ماہنامہ الفاران
ماہِ رجب المرجب - ۱۴۴۳
ماہ رجب ہی سے رمضان کی فکر
حضرت مفتی نفیس احمد جمالپوری صاحب المظاہری، استاد حدیث و فقہ: مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا (ہماچل پردیش)
رجب اسلامی تقویم کے ساتویں مہینے کا نام ہے اسی مہینہ میں وہ عمرہ ادا کیاجاتا تھا جو ظہورِ اسلام سے پہلے حج کے ان لازمی ارکان میں سے تھا جو مکہ معظمہ سے متعلق تھے، اسی لئے اسے خدائی امن کا مہینہ سمجھا جاتا تھا اور اسی بنا پر ممنوع جنگ کو، جو رجب کے مہینے میں لڑی گئی تھی اور جس میں آنحضرتﷺنے باختلاف روایات چودہ یا بیس برس کی عمرمیں شرکت فرمائی تھی، حرب الفجار کہتے ہیں۔(اردو دائرہ معارف اسلامیہ :۱۰۱۹۳)۔
رجب کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے اور ترجیب کے معنی تعظیم کرنا ہے۔ یہ ان متبرک وحرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کاتذکرہ سورہ توبہ آیت نمبر 36میں اس طرح آیا۔ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیداکیا، اسی دن سے اللہ کے نزدیک اس کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں اس آیت کی تفسیر میں اِمام ابوبکر جصاص رازی ؒنے اَحکام القرآن میں فرمایا ہے کہ اس میں اِشارہ اِس بات کی طرف ہے کہ چارمتبرک مہینوں کا خاصہ یہ ہے کہ اِن میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے تو اُس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اورہمت ہوتی ہے ،اِسی طرح جو شخص کوشش کرکے اِن مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچا لے تو باقی سال کے مہینوں میں اُس کو برائیوں سے بچنا آسان ہو جاتاہے اِس لیے اِن مہینوں سے فائدہ نہ اُٹھانا ایک عظیم نقصان ہے۔
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں میں ہر عبادت کا ثواب زیادہ ہوتا ہے اور ان میں کوئی گناہ کرے تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔“حضرت مفتی صاحب ”منھاأربعة حرم“کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ”ان کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا ہے، ایک تو اس لیے کہ ان میں قتل وقتال حرام ہے،اور دوسرا اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں ۔ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ان میں پہلا حکم تو شریعت ِاسلام میں منسوخ ہوگیا؛ مگر دوسرا حکم (احترام وادب)اور ان میں عبادت گزاری کا اہتمام اسلام میں اب بھی باقی ہے۔“(معارف القرآن) اس ماہ میں اہل جاہلیت بھی جدال و قتال کو حرام سمجھتے تھے اس لیے اسے ’الاصم رجب‘ کہتے تھے کہ اس میں ہتھیاروں کی آوازیں نہیں سنی جاتیں۔
اس مہینہ کو ’اصب‘ بھی کہا جاتا ہےاصب کے معنیٰ ہے بہت زیادہ ڈالنے والا کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و بخشش کے خصوصی انعام فرماتا ہے۔ اس ماہ میں عبادات اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ رجب کا مہینہ شروع ہونے پرخود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء مانگا کرتے تھے:۔ ’’اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ۔‘‘ (مسند احمد، بزار، طبرانی، بیہقی) ’’اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمیں برکت عطا فرما اور ماہِ رمضان تک ہمیں پہنچا۔‘‘ ماہ رجب میں پیش آنے والے چند اہم تاریخی واقعات تاریخ اسلام میں ماہ رجب میں متعدد تاریخی واقعات کے پیش آنے کا بھی ذکر ہے ان میں سے ایک معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہےجس کاتذکرہ صحیح احادیث وآثار میں ملتاہے اس واقعہ کی تاریخ اور سال کے متعلق ‘ مؤرخین اور اہل سیر کی رائے مختلف ہیں، ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ نبوت کے بارہویں سال 27 رجب کو 51 سال 5 مہینہ کی عمر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی، جیسا کہ علامہ قاضی محمد سلیمان منصورپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’مہر نبوت‘ میں تحریر فرمایا ہے۔
سفر معراج کے لئے شریعت کی اصطلاح میں دوالفاظ کاانتخاب کیا گیا ایک اسراءدوسرامعراج اسراءکاذکرقرآن کریم کی سورہ بنی اسرائیل میں قدرے تفصیل کےہےجبکہ معراج کاتذکرہ احادیث صحیحہ کثیرہ میں مطول موجود ہے۔ اسراء کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں۔ مسجد حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ کا سفر جس کا تذکرہ سورۂ بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے، اس کو اسراء کہتے ہیں۔ اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے، معراج عروج سے نکلا ہے جس کے معنی چڑھنے کے ہیں ۔حدیث میں ’عرج بی‘ یعنی مجھ کو اوپر چڑھایا گیا کا لفظ استعمال ہوا ہے ،اس لئے اس سفر کا نام معراج ہوگیا۔
اس واقعہ کا ذکر سورۂ نجم کی آیات میں بھی ہے: پھر وہ قریب آیا اور جھک پڑا، یہاں تک کہ وہ دو کمانوں کے فاصلے کے برابر قریب آگیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک، اس طرح اللہ کو اپنے بندے پر جو وحی نازل فرمانی تھی، وہ نازل فرمائی۔سورۃ النجم کی آیات 13-18 میں وضاحت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس موقع پر) بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں: اور حقیقت یہ ہے انہوں نے اس (فرشتے) کو ایک اور مرتبہ دیکھا ہے۔ اس بیر کے درخت کے پاس جس کا نام سدرۃ المنتہی ہے، اسی کے پاس جنت المأویٰ ہے، اس وقت اس بیر کے درخت پر وہ چیزیں چھائی ہوئی تھیں جو بھی اس پر چھائی ہوئی تھیں۔ (نبی کی) آنکھ نہ تو چکرائی اور نہ حد سے آگے بڑھی، سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پرودرگار کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بہت کچھ دیکھا ہے۔
