ماہنامہ الفاران
ماہِ رجب المرجب - ۱۴۴۳
نوجوان نسل میں فیشن پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان ؛ اسباب وحل
حضرت مولانا محمد ندیم الدین صاحب القاسمی مدرس: ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ نوجوان نسل ہی ملک و ملت کا ایک قیمتی سرمایہ اور قوم کا تابناک مستقبل ہے ، تہذیب و ثقافت کی بقا اسی سے وابستہ ہے ،دنیا کی ہر تحریک کی کامیابی کا ایک اہم ذریعہ ہے،قوموں کے عروج و زوال کا سبب ہے ، جس نے اپنے بے مثال کارناموں سے صفحاتِ تاریخ پر اپنا نام رقم کیا ہےاور ایسےان منٹ نقوش چھوڑے ہیں جنہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی چنانچہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے بار گاہِ نبوت سے اسی دور شباب میں کافروں کا کام تمام کرکے”سیف اللہ "کا لقب حاصل کیا ، اسی عمر میں ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ،اور امام غزالی جیسے اکابر علماء نے تجدید دین کے فرائض انجام دئے ،اسی دورشباب میں صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمدبن قاسم نے اسلامی تاریخ کو اپنے کارناموں سے منور کیا۔ اسی عمر میں حسن البنا شہید نے مصر کی سرزمین کو دعوت الی اللہ کا مسکن بنایا، مولاناابوالکلام آزاد نے صحافت کا میدان نوجوانی ہی میں اختیار کیا، اسی لئے یہ کہنا بجا ہے کہ نوجوان نسل کی تباہی پوری قوم کی تباہی ہے ،اگر نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہوجائے تو قوم سے راہ راست پر رہنے کی توقع بے سود ہے،لیکن ہوا وہی کہ جس کا ڈر تھا،آج نوجوان نسل اپنی تابناک ماضی کو بھلاکر، انقلابی وتحریکی کاموں کے بجائے فیشن پرستی، دوسروں کی نقالی میں مصروف اور اپنی دینی روایات و تہذیب سے بے زار ہیں ،ان کے اندر مذہب سے بےگانگی،اور شریعت کی پابندی سے اعلانیہ بغاوت ہے، ان کا "رول ماڈل "نبی اور صحابہ نہیں بلکہ آج کے یہ فیشن پرست ہیرو ہیروئن ہیں، انہیں تفریحی مشاغل سے فراغت اور فیشن پرستی سے فرصت ہی نہیں،مغربی تہذیب ان کےلئے لائق تقلید ہے،ان پر فیشن پرستی کا ایسا بھوت سوار ہے کہ سنت رسول اور طریقہءصحابہ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں، اور فیشن پرستی کے جنون میں اس حد تک چلی گئی ہے جہاں جانوروں کی نظریں بھی شرم سے جھک جاتی ہیں،لباس ہو یا طور وطریقہ،چلنے کا انداز ہو یا گفتگو کا انداز، رہن سہن ہویارسوم ورواج ہرایک میں انہیں مغربی تہذیب ہی پسند ہے،جسم پر قسم قسم کے رنگ برنگے لباس،لباس کے نت نئے ڈیزائن،کسےہوے چست لباس،نیم برہنہ، بازووں اور جسم کے نشیب و فراز کوظاہر کرتے ہوے پھٹے کپڑوں کے ہی شوقین ہے، اور ایسے Hairstyles کہ جنہیں دیکھ ایک پاگل کو بھی ہنسی آجائے،پھربات یہی ختم نہیں ہوگئی ،بلکہ فیشن کا معاملہ بڑھتے بڑھتے وہاں پہونچ گیا جہاں مردوعورت دونوں نے”من تو شدم تو من شدی”پر پوری مستعدی کے ساتھ عمل کرنا شروع کردیا ہے۔
