ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۳
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
حضرت مفتی شعیب احمد المظاہری؛مدرس عربی، مدرسہ عربیہ قادریہ مسروالا،ہماچل پردیش
مجھے وہ لمحہ، وہ ساعت، اور وہ گھڑی، اچھی طرح یاد ہے جب مفکر اسلام؛ داعئی وقت؛ محدث اعظم؛ بے مثال فقیہ؛ صاحب بصیرت؛ معتبر و معقر ؛ اور موقع شناس؛ عالم ربانی؛ مسلک دیوبند کے بے مثال ترجمان استاد محترم مشفق ومربی حضرت الحاج مولانا اخترصاحب قاسمی علیہ الرحمہ مھتمم جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ سہارنپور یوپی الہند ۔ کی وفات سے پورے عالم اسلام پر حزن و الم کے بادل چھائے ہوئے تھے ۔
اس سنسنی خیز خبر کو سن کر ایسا لگ رہا تھا کہ گویا دلوں کی دھڑکنیں رک گئیں، زبانیں گنگ ہوگئیں ہیں اور قلم کی سیاہی خشک پڑ گئی رفتارِ زمانہ بھی گویا رک کر ماتم کر رہی تھی ، یقینا استاد محترم مرحوم قاسمی علیہ الرحمہ کی رحلت کا سانحہ فاجعہ ایسا درد انگیز ہے کہ مارے غم کے سینہ پھٹا جا رہا ہے زبان گنگ ہو رہی ہے ۔
ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے ہمارے درد و الم کا اظہار ہو سکے زمانہ اور زمانہ کی ہر چیزحسبِ حال اپنے اپنے رفتار سے چل رہی تھی ھمیں احساس بھی نہیں تھا کہ حضرت مرحوم قاسمی ھمارے درمیان سے اسطرح رخصت ہوجائینگے اور ھمیں حیران و ششدر چھوڑ جائینگے ، لیکن اللہ کے فیصلہ کو کون ٹال سکتا ہے و کان امر الله قدرا مقدورایقینا آج حضرت مھتمم صاحب قاسمی علیہ الرحمہ کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے حضرت مرحوم کے ساتھ گزشتہ سال گزرے ہوئے پل اور حضرت والا کی صالح صحبتیں اور انکی خوشگوار یادیں ذہن و قلب میں بسی ہوئی تھیں کہ اچانک جانکاہ خبر ملی کہ ھم سب کے مشفق ومربی حضرت مولانا اختر صاحب قاسمی علیہ الرحمہ اچانک ٢٦ جمادی الاول ١٤٤٣ مطابق یکم جنوری بوقت دوپہر اپنے وطن اصلی اور مسکن حقیقی موضع ریڑھی محی الدین پور ضلع سہارنپور میں طویل علالت کے بعد اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف اپنے رب حقیقی سے ملنے چلے گئے ،مگر کچھ موتیں ایسی ہوتی ہیں. جو دل و دماغ کو مفلوج کر دیتی ہیں ۔
ظاہر ہے کہ یہ حادثہ فاجعہ اتنا اچانک اور بغیر توقع ہوا کہ موصوف کے اہل وعیال اور عملہ جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ_ کے لئے اور ملت کے لئے ناقابل تلافی ہے ، اللہ تعالی صبر تو دے ہی دیتا ہے ،مگر اندرونی زخم ذرا سی ٹھیس سے ہرا ہو ہی جاتا ہے، کچھ وقت قبل موصوف کے ساتھ گزری ہوئی خوشگوار صحبتیں ہی میری یاد کا سرمایہ اصلی ہیں ،اللہ تعالی نے انکو اپنی آغوش رحمت میں لےلیا اور اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لیا۔ داغ فراق صحبت شب کی جلی ہوئی