اسراء ومعراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں بلکہ جسمانی تھا، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر کوئی خواب نہیں تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ مختلف مراحل سے گزرکر اتنا بڑا سفر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف رات کے ایک حصہ میں مکمل کردیا۔ اللہ تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا پیدا کرنے والاہے، اس کے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے،کیونکہ وہ تو قادر مطلق ہے،جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے تو ارادہ کرنے پر چیز کا وجود ہوجاتا ہے۔ معراج کا واقعہ پوری انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم، مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خالق کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دے کر اپنا مہمان بنانے کا وہ شرف عظیم عطا فرمایا جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا ہے اور نہ کسی مقرب ترین فرشتے کو۔
واقعۂ معراج کا مقصد:
واقعہ معراج کے مقاصد میں جو سب سے مختصر اور عظیم بات قرآن کریم (سورہ بنی اسرائیل) میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم (اللہ تعالیٰ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔۔۔ اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عظیم الشان مقام ومرتبہ دینا ہے جو کسی بھی بشر حتی کہ کسی مقرب ترین فرشتہ کو نہیں ملا ہے اور نہ ملے گا۔ ۔۔ نیز اس کے مقاصد میں امت مسلمہ کو یہ پیغام دینا ہے کہ نماز ایسا مہتم بالشان عمل اور عظیم عبادت ہے کہ اس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات میں ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچا بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ نماز اللہ جلّ شانہ سے تعلق قائم کرنے اور اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کو مانگنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ نماز میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے مناجات ہوتی ہے۔
دوسرا واقعہ
ہجرت حبشہ اولیٰ ہے‘ جب مسلمان اہل مکہ کی سختیاں برداشت کرنے سے عاجز آکر باذن رسول اﷲﷺ عازم حبشہ ہوئے۔ اس قافلہ میں باختلاف روایات 12 مرد اور 4 عورتیں تھیں‘ سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ قافلہ سالار مہاجرین تھے۔ یہ رجب سن پانچ نبوی کا واقعہ ہے
تیسراوقعہ
سریہ عبداﷲ بن حجش الاسدی اسی ماہ رجب میں ہجرت مدینہ سے کوئی 17 ماہ بعد پیش آیا یہ وہ سریہ ہے جس نے اسلامی تاریخ میں نئے ریکارڈ قائم کئے مثلا اسلامی تاریخ کا پہلا مال غنیمت‘ پہلا خمس‘ پہلا شہید اور پہلا قیدی اسی سریہ نے پیش کیا۔
چوتھاواقعہ
سن9 ہجری میں پیش آنے والا عظیم غزوہ‘ غزوہ تبوک بھی ماہ رجب ہی میں پیش آیا تھا جسے غزوہ ذات العسرہ کا نام دیا گیا۔ یہی وہ غزوہ ہے جس میں سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اپناگھر بار خالی کرکے تن من دھن حضورﷺ کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف ایک بار پھر حاصل کیا اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے تہائی لشکر کا سازوسامان اپنی گرہ سے پیش کرکے جنت کا پروانہ اور سند حاصل کی۔
پانچواں واقعہ
اسلام کے چوتھے خلیفہ اور دامادِ رسول ﷺ بھی 13 رجب کو اس دنیا میں تشریف لائے ، ان کی ولادت کا سال تاریخی کی کتابوں میں سن 30 عام الفیل رقم ہے۔
چھٹاواقعہ
ملک حبشہ کے مسلمان بادشاہ نجاشی کا انتقال سن9 ہجری ماہ رجب میں ہوا اور جناب رسول اﷲﷺ نے ازخود اطلاع پاکر اپنے صحابہ کی معیت میں اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی۔
ساتواں واقعہ
دمشق کی تاریخی فتح سن14 ہجری مطابق 635ء عیسوی میں ماہ رجب ہی میں ہوئی۔ حضرت خالد بن الولید اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنھما جو ربیع الثانی 14 ہجری سے دمشق کا محاصرہ کئے ہوئے تھے‘ فتح یاب ہوئے اور اہل دمشق نے صلح کی درخواست کی جو منظور کرلی گئی۔
آٹھواں واقعہ
سلطان صلاح الدین ایوبی نے سن583ہجری مطابق1187عیسوی میں رجب ہی کے مہینے میں فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں کے ہمراہ مسجد اقصیٰ میں فاتحانہ داخل ہوکر عاجزانہ سجدہ شکر ادا کرنے کا شرف حاصل کیا۔
ماہ رجب میں کی جانیوالی بعض خرافات کی حقیقت
ویسے تو کوئی بھی مہینہ بدعات وخرافات سے خالی نہیں رہنے دیا گیا مگر رجب وہ مظلوم مہینہ ہے جسے کثرت رسوم و بدعات سے: ظُلُمَاتُ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ-النور40( اندھیریاں ہیں جو اوپر تلے پے درپے ہیں) کا مظہر بنا دیا گیا ہے۔
نمبر 1 رجبی عمرہ:
بعض لوگ بطور خاص اس مہینے میں عمرہ کرنے کو بہت اجرو ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔ اس عمل پر کوئی دلیل کتاب وسنت اور عمل صحابہ میں نہیں پائی جاتی۔اس کے بجائے آپ علیہ السلام نے رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کو حج کے برابر ثواب والاعمل قرار دیا ہے۔ اسی طرح حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کی بھی خاص فضیلت وارد ہے۔ حج کے مہینے شوال ، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ہیں ۔صحیحین میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول مروی ہے کہ’’رسول اللہ نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا تھا۔‘‘(البخاری و مسلم)۔ کسی خاص زمانے میں متعین عبادت نہیں کی جا سکتی جب تک اس پر شرعی دلیل موجود نہ ہوہاں البتہ اگر کوئی شخص رجب کی خاص فضیلت کا اعتقاد رکھے بغیر رجب میں مکہ مکرمہ چلا جائے اور عمرہ کرے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔
نمبر 2صلاۃ الرغائب:
