاست کی قوت اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ عملی سیاست داں پوری توجہ اور انہماک سے اپنے فرائض کو انجام دے۔