ایک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
موصوف کے سفر آخرت کے بعد بھی نہ جانے کیوں یہ احساس ذھن کے پردہ پر ابھرتا رھا اور ڈوبتا رھا ھے کہ کچھ دنوں اور جی لۓ ھوتے ،پہلے تو چاروں قل پڑھ کر ایصال ثواب کیا پھر مدرسہ عربیہ قادریہ مسروالا سرمور ہماچل پردیش میں جہاں یہ فدوی ابھی تدریسی خدمات انجام دیرھا ھے طلبہ کے ذریعہ ختم قرآن کراکر با قاعدہ ایصال ثواب کرایا ۔دیر تک یادوں کی یاد آتی رھی،کیا کیا نہ یاد آیا بیان کرنے کے لۓ الفاظ نہیں ھے ۔
اس دور قحط الرجال میں واقعہ یہی ھے کہ کسی عالم ربانی کا اٹھ جانا ایسا فراق اور ایسا ثلمہ ھے جسکا پر ھونا اگر نا ممکن نہیں تو از حد مشکل ضرور ھے خدا نہ کردہ وہ زمانہ آگیا ھو جسکی حدیث میں پیش گو ئی فرمائی گئی ھے۔الا یقبض العلم بقبض العلما ٕ(الحدیث)
انکی مومنی صورت، انکی مسکراھٹ ،انکی شیریں گفتار ،اسیر دام کرنے والا انکا کردارہ، دلوں کو فتح کرنے والی انکی خوش اخلاقی و نرم مزاجی،انکا خوبصورت دھیماپن ،انکی ھمہ گیر دلنوازی ،و ہم دردی وغم خواری ،درد دل کو منت گزاری پر مجبور کرنے والے کسی رویے کے بغیر بانٹ لینے کا انکا جزبہ وہ عمل،خدا ترسی وہ شب بیداری کی روشنی میں نہایا ہوا انکا روۓ منور ،علم وفضل و قلم کے پائیدار کارناموں سے مزین انکی شخصیت،شہرت وناموری سے نفرت کناں انکی زندگی،مخلوق کی نگاہ میں محبوب و مقبول بنا دینے والی سیرت ،اور پتہ نہیں کیا کیا ھنوز یاد آتے رھینگے اوردل وجگر کو کشتہ کرتے رھینگے ۔
بہرر حال
انسان کی زندگی محض ایک افسانہ ھے ہر شخص اس دنیا میں اپنی حیات مستعار کے دن گزار کر رخصت ہوجاتا ھے صرف اسکی یادیں باقی رہ جاتی ھے ۔تلخ وشیریں یادیں ، دلربا ودل شکن یادیں ،انسان کی حقیقت ایک افسانہ سے زیادہ نھیں افسانہ وہ جو ناتمام سا رہ گیا ہو ،افسانہ وہ جو ایک نتیجہ خیز انتھایہ کا منتظر ہو ،ایک حکیم شاعر کہتا ھے ۔انما المر ٕ حدیث بعدہ
فکن حدیثا حسنا لمن وعی
ایک ایسا ھی افسانہ بنگ ھے استاد محترم مشفق ومربی حضرت مولانا اختر قاسمی علیہ الرحمہ کی شخصیت ذھن وخیال میں ان کا تصور آتے ھی خوبصورت یادوں کی ایک کہکشاں سی سج جاتی ھے ،یادیں شفقت و محبت کی ، اپنائیت اور خیر خواھی کی،اخلاص اور ھمدری کی ،صدق و صفاۓ باطن کی، شفقتوں و عنایتوں کی ،سادگی و تواضع کی ، جس نے انکی عبادتیں دیکھی ہونگی اور خدا ۓ واحد کے سامنے تنھائیوں میں تضرع اور ذوق و شوق کے ساتھ دعاوں میں مصروف دیکھا ھوگا تو ضرور گواھی دیگا کہ عبادتوں کا یہ انداز ھوتا ھے ،بعض نے ان کے علم و تحقیق اور فکر سلیم سے معمور حلقاۓ درس میں شرکت کی ھوگی تو بے ساختہ انکی زبان سے نکلےگا ،شان درس تو یہ ھے۔اور منھج تدریس کا یہ مثالی و معیاری انداز ھے ،بعض کے حق میں انکی روحانی و ربانی شخصیت کا جمال باعث تسکین قلب و روح ہوا ہوگا۔