یہ ایک اسی بدعت ہےجس کی رسو ل اللہ کے دنیا سے تشریف لے جانے سے قریبا ًپونے 500سال بعد دین میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ایک من گھڑت روایت کو بنیاد بنا کر اس بدعت کی عمارت کھڑی کی گئی۔اس موضوع روایت کے مطابق یہ ایک نماز ہے جس کا نام اس کے وضاعین نے ’’صلاۃ الر غائب‘‘ رکھا۔ یہ نماز ماہ رجب المرجب کی پہلی جمعرات کا روزہ رکھنے کے بعد جمعہ کی شب مغرب اور عشاء کی نمازوں کے درمیان ادا کی جاتی ہے۔اس نماز کی 12رکعتیں ہوتی ہیں۔ ہر 2 رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔ نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد 3 مرتبہ سورۃ القدر اور 12مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھی جاتی ہے۔نماز کے اختتام پر 70 مرتبہ یہ درود شریف اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ وَآلِہِ پڑھا جاتا ہے۔ پھر2 سجدے کیے جاتے ہیں۔ ہر سجدے میں70 مرتبہ ’’سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوحِ‘‘ پڑھا جاتا ہے۔سجدے کے بعد یہ دعا ’’رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمْ إِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الأَعْظَمُ‘‘70 مرتبہ پڑھی جاتی ہے، پھر دوسرے سجدے میں بھی اسی طرح کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد نماز پڑھنے والا اپنی جو بھی حاجت بیان کرے گا اس کی وہ حاجت پوری ہو جائیگی۔ اس خود ساختہ نماز کی ایسی ایسی مبالغہ آمیز فضیلتیں بیان کی گئی ہیں کہ جن سے یہ نماز خود بخود باطل اور بدعت ثابت ہو جاتی ہے۔مثلاً یہ کہ اس نماز کی ادائیگی پر اس کے سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں چاہے وہ سمندر کی جھاگ اور درختوں کے پتوں کے برابر ہوں۔ وہ روز قیامت اپنے خاندان کے 70 افراد کی سفارش کر سکے گا۔اس نماز کا ثواب جب قبر میں آئیگا تو صاحب قبر اس سے کہے گا: تم کون ہو؟ اللہ کی قسم!میں نے تم سے زیادہ حسین، خوش گفتار اور خوشبو دار جسم نہیں دیکھا۔یہ کہے گا: میں تمہاری اس نماز کا ثواب ہوں جو تم نے رجب کی فلاں رات میں پڑھی تھی۔ آج میں تمہارا حق لوں گا، قبر میں تمہاری تنہائی دور کروں گا، تمہاری وحشت کو دور کروں گا، روز قیامت میں تمہارے سر پر سایہ فگن رہوں گااور تم کبھی خیر سے محروم نہیں رہو گے۔پھر وہ خوشخبری سنائیگا کہ آج تو میری وجہ سے عذاب قبر سے بچ گیا ہے۔ علامہ ابن الجوزی نے اس نماز والی روایت کو موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا ہے۔سب سے پہلے یہ نماز سن 480ہجری میں بیت المقدس میں ادا کی گئی۔وہ چیز جو پونے 500برس تک دین کا حصہ نہ تھی، اچانک اتنی مدت کے بعد وہ دین کا حصہ کیسے بن گئی؟!شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:صلاۃ الرغائب کی دین میں کوئی اصل نہیں بلکہ یہ ایک بعد میں ایجاد کردہ بدعت ہے۔یہ نہ جماعت کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے نہ ہی انفرادی طور پر اس کی ادائیگی درست ہے، بلکہ صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ نبی کریم نے جمعہ کی رات قیام کرنے کے لیے اور جمعہ کے دن کو روزہ رکھنے کے لیے خاص کرنے سے منع فرمایا ہے۔اس نمازکی مشروعیت کے سلسلے میں جو اثر ذکر کیا گیا ہے اس کے جھوٹ اور من گھڑت ہونے پر علماء متفق ہیں۔ سلف اور ائمہ نے سرے سے اس کا ذکر ہی نہیں کیا (مجموع فتاویٰ)۔
نمبر 3 رجبی کونڈے:
اس ماہ کی ایک اور نہایت مکروہ اور خطرناک بدعت رجبی کونڈوں کے نام سے مشہور ہے۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ بہت سے لوگ ماہ رجب کی 22تاریخ کو امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے نام کے کونڈے بھرتے ہیں۔ اس بدعت کو ثابت کرنے کے لیے ایک جھوٹی کہانی گھڑی گئی۔ہمارےملک ہندوستان کے ایک شخص نے ’’داستانِ عجیب ‘‘نامی کتاب میں اس بدعت کا تذکرہ ’’نیاز نامہ امام جعفر صادق‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ لکھتا ہے:
مدینہ طیبہ میں ایک غریب لکڑ ہارے کی بیوی وزیر کے محل میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ وزیر کے محل کے باہر اما م جعفر صادق اپنے ساتھیوں سے فرما رہے تھے: جو شخص ماہ رجب کی 22 تاریخ کو غسل کرکے صاف ستھرا ہو کر میرے نام کی پوریاں بنا کر کھیر 2کونڈوں میں بھر کر میرے نام پر فاتحہ کرے اور بارگاہ الٰہی میں اپنی مراد اور حاجت پیش کرے۔اگر اسکی حاجت پوری نہ ہو تو کل قیا مت کے دن میرا گریبان پکڑ لے۔لکڑہارے کی بیوی نے ایسا ہی کیا؛ چنانچہ اسکا شوہر بہت سارا مال لے کر لوٹا اور شاندار محل تعمیر کرکے اس میں رہنے لگا۔ وزیر کی بیوی نے کونڈوں کا انکار کیا تو اسکے شوہر کی وزارت چلی گئی پھرجب اس نے کونڈوں کی حقیقت کو تسلیم کرکے کونڈے بھر ے تو اسکی وزارت بحال ہو گئی۔اسکے بعد بادشاہ اور اس کی قوم کے لوگ ہر سال بڑے اہتمام سے کونڈے بھرنے لگے۔اس سارے قصے میں شرک اکبر پر مبنی اعمال کی طرف دعوت دی گئی ہے۔شریعت اسلامیہ میں اللہ کے سوا کسی نبی ولی جن یا فرشتے کے نام پر کوئی صدقہ و نیا ز دینا شرک اکبر ہے۔نیاز دینا عبادت ہے اور عبادت کا حق اللہ کیلئے خاص ہے۔کسی دوسرے کو اس میں شریک کرنا بہت بڑاجرم ہے۔اس کہانی میں 22رجب کی تاریخ متعین کی گئی ہے جو امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی نہ تاریخ پیدائش ہے نہ تاریخ وفات ہے۔ نہ ہی انکی زندگی کے کسی اہم واقعے سے اسکا تعلق بنتا ہے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ قصے میں مدینہ کی جس بادشاہت کا ذکر ہے تاریخ میں اسکا کوئی ذ کر نہیں پایا جاتا۔ جناب جعفر صادق رحمہ اللہ کے دور حیات میں مسلمانوں کا دار الخلافہ یا تو دمشق تھا یا بغداد تھا۔ اصل میں اسکے پیچھے رافضیوں کی ایک گھنا ؤنی سازش کارفرما ہے ۔ بات در اصل یہ ہے کہ 22رجب سیدنا امیر معاویہ کی وفات کا دن ہے۔یہ لوگ انکی وفات کے دن خوشی منا تے ہیں اور اس دن میں کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں مگر اپنے اس خبث باطن پر پردہ ڈالنے کیلئے لکڑہارے کی دا ستان تراشی کی گئی ہے۔کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں سب سے پہلے یہ بدعت ریاست رامپور میں امیر مینائی لکھنوی کے خاندان میں شروع کی گئی ۔
نمبر 4جشن معراج:
ماہ رجب کے حوالے سے ایک اور بدعت 27رجب کو جشن معراج کے نام سے جاری کی گئی ہے۔اس رات میں مختلف عبادتیں انجام دی جاتی ہیں جن کے بارے میں کتاب وسنت میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔ستائیسویں کی رات کو قیام کرنا ، نمازشب معراج پڑھنا،محفلیں منعقد کرنا، واقعہ اسراء ومعراج پڑھنا کہ یہ رات ہی معراج کی رات ہے۔ بغیر کسی شرعی دلیل سے بعض ایام کو دیگر ایام پر فوقیت دینا یا انہیں افضل سمجھناایک غلط عقیدہ ہے۔اس رات کو جشن منانا اور اسے عبادتوں کیلئے مختص کرنا کئی ایک لحاظ سے غلط اور نامناسب ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ 27رجب کو ہی شب معراج سمجھنا درست عمل نہیں،نہ اس کے دن مہینے اور سال کا درست تعین کیاجاسکا۔ تاریخ وسیرت کے علمائے کرام نے6 مختلف اقوال پر اختلاف کیا ہے اس لیے 27 کی شب ہی کو شب معراج سمجھنا ٹھیک نہیں(الرحیق المختوم)۔