فیشن کے نام پر کپڑوں کی ایسی تراش خراش کہ شرم حیا سر پیٹ کر رہ جائے،لڑکیاں جنس ،ٹی شرٹ،میں ملبوس مکمل لڑکوں والا حلیہ بنائے خود پر فخر محسوس کرتی ہیں، شمع خانہ کے بجائے شمع محفل بننا انہیں پسند ہیں،تو لڑکے ہاتھوں میں کنگن ڈالے، بالوں کی پونی بنائے،کانوں میں بالیاں سجائے ،انگلیوں میں چھلے پہنے ہوے، گردن میں چین لٹکائے صنف نازک کو مات دیتے دکھائی دیتے ہیں،اب پیچھے سے نہیں بلکہ آگے سے دیکھنے کے بعد بھی یہ سمجھنا مشکل ہوگیا یہ مرد ہے یا عورت، جب کہ آپ ﷺنے فرمایا لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الرجال یلبسون لبسۃ المرأۃ والمرأۃ تلبس لبسۃ الرجال(ترمذی )(آپ ﷺنے لعنت بھیجی ہےان مردوں پرجو عورتوں کا لباس پہنتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کا لباس پہنتی ہیں ) ایک اورحدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا لیس منا من تشبہ بالرجال من النساء ولامن تشبہ بالنساء من الرجال (طبرانی)(ہم میں سے نہیں ہےوہ شخص جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرے اور وہ عورت جو مردوں کی مشابہت اختیار کرے)ایک اور حدیث میں آپ ﷺنے فرمایامن تشبہ بقوم فھو منہ(جوشخص اپنی تہذیب چھوڑ کردوسری قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو اس کا شماربھی اسی قوم سے ہوگا)ایک اور حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا”بہت سی عورتیں کپڑے پہن کر بھی ننگی ہوتی ہیں دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور وہ خود دوسروں کی طرف مائل ہونے والی ہوتی ہیں ،وہ نہ جنت میں داخل ہوں گی نہ جنت کی بو سونگھ سکے گی” اوراب چمچہ کے بجائے ہاتھ سے کھانے،کھڑے ہوکر پانی پینے کے بجائےبیٹھ کر پانی پینے کو رجعت پسندی اور قدامت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے،اور فیشن پرستی کا یہ عالم کہ جیب میں قیمتی قیمتی فون ، کا نوں میں ایرفون ،ہاتھوں میں مہنگی گھڑیاں ،اور سواری کے لئے ہزاروں روپے کی گاڑیاں ہیں جس میں اسراف ہی اسراف ہے ، لیکن نماز تو دور کی بات،اذان سن کر جواب دینے کی تک فرصت نہیں، الغرض وہ ایک حد تک ذہنی ارتداد کے شکار ہوگئے ہیں ،ان کا دل ودماغ مغربیت کے بہاؤ میں بہہ چکا ہے ،ان کی زبان پر بھلے ہی محاسن اسلام ہو لیکن ان کا جسم مکمل طور پر مغربیت کی زد میں ہے،بقول علامہ اقبال ؛خِرد نے کہہ بھی دیا ’لااِلہ‘ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں،
فیشن پرستی کے نقصانات
۱۔ بکثرت طلاق کا وقوع؛ اس لیے کہ مرد بیوی کے مطالبات سے تنگ آکر طلاق پر مجبور ہوجاتا ہے،۲۔غرور وتکبر کا ذریعہ ہے،۳۔فیشن پرست نوجوان مایوسی اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے اس لئے کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ بتائے گئے قیمتی لباس پہننے سے جب عاجز آجائیگا تو لامحالہ مایوسی کی کیفیت سے دوچار ہوجائیگا،۴۔دوسرے فیشن زدہ لوگوں کے لباس وغیرہ کودیکھ کر حسدوجلن کا شکارہوجاتاہے،۵۔فیشن پرست آدمی کو نہ پیسوں کی فکر ہوتی ہے اور نہ وقت کی قدر بلکہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے تمام حدود پارکردیتاہے،
۶۔ عصمت ریزی کے واقعات اسی فیشن پرستی کی ہی دین ہیں،
اسباب
اس کا سب سے بڑا سبب ہمارے والدین کی غفلت ولاپرواہی ہے ،انہیں پیسہ کمانے کی تو فکر ہے لیکن بچوں کی تربیت کے لئے وقت نہیں ،انہیں Social Activities تو یاد ہیں مگر بچوں کے خیالات کو صحیح رخ پر لانے کی فکر نہیں،انہیں کے سامنے بچے ہیرو ہیروئن کی نقالی کرتے ہیں مگر والدین اسے روکنے کے بجائے اس پر شاداں وفرحاں بلکہ باقاعدہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے نظرآتے ہیں "کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتارہا” وہ دن بہ دن بے حیائی و فیشن کےدلدل میں پھنستے جاتے ہیں لیکن والدین کو اس سے کوئی سروکار نہیں لیکن جب یہی بچیاں اپنی حیا کا گوہر لٹاچکی ہوتی ہیں تو تب ماتم و واویلا مچاتے ہیں "اب پچتائے کیاہوت جب چڑیا چک گئی کھیت"
وہیں یہ ذرائع ابلاغ ہیں جس میں رسائل ،میگزین ،اخبارات،نجی ٹی وی چینلز، فلمیں ڈرامے وغیرہ بھی شامل ہیں جس میں فلمی ستاروں، کھلاڑیوں کی نیم عریاں تصاویر خاص زاویوں سے رنگین صفحات پر بڑے ہی اہتمام سےشائع کی جاتی ہیں تو وہیں یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنی مصنوعات کی فروخت کے لئے اشتہار بازی کےذریعہ بے حیائی وفحاشی کو پھیلانے کا ذریعہ بن رہی ہے،جس میں مردوعورت نیم عریاں ،زرق برق لباس میں ملبوس نظر آتے ہیں جنہیں بار بار دیکھ ہماری نوجوان نسل بھی اسی کی نقالی کرنے کی کوشش کرتی ہے ،اور اپنی اسلامی و مشرقی تہذیب کو بھلا بیٹھتی ہے،اس لئے سب سے پہلےوالدین کی ذمہ داری ہیکہ وہ اپنے بچوں کی اسلامی طریقہ پر اور نبوی تعلیمات کی روشنی میں تربیت کریں،انہیں سیرت رسول ،صحابہ وصحابیات اور ازواج مطہرات کی حیاءوپاک دامنی کے قصے سنائیں ، عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی آگاہ کریں اورخدا کے واسطے فون ان کے ہاتھوں میں نہ دیں،اور ہماری مائیں بہنیں جو آنے والی نسلوں کی معمار ہیں وہ خود فیشن پرستی کے فتنہ سے بچیں، اس لئے کہ اگر وہ خود اسلامی تعلیمات سے دور ہوکر فیشن کے دلدل میں پھنس جائے گی تو آنے والی نسلوں کی کس طرح تربیت ہوسکتی ہے؟ اور نوجوان خود اپنی اصلاح کی فکر کریں اور فیشن پرستی سے بچنے کی کوشش کریں ا س لئے کہ،” خود ہی نا چاہے تو بہانے ہزار”اور علماء وخطباء اپنے بیانات میں فیشن پرستی کے نقصانات سے نوجوان نسل کو آگاہ کریں اور ان کو تباہ و برباد ہونے سے بچائیں اس لئےکہ؛میرے آشیاں کا توغم نہیں کہ وہ جل رہا ہے جلاکرے
مگر ان ہواؤں کو روکئے کہ سوال سارے چمن کا ہے
فیشن کے نام پر کپڑوں کی ایسی تراش خراش کہ شرم حیا سر پیٹ کر رہ جائے،لڑکیاں جنس ،ٹی شرٹ،میں ملبوس مکمل لڑکوں والا حلیہ بنائے خود پر فخر محسوس کرتی ہیں، شمع خانہ کے بجائے شمع محفل بننا انہیں پسند ہیں،تو لڑکے ہاتھوں میں کنگن ڈالے، بالوں کی پونی بنائے،کانوں میں بالیاں سجائے ،انگلیوں میں چھلے پہنے ہوے، گردن میں چین لٹکائے صنف نازک کو مات دیتے دکھائی دیتے ہیں،اب پیچھے سے نہیں بلکہ آگے سے دیکھنے کے بعد بھی یہ سمجھنا مشکل ہوگیا یہ مرد ہے یا عورت، جب کہ آپ ﷺنے فرمایا لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الرجال یلبسون لبسۃ المرأۃ والمرأۃ تلبس لبسۃ الرجال(ترمذی )(آپ ﷺنے لعنت بھیجی ہےان مردوں پرجو عورتوں کا لباس پہنتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کا لباس پہنتی ہیں ) ایک اورحدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا لیس منا من تشبہ بالرجال من النساء ولامن تشبہ بالنساء من الرجال (طبرانی)(ہم میں سے نہیں ہےوہ شخص جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرے اور وہ عورت جو مردوں کی مشابہت اختیار کرے)ایک اور حدیث میں آپ ﷺنے فرمایامن تشبہ بقوم فھو منہ(جوشخص اپنی تہذیب چھوڑ کردوسری قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو اس کا شماربھی اسی قوم سے ہوگا)ایک اور حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا”بہت سی عورتیں کپڑے پہن کر بھی ننگی ہوتی ہیں دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور وہ خود دوسروں کی طرف مائل ہونے والی ہوتی ہیں ،وہ نہ جنت میں داخل ہوں گی نہ جنت کی بو سونگھ سکے گی” اوراب چمچہ کے بجائے ہاتھ سے کھانے،کھڑے ہوکر پانی پینے کے بجائےبیٹھ کر پانی پینے کو رجعت پسندی اور قدامت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے،اور فیشن پرستی کا یہ عالم کہ جیب میں قیمتی قیمتی فون ، کا نوں میں ایرفون ،ہاتھوں میں مہنگی گھڑیاں ،اور سواری کے لئے ہزاروں روپے کی گاڑیاں ہیں جس میں اسراف ہی اسراف ہے ، لیکن نماز تو دور کی بات،اذان سن کر جواب دینے کی تک فرصت نہیں، الغرض وہ ایک حد تک ذہنی ارتداد کے شکار ہوگئے ہیں ،ان کا دل ودماغ مغربیت کے بہاؤ میں بہہ چکا ہے ،ان کی زبان پر بھلے ہی محاسن اسلام ہو لیکن ان کا جسم مکمل طور پر مغربیت کی زد میں ہے،بقول علامہ اقبال ؛
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں،
وہیں یہ ذرائع ابلاغ ہیں جس میں رسائل ،میگزین ،اخبارات،نجی ٹی وی چینلز، فلمیں ڈرامے وغیرہ بھی شامل ہیں جس میں فلمی ستاروں، کھلاڑیوں کی نیم عریاں تصاویر خاص زاویوں سے رنگین صفحات پر بڑے ہی اہتمام سےشائع کی جاتی ہیں تو وہیں یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنی مصنوعات کی فروخت کے لئے اشتہار بازی کےذریعہ بے حیائی وفحاشی کو پھیلانے کا ذریعہ بن رہی ہے،جس میں مردوعورت نیم عریاں ،زرق برق لباس میں ملبوس نظر آتے ہیں جنہیں بار بار دیکھ ہماری نوجوان نسل بھی اسی کی نقالی کرنے کی کوشش کرتی ہے ،اور اپنی اسلامی و مشرقی تہذیب کو بھلا بیٹھتی ہے،اس لئے سب سے پہلےوالدین کی ذمہ داری ہیکہ وہ اپنے بچوں کی اسلامی طریقہ پر اور نبوی تعلیمات کی روشنی میں تربیت کریں،انہیں سیرت رسول ،صحابہ وصحابیات اور ازواج مطہرات کی حیاءوپاک دامنی کے قصے سنائیں ، عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی آگاہ کریں اورخدا کے واسطے فون ان کے ہاتھوں میں نہ دیں،اور ہماری مائیں بہنیں جو آنے والی نسلوں کی معمار ہیں وہ خود فیشن پرستی کے فتنہ سے بچیں، اس لئے کہ اگر وہ خود اسلامی تعلیمات سے دور ہوکر فیشن کے دلدل میں پھنس جائے گی تو آنے والی نسلوں کی کس طرح تربیت ہوسکتی ہے؟ اور نوجوان خود اپنی اصلاح کی فکر کریں اور فیشن پرستی سے بچنے کی کوشش کریں ا س لئے کہ،” خود ہی نا چاہے تو بہانے ہزار”اور علماء وخطباء اپنے بیانات میں فیشن پرستی کے نقصانات سے نوجوان نسل کو آگاہ کریں اور ان کو تباہ و برباد ہونے سے بچائیں اس لئےکہ؛
مگر ان ہواؤں کو روکئے کہ سوال سارے چمن کا ہے