ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۳
استاذ! فرش سے عر ش تک پہونچانے والی ذات؛ قسط۔3۔(استاذ کا مقامِ بلند!)
حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش و صدر تنظیم فلاح ملت
اہل فکر فرماتے ہیں ماں باپ ذریعہ بنتے ہیں اولاد کو عرش سے فرش پر لانے کا اور اساتذہ تربیت کرکے ان بچوں کو(باعتبار روحانی ترقی کے) فرش سے عرش تک پہنچانے کا اہم وسیلہ،مستقبل کا معماراوررہنما بنانے نیز اخلاق و اطوار سنوارنے کے ضامن ہوتے ہیں۔
سکندر اعظمسے کسی نے پوچھا آپ استاذ کو باپ پر کیوں تر جیح دیتے ہیں؟ جواب دیا! اس لئے کہ باپ تو مجھے آسمان سے زمین پر لا یا اور میرا استاذ ارسطُو مجھے زمین سے آسمان پرلے گیا۔ نیز باپ سبب حیات فانی اور استاذموجبِ حیات جاودانی ہے۔ باپ میرے جسم کی پرورش کرتا ہے اور استاذمیری روح کی۔
حضرت مولانا عباد اللہ صاحب ندوی نے لکھاہے کہ”استاذ کو اپنے شاگرد سے بیحد محبت ہونی چاہئے اور اسے ہروقت اس کا خیر خواہ ہوناچاہئے جیسے کوئی باپ اپنے بیٹے کی ترقی پر خوش ہوتاہے اور اس کی ناکامی پر کبیدہ خاطریہی یہ تعلق ایک استاذ کو اپنے شاگردوں کے ساتھ ہونا چاہئے،یہ تعلق بے غرض اور بے لوث ہو اور پاکیزگی پر مبنی ہو“۔
(بشکریہ ماہنامہ نقوش اسلام مظفرآباد سہارنپور)
استاذ ہونا ایک خیر اورفضل عام کی علامت ہے اور ان کیلئے باعث خیر ہے۔ اساتذہ کرام شریعت حقہ اور سنت نبویﷺکے پابند ہونگے تو انکے زیر اثر ایک بڑی امت طالبان علوم نبوت اور داعی بن کر ابھریگی۔اسلئے دنیوی وعصری درسگاہوں اوربڑے بڑے کاروباری اداروں میں خدمت انجام دینے والا خواہ کتنا ہی پڑھالکھاہواسے کا م کی تربیت اور ٹریننگ(Training) لیناضروری ہو تاہے جبکہ دینی اداروں اور درسگاہوں میں اس کی کہیں اور زیادہ ضرورت ہے نہ جانے یہ قابل توجہ شعبہ کیوں ہماری نظروں سے اوجھل اور بے توجہی کا شکار ہے؟ در اصل پڑھائیگا وہی جسے پڑھانا آتاہے کہ ہر قابل شخص قابل استاذ نہیں بن سکتا۔
قابل ذکر ہے! جو استاذ شاگر د کے حالات و مزاج سے واقفیت پید ا کئے بغیر اسے تعلیم دیتاہے وہ ابھی خود تعلیم وتربیت کا محتاج ہے۔
درست ہیکہ علم پر مہارت اور دسترس ہوناالگ بات ہے اور اس علم کو دوسروں تک پہنچانے کا ہنر علیحدہ فن ہے جو کسی ماہِرتعلیم اور تجربہ کار کی رہبری کے بغیر ممکن نہیں۔
تربیت تعلیم کا وہ بنیاد ی عنصر ہے جس کے بغیر تعلیم و تعلم کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اسلئے استاذ کے لیے لا زم ہے کہ وہ مدرس بننے سے قبل تدریس کے تقاضے، طلبہ کی نفسیات کا ہنر اور طریقہئ تعلیم کی ٹریننگ حاصل کرلے تاکہ تعلیم و تربیت کے بہتر نتائج حاصل ہوں۔کیونکہ مطالعہ وتحقیق میں ارتقاء اور تسلسل کے بغیر وہ اپنے طلبہ کو کماحقہ فیض یاب نہیں کرسکتا۔
ایک مفکر نے لکھاہے علم دو دھاری تلوار ہے اس کا مناسب استعمال برکت اور نامناسب استعمال ہلاکت کا باعث ہوتاہے۔