اگر اس رات کا ٹھیک ٹھیک پتہ چل بھی جائے تو بھی اس رات میں مخصوص عبادات انجام دینا ناجائز کام ہے جس کا نبی کریم نے حکم دیا نہ اس پر عمل کیا۔نہ آپ کے اصحاب کرام ؓسے یا خلفائے راشدین ؓسے یہ عمل ثابت ہے ۔ اس جشن کو مناتے وقت بہت سے غیر شرعی اور نامناسب امور انجام دئیے جاتے ہیں۔ اس میں بالعموم ایسے لوگ شریک ہوتے ہیں جوشرعی فرائض تک کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کرتے۔ بعض 5وقت کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجدمیں تو جاتے نہیں، مگر اس قسم کی محفلوں میں بڑی سرگرمی اور اہتمام سے شریک ہوتے ہیں۔یہ بہت سی احادیث صحیحہ کا انکار بھی ہے جن میں دین میں بدعات داخل کرنے سے سختی سے منع کیاگیا ہے۔
نمبر 5رجبی صیام وقیام:
ما ہ رجب کی مروجہ بدعات میں سے ایک یہ ہے کہ خصوصیت کے ساتھ اس مہینہ میں قیام وصیام کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اس مہینے کی پہلی، دوسری، تیسری اور ساتویں تاریخ کا روزہ اور کبھی پورے مہینے کا روزہ رکھا جاتا ہے۔ ان روزوں کوسنت ثابت کرنے کے لیے کچھ ایسی احادیث کا سہارا لیا جاتا ہے جو ضعیف ہیں یا من گھڑت ہیں۔شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس مسئلے پر یوں رقمطراز ہیں:
’’رجب اور شعبان کے مہینوں کو ایک ساتھ روزے یا اعتکاف کے لیے مخصوص کرنے کے متعلق نبی اکرم ، صحابہ کرامؓ ، یا ائمہ مسلمین سے کوئی چیز وارد نہیں بلکہ صحیح بخاری ومسلم میں یہ بات ثابت ہے کہ اللہ کے رسول ماہ شعبان میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے۔ آپ پورے سال میں ماہ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں نفلی روزے نہیں رکھتے تھے البتہ جہاں تک رجب کے روزے کی بات ہے تو اسکے بارے میں ساری احادیث ضعیف بلکہ موضوع ہیں۔ اہل علم ان میں سے کسی کو لائق اعتماد اور قابل عمل نہیں سمجھتے۔یہ احادیث ضعیف روایات کے اس گروہ میں سے نہیں جو فضائل کے سلسلے میں بیان کی جاتی ہیں بلکہ یہ گھڑی ہوئی حدیثیں ہیں۔‘‘(مجموع فتاویٰ ) ۔
علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ماہ رجب کے روز ے کی فضیلت میں نبی کریم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کوئی چیز صحیح ثابت نہیں (لطائف المعارف)۔علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ماہ رجب کی فضیلت یا اس کے روزے کی فضیلت یا اس کے کسی مخصوص دن کے روزے کی فضیلت ، یا اس کی کسی مخصوص رات میں قیام کرنے کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں جو قابل حجت ہو ۔مجھ سے پہلے امام اسماعیل الہروی نے بھی اسی بات کی صراحت فرمائی ہے (تبیین العجب بما رود فی فضل رجب) ۔ علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ماہ رجب کے روزے کے سلسلے میں نبی کریم کے طریق کار کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :’’ آپ نے مسلسل3 مہینوں:رجب ، شعبان اور رمضان المبارک کے روزے نہیں رکھے جیسا کہ بعض لوگوں کاطریقہ ہے۔ نہ ہی آپ نے رجب کا روزہ رکھا، نہ ہی اس کے روزے کو پسندفرمایاہے بلکہ آپ سے رجب کے روزے کی ممانعت کے سلسلے میں حدیث وارد ہے جسے ابن ماجہ نے ذکر کیا ہے۔‘‘ (زاد المعاد)۔ اس کے علاوہ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت سے رجب کے روزے کی کراہت مروی ہے، یہاں تک سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ رجب کے مہینے میں روزہ رکھنے والے کو درہ لگایا کرتے تھے جب تک کہ وہ کھانے کے برتن میں اپنا ہاتھ نہ ڈال دیتا۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: رجب کیا ہے؟ رجب کی تعظیم تو اہل جاہلیت کیا کرتے تھے۔جب اسلام کا زمانہ آیا تو اسے چھوڑ دیا گیا۔البتہ اگر کوئی شخص ہر ماہ ایام بیض کے3 روزے رکھتا ہے یا صوم داؤدی پر عمل پیرا رہتا ہے یعنی ایک دن روزہ رکھتا اور ایک دن افطار کرتا ہے توایسا شخص رجب میں بھی اپنے معمول کے مطابق روزہ رکھے تو اس میں حرج والی کوئی بات نہیں۔
نمبر 6فرع اور عتیرہ رجب:
ایک اور رسم جو زمانہ جاہلیت ہی سے عربوں میں چلی آتی تھی۔ اس کا نام ’’فرع‘‘ اور ’’عتیرہ‘‘ ہے۔’’فرع ‘‘کا مطلب ہے جانور کا پہلا بچہ۔عرب اونٹ اور بکری کے پہلے بچے کو اپنے بتوں کے نام پر ذبح کیا کرتے تھے۔حرمت والے4 مہینوں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے وہ ماہ رجب کی تعظیم کیا کرتے تھے اور اس میں بتوں کے نام پرجانور ذبح کیا کرتے تھے۔ ’’عتیرہ رجب‘‘ اس جانور کو کہا جاتا تھا جسے ماہ رجب میں بتوں کے نام پر قربان کیا جاتا تھا۔عید الاضحی کی طرح یہ چیز ان میں عام طور سے رائج تھی ۔ اسلام آیا تو نبی کریم نے کچھ عرصہ بعد اس قبیح رسم کا خاتمہ کر دیا۔ نبی کریم نے اعلان فرما دیا کہ: لَا فَرَعَ وَلَا عَتِیرَۃَ(صحیح البخاری)۔ ’’ اب کوئی فرع اور عتیرہ نہیں ہوگا‘‘ ۔ بلکہ شریعت نے اپنے ماننے والوں کوعید الاضحی کا تہوار عطا فرمایا کہ اس روز عید مناؤ اور اللہ کے نام پر اپنے بہترین پیارے پیارے جانور ذبح کرولہذا رجب کی افضلیت کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس مہینے میں جانور ذبح کرنا جائز نہیں ۔ اس میں اہل جاہلیت کی مشابہت بھی ہے اور نبی کریم کے حکم کی خلاف ورزی بھی پائی جاتی ہے۔ ماہ رجب میں عمومی طور پر جانور ذبح کرنے پر کوئی پابندی نہیں مگراس مہینے کی خاص فضیلت کا اعتقاد رکھ کر اور یہ سمجھ کر جانور ذبح کرنا کہ یہ بڑے ثواب کا کا م ہے تو یہ اسی زمانہ جاہلیت کے عتیرہ کی مانند ہو جائے گا۔ان کے علاوہ بھی کچھ بدعات لوگوں میں رائج ہو گئی ہیں جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ۔ ان کا ذکر اجمالی طور پر کیاجاتا ہے۔