الغرض حضرت مولانا قاسمی علیہ الرحمہ کی زندگی متنوع و شش جھت ھے ،زندگی کا ہر پہلو خوبیوں کا حامل آپ بیک وقت ایک باکمال عالم ،مثالی مدرس ،کامیاب مربی ،بصیرت مند قائد ،تجربہ کار مدبر اور سب سے بڑھ کر وہ ایک انسان تھے ۔
صحیح اور کامل انسان
انسانی صفات سے آراستہ ایک عظیم انسان اور شاید وھی انسان جسکی تلاش حکیم روم کو تھی ،وہ مرد مومن اقبال کو ساری زندگی جسکی جستجو رھی،ہر دور کے اھل صفا نے جسکی خاطر ریاضت و مجاھدے کۓ ایک عظیم انسان جو انسانی خوبیوں کا حسین پیکر تھا ، انسانی ھمدردی کا منارہ نور تھا ،وہ شفقت و محبت اخلاص اور سادگی کا حسین گلدستہ تھا ،ایسی سادگی کہ جس سادگی پر مر مٹنے کو دل چاھے ، تواضع وہ کہ جس کے در پر خود تواضع جبہ ساٸ کرے،صداقت و راستی اور حق گوئی ایسی کہ خود صداقت بھی جس کی صداقت کا اعتراف کرے ،عم وافر کا وہ حصہ پایا کہ رشک نگاہ علما ٕ بن گیا ،نرم دم گفتگو گرم دم جستجو ،رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز کا جیتا جاگتا نمونہ اور قولوا للناس قولا حسنا کی عملی تفسیر وہ مرد با صفا کہ جسکی زندگی ظاھر پرستی اور تکلفات سے کوسوں دور تھی ،وہ جسکی خلوتیں اور جلوتیں یکساں تھیں ،غیرت اسلامی کا علمبردار اور محبت رسول کی شراب طھور سے اس کا باطن سرشار تھا انکی زندگی و تگ و دو کا صرف ایک ھی مقصد تھا انسان اور انسانیت کی اصلاح ۔
بہر حال موت ایک اٹل حقیقت ھے اور فیصلہ ٕ خداوندی ھے اس دنیا ٕ میں جو بھی آیا وہ جانیکے لۓ آیا ھے لیکن کچھ جانے والے اپنے کارنامے تعلیمات ،ارشادات، اور دیدہ وری کے ایسے نقوش ثبت کر جاتے ھیں کہ وہ بعد از مرگ بھی زندہ رھتے ھیں ، جن کے سانحہ ارتحال پر دل سے اٹھنے والی ٹیسیں دیر اور دور تک محسوس کی جاتی ھے در اصل مسئلہ دنیا سے کسی کے رخصت ہوجانیکا نھیں ہوتا ،بات در اصل یہ ہوتی ھے کہ جانیوالے کے کندھوں پر جو ذمہ داریاں تھیں اس کے چلے جانیکے بعد اب انکو کون سنبھالیگا اورکس حد تک سنبھال سکیگا ، فیض رسانی کا جو سلسلہ جانیوالے سے وابستہ تھا وہ اب کہاں سے آئیگا۔
یہی فکر مندی لوگوں کے احساسات کے اظھار کو افسوس کا نام دے دیتی ھے ، در حقیقیت وجود کا احساس عدم وجود پر ھی ھوا کرتا ھے،ھر طرف سے انکی تحسین کی گٸ ایک بڑی جماعت نے انسے کسب فیض کیا ،
در حقیقت ایسے جامع کمالات مرد میدان کم ھی پیدا ھوا کرتے ھیں ایسے ھی بندگان خدا پر صحیح معنوں میں موت العالم موت العالم کے معنی و مفھوم پورے پورے مرتب ھوتے ھیں ،قدیم صالح اور جدید نافع کی جامعیت کے مظھر ام المدارس دارالعلوم کے اس عظیم المرتبت فرزند کے حادثہ وفات پر عالم اسلام غمگین و حزین اور بحر الم میں غرقاب نظر آرھا ھے ۔خدا رحمت کند ایں پاک طینت را
