ماہنامہ الفاران
ماہِ رجب المرجب - ۱۴۴۳
اداریہ: ارکانِ اسلام
مولاناارشدکبیرخاقان مظاہری،سکریٹری: تنظیم فلاح ملت (رجسٹرڈ) مرکزی دفتر:مدرسہ نور المعارف،مولانا علی میاں نگر، دیا گنج،ضلع ارریہ:مدیر مسئول ماہنامہ "الفاران"
اللہ تعالی نے ساری کائنات، انسان کی ضروریات مکمل کرنے کیلئے بنائی اور انسان اپنے پالنہار کی عبادت اور بندگی کیلئے بنایا گیا۔ چنانچہ اللہ کی رضا مندی اور انسانیت کی بھلائی کے لئے جو کام کیا جائے وہ بھی خدا کی عبادت کا ایک اہم حصہ ہے جو انسانی طور طریقوں میں پانچ شکلوں سے پورے ہوتے ہیں یہی اسلام کے ارکان ہیں۔
اَرکانِ اِسلام پانچ ہیں، جن میں پہلا رُکن اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور نبی کریمﷺ کی نبوت اور رِسالت کا اِقرار ہے۔ دُوسرا رُکن نماز، تیسرا روزہ، چوتھا زکوٰۃ اور پانچواں حج ہے۔ اِن اَرکانِ خمسہ میں سے ہر ایک کے بارے میں متعدد آیات اور اَحادیث وارد ہوئی ہیں۔ نبی کریمؐ نے اِرشاد فرمایا ”اِسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے، اِس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺاللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، رمضان مبارک کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا اُس شخص کے لیے جو اُس تک جانے کی طاقت رَکھتا ہو۔“ (جامع الترمذی)
در اصل انسان کے مختلف حالات کا فوٹو ہیں۔ اسی سے مقصدِ زندگی عبارت ہے، ان میں ایمان کو بنیادی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
اسلام کا پہلا رکن ایمان: دراصل ایمان اللہ کی ذات و صفات پر یقین اور اسکو اپنا معبودِ بر حق اور مختار ِ کل ماننے کا اعتراف و اقرار ہے۔اس سے لَولگا نے کا فیصلہ اور معاہدہ ہے۔اسکے سوا کسی کو کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں، جو ساری دنیا کا پروردگار ہے، وہ ہر قسم کی قوتوں کا واحد مالک ہے، وہی نظام عالم کو سنبھالنے والا ہے۔
اسلئے ایمان والا دنیا میں اس طرح جیتا ہے کہ خدا اسکی ہر وقت نگرانی کر رہا ہو۔وہ ہر راحت اور خوشی کو خدا کی نعمت اور تکلیف و مصیبت کو خدائی آزمائش تصور کرتا ہے۔ اسکی زبان آرام کے وقت شکر سے گنگناتی ہے تو مصیبت و کلفت کے دوران اسکا دل صبر سے معمور رہتا ہے۔مرحوم عمر فاروق عاصم نے کیا خوب ترجمانی کی ہے۔
اس کا کرم ہے،جو میرا پرورد گار دے
ایماندار کا اندر اورباہر یکساں ہوتا ہے، وہی کہتا ہے جووہ کرتا ہے، جب وہ دیکھتا ہے تو اسکا ایمان آمادہ کرتا ہے اے آنکھ! دیکھناہو تو صحیح دیکھنے کے علاوہ کچھ نہ دیکھنا۔ جب وہ بولتا ہے تو ایمان اسکی زبان پکڑ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ بولو، تو حق کے سوا کچھ نہ بولنا، جب وہ چلتا پھرتا ہے تو خدا کا خوف اسکے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ چلو! تو صرف درست سمت کا رخ کرنا، وہ خدائی روشنی میں جیتا ہے اور خدائی پاور ہاؤس(Power House) سے اپنی قوت ِ ایمانی چارج کرتا ہے جس کے اثر ات سے خدا شناسی اور اسکے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کا جذبہ اسکے دل میں موجزن رہتا ہے جس کی تربیت اسکو خدا کی طرف سے نماز کی صورت میں ملتی ہے۔
اسلام کا دورا رکن نماز : نمازصفت ایمان کا ایک نشان ہے، ڈسپلن کا نمونہ بھی، روحانی جوڑ کا مقام ہے اور روز مرہ کی زندگی میں حرکت و عمل کی ٹریننگ بھی، نماز بیک وقت خدا کی عبادت بھی ہے اور عہدِ بندگی کو تازہ کرنے کا ذریعہ بھی۔