(1) رجب کی پہلی تاریخ کو ہزاری نماز پڑھنا(2) پندرہویں رجب کو اُمّ ِداؤد کی نماز پڑھنا(3) مُردوں کی طرف سے اس مہینہ میں صدقہ وخیرات کرنا(4) اس ماہ میں بطور خاص قبروں کی زیارت کرنا(خصوصا نبی کریم کی قبر مبارک کی زیارت کرنا)(5) اس ماہ میں چند مخصوص دعائیں پڑھناجن کا کتاب وسنت میں کوئی ذکر نہیں(6) یمن میں سیدنا معاذ بن جبل کے نام سے موسوم ایک مسجد ہے ،بطور خاص اس کی زیارت کے لیے لوگ اہتمام کرکے جاتے ہیں۔ فرض کریں کہ واقعی اس جگہ سیدنا معاذ بن جبل نے نماز ادا کی ہو تب بھی خصوصی طور پر اس کے لیے سفر کرنے کی شریعت میں گنجائش نہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین متین کاپابند بنائے اور خرافات سے پاک وصاف رکھےآمین۔
رجب کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے اور ترجیب کے معنی تعظیم کرنا ہے۔ یہ ان متبرک وحرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کاتذکرہ سورہ توبہ آیت نمبر 36میں اس طرح آیا۔ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیداکیا، اسی دن سے اللہ کے نزدیک اس کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں اس آیت کی تفسیر میں اِمام ابوبکر جصاص رازی ؒنے اَحکام القرآن میں فرمایا ہے کہ اس میں اِشارہ اِس بات کی طرف ہے کہ چارمتبرک مہینوں کا خاصہ یہ ہے کہ اِن میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے تو اُس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اورہمت ہوتی ہے ،اِسی طرح جو شخص کوشش کرکے اِن مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچا لے تو باقی سال کے مہینوں میں اُس کو برائیوں سے بچنا آسان ہو جاتاہے اِس لیے اِن مہینوں سے فائدہ نہ اُٹھانا ایک عظیم نقصان ہے۔
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں میں ہر عبادت کا ثواب زیادہ ہوتا ہے اور ان میں کوئی گناہ کرے تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔“حضرت مفتی صاحب ”منھاأربعة حرم“کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ”ان کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا ہے، ایک تو اس لیے کہ ان میں قتل وقتال حرام ہے،اور دوسرا اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں ۔ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ان میں پہلا حکم تو شریعت ِاسلام میں منسوخ ہوگیا؛ مگر دوسرا حکم (احترام وادب)اور ان میں عبادت گزاری کا اہتمام اسلام میں اب بھی باقی ہے۔“(معارف القرآن) اس ماہ میں اہل جاہلیت بھی جدال و قتال کو حرام سمجھتے تھے اس لیے اسے ’الاصم رجب‘ کہتے تھے کہ اس میں ہتھیاروں کی آوازیں نہیں سنی جاتیں۔
اس مہینہ کو ’اصب‘ بھی کہا جاتا ہےاصب کے معنیٰ ہے بہت زیادہ ڈالنے والا کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و بخشش کے خصوصی انعام فرماتا ہے۔ اس ماہ میں عبادات اور دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ رجب کا مہینہ شروع ہونے پرخود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء مانگا کرتے تھے:۔ ’’اَللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ۔‘‘ (مسند احمد، بزار، طبرانی، بیہقی) ’’اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمیں برکت عطا فرما اور ماہِ رمضان تک ہمیں پہنچا۔‘‘ ماہ رجب میں پیش آنے والے چند اہم تاریخی واقعات تاریخ اسلام میں ماہ رجب میں متعدد تاریخی واقعات کے پیش آنے کا بھی ذکر ہے ان میں سے ایک معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہےجس کاتذکرہ صحیح احادیث وآثار میں ملتاہے اس واقعہ کی تاریخ اور سال کے متعلق ‘ مؤرخین اور اہل سیر کی رائے مختلف ہیں، ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ نبوت کے بارہویں سال 27 رجب کو 51 سال 5 مہینہ کی عمر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی، جیسا کہ علامہ قاضی محمد سلیمان منصورپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’مہر نبوت‘ میں تحریر فرمایا ہے۔
سفر معراج کے لئے شریعت کی اصطلاح میں دوالفاظ کاانتخاب کیا گیا ایک اسراءدوسرامعراج اسراءکاذکرقرآن کریم کی سورہ بنی اسرائیل میں قدرے تفصیل کےہےجبکہ معراج کاتذکرہ احادیث صحیحہ کثیرہ میں مطول موجود ہے۔ اسراء کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں۔ مسجد حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ کا سفر جس کا تذکرہ سورۂ بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے، اس کو اسراء کہتے ہیں۔ اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے، معراج عروج سے نکلا ہے جس کے معنی چڑھنے کے ہیں ۔حدیث میں ’عرج بی‘ یعنی مجھ کو اوپر چڑھایا گیا کا لفظ استعمال ہوا ہے ،اس لئے اس سفر کا نام معراج ہوگیا۔
اس واقعہ کا ذکر سورۂ نجم کی آیات میں بھی ہے: پھر وہ قریب آیا اور جھک پڑا، یہاں تک کہ وہ دو کمانوں کے فاصلے کے برابر قریب آگیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک، اس طرح اللہ کو اپنے بندے پر جو وحی نازل فرمانی تھی، وہ نازل فرمائی۔سورۃ النجم کی آیات 13-18 میں وضاحت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس موقع پر) بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں: اور حقیقت یہ ہے انہوں نے اس (فرشتے) کو ایک اور مرتبہ دیکھا ہے۔ اس بیر کے درخت کے پاس جس کا نام سدرۃ المنتہی ہے، اسی کے پاس جنت المأویٰ ہے، اس وقت اس بیر کے درخت پر وہ چیزیں چھائی ہوئی تھیں جو بھی اس پر چھائی ہوئی تھیں۔ (نبی کی) آنکھ نہ تو چکرائی اور نہ حد سے آگے بڑھی، سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پرودرگار کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بہت کچھ دیکھا ہے۔
اسراء ومعراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں بلکہ جسمانی تھا، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر کوئی خواب نہیں تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ مختلف مراحل سے گزرکر اتنا بڑا سفر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے صرف رات کے ایک حصہ میں مکمل کردیا۔ اللہ تعالیٰ جو اس پوری کائنات کا پیدا کرنے والاہے، اس کے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے،کیونکہ وہ تو قادر مطلق ہے،جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے تو ارادہ کرنے پر چیز کا وجود ہوجاتا ہے۔ معراج کا واقعہ پوری انسانی تاریخ کا ایک ایسا عظیم، مبارک اور بے نظیر معجزہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ خالق کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دے کر اپنا مہمان بنانے کا وہ شرف عظیم عطا فرمایا جو نہ کسی انسان کو کبھی حاصل ہوا ہے اور نہ کسی مقرب ترین فرشتے کو۔
