ماہنامہ الفاران
ماہِ رجب المرجب - ۱۴۴۳
انصاف کا ترازو
حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری:ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش۔سرپرست ماہنامہ "الفاران"
آج ہر طرف نظام ِ قدرت سے بغاوت، فطرت سے بیگانگی،یکسر نا فرمانی،ظلم اور فساد کا دور دورہ ہے۔ چھوٹوں پر شفقت، بڑوں کا احترام، پڑوسیوں کی رعایت ایک شئے عجیب بن کر رہ گئی ہے۔جس کی بدولت آج ہر چہار جانب فساد کے شعلے اور نافرمانی کے بازار گرم ہیں۔
جب سے انسانوں نے حق و باطل کی تمیز چھوڑ دی، عدل و انصاف کو خیر باد کہا ،اپنے ضمیر کی آواز پسِ پشت ڈالدی، ظلم و نا انصافی پر کمر بستہ ہوئے،عہدوں پر فخر اور غلط وضعداری کے چکر میں عدل و انصاف بھول گئے تو لازمی نتیجہ کے طور پر دنیا شرور و فتن کی آماجگاہ بن گئی اور صفحہ ئ ہستی پر بد امنی و انار کی نے راج کرنا شروع کر دیا۔
مذہبِ اسلام نے ہر حال میں عدل و انصاف پر قائم رہنے کا حکم فرمایا ہے جس میں دارین کے لئے پیغامِ امن و امان ہے۔
قرآن پاک کا ارشاد ہے بلا شبہ! اللہ تعالیٰ عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیتا ہے، مسئلہئ انصاف اپنے کے ساتھ ہو یا پرائے کے ساتھ ہم مسلک کے ساتھ ہو یا بیگانہ مسلک والوں کے ساتھ،بڑوں کے ساتھ ہو یا چھوٹوں کے ساتھ، حاکم کے ساتھ ہو یا محکوم کے ساتھ خدا ہر حال میں انصاف کا پلڑا مساوی رکھنے کا حکم دیتا ہے اور انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ نے ایمان والوں کو اپنے عظیم خطاب میں عدل و انصاف کیلئے قائم نہیں بلکہ قوّام فرمایا یعنی حد درجہ عدل وانصاف پر بہت زیادہ قائم رہنے والے بنو،عدل وانصاف متائثر اور مجروح نہ ہو اس لئے تم اللہ کیلئے گواہ!بنو یعنی کہیں بھی عدل و انصاف کے معاملہ میں تحریف نہ کرو،نہ سچ چھپاؤ اور نہ ہی اس میں بڑھاؤ،فیصلہ اگر اپنی ذات کے خلاف ہو یا والدین اور اقربا ء کے خلاف،عدل و انصاف پر جمے رہنا تاکہ انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔
تاریخ شاہدِ عدل ہے کہ مسلمانوں نے اس پر عمل کیا، قاضیوں، منصفوں نے اسلامی آئین و اصول پر مبنی فیصلے کر کے احکامِ خداوندی کی اطاعت کی اور اسکی برکات سے مالا مال ہوئے۔
مشرقی بنگال (موجودہ بنگلہ دیش)مسلم دورِ حکومت میں راجدھانی دہلی کے ما تحت تھا۔کئی بار ایسا ہوا کہ وہاں کے گورنر مرکز سے باغی ہو کر خود مختار ہو گئے انہیں میں ایک سلطان غیاث الدین بھی ہیں۔
سلطان کو تیر اندازی کا بے حد شوق تھا۔ ایک دن تیر اندازی کے دوران سوئے اتفاق آپ کے تیر سے ایک بیوہ عورت کا اکلوتا بیٹا زخمی ہو گیا، بیوہ کو معلوم نہ ہو سکا کہ تیر بادشاہ نے چلایا ہے، وہ قاضی کی عدالت میں فریاد لیکر گئی۔
قاضی نے فراست سے اندازہ لگا لیا کہ ہو نہ ہو یہ تیر بادشاہ کا چلایا ہوا ہو۔ قاضی صاحب دیر تک تذبذب کا شکار رہے کہ خوفِ خدا اور فکرِ سلطان میں سے کس کو ترجیح دے؟ بالآخر قاضی صاحب نے بادشاہ کے نام سمن جاری کر دیا اور معاملہ کی تحقیق کے لئے عدالت میں طلب کر لیا۔جوں ہی سمن بادشاہ تک پہنچا بلا کسی تأمل کے قاضی صاحب کی عدالت کی طرف روانہ ہو گئے چلتے وقت ایک چھوٹی تلوار بھی آستین میں چھپالی بادشاہ کی حاضری پر قاضی صاحب نے عدالت میں کسی قسم کا احترام نہیں کیا ثبوتِ واقعہ کے بعد قاضی صاحب نے حکم دیا کہ بادشاہ بیوہ کو معقول مالی معاوضہ دے اور اس سے معافی بھی طلب کرے بادشاہ نے بلا چوں و چرا اس حکم کی تعمیل کی اور بیوہ سے قصور معاف کروایا مقدمہ خارج ہو نے کے بعد قاضی عدالت کی کرسی سے اُٹھ کر بادشاہ کے قدموں پر آگرا بادشاہ نے فوراًاٹھایا اور آستین میں چھپی تلوار دکھائی اور کہا! یہ تلوار اس لئے لایا تھا کہ اگر مقدمہ کا فیصلہ ذرابھی حدودِ شرع سے باہر ہوتا تو اس تلوار سے آپ کا سر قلم کر دیا جاتا چوں کہ فیصلہ حق وانصاف کے دائرہ میں ہوا لہٰذا آپ قابلِ اعزاز و اکرام ہیں۔
حضور سرورِکونین علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ارشادِ عالی ہے! قیامت کی ہولناک گھڑی میں جن خوش نصیبوں کو عرشِ الٰہی کا سایہ نصیب ہوگا ان میں سلطانِ عادل بھی ہو گا۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عداوت و دشمنی انصاف کرنے والے قدم میں لغزش وہ جنبش ڈال دیتی ہے۔وہ اپنی فرائض کی ادائیگی میں وقتی مفاد اور دنیوی اغراض کے لئے کوتاہی کر بیٹھتا ہے۔اس موقع پر خدا نے رہبری فرمائی کہ ”کسی قوم کی دشمنی کی وجہ سے دامنِ انصاف ہاتھوں سے نہ چھوڑناکیوں کہ خدا تمہارے ہر کام کو دیکھے والا ہے“
مردانِ حق نے حق کی خاطر، کبھی دامنِ انصاف ہاتھ سے نہیں چھوڑا، فیصلہئ حق سے رخ نہیں پھیرا، حکاّمِ وقت کی پرواہ نہیں کی، اپنے اور غیر میں فرق نہیں کیا۔
چوتھی صد ی ہجری میں سلطان عبد الرحمٰن الناصر کی اندلس میں حکومت تھی جس کا دار الخلافہ (راجدھانی)قرطبہ میں تھا قاضی منذر بن سعید اس وقت قرطبہ کے قاضی القضاۃ اور وہاں کی جامع مسجد کے خطیب اور جید عالم تھے سلطان کو عمارتوں کا بہت شوق تھا اپنی عیسائی بیوی زہراکے نام پر”الزہرا“ نامی ایک بستی بسائی اور اسمیں ایک عالی شان شاہی محل تعمیر کرایا۔تعمیر کی تکمیل کے ااخری مراحل میں سلطان اس درجہ مصروف ہوئے کہ مسلسل تین جمعہ وہ مسجد نہ آسکے چوتھے جمعہ کوجب وہ مسجد میں حاضر ہوئے اس جمعہ کو قاضی صاحب نے جو خطبہ دیا اس میں ایسی آیتیں اور احادیث پیش کیں جس میں دنیا میں عمارتیں کھڑی کرنے اور آخرت سے غافل ہو جانے پر وعیدیں تھیں، مسجد کا ہر نمازی سمجھ رہا تھا کہ اس کا مخاطب اور اس سخت تنقید کا نشانہ کون ہے یہ تنقید تھی محکوم کی زبان سے حاکم کے اوپرجب کوئی حاکمِ وقت اور افسر اپنے محکوم اور ماتحت سے تنقید سنتا ہے تو اس پر الرجی اور کبر و نخوت کا سخت دورہ پڑتا ہے۔جذبات سے مغلوب ہو کر وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے ایسے میں وہ،وہ کر جاتا جس کی تلافی نا ممکن ہوتی ہے دیکھا گیا ہے کہ ایسے میں بڑے شریف اور دین دار وضع کے لوگ بھی حق و باطل کی تمیز کھو بیٹھتے ہیں۔