نماز خدا کی تعریف سے شروع ہو کر انسانوں کی بھلائی اور سلامتی کی دعاء پر ختم ہوتی ہے، نماز خدائی طاقت اور بڑائی تسلیم کرنے اوراپنی چھوٹی بڑائی کا احساس ختم کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ اسمیں بار بار جھکنا سبق دیتا ہے کہ انسان تیری کچھ بھی حقیقت نہیں، شانِ یکتائی تو صرف خدا کیلئے زیب ہے، اس لئے دربارِ خدا ہی جبین ِ نیاز خم کرنے کا مقام ہے۔
نماز عاجزی کرنے، برائی سے باز رہنے، اتحاد و اتفاق کا انمول سبق سکھلاتی ہے، اتحاد سب سے بڑی طاقت ہے تو عاجزی اورجھکاؤ سارے جھکڑوں کے خاتمہ کا سبب ہے، اسلئے خدا نے اپنے پرستاروں کو پوری پابندی کے ساتھ نماز قا ئم کرنے کا حکم دیا ہے۔
نماز کی خاص تاثیر یہ ہے کہ اگر وہ ٹھیک طریقے سے ادا کی جائے تو اس سے آدمی کا دل پاک و صاف ہوتا ہے، اسکی زندگی درست ہو جاتی ہے،برائیاں اس سے چھوٹ جاتی ہیں، نیکی اور سچائی کی محبت اور خدا کا خوف اور اس کے بندوں سے ہمدردی کی صفت پیدا ہوتی ہے، دل میں نورانیت پیدا ہوتی ہے اور گناہ معاف ہوتے ہیں۔
اکثر لوگ خالی ہاتھ، لوٹ آتے ہیں ہر نماز کے بعد
ایک حدیث میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدہ مثال دیکر فرمایا بتاؤ!اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر جاری ہو، جسمیں وہ ہر دن پانچ دفعہ نہاتا ہو تو کیا اس کے جسم پر کچھ بھی میل رہے گا، لوگوں نے کہا، حضور کچھ نہیں رہے گا، آپﷺ نے فرمایا! بس پانچوں نمازوں کی مثال ایسی ہی ہے، اللہ ان کی برکت سے گناہوں اور خطاؤں کو مٹاتا ہے۔
جب انسان کے دل میں ایمان کے ذریعہ خدا کی عظمتوں کا یقین راسخ اور نماز کے واسطے سے خدائی کبریا ئی کا اعتماد پیدا ہو جائے تو روح و ایمان کو نورانیت کی حاجت ہوتی ہے تا کہ باطن روشن اور چمکدار ہو جائے، یہ دولتِ بیش بہا نفس کی خواہشات کو پامال کرنے اور من کی ہوس کو مارنے سے نصیب ہوتی ہے اور یہ صفت روزہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔
اسلام کا تیسرا رکن روزہ: روزہ در اصل اللہ کے حکم پر صبر کرنے کا نام ہے، جس میں انسان کو زندگی کی سب سے بڑی ضرورت کھانا پینا چھوڑنا پڑتا ہے۔روزہ محبتِ الٰہی کا ایک بڑا نشان ہے، جیسے کہ کوئی شخص کسی کی محبت میں سرشار ہو کر کھانا پینا ترک کر دیتا ہے، اسی طرح روزہ دار خدا کی محبت میں مد ہوش ہو کر اسی حالت کا اظہار کرتا ہے۔ روزہ کی حالت میں بھوک، پیاس کی شدت کو جھیلنے کے بعد اسے بندگان خدا کی حالتِ زار کا اندازہ کرنا، دوسروں کے ساتھ ہمدردی، غریبوں کی بے کسی، خدا کے بندوں کے حقوق کی ادئیگی کا جذبہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح روز ہ تمام برائیوں سے، بے صبری اور مَنْ چاہی زندگی گذارنے سے، اپنے آپ کو بے قابو کرنے، دوسروں کو ستانے، اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرنے سے روکتا ہے اور ذمّہ دارانہ زندگی بسر کرنے کے قابل بناتا ہے۔روزہ کی حالت میں چند چیزوں کو چھوڑ کر یہ پریکٹس کرائی جاتی ہے کہ خدا کا بندہ ساری عمر خدا سے ڈرکر زندگی بسر کرے گا وہ ان چیزوں کو بالکلیہ چھوڑ دیگا جو اسکے رب کو نا پسند ہے۔
غرض کہ روزہ کی وجہ سے آدمی میں پرہیزگاری کی صفت، نفسانی خواہشات پر قابوپانے کی طاقت اور اللہ کے حکم کے مقابلہ میں اپنے نفس کی خواہش اور جی کی چاہت کو دبانے کی عادت پڑتی ہے، روح کی ترقی اور تربیت ہوتی ہے، حفظانِ صحت کا ضامن ہے اور یہ کی زندگی کی راہ میں بے پناہ مشقت پیش آتی ہے صبر و تحمل کے بغیر خدائی رستہ کا کوئی مسافر نہیں بن سکتا۔انھیں خصوصیات کی وجہ سے اللہ نے روزہ کو خاص اپنے لئے بتایا ہے اور اس کا بدلہ بذاتِ خود عنایت فرمائے گا۔
دل کی نورانیت اور آتما کے چین کے لئے حلال روزی کا کھانا بھی شرطِ اوّلین ہے جس کیلئے مال کا آلود گی سے پاک ہونا لابدی ہے جو زکوٰۃ کی ادائیگی سے میسر ہو سکتا ہے۔
اسلام کا چوتھا رکن زکوٰۃ: زکوٰۃ دراصل اپنی ملکیت اور پراپرٹی میں خدا اور بندے کے حق کا اعتراف ہے، اس سے مقصود معاشرے کے کمزور لوگوں کی خبرگیری اور مدد کرنا، آدمی کے دل سے لالچ اور بخل کی پلیدی ختم کرنا، اپنی کمائی میں اللہ اور اسکے بندے کے حقوق بجا لانا، انسانی ہمدردی کا ابھار پیدا کرنا ہے اور یہ احساس دلانا ہے کہ خدا کے بندو! سماج میں بے حِس بن کرنہ جیو، غریبوں اور محتاجوں کی تکلیف کا بھی خیال رکھو۔
چنانچہ زکوٰۃ انسان کے اندر ہمدردی اور دوسروں کے حق پہچاننے کا شعور پیدا کراتی ہے، محتاجوں کی کفالت بھی اور دل و دماغ کی روشنی کا ذریعہ بھی اسلئے اپنی کمائی سے ڈھائی فیصد2.5% ہر سال زکوٰۃ ادا کرنے کا اللہ تعالی نے پابندبنایا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے، اے فرزندِ آدم!تو میرے غریب و حاجت مندبندوں پر اور نیکی کے دوسرے کاموں میں میرا دیا ہوا مال خرچ کئے جا، میں تجھ کو برابر دیتا رہوں گا،گویادیتے رہئے آتا رہے گا۔محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے میں اس پر قسم کھا سکتا ہوں کہ صدقہ کرنیکی وجہ سے(اللہ کی راہ میں خرچ کرنا)کوئی شخص غریب و مفلس نہیں ہوگا۔
جب انسان کی زندگی ان اعمال سے مزین ہو جاتی ہے تو اسکے اندر جسمانی ولولہ اور روحانی تپش پیدا ہوجا تی ہے،اس پر قناعت طاری ہو جاتی ہے،وہ خدائی راہ کا فدائی بن جاتا ہے، وہ شوقِ بندگی میں تڑپنے لگتا ہے، تڑپتی روح کے لئے سکون،شوق دیدار کے لئے سوائے تِیاگ کے اور کوئی چارہ نہیں اسکی روح کی ٹھنڈک کیلئے اللہ کے گھر کی حاضری اور حج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہ جاتا ہے۔
اسلام کا پانچواں رکن حج: حج در اصل اللہ کے بندوں کا اللہ کی محبت میں بیت اللہ کے گرد گھومنا ہے اور اسکے آستانہ کو بوسہ دینا اور کوچہئ محبوب میں گشت کرنا ہے،جہاں نہ ظاہری زیب و زینت ہے،نہ آرائش و زیبائش سے سروکار ہے اور نہ ہی کسی قسم کی امتیازی شانِ دلفریبی۔
حدیث شریف میں ہے جو شخص فریضہئ حج اس حال میں ادا کرے کہ اسمیں کوئی فحش اور بیہودہ حرکت اور اللہ کی نافرمانی نہ کرے تو و ہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو کر واپس آئے گا جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت بالکل بے گناہ تھا۔
حج اس دن کی یاد دلاتا ہے جب انسان دنیا سے فنا ہو کرآخرت کی طرف چلا جائے گا، جہاں خدا کے جلوہ کے اور کوئی جلوہ نہ ہوگا۔ غرض کہ حج انسان کو اپنے آقا کا غلام بن کر جینے، ایک دوسرے کی ناخوشگواریوں کو بھلا کر انصاف اور خیر خواہی کے ساتھ رہنے، تمام بناؤٹی طریقے اور رسم و رواج، چھوت چھات کی دیوار ڈھانے کا درس دیتا ہے۔سادگی اور ترکِ تکلّفات کرنے اور صرف خدا کے بندے بن کر دنیا میں زندگی گذارنے کا سبق سکھاتا ہے۔
در حقیقت حج انسانی برادری کا انمول نمونہ اور ایسی جامع اور کامل ترین عبادت ہے کہ اگر آدمی اس سے صحیح نصیحت کرلے تو وہ تمام معاملات میں درست ثابت ہوگا،خواہ وہ معاملات خدا سے متعلق ہوں یا اس کے بندوں سے متعلق، یہی مقصدِ زندگی بھی ہے او ر حاصلِ بندگی بھی۔
محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم کس حد تک ان ارکان پر عمل کر رہے ہیں ہم جب تک اسلام کے ارکان پر عمل نہیں کریں گے اس وقت تک زندگی میں کامیاب نہیں ہوسکتے ہم نے ہمیشہ کی زندگی کو عارضی زندگی پر قربان کر دیا ہے اور جس کی وجہ سے ہم مسائل کا شکار ہیں۔اللہ رب العزت امت مسلمہ کو ان ارکان پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔
پورے عالم پہ حکومت ہو تیری ائے مسلم،تو سمجھ جائے اگر اپنا مسلماں ہونا