واقعۂ معراج کا مقصد:
واقعہ معراج کے مقاصد میں جو سب سے مختصر اور عظیم بات قرآن کریم (سورہ بنی اسرائیل) میں ذکر کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم (اللہ تعالیٰ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کچھ نشانیاں دکھلائیں۔۔۔ اس کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عظیم الشان مقام ومرتبہ دینا ہے جو کسی بھی بشر حتی کہ کسی مقرب ترین فرشتہ کو نہیں ملا ہے اور نہ ملے گا۔ ۔۔ نیز اس کے مقاصد میں امت مسلمہ کو یہ پیغام دینا ہے کہ نماز ایسا مہتم بالشان عمل اور عظیم عبادت ہے کہ اس کی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات میں ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچا بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ نماز اللہ جلّ شانہ سے تعلق قائم کرنے اور اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کو مانگنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ نماز میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے مناجات ہوتی ہے۔
دوسرا واقعہ
ہجرت حبشہ اولیٰ ہے‘ جب مسلمان اہل مکہ کی سختیاں برداشت کرنے سے عاجز آکر باذن رسول اﷲﷺ عازم حبشہ ہوئے۔ اس قافلہ میں باختلاف روایات 12 مرد اور 4 عورتیں تھیں‘ سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ قافلہ سالار مہاجرین تھے۔ یہ رجب سن پانچ نبوی کا واقعہ ہے
تیسراوقعہ
سریہ عبداﷲ بن حجش الاسدی اسی ماہ رجب میں ہجرت مدینہ سے کوئی 17 ماہ بعد پیش آیا یہ وہ سریہ ہے جس نے اسلامی تاریخ میں نئے ریکارڈ قائم کئے مثلا اسلامی تاریخ کا پہلا مال غنیمت‘ پہلا خمس‘ پہلا شہید اور پہلا قیدی اسی سریہ نے پیش کیا۔
چوتھاواقعہ
سن9 ہجری میں پیش آنے والا عظیم غزوہ‘ غزوہ تبوک بھی ماہ رجب ہی میں پیش آیا تھا جسے غزوہ ذات العسرہ کا نام دیا گیا۔ یہی وہ غزوہ ہے جس میں سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اپناگھر بار خالی کرکے تن من دھن حضورﷺ کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف ایک بار پھر حاصل کیا اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے تہائی لشکر کا سازوسامان اپنی گرہ سے پیش کرکے جنت کا پروانہ اور سند حاصل کی۔
پانچواں واقعہ
اسلام کے چوتھے خلیفہ اور دامادِ رسول ﷺ بھی 13 رجب کو اس دنیا میں تشریف لائے ، ان کی ولادت کا سال تاریخی کی کتابوں میں سن 30 عام الفیل رقم ہے۔
چھٹاواقعہ
ملک حبشہ کے مسلمان بادشاہ نجاشی کا انتقال سن9 ہجری ماہ رجب میں ہوا اور جناب رسول اﷲﷺ نے ازخود اطلاع پاکر اپنے صحابہ کی معیت میں اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی۔
ساتواں واقعہ
دمشق کی تاریخی فتح سن14 ہجری مطابق 635ء عیسوی میں ماہ رجب ہی میں ہوئی۔ حضرت خالد بن الولید اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنھما جو ربیع الثانی 14 ہجری سے دمشق کا محاصرہ کئے ہوئے تھے‘ فتح یاب ہوئے اور اہل دمشق نے صلح کی درخواست کی جو منظور کرلی گئی۔
آٹھواں واقعہ
سلطان صلاح الدین ایوبی نے سن583ہجری مطابق1187عیسوی میں رجب ہی کے مہینے میں فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں کے ہمراہ مسجد اقصیٰ میں فاتحانہ داخل ہوکر عاجزانہ سجدہ شکر ادا کرنے کا شرف حاصل کیا۔
ماہ رجب میں کی جانیوالی بعض خرافات کی حقیقت
ویسے تو کوئی بھی مہینہ بدعات وخرافات سے خالی نہیں رہنے دیا گیا مگر رجب وہ مظلوم مہینہ ہے جسے کثرت رسوم و بدعات سے: ظُلُمَاتُ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ-النور40( اندھیریاں ہیں جو اوپر تلے پے درپے ہیں) کا مظہر بنا دیا گیا ہے۔
نمبر 1 رجبی عمرہ:
بعض لوگ بطور خاص اس مہینے میں عمرہ کرنے کو بہت اجرو ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔ اس عمل پر کوئی دلیل کتاب وسنت اور عمل صحابہ میں نہیں پائی جاتی۔اس کے بجائے آپ علیہ السلام نے رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کو حج کے برابر ثواب والاعمل قرار دیا ہے۔ اسی طرح حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کی بھی خاص فضیلت وارد ہے۔ حج کے مہینے شوال ، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ ہیں ۔صحیحین میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول مروی ہے کہ’’رسول اللہ نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا تھا۔‘‘(البخاری و مسلم)۔ کسی خاص زمانے میں متعین عبادت نہیں کی جا سکتی جب تک اس پر شرعی دلیل موجود نہ ہوہاں البتہ اگر کوئی شخص رجب کی خاص فضیلت کا اعتقاد رکھے بغیر رجب میں مکہ مکرمہ چلا جائے اور عمرہ کرے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔
نمبر 2صلاۃ الرغائب:
یہ ایک اسی بدعت ہےجس کی رسو ل اللہ کے دنیا سے تشریف لے جانے سے قریبا ًپونے 500سال بعد دین میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ایک من گھڑت روایت کو بنیاد بنا کر اس بدعت کی عمارت کھڑی کی گئی۔اس موضوع روایت کے مطابق یہ ایک نماز ہے جس کا نام اس کے وضاعین نے ’’صلاۃ الر غائب‘‘ رکھا۔ یہ نماز ماہ رجب المرجب کی پہلی جمعرات کا روزہ رکھنے کے بعد جمعہ کی شب مغرب اور عشاء کی نمازوں کے درمیان ادا کی جاتی ہے۔اس نماز کی 12رکعتیں ہوتی ہیں۔ ہر 2 رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔ نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد 3 مرتبہ سورۃ القدر اور 12مرتبہ سورۃ الاخلاص پڑھی جاتی ہے۔نماز کے اختتام پر 70 مرتبہ یہ درود شریف اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ وَآلِہِ پڑھا جاتا ہے۔ پھر2 سجدے کیے جاتے ہیں۔ ہر سجدے میں70 مرتبہ ’’سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوحِ‘‘ پڑھا جاتا ہے۔