استاذ محترم! والدین نے اپنی سب سے قیمتی اور اہم متاع کی رکھوالی اور نگرانی آپ کے سپرد کی ہے، امت کا سب سے معصوم طبقہ آپ کے حوالہ کیاہے، شاہین اذہا ن کے مالک ہونہار بچے ماں باپ نے آپ کے پاس بھیج دیئے ہیں ان میں سے بعض ماں باپ ایسے ہیں جن کو خود ان بچوں کی خدمت کی ضرورت ہے لیکن پھر بھی انہوں نے علم کی خاطر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے جذبے سے آپ کو سونپ دئے ہیں۔
اب یہ ذمہ داری آپ پر ہے کہ اس امانت کا صحیح حق ادا کرتے ہیں یا نہیں جس اعتماد سے انہوں نے بھیجا ہے؟ اس کی رعایت رکھ کر ان کے اعتماد کو قائم رکھناہے یا نہیں؟ حضوراکرم ﷺ کا یہ ارشاد مبارک ہمارے لئے کافی ہے کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْءُولٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ۔(بخاری ج ۲ ص۷۵۰۱) تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور ہر شخص سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔
یعنی جوبچے حصول علم کے لئے آرہے ہیں یہ میری رعیت ہیں اور قیا مت کے دن ان کے بارے میں مجھ سے سوال کیا جائے گا۔
بعض بچے اسقدر حساس ہوتے ہیں کہ پٹائی کی وجہ سے ذہنی امراض اوردماغی خلجان میں مبتلاہوکر ترک تعلیم اور کبھی تاب نہ لاکر لاپتہ ہوجانے کی راہ اختیار کرلیتے ہیں اس لئے کامیاب استاذ کی پہچان ہے کہ وہ مار نہیں..پیار کا کامیاب ترین نسخہ استعمال کرتے ہیں۔
غصہ اور طیش میں آکر کبھی بچوں کو سزا نہ دے کیو نکہ کوئی غصہ میں بھر ا ہو ا حکیم مریض کے مرض کو ختم نہیں کرسکتا، غصہ میں د ل قابو میں نہیں رہتا، جب استاذکا دل ہی قابو میں نہیں تو وہ شاگرد کو کیسے اپنے قابو میں لاسکتاہے اس میں تو اور خرابی کا اندایشہ ہے ۔
اور اک ِبس ِملادیابَس میں
”تجربہ ہے کہ سخت کلمات کی بہ نسبت نرم کلمات زیا دہ مؤثر ہوتے ہیں یہ حماقت ہے کہ جس برتن میں آدمی کچھ ڈالناچاہے پہلے ہی اس میں سوراخ کردے جب شاگرد کے دل کو اپنی سختی اور مارپیٹ سے چھلنی کر دے گا تو اس میں خیر کی بات کس طرح ڈال سکے گا“
یاد رکھئے! چھوٹے بچوں کے دل میں رعب اور خوف کا سمانا ایسا ہی براہے کہ جیسا نر م و نازک پودے پر باد صر صر کا تند جھونکا یا پھو لوں پر لو کا چلنا۔جس بچے کا مذاق اڑایا جاتا ہے،وہ بزدل بن جاتا ہے۔جس بچے کو مار پیٹ کا سامنا ہوتا ہے،اس کی صلاحیتیں دب جاتی ہیں جس بچے پر اعتبار نہیں کیاجاتا وہ دھوکا دینا سیکھتاہے جس بچے پر تنقید کی جاتی ہے وہ کوشش کرنا چھوڑ دیتاہے اورجس بچے کی تعریف نہیں کی جاتی وہ اچھی چیزوں کو پسند نہیں کرتا۔
طالب علم کے ساتھ بد اخلاقی کے ساتھ پیش آنے کی وجہ سے اگر چہ عارضی طور پر فائدہ ہوجائے گالیکن مستقلا ًیہ باعث فتنہ ہے او ر اس سے فائدہ کے بجائے الٹانقصان کا اندیشہ ہے جو استاذ اخلاقی برائیوں کو حسن خلق کے ذریعے رفع کرنے کی قا بلیت نہیں رکھتا وہ کامل استاذ کہلانے کا مستحق نہیں۔