سلطان پر اگر چہ اس خطا ب کا بہت اثر تھا مگر انہوں نے انتہائی ضبط و تحمل سے کام لیا۔وہ مسجد میں کچھ نہ بولے خاموشی سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔گھر پہنچ کر اپنے لڑکے ”الحکم“سے واقعہ کا تذکرہ کیا اور کہا آج قاضی منذر نے بہت تکلیف دی ہے اس وجہ سے میں نے طے کر لیا ہے کہ ان کے پیچھے نماز کبھی ادا نہ کرونگا بیٹے نے باپ سے کہا! قاضی منذر کا عہدہئ امامت پر ہونا نہ ہونا آپ کے رحم و کرم کا مرہون ہے۔ ان کو معزول کردیجئے اور کوئی دوسرا امام مقرر فرما دیجئے بیٹے کا مشورہ سن کر سلطان نا راض ہو گیا۔ کہنے لگے، تمہارا بُرا ہو وہ جو ہدایت سے دور اور راہِ راست سے بھٹکا ہو ا ہے، اس کی دل جوئی کے لئے قاضی منذر جیسی شخصیت کو معزول کردیا جائے، ایسا نہیں ہو سکتا!اگر چہ میں نے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی قسم کھائی ہے اب خواہش ہے کہ کفارہ کی کوئی صورت نکل آئے تا ہم ہماری اور اپنی حیات میں وہ بدستور نمازپڑھاتے رہیں گے چنانچہ سلطان کے انتقال کے بعد آپکے لڑکے نے بھی انکے مقامِ رفیع کا احترام اور انکے عہدہئ جلیلہ کو برقرار رکھا۔
عدل اس کا تھا قوی،لوث و مراعات سے پاک
تختِ انصاف پر بیٹھنے کے بعد بسا اوقات کسی بڑے دشوار گزار مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہے، کبھی کسی کی عزت و جاہ کا مسئلہ،کبھی رشتہ دار کی شفقت راہِ انصاف میں آڑے آجاتی ہے اور انساف کے قلم میں کپکپی پیدا ہو جاتی ہے، نصرتِ باری ہمیشہ نیک بندوں کی یاوری کرتی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے۔ ”اے ایمان والو!انصاف کرنے والے اورا للہ کے لئے گواہی دینے والے رہو گو!اپنے یا اپنے ماں باپ اور قریبی رشتہ دار کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔خداوندِ قدوس منصف کو بیحد پسند کرتا ہے“
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں بنی مخزوم نامی ایک قبیلہ کی فاطمہ مخزومیہ نامی ایک لڑکی سے چوری سرزد ہو گئی۔گواہی کی بنیاد پر جب چوری ثابت ہو گئی تو نبی پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دایاں ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا۔
بنی مخزوم کے ذمّہ داروں میں یہ احساس ابھرا کہ یہ فیصلہ ہمارے خاندان کے لئے با عثِ شرم و ندامت ہے ہم قبائل میں منھ دکھانے کے بھی قابل نہیں رہیں گے۔ اسکی جگہ جو بھی جرمانہ عائد ہو جائے اس کا ادا کرنا آسان تر ہے میٹنگ میں یہ طے ہوا۔مگر سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ درخواست کون پیش کرے،کوئی یہ جرأت نہ کر سکا .
حضرت اسامہ ؓ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر دلعزیزاور چہیتے تھے۔قبیلہ کے معزز لوگوں کی عاجزانہ درخواست نے حضرت اسامہؓ کو سفارش پر آمادہ کر لیا۔ آپ نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کیا یا رسول اللہﷺ!قبیلہ بنی مخزوم بے قرار و اشکبار ہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ فاطمہ مخزومیہ کا ہاتھ نہ کٹے اس کے عوض کوئی اور سزا طے فرمادیں۔
یہ سن کر محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا روئے انور جلال سے سرخ ہو گیا۔ارشاد فرمایا یا اسامۃ اتشفع فی حدّ من حدود اللہ اے اسامہ!یہ تیری جرأت، میں تجھ سے پیار اور شفقت کا برتاؤ اس لئے نہیں کرتا کہ تو حدود اللہ میں سے کسی حد کے نفاذ میں رکاوٹ بنے والذی نفس محمد بیدہ لو سرقت فاطمۃ بنت محمدﷺلقطعت یدہا۔اگر میری پیاری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اسکا ہاتھ کاٹنے سے بھی گریز نہ کرتا دنیا کی کوئی طاقت ہاتھ کاٹنے سے نہ بچا سکتی۔ حضرت اسامہ ؓ لرزہ براندام ہو گئے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنے الفاظ واپس لئے لیتا ہوں۔ ویسا ہی بہتر ہے جو اللہ اور اسکے قانون کا تقاضا ہے۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں عمرو بن العاصؓ مصر کے گورنر تھے ایک قبطی عیسائی نے گورنرِ مصر کے بیٹے کے خلاف مدینہ طیبہ میں امیر المؤمنین فارقِ اعظم ؓ کی عدالت میں شکایت درج کرائی جس میں ذکر تھا کہ گورنر کے بیٹے نے چابک سے میری پٹائی کی ہے جس سے میری کھال ادھڑ گئی میں انصاف کی امید لے کر حاضر ہوا ہوں۔
امیر المؤمنین نے معاملہ کی وضاحت چاہی تو اسنے بتایا!مصر سے باہرگھوڑ دوڑ ہوئی،میرا گھوڑ ا چست تھا،ریس میں سب سے آگے نکل آیا۔گورنر کے بیٹے سے بھی آگے۔ صاحبزادہ کے غیرت نے گوارا نہ کی اور اسنے مجھے چابک سے مارا، کُرتا اٹھا کر نشانِ زخم دکھایا،فاروقِ اعظم نے فرمایا!میں دوسرا کام اس وقت تک نہ کروں گا جب تک تجھے انصاف نہ مل جائے۔
حضرت فاروق ِ اعظم ؓ نے محمد بن مسلمہ چوبدار کو بلا یا اور فرمایا! میرا خط گورنرِ مصر کے پاس لے جاؤ اور جس حال میں ہو اُن کو میرے پاس لے آؤ۔ تحریر کا مضمون تھا ”گورنرِ مصر آپ فوراًتشریف لے آویں اور اپنے ساتھ اپنے بیٹے کو بھی لاویں جس کے آزاد چابک نے غریب کی پشت لہو لہان کردی“
گورنرِ مصرحضرت عمروبن العاص ؓ خط پڑھتے ہی اپنے بیٹے کو ہمراہ لیکر مدینہ روانہ ہو گئے اور امیر المؤمنین کی خدمت میں حاضری دی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے قطبی کو بلایا، اور تینوں کو عدالت کے کٹہرے پر کھڑے ہونے کا حکم فرمایا،عیسائی سے کہا، تم اپنی شکایت اور استغاثہ بیان کرو،اس نے گھوڑ دوڑ میں سبقت کی داستانِ ستم اور ظلم کی کہانی سنائی۔
حضرت عمرو بن العاصؓ کے بیٹے نے سر جھکا دیا اور کہا ہاں! مجھ سے یہ غلطی سرزد ہوئی ہے حضرت عمرو بن العاص ؓ نے اپنا درّہ فاروقِ اعظم کو پیش کرتے ہوئے کہا! امیر المؤمنین میرے چابک سے میرے بیٹے کو سزا دیں تا کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں
فاروقِ اعظم ؓ نے فرمایا! اگر آپ کے چابک سے سزا دینی ہوتی تو مصرہی میں دیتا، اب نہ آپ کا چابک ہوگا،نہ ہی میرا ہاتھ، چابک میرا اور ہاتھ قبطی کا ہوگا اور پشت آپ کے لال کی ہوگی اپنا چابک امیرالمؤمنین نے قبطی کو پکڑا تے ہوئے فرمایا اضربہ کما ضربک وا خزلہ کما خزلک ”مارو جس طرح اسنے تمہیں مارا تھا، ذلیل کرو جیسا کہ اس نے تمہیں ذلیل کیا تھا“ قبطی اس کے لئے تیار ہو گیا گورنر کے سامنے چابک لے کر کہا!امیر المؤمنین!جس وقت اس نے مجھے مارا تھا تو میری پشت ننگی تھی چنانچہ گورنرِ مصر نے اپنے ہاتھ سے بیٹے کی پشت ننگی کردی اور قطبی نے اپنا بدلہ چکانا شروع کر دیا۔
بدلہ کے بعد چیختے ہوئے قبطی نے امیر المؤمنین سیدنا فروقِ اعظم سے کہا!”سچ کہا تھا کہنے والے نے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام انصاف پرور ہوتے ہیں“ امیر المؤمنین!اب مجھے بھی انکی غلامی میں داخل فرما لیجئے،جن کی غلامی نے آپ کو عدل و انصاف کے یہ انمول سبق سکھائے ہیں۔اور وہ اگلے ہی لمحہ غلامانِ محمدﷺ کی صف میں آ کھڑا ہوا۔یہ تھی، وہ حق و انصاف کی عظمت جس نے اسلام کو عرب سے عجم تک پہنچا دیا۔
اورہم خوار ہوئے، تارکِ قرآں ہو کر