سجدے کے بعد یہ دعا ’’رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمْ إِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیزُ الأَعْظَمُ‘‘70 مرتبہ پڑھی جاتی ہے، پھر دوسرے سجدے میں بھی اسی طرح کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد نماز پڑھنے والا اپنی جو بھی حاجت بیان کرے گا اس کی وہ حاجت پوری ہو جائیگی۔ اس خود ساختہ نماز کی ایسی ایسی مبالغہ آمیز فضیلتیں بیان کی گئی ہیں کہ جن سے یہ نماز خود بخود باطل اور بدعت ثابت ہو جاتی ہے۔مثلاً یہ کہ اس نماز کی ادائیگی پر اس کے سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں چاہے وہ سمندر کی جھاگ اور درختوں کے پتوں کے برابر ہوں۔ وہ روز قیامت اپنے خاندان کے 70 افراد کی سفارش کر سکے گا۔اس نماز کا ثواب جب قبر میں آئیگا تو صاحب قبر اس سے کہے گا: تم کون ہو؟ اللہ کی قسم!میں نے تم سے زیادہ حسین، خوش گفتار اور خوشبو دار جسم نہیں دیکھا۔یہ کہے گا: میں تمہاری اس نماز کا ثواب ہوں جو تم نے رجب کی فلاں رات میں پڑھی تھی۔ آج میں تمہارا حق لوں گا، قبر میں تمہاری تنہائی دور کروں گا، تمہاری وحشت کو دور کروں گا، روز قیامت میں تمہارے سر پر سایہ فگن رہوں گااور تم کبھی خیر سے محروم نہیں رہو گے۔پھر وہ خوشخبری سنائیگا کہ آج تو میری وجہ سے عذاب قبر سے بچ گیا ہے۔ علامہ ابن الجوزی نے اس نماز والی روایت کو موضوع یعنی من گھڑت قرار دیا ہے۔سب سے پہلے یہ نماز سن 480ہجری میں بیت المقدس میں ادا کی گئی۔وہ چیز جو پونے 500برس تک دین کا حصہ نہ تھی، اچانک اتنی مدت کے بعد وہ دین کا حصہ کیسے بن گئی؟!شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:صلاۃ الرغائب کی دین میں کوئی اصل نہیں بلکہ یہ ایک بعد میں ایجاد کردہ بدعت ہے۔یہ نہ جماعت کے ساتھ پڑھنا مستحب ہے نہ ہی انفرادی طور پر اس کی ادائیگی درست ہے، بلکہ صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ نبی کریم نے جمعہ کی رات قیام کرنے کے لیے اور جمعہ کے دن کو روزہ رکھنے کے لیے خاص کرنے سے منع فرمایا ہے۔اس نمازکی مشروعیت کے سلسلے میں جو اثر ذکر کیا گیا ہے اس کے جھوٹ اور من گھڑت ہونے پر علماء متفق ہیں۔ سلف اور ائمہ نے سرے سے اس کا ذکر ہی نہیں کیا (مجموع فتاویٰ)۔
نمبر 3 رجبی کونڈے:
اس ماہ کی ایک اور نہایت مکروہ اور خطرناک بدعت رجبی کونڈوں کے نام سے مشہور ہے۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ بہت سے لوگ ماہ رجب کی 22تاریخ کو امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے نام کے کونڈے بھرتے ہیں۔ اس بدعت کو ثابت کرنے کے لیے ایک جھوٹی کہانی گھڑی گئی۔ہمارےملک ہندوستان کے ایک شخص نے ’’داستانِ عجیب ‘‘نامی کتاب میں اس بدعت کا تذکرہ ’’نیاز نامہ امام جعفر صادق‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ لکھتا ہے:
مدینہ طیبہ میں ایک غریب لکڑ ہارے کی بیوی وزیر کے محل میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ وزیر کے محل کے باہر اما م جعفر صادق اپنے ساتھیوں سے فرما رہے تھے: جو شخص ماہ رجب کی 22 تاریخ کو غسل کرکے صاف ستھرا ہو کر میرے نام کی پوریاں بنا کر کھیر 2کونڈوں میں بھر کر میرے نام پر فاتحہ کرے اور بارگاہ الٰہی میں اپنی مراد اور حاجت پیش کرے۔اگر اسکی حاجت پوری نہ ہو تو کل قیا مت کے دن میرا گریبان پکڑ لے۔لکڑہارے کی بیوی نے ایسا ہی کیا؛ چنانچہ اسکا شوہر بہت سارا مال لے کر لوٹا اور شاندار محل تعمیر کرکے اس میں رہنے لگا۔ وزیر کی بیوی نے کونڈوں کا انکار کیا تو اسکے شوہر کی وزارت چلی گئی پھرجب اس نے کونڈوں کی حقیقت کو تسلیم کرکے کونڈے بھر ے تو اسکی وزارت بحال ہو گئی۔اسکے بعد بادشاہ اور اس کی قوم کے لوگ ہر سال بڑے اہتمام سے کونڈے بھرنے لگے۔اس سارے قصے میں شرک اکبر پر مبنی اعمال کی طرف دعوت دی گئی ہے۔شریعت اسلامیہ میں اللہ کے سوا کسی نبی ولی جن یا فرشتے کے نام پر کوئی صدقہ و نیا ز دینا شرک اکبر ہے۔نیاز دینا عبادت ہے اور عبادت کا حق اللہ کیلئے خاص ہے۔کسی دوسرے کو اس میں شریک کرنا بہت بڑاجرم ہے۔اس کہانی میں 22رجب کی تاریخ متعین کی گئی ہے جو امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی نہ تاریخ پیدائش ہے نہ تاریخ وفات ہے۔ نہ ہی انکی زندگی کے کسی اہم واقعے سے اسکا تعلق بنتا ہے۔ایک اہم بات یہ ہے کہ قصے میں مدینہ کی جس بادشاہت کا ذکر ہے تاریخ میں اسکا کوئی ذ کر نہیں پایا جاتا۔ جناب جعفر صادق رحمہ اللہ کے دور حیات میں مسلمانوں کا دار الخلافہ یا تو دمشق تھا یا بغداد تھا۔ اصل میں اسکے پیچھے رافضیوں کی ایک گھنا ؤنی سازش کارفرما ہے ۔ بات در اصل یہ ہے کہ 22رجب سیدنا امیر معاویہ کی وفات کا دن ہے۔یہ لوگ انکی وفات کے دن خوشی منا تے ہیں اور اس دن میں کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں مگر اپنے اس خبث باطن پر پردہ ڈالنے کیلئے لکڑہارے کی دا ستان تراشی کی گئی ہے۔کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں سب سے پہلے یہ بدعت ریاست رامپور میں امیر مینائی لکھنوی کے خاندان میں شروع کی گئی ۔
نمبر 4جشن معراج:
ماہ رجب کے حوالے سے ایک اور بدعت 27رجب کو جشن معراج کے نام سے جاری کی گئی ہے۔اس رات میں مختلف عبادتیں انجام دی جاتی ہیں جن کے بارے میں کتاب وسنت میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔ستائیسویں کی رات کو قیام کرنا ، نمازشب معراج پڑھنا،محفلیں منعقد کرنا، واقعہ اسراء ومعراج پڑھنا کہ یہ رات ہی معراج کی رات ہے۔ بغیر کسی شرعی دلیل سے بعض ایام کو دیگر ایام پر فوقیت دینا یا انہیں افضل سمجھناایک غلط عقیدہ ہے۔اس رات کو جشن منانا اور اسے عبادتوں کیلئے مختص کرنا کئی ایک لحاظ سے غلط اور نامناسب ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ 27رجب کو ہی شب معراج سمجھنا درست عمل نہیں،نہ اس کے دن مہینے اور سال کا درست تعین کیاجاسکا۔ تاریخ وسیرت کے علمائے کرام نے6 مختلف اقوال پر اختلاف کیا ہے اس لیے 27 کی شب ہی کو شب معراج سمجھنا ٹھیک نہیں(الرحیق المختوم)۔
اگر اس رات کا ٹھیک ٹھیک پتہ چل بھی جائے تو بھی اس رات میں مخصوص عبادات انجام دینا ناجائز کام ہے جس کا نبی کریم نے حکم دیا نہ اس پر عمل کیا۔نہ آپ کے اصحاب کرام ؓسے یا خلفائے راشدین ؓسے یہ عمل ثابت ہے ۔ اس جشن کو مناتے وقت بہت سے غیر شرعی اور نامناسب امور انجام دئیے جاتے ہیں۔ اس میں بالعموم ایسے لوگ شریک ہوتے ہیں جوشرعی فرائض تک کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کرتے۔ بعض 5وقت کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجدمیں تو جاتے نہیں، مگر اس قسم کی محفلوں میں بڑی سرگرمی اور اہتمام سے شریک ہوتے ہیں۔یہ بہت سی احادیث صحیحہ کا انکار بھی ہے جن میں دین میں بدعات داخل کرنے سے سختی سے منع کیاگیا ہے۔
نمبر 5رجبی صیام وقیام:
ما ہ رجب کی مروجہ بدعات میں سے ایک یہ ہے کہ خصوصیت کے ساتھ اس مہینہ میں قیام وصیام کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اس مہینے کی پہلی، دوسری، تیسری اور ساتویں تاریخ کا روزہ اور کبھی پورے مہینے کا روزہ رکھا جاتا ہے۔ ان روزوں کوسنت ثابت کرنے کے لیے کچھ ایسی احادیث کا سہارا لیا جاتا ہے جو ضعیف ہیں یا من گھڑت ہیں۔شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس مسئلے پر یوں رقمطراز ہیں:
’’رجب اور شعبان کے مہینوں کو ایک ساتھ روزے یا اعتکاف کے لیے مخصوص کرنے کے متعلق نبی اکرم ، صحابہ کرامؓ ، یا ائمہ مسلمین سے کوئی چیز وارد نہیں بلکہ صحیح بخاری ومسلم میں یہ بات ثابت ہے کہ اللہ کے رسول ماہ شعبان میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے۔ آپ پورے سال میں ماہ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں نفلی روزے نہیں رکھتے تھے البتہ جہاں تک رجب کے روزے کی بات ہے تو اسکے بارے میں ساری احادیث ضعیف بلکہ موضوع ہیں۔ اہل علم ان میں سے کسی کو لائق اعتماد اور قابل عمل نہیں سمجھتے۔یہ احادیث ضعیف روایات کے اس گروہ میں سے نہیں جو فضائل کے سلسلے میں بیان کی جاتی ہیں بلکہ یہ گھڑی ہوئی حدیثیں ہیں۔‘‘(مجموع فتاویٰ ) ۔
علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ماہ رجب کے روز ے کی فضیلت میں نبی کریم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کوئی چیز صحیح ثابت نہیں (لطائف المعارف)۔علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ماہ رجب کی فضیلت یا اس کے روزے کی فضیلت یا اس کے کسی مخصوص دن کے روزے کی فضیلت ، یا اس کی کسی مخصوص رات میں قیام کرنے کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں جو قابل حجت ہو ۔مجھ سے پہلے امام اسماعیل الہروی نے بھی اسی بات کی صراحت فرمائی ہے (تبیین العجب بما رود فی فضل رجب) ۔ علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ماہ رجب کے روزے کے سلسلے میں نبی کریم کے طریق کار کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :’’ آپ نے مسلسل3 مہینوں:رجب ، شعبان اور رمضان المبارک کے روزے نہیں رکھے جیسا کہ بعض لوگوں کاطریقہ ہے۔ نہ ہی آپ نے رجب کا روزہ رکھا، نہ ہی اس کے روزے کو پسندفرمایاہے بلکہ آپ سے رجب کے روزے کی ممانعت کے سلسلے میں حدیث وارد ہے جسے ابن ماجہ نے ذکر کیا ہے۔‘‘ (زاد المعاد)۔ اس کے علاوہ صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت سے رجب کے روزے کی کراہت مروی ہے، یہاں تک سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ رجب کے مہینے میں روزہ رکھنے والے کو درہ لگایا کرتے تھے جب تک کہ وہ کھانے کے برتن میں اپنا ہاتھ نہ ڈال دیتا۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: رجب کیا ہے؟ رجب کی تعظیم تو اہل جاہلیت کیا کرتے تھے۔جب اسلام کا زمانہ آیا تو اسے چھوڑ دیا گیا۔البتہ اگر کوئی شخص ہر ماہ ایام بیض کے3 روزے رکھتا ہے یا صوم داؤدی پر عمل پیرا رہتا ہے یعنی ایک دن روزہ رکھتا اور ایک دن افطار کرتا ہے توایسا شخص رجب میں بھی اپنے معمول کے مطابق روزہ رکھے تو اس میں حرج والی کوئی بات نہیں۔
نمبر 6فرع اور عتیرہ رجب:
ایک اور رسم جو زمانہ جاہلیت ہی سے عربوں میں چلی آتی تھی۔ اس کا نام ’’فرع‘‘ اور ’’عتیرہ‘‘ ہے۔’’فرع ‘‘کا مطلب ہے جانور کا پہلا بچہ۔عرب اونٹ اور بکری کے پہلے بچے کو اپنے بتوں کے نام پر ذبح کیا کرتے تھے۔حرمت والے4 مہینوں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے وہ ماہ رجب کی تعظیم کیا کرتے تھے اور اس میں بتوں کے نام پرجانور ذبح کیا کرتے تھے۔ ’’عتیرہ رجب‘‘ اس جانور کو کہا جاتا تھا جسے ماہ رجب میں بتوں کے نام پر قربان کیا جاتا تھا۔عید الاضحی کی طرح یہ چیز ان میں عام طور سے رائج تھی ۔ اسلام آیا تو نبی کریم نے کچھ عرصہ بعد اس قبیح رسم کا خاتمہ کر دیا۔ نبی کریم نے اعلان فرما دیا کہ: لَا فَرَعَ وَلَا عَتِیرَۃَ(صحیح البخاری)۔ ’’ اب کوئی فرع اور عتیرہ نہیں ہوگا‘‘ ۔ بلکہ شریعت نے اپنے ماننے والوں کوعید الاضحی کا تہوار عطا فرمایا کہ اس روز عید مناؤ اور اللہ کے نام پر اپنے بہترین پیارے پیارے جانور ذبح کرولہذا رجب کی افضلیت کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس مہینے میں جانور ذبح کرنا جائز نہیں ۔ اس میں اہل جاہلیت کی مشابہت بھی ہے اور نبی کریم کے حکم کی خلاف ورزی بھی پائی جاتی ہے۔ ماہ رجب میں عمومی طور پر جانور ذبح کرنے پر کوئی پابندی نہیں مگراس مہینے کی خاص فضیلت کا اعتقاد رکھ کر اور یہ سمجھ کر جانور ذبح کرنا کہ یہ بڑے ثواب کا کا م ہے تو یہ اسی زمانہ جاہلیت کے عتیرہ کی مانند ہو جائے گا۔ان کے علاوہ بھی کچھ بدعات لوگوں میں رائج ہو گئی ہیں جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ۔ ان کا ذکر اجمالی طور پر کیاجاتا ہے۔
(1) رجب کی پہلی تاریخ کو ہزاری نماز پڑھنا(2) پندرہویں رجب کو اُمّ ِداؤد کی نماز پڑھنا(3) مُردوں کی طرف سے اس مہینہ میں صدقہ وخیرات کرنا(4) اس ماہ میں بطور خاص قبروں کی زیارت کرنا(خصوصا نبی کریم کی قبر مبارک کی زیارت کرنا)(5) اس ماہ میں چند مخصوص دعائیں پڑھناجن کا کتاب وسنت میں کوئی ذکر نہیں(6) یمن میں سیدنا معاذ بن جبل کے نام سے موسوم ایک مسجد ہے ،بطور خاص اس کی زیارت کے لیے لوگ اہتمام کرکے جاتے ہیں۔ فرض کریں کہ واقعی اس جگہ سیدنا معاذ بن جبل نے نماز ادا کی ہو تب بھی خصوصی طور پر اس کے لیے سفر کرنے کی شریعت میں گنجائش نہیں اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین متین کاپابند بنائے اور خرافات سے پاک وصاف رکھےآمین۔