اللہ حضرت کی مغفرت فرماۓ اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرماۓ اور جامعہ کو نعم البدل عطا فرماۓ ۔آمین
ایک مرد خدا مست تھا۔۔ نہ رہا۔
اس سنسنی خیز خبر کو سن کر ایسا لگ رہا تھا کہ گویا دلوں کی دھڑکنیں رک گئیں، زبانیں گنگ ہوگئیں ہیں اور قلم کی سیاہی خشک پڑ گئی رفتارِ زمانہ بھی گویا رک کر ماتم کر رہی تھی ، یقینا استاد محترم مرحوم قاسمی علیہ الرحمہ کی رحلت کا سانحہ فاجعہ ایسا درد انگیز ہے کہ مارے غم کے سینہ پھٹا جا رہا ہے زبان گنگ ہو رہی ہے ۔
ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے ہمارے درد و الم کا اظہار ہو سکے زمانہ اور زمانہ کی ہر چیزحسبِ حال اپنے اپنے رفتار سے چل رہی تھی ھمیں احساس بھی نہیں تھا کہ حضرت مرحوم قاسمی ھمارے درمیان سے اسطرح رخصت ہوجائینگے اور ھمیں حیران و ششدر چھوڑ جائینگے ، لیکن اللہ کے فیصلہ کو کون ٹال سکتا ہے و کان امر الله قدرا مقدورایقینا آج حضرت مھتمم صاحب قاسمی علیہ الرحمہ کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے حضرت مرحوم کے ساتھ گزشتہ سال گزرے ہوئے پل اور حضرت والا کی صالح صحبتیں اور انکی خوشگوار یادیں ذہن و قلب میں بسی ہوئی تھیں کہ اچانک جانکاہ خبر ملی کہ ھم سب کے مشفق ومربی حضرت مولانا اختر صاحب قاسمی علیہ الرحمہ اچانک ٢٦ جمادی الاول ١٤٤٣ مطابق یکم جنوری بوقت دوپہر اپنے وطن اصلی اور مسکن حقیقی موضع ریڑھی محی الدین پور ضلع سہارنپور میں طویل علالت کے بعد اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف اپنے رب حقیقی سے ملنے چلے گئے ،مگر کچھ موتیں ایسی ہوتی ہیں. جو دل و دماغ کو مفلوج کر دیتی ہیں ۔
ظاہر ہے کہ یہ حادثہ فاجعہ اتنا اچانک اور بغیر توقع ہوا کہ موصوف کے اہل وعیال اور عملہ جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ_ کے لئے اور ملت کے لئے ناقابل تلافی ہے ، اللہ تعالی صبر تو دے ہی دیتا ہے ،مگر اندرونی زخم ذرا سی ٹھیس سے ہرا ہو ہی جاتا ہے، کچھ وقت قبل موصوف کے ساتھ گزری ہوئی خوشگوار صحبتیں ہی میری یاد کا سرمایہ اصلی ہیں ،اللہ تعالی نے انکو اپنی آغوش رحمت میں لےلیا اور اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لیا۔
ایک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
موصوف کے سفر آخرت کے بعد بھی نہ جانے کیوں یہ احساس ذھن کے پردہ پر ابھرتا رھا اور ڈوبتا رھا ھے کہ کچھ دنوں اور جی لۓ ھوتے ،پہلے تو چاروں قل پڑھ کر ایصال ثواب کیا پھر مدرسہ عربیہ قادریہ مسروالا سرمور ہماچل پردیش میں جہاں یہ فدوی ابھی تدریسی خدمات انجام دیرھا ھے طلبہ کے ذریعہ ختم قرآن کراکر با قاعدہ ایصال ثواب کرایا ۔دیر تک یادوں کی یاد آتی رھی،کیا کیا نہ یاد آیا بیان کرنے کے لۓ الفاظ نہیں ھے ۔
اس دور قحط الرجال میں واقعہ یہی ھے کہ کسی عالم ربانی کا اٹھ جانا ایسا فراق اور ایسا ثلمہ ھے جسکا پر ھونا اگر نا ممکن نہیں تو از حد مشکل ضرور ھے خدا نہ کردہ وہ زمانہ آگیا ھو جسکی حدیث میں پیش گو ئی فرمائی گئی ھے۔الا یقبض العلم بقبض العلما ٕ(الحدیث)
انکی مومنی صورت، انکی مسکراھٹ ،انکی شیریں گفتار ،اسیر دام کرنے والا انکا کردارہ، دلوں کو فتح کرنے والی انکی خوش اخلاقی و نرم مزاجی،انکا خوبصورت دھیماپن ،انکی ھمہ گیر دلنوازی ،و ہم دردی وغم خواری ،درد دل کو منت گزاری پر مجبور کرنے والے کسی رویے کے بغیر بانٹ لینے کا انکا جزبہ وہ عمل،خدا ترسی وہ شب بیداری کی روشنی میں نہایا ہوا انکا روۓ منور ،علم وفضل و قلم کے پائیدار کارناموں سے مزین انکی شخصیت،شہرت وناموری سے نفرت کناں انکی زندگی،مخلوق کی نگاہ میں محبوب و مقبول بنا دینے والی سیرت ،اور پتہ نہیں کیا کیا ھنوز یاد آتے رھینگے اوردل وجگر کو کشتہ کرتے رھینگے ۔
بہرر حال
انسان کی زندگی محض ایک افسانہ ھے ہر شخص اس دنیا میں اپنی حیات مستعار کے دن گزار کر رخصت ہوجاتا ھے صرف اسکی یادیں باقی رہ جاتی ھے ۔تلخ وشیریں یادیں ، دلربا ودل شکن یادیں ،انسان کی حقیقت ایک افسانہ سے زیادہ نھیں افسانہ وہ جو ناتمام سا رہ گیا ہو ،افسانہ وہ جو ایک نتیجہ خیز انتھایہ کا منتظر ہو ،ایک حکیم شاعر کہتا ھے ۔
فکن حدیثا حسنا لمن وعی
ایک ایسا ھی افسانہ بنگ ھے استاد محترم مشفق ومربی حضرت مولانا اختر قاسمی علیہ الرحمہ کی شخصیت ذھن وخیال میں ان کا تصور آتے ھی خوبصورت یادوں کی ایک کہکشاں سی سج جاتی ھے ،یادیں شفقت و محبت کی ، اپنائیت اور خیر خواھی کی،اخلاص اور ھمدری کی ،صدق و صفاۓ باطن کی، شفقتوں و عنایتوں کی ،سادگی و تواضع کی ، جس نے انکی عبادتیں دیکھی ہونگی اور خدا ۓ واحد کے سامنے تنھائیوں میں تضرع اور ذوق و شوق کے ساتھ دعاوں میں مصروف دیکھا ھوگا تو ضرور گواھی دیگا کہ عبادتوں کا یہ انداز ھوتا ھے ،بعض نے ان کے علم و تحقیق اور فکر سلیم سے معمور حلقاۓ درس میں شرکت کی ھوگی تو بے ساختہ انکی زبان سے نکلےگا ،شان درس تو یہ ھے۔اور منھج تدریس کا یہ مثالی و معیاری انداز ھے ،بعض کے حق میں انکی روحانی و ربانی شخصیت کا جمال باعث تسکین قلب و روح ہوا ہوگا۔
الغرض حضرت مولانا قاسمی علیہ الرحمہ کی زندگی متنوع و شش جھت ھے ،زندگی کا ہر پہلو خوبیوں کا حامل آپ بیک وقت ایک باکمال عالم ،مثالی مدرس ،کامیاب مربی ،بصیرت مند قائد ،تجربہ کار مدبر اور سب سے بڑھ کر وہ ایک انسان تھے ۔
