ماہنامہ الفاران

ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۳

ہمیں آزادی کیسے ملی

حضرت مفتی نفیس احمد جمالپوری المظاہری استