ماہنامہ الفاران
ماہِ رجب المرجب - ۱۴۴۳
مدارس: دین کی حفاظت کا عظیم ذریعہ
حضرت مفتی محمد مناظرنعمانی صاحب القاسمی،استاذ: تفسیر و عربی ادب جامعہ حسینیہ،مدنی نگر،کشن گنج،بہار
مدارس اسلامیہ کا قیام اسلامی اقدار وروایات کے تحفظ، اسلام اور شعائر اسلام کی حفاظت وصیانت دین اور علوم دینیہ کی نشر وشاعت کے لئے ہوا، جو خاصان خدا کی دعاء نیم شبی،آہِ سحر گاہی اور ان کے خلوص وللہیت کا مظہر اتم ہیں، ہندوستان میں ان مدارس اسلامیہ کا قیام ۷۵۸۱ء کی جنگ آزادی کے بعد ایسے پر آشوب اور ہوش ربا حالات میں ہوا جب ہر طرف مسلمانوں کے لئے مسافرت اور اجنبیت تھی، ان مدارس کے قیام کی صدا ایک ایسی صدا تھی جو غربت وافلاس،بے کسی اور بے مائیگی کے عالم میں بلند کی گئی تھی، مگر صدیوں پہلے ان ہی مسافرانِ حق اور رہروان راہ ِ غربت کو زبان نبوت سے ان الفاظِ نبوت کے ذریعہ مبارک قرار دئے جاچکے ہیں کہ ”بدأ الاسلام غریباً فسیعود غریباً فطوبیٰ للغرباء“ اس صدا میں کشش، اس پکار میں جاذبیت اور ا س آواز میں شاہراہِ حیات کے تھکے مسافروں کے لئے زندگی کی راہِ تاباں کا پیغام تھا، اس لئے اس کی اجنبیت دور اور بے گانگیت کافور ہوتی چلی گئی اور یہ آواز ایک تحریک بن گئی، پھر کیا تھا ملک کے گوشے گوشے میں مدارس کے جال بچھے، اور بچھتے چلے گئے۔
آج بر صغیر ہند وپاک میں اسلام کی جو بچی کھچی رمق اور روشنی نظر آرہی ہے وہ ان ہی مدارس اسلامیہ کی دَین اور ان ہی درسگاہانِ علوم نبوت کے فیضان کا کرشمہ ہیں، اگر مدارس نہ ہوتے، یہ مکاتب نہ کھلتے اور راہِ حق کے لئے یہ مُلّااور درویش اپنی زندگیوں کو صِرف چند ٹھیکڑوں کے عوض (جن سے زندگی کا گذران بھی بمشکل ہوپائے) اگر وقف نہ کرتے تو متحدہ ہندوستان کا کیا حال ہوتا؟ شاعر مشرق علامہ اقبال اور بہت سے جہاں دیدہ اور اصحاب بصیرت نے لکھا ہے کہ ہندوستان کا حال بھی اسپین سے سوا نہ ہوتا۔مدارس نے امت کو کیا دیا؟
ہندوستان نے جب طویل غلامی کی زندگی جھیل کر جب آزادی کی سانس لی تو جہاں اس کی ساری عظمتیں لٹ چکی تھیں، وہیں اِس کا دینی تشخص بھی مٹ چکا تھا ایسے وقت میں ہندوستانی علماء اور اہل علم بالخصوص مسلمانوں کے سامنے دو اہم باتیں تھیں، ایک تو یہ کہ ہم جمہوری ہندوستان میں ایک باعزت شہری بن کر اپنے تمام تر حقوق کے ساتھ کیسے رہیں،اس کیلئے ہمیں پروفیسر، انجینئر، ڈاکٹر اور اعلیٰ تعلیمی صلاحیتوں کے حامل افراد کی ضرورت تھی، اس ضرورت کی تکمیل کیلئے سر سید ؒ آگے آئے، اور علی گڑھ مسلم یونیوسٹی کی بنیاد پڑی پھر اس طرز پر اور دیگر اداروں کا قیام عمل میں آیا، جہاں آج ہماری قوم کے ۸۹/ فیصد بچے زیر تعلیم ہیں، دوسری ضرورت یہ تھی کہ جمہوری ہندوستان میں ہم اپنے دینی تشخصات کے ساتھ کیسے رہیں؟ ہماری مسجدیں کیسے آباد ہوں؟ اور یہاں دین کی حفاظت اور اس کی نشر واشاعت کیسے ہو؟ اس ضرورت کی تکمیل کے لئے حجۃ اللہ فی الارض قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ آگے آئے اور دارالعلوم کی بنیاد پڑی، پھر رفتہ رفتہ اس طرز کے اور اداراے وجود میں آئے، جہاں آج بھی قوم کے صرف اور صرف ۲/ فیصد بچے زیر تعلیم ہیں۔
ہندوستان کے موجودہ منظر نامہ میں یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ الحمد للہ دینی مدارس اپنے مقصد تاسیس میں سو فیصد کامیاب ہیں،ہم اس وقت ہزار حالات کے باوجود اپنے پورے تشخصات کے ساتھ موجود ہیں، مگر وہ ادارے جن کے پاس قوم کا پورا حصہ ہے وہ اپنے مقاصد سے کوسوں دور ہے، اگر وہ طبقہ اپنی ذمہ داری اور فرض منصبی کو پورے طور پر نبھاتا تو جن حالات سے ہم دو چار ہیں شاید ایسا نہ ہوتا، مگر افسوس کہ انہوں نے اپنی اس عظیم ذمہ داری کو بھلا کر مدارس پر تنقید اور نصاب ونظام پربے جا اعتراض کو اپنا فرض منصبی سمجھ لیا ہے، حالاں کہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ آج بر صغیر میں جو بھی اسلامی تشخصات اور دینی مظاہر پائے جاتے ہیں وہ انہی دینی مدارس اور انہی کے نصاب ونظام کی مرہون منت ہے، اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو آزادی کے بعد جس طرح ارتداد ولادینیت کی لہریں چلی تھیں شاید ان کی ساری سازشیں کامیاب ہوجاتیں، اور آج ہر طرف بد دینی اور ضلالت وگمراہی کا دور دورہ ہوتا،اور یہ صرف کل کی بات نہیں بلکہ آج بھی معاندین اسلام یا حکومتوں کی طرف اسلام مخالف کسی بھی قسم کی سازش اٹھتی ہے تو ان کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لئے علماء اور مدارس کے فیض یافتگان صف اول میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
علاوہ ازیں مدارس اسلامیہ کی ان دینی، ملی، عائلی اور سماجی خدمات کا کون انکار کرسکتا ہے، کہ آزادیئ ہند سے اب تک جتنی بھی انقلابی اور اصلاحی تحریکیں اٹھیں ان میں مرکزی کردار مدارس کے بوریہ نشیں علماء اور ان کے فیض یافتگان نے ہی ادا کیا، اور امت کے اس مفلوک الحال اور نادار طبقہ کو زیورِ علم سے آراستہ کیا جن کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔
الغرض یہ کہ مدارس اسلامیہ نے ہمہ جہتی خدمات انجام دی ہیں اور بحمد اللہ آج بھی اپنے مشن کی طرف رواں دواں ہے، بالخصوص ان مدارس اسلامیہ نے ہر نازک وقت میں اسلامیان ہند کے ایمان وعقیدے کے تحفظ کی فکر کی ہے، اسلئے خدا را ان کی طرف نظر عناد نہ اٹھائیں بلکہ ہر ممکن ان کا تعاون کرکے دشمنان اسلام کی تمام تر سازشوں کو ناکام بنانے میں ان مدارس اسلامیہ کی شانہ بشانہ رہنے کی پوری کوشش کریں۔مدارس کا تعاون دوہرا اجر کا حامل
دینی وملی ضروریات میں انفاق یقینا کارِ خیر او ر عظیم سعادت ہے، اللہ رب العزت نے اپنے فضل سے جو مال اپنے بندوں ک عطافرمایا ہے ان میں مخصوص مقدار یعنی نصاب زکوٰۃ پر صرف چالیسواں حصہ مصارف زکاۃ پر خرچ کرنے کا حکم فرمایا ہے، جو کہ فرض ہے، پھر یہ تو اللہ ہی کا فضل ہے کہ اس فرض کی ادائیگی پر بے پناہ اجر وثواب رکھا ہے، ان مصارف میں ایک مصرف مدارس اسلامیہ بھی ہیں، حضرات علماء کرام نے لکھا ہے کہ مدارس میں انفاق چوں کہ ادائیگی ئ زکاۃ کے ساتھ ساتھ دین کی نشر واشاعت میں بھی حصہ داری ہے، اس لئے اِس میں ڈبل اور دوہرا ثواب ملے گا۔ (کتاب المسائل: ۲/ ۱۷۲)
مگر یہ دوہرا اجر تب ہے جب کہ معاونین حضرات تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ محصلین اور علماء کرام کا شکر گذار ہوں وہ خود ہزار مصائب اور تکالیف برداشت کرکے آپ کو ایک فریضہ کی ادائیگی سے سبکدوش کررہے ہیں، اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا جیساکہ بعضے سرمایہ داروں کا رویہ ہے کہ محصلین کی نہ صرف تحقیر کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات سخت سست بھی کہہ دیتے ہیں،جو کسی بھی طرح روا نہیں، آپ اگر انہیں دینا نہیں چاہتے، یا آپ کے پاس گنجائش نہیں ہے تو نرمی کے ساتھ منع کردیں، ان علماء کرام اور محصلین کی تحقیر کرکے اپنی آخرت برباد نہ کریں۔حضرات محصِّلین کی خدمت میں
زکوٰۃ وصدقات کی وصولیابی بڑی ذمہ داری کا کام ہے، جب تک زکوٰۃ اپنے مصرف میں خرچ نہ ہوجائے آپ بری الذمہ نہیں ہوسکتے، اس مادیت کے دور میں مدارس اسلامیہ میں معمولی وظائف میں تدریسی خدمت واقعتا اولوالعزمی ہے، اس پر تدریس کے ساتھ رمضان کی مبارک ساعتوں میں مالی فراہمی کسی عظیم مجاہدہ سے کم نہیں، اگر حض رات محصلین اور علما ء کرام اس میں دوباتوں کا خیال رکھ لیں تو امید کہ کل قیامت کے دن ان شاء اللہ اپنے میزان عمل میں اس کا نمایاں ثواب دیکھیں گے۔
(۱)تقویٰ: یہ فتنہ کا زمانہ ہے، ہر طرف بے حیائی ہی بے حیائی ہے، نظروں کی حفاظت کے ساتھ روزہ کو بچانے کی فکرکریں، تحصیل کاکام ہم لوجہ اللہ کررہے ہیں اس لئے ہر آن یہ استحض ار رہے کہ ہم سے اللہ ناراض نہ ہو جائے، نماز باجماعت اور روزہ کا اہتمام کریں، آخر یہ کس قدر ناقدری ہے کہ محصلین کا ایک طبقہ سفر کا عذر کرکے روزہ تو چھوڑدیتے ہیں مگر تحصیل فراہمی مالیات میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے، رمضان کی قدر کریں اور اس کے ہر لمحہ کو اپنے لئے قیمتی بنائیں۔
(۲)دیانت: دیانت اور امانت تو ہر شعبہ میں لازم اور ضروری ہے، مگر قومی چیزوں میں اس کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے، آج بہت افسوس کی بات ہے کہ مدارس سے وابستہ اور مدارس کی طرف منسوب اس طبقہ سے یہ وصف ختم ہوتا جارہا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ معاونین کسی پر بھی جلدبھروسہ اور اعتماد نہیں کرتے، اس لئے ہر طرح کی خیانتوں سے اپنے کو دور رکھیں، مدارس کا صحیح صرفہ اور طلبہ کی صحیح تعداد ہی معاونین کو بتائیں اور غلط بیانی سے بالکلیہ اجتناب کریں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ خداوند کریم ہمیں تقویٰ اور دیانت جیسے اوصاف سے متصف فرمائے، آمین۔
آج بر صغیر ہند وپاک میں اسلام کی جو بچی کھچی رمق اور روشنی نظر آرہی ہے وہ ان ہی مدارس اسلامیہ کی دَین اور ان ہی درسگاہانِ علوم نبوت کے فیضان کا کرشمہ ہیں، اگر مدارس نہ ہوتے، یہ مکاتب نہ کھلتے اور راہِ حق کے لئے یہ مُلّااور درویش اپنی زندگیوں کو صِرف چند ٹھیکڑوں کے عوض (جن سے زندگی کا گذران بھی بمشکل ہوپائے) اگر وقف نہ کرتے تو متحدہ ہندوستان کا کیا حال ہوتا؟ شاعر مشرق علامہ اقبال اور بہت سے جہاں دیدہ اور اصحاب بصیرت نے لکھا ہے کہ ہندوستان کا حال بھی اسپین سے سوا نہ ہوتا۔
ہندوستان کے موجودہ منظر نامہ میں یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ الحمد للہ دینی مدارس اپنے مقصد تاسیس میں سو فیصد کامیاب ہیں،ہم اس وقت ہزار حالات کے باوجود اپنے پورے تشخصات کے ساتھ موجود ہیں، مگر وہ ادارے جن کے پاس قوم کا پورا حصہ ہے وہ اپنے مقاصد سے کوسوں دور ہے، اگر وہ طبقہ اپنی ذمہ داری اور فرض منصبی کو پورے طور پر نبھاتا تو جن حالات سے ہم دو چار ہیں شاید ایسا نہ ہوتا، مگر افسوس کہ انہوں نے اپنی اس عظیم ذمہ داری کو بھلا کر مدارس پر تنقید اور نصاب ونظام پربے جا اعتراض کو اپنا فرض منصبی سمجھ لیا ہے، حالاں کہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ آج بر صغیر میں جو بھی اسلامی تشخصات اور دینی مظاہر پائے جاتے ہیں وہ انہی دینی مدارس اور انہی کے نصاب ونظام کی مرہون منت ہے، اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو آزادی کے بعد جس طرح ارتداد ولادینیت کی لہریں چلی تھیں شاید ان کی ساری سازشیں کامیاب ہوجاتیں، اور آج ہر طرف بد دینی اور ضلالت وگمراہی کا دور دورہ ہوتا،اور یہ صرف کل کی بات نہیں بلکہ آج بھی معاندین اسلام یا حکومتوں کی طرف اسلام مخالف کسی بھی قسم کی سازش اٹھتی ہے تو ان کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لئے علماء اور مدارس کے فیض یافتگان صف اول میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
علاوہ ازیں مدارس اسلامیہ کی ان دینی، ملی، عائلی اور سماجی خدمات کا کون انکار کرسکتا ہے، کہ آزادیئ ہند سے اب تک جتنی بھی انقلابی اور اصلاحی تحریکیں اٹھیں ان میں مرکزی کردار مدارس کے بوریہ نشیں علماء اور ان کے فیض یافتگان نے ہی ادا کیا، اور امت کے اس مفلوک الحال اور نادار طبقہ کو زیورِ علم سے آراستہ کیا جن کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔
الغرض یہ کہ مدارس اسلامیہ نے ہمہ جہتی خدمات انجام دی ہیں اور بحمد اللہ آج بھی اپنے مشن کی طرف رواں دواں ہے، بالخصوص ان مدارس اسلامیہ نے ہر نازک وقت میں اسلامیان ہند کے ایمان وعقیدے کے تحفظ کی فکر کی ہے، اسلئے خدا را ان کی طرف نظر عناد نہ اٹھائیں بلکہ ہر ممکن ان کا تعاون کرکے دشمنان اسلام کی تمام تر سازشوں کو ناکام بنانے میں ان مدارس اسلامیہ کی شانہ بشانہ رہنے کی پوری کوشش کریں۔
مگر یہ دوہرا اجر تب ہے جب کہ معاونین حضرات تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ محصلین اور علماء کرام کا شکر گذار ہوں وہ خود ہزار مصائب اور تکالیف برداشت کرکے آپ کو ایک فریضہ کی ادائیگی سے سبکدوش کررہے ہیں، اگر معاملہ اس کے برعکس ہوا جیساکہ بعضے سرمایہ داروں کا رویہ ہے کہ محصلین کی نہ صرف تحقیر کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات سخت سست بھی کہہ دیتے ہیں،جو کسی بھی طرح روا نہیں، آپ اگر انہیں دینا نہیں چاہتے، یا آپ کے پاس گنجائش نہیں ہے تو نرمی کے ساتھ منع کردیں، ان علماء کرام اور محصلین کی تحقیر کرکے اپنی آخرت برباد نہ کریں۔
زکوٰۃ وصدقات کی وصولیابی بڑی ذمہ داری کا کام ہے، جب تک زکوٰۃ اپنے مصرف میں خرچ نہ ہوجائے آپ بری الذمہ نہیں ہوسکتے، اس مادیت کے دور میں مدارس اسلامیہ میں معمولی وظائف میں تدریسی خدمت واقعتا اولوالعزمی ہے، اس پر تدریس کے ساتھ رمضان کی مبارک ساعتوں میں مالی فراہمی کسی عظیم مجاہدہ سے کم نہیں، اگر حض رات محصلین اور علما ء کرام اس میں دوباتوں کا خیال رکھ لیں تو امید کہ کل قیامت کے دن ان شاء اللہ اپنے میزان عمل میں اس کا نمایاں ثواب دیکھیں گے۔
(۱)تقویٰ: یہ فتنہ کا زمانہ ہے، ہر طرف بے حیائی ہی بے حیائی ہے، نظروں کی حفاظت کے ساتھ روزہ کو بچانے کی فکرکریں، تحصیل کاکام ہم لوجہ اللہ کررہے ہیں اس لئے ہر آن یہ استحض ار رہے کہ ہم سے اللہ ناراض نہ ہو جائے، نماز باجماعت اور روزہ کا اہتمام کریں، آخر یہ کس قدر ناقدری ہے کہ محصلین کا ایک طبقہ سفر کا عذر کرکے روزہ تو چھوڑدیتے ہیں مگر تحصیل فراہمی مالیات میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے، رمضان کی قدر کریں اور اس کے ہر لمحہ کو اپنے لئے قیمتی بنائیں۔
(۲)دیانت: دیانت اور امانت تو ہر شعبہ میں لازم اور ضروری ہے، مگر قومی چیزوں میں اس کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے، آج بہت افسوس کی بات ہے کہ مدارس سے وابستہ اور مدارس کی طرف منسوب اس طبقہ سے یہ وصف ختم ہوتا جارہا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ معاونین کسی پر بھی جلدبھروسہ اور اعتماد نہیں کرتے، اس لئے ہر طرح کی خیانتوں سے اپنے کو دور رکھیں، مدارس کا صحیح صرفہ اور طلبہ کی صحیح تعداد ہی معاونین کو بتائیں اور غلط بیانی سے بالکلیہ اجتناب کریں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ خداوند کریم ہمیں تقویٰ اور دیانت جیسے اوصاف سے متصف فرمائے، آمین۔