صحیح اور کامل انسان
انسانی صفات سے آراستہ ایک عظیم انسان اور شاید وھی انسان جسکی تلاش حکیم روم کو تھی ،وہ مرد مومن اقبال کو ساری زندگی جسکی جستجو رھی،ہر دور کے اھل صفا نے جسکی خاطر ریاضت و مجاھدے کۓ ایک عظیم انسان جو انسانی خوبیوں کا حسین پیکر تھا ، انسانی ھمدردی کا منارہ نور تھا ،وہ شفقت و محبت اخلاص اور سادگی کا حسین گلدستہ تھا ،ایسی سادگی کہ جس سادگی پر مر مٹنے کو دل چاھے ، تواضع وہ کہ جس کے در پر خود تواضع جبہ ساٸ کرے،صداقت و راستی اور حق گوئی ایسی کہ خود صداقت بھی جس کی صداقت کا اعتراف کرے ،عم وافر کا وہ حصہ پایا کہ رشک نگاہ علما ٕ بن گیا ،نرم دم گفتگو گرم دم جستجو ،رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز کا جیتا جاگتا نمونہ اور قولوا للناس قولا حسنا کی عملی تفسیر وہ مرد با صفا کہ جسکی زندگی ظاھر پرستی اور تکلفات سے کوسوں دور تھی ،وہ جسکی خلوتیں اور جلوتیں یکساں تھیں ،غیرت اسلامی کا علمبردار اور محبت رسول کی شراب طھور سے اس کا باطن سرشار تھا انکی زندگی و تگ و دو کا صرف ایک ھی مقصد تھا انسان اور انسانیت کی اصلاح ۔
بہر حال موت ایک اٹل حقیقت ھے اور فیصلہ ٕ خداوندی ھے اس دنیا ٕ میں جو بھی آیا وہ جانیکے لۓ آیا ھے لیکن کچھ جانے والے اپنے کارنامے تعلیمات ،ارشادات، اور دیدہ وری کے ایسے نقوش ثبت کر جاتے ھیں کہ وہ بعد از مرگ بھی زندہ رھتے ھیں ، جن کے سانحہ ارتحال پر دل سے اٹھنے والی ٹیسیں دیر اور دور تک محسوس کی جاتی ھے در اصل مسئلہ دنیا سے کسی کے رخصت ہوجانیکا نھیں ہوتا ،بات در اصل یہ ہوتی ھے کہ جانیوالے کے کندھوں پر جو ذمہ داریاں تھیں اس کے چلے جانیکے بعد اب انکو کون سنبھالیگا اورکس حد تک سنبھال سکیگا ، فیض رسانی کا جو سلسلہ جانیوالے سے وابستہ تھا وہ اب کہاں سے آئیگا۔
یہی فکر مندی لوگوں کے احساسات کے اظھار کو افسوس کا نام دے دیتی ھے ، در حقیقیت وجود کا احساس عدم وجود پر ھی ھوا کرتا ھے،ھر طرف سے انکی تحسین کی گٸ ایک بڑی جماعت نے انسے کسب فیض کیا ،
در حقیقت ایسے جامع کمالات مرد میدان کم ھی پیدا ھوا کرتے ھیں ایسے ھی بندگان خدا پر صحیح معنوں میں موت العالم موت العالم کے معنی و مفھوم پورے پورے مرتب ھوتے ھیں ،قدیم صالح اور جدید نافع کی جامعیت کے مظھر ام المدارس دارالعلوم کے اس عظیم المرتبت فرزند کے حادثہ وفات پر عالم اسلام غمگین و حزین اور بحر الم میں غرقاب نظر آرھا ھے ۔خدا رحمت کند ایں پاک طینت را
اللہ حضرت کی مغفرت فرماۓ اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرماۓ اور جامعہ کو نعم البدل عطا فرماۓ ۔آمین
ایک مرد خدا مست تھا۔۔ نہ رہا۔