قرآن کریم میں پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کو خطاب ہے فَبِمَارَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَو کُنْتَ فَظَّا غَلِیْظَ القَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ(الایہ ۹۵۱سورہ اٰل عمران پ ۴) ترجمہ:پس آپﷺ اللہ ہی کی رحمت سے انکے لئے نرم ہوگئے اور اگر بالفرض آپ درشت خو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر اور پراگندہ ہوجاتے یعنی اللہ آ پ پر اس احسان کا ذکر فرمارہے ہیں کہ یہ اللہ ہی کا انعام ہے کہ آ پﷺ کے اندر جو نرمی اور ملائمت ہے یہ اللہ کی خاص مہر بانی کا نتیجہ ہے اور یہ نرمی تعلیم وتعلم اوردعوت و تبلیغ کے لئے بہت ہی ضروری ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان المئومن لید رک بحسن خلقہ درجۃ الصائم القائم (ابوداؤد حدیث نمبر ۷۹۸۷ حاکم ج ۱ ص ۰۶) حسن خلق سے زیادہ بھاری اعمال خیر کی ترازو میں کوئی چیز نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا آدمی اپنے حسن اخلا ق کی بناپر رات کے عبادت گذار اور دن کے روزہ دار کے ثواب کا درجہ پالیتاہے۔(ترمذی ج ۲ ص۰۲)
ان آیات واحادیث مبارکہ سے حسن اخلاق کی اہمیت و افادیت اور اس کی ضرورت کا پتہ چلتاہے۔ خاص کر معلمین واساتذہ کیلئے کہ جنکا مقصد اشاعت دین اور رضائے الٰہی ہے جب وہ خوش اخلا ق ہوں گے تو شاگرد کے دل میں ان کی باتیں اور تعلیمات زیادہ مؤ ثر انداز میں جم جائیں گی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے ”عاجزی ونرمی اختیا ر کروجن کو سکھاتے ہو یا جن سے سیکھتے ہو“(المعجم الوسیط ج ۶ ص۰۰۲)۔ حدیث پاک میں ہے ”جس نے اللہ تعالیٰ کیلئے عاجزی اختیا ر کی اللہ تعالیٰ اس کا مقام بلند کرے گا۔ (الترغیب والترہیب ج ۴ ص۰۸۳)
ایک مثالی استاذ کیلئے لازم ہے کہ طلبہ کی تعلیم وتربیت اور اصلاح کا حریص ہو ان کی تعلیمی ترقی اور اصلاح کیلئے خود بھی جانفشانی اور طلبہ سے بھی خوب محنت کرانی چاہئے غرض استاذ کو اپنے طلبہ کی تعلیم وتربیت کی ہر وقت فکر رہنی چاہئے رسول اکرم ﷺ جو معلم انسانیت تھے ان کی مبارک زندگی تمام اساتذہ اور معلمات کیلئے اسوہ اور نمونہ ہے۔ آپ ﷺ کو مخلوق خدا کی اصلاح و ہدایت کی اس قدر فکر تھی کہ شب وروز اس کیلئے قربانیاں دیتے اور تکلیفیں برداشت کرتے۔
استاذ کی ذمہ داریوں میں بچوں کے نفسیات پہچاننا اور اس کے مطابق تعلیم وتربیت کو اس کے کوزے میں سمونا ہے۔
اللہ کے نبی ﷺ کی شان عالی تھی ان اللہ رفیق یحب الرفق فی امر کلہ(اخرجہ البخاری فی کتاب الادب۔ باب الرفیق فی الامرکلہ) اللہ نرم ہے اور ہر معاملہ میں نرمی کو پسند فرماتے ہیں اس لئے مارنے پیٹنے جھڑکنے اور خوف کا ماحول پیدا کرنے والا خواہ آنکھوں سے ہو یا کسی عضو سے وہ استاذ نہیں ہوسکتا۔ اسلئے کہ خوف کے ماحول سے پہلے ننانوے ایسے طریقے ہیں جسے اپنا کر مثالی استاذ اور کامیاب درسگاہ کی ضمانت دی جاسکتی ہے خوف وہراس تو آخری درجے کا عمل ہے جسے ہم پہلے اپناتے ہیں جو طریقہ ئ نبو ی، مثالی استاذ اور انسانیت کے خلاف ہے۔
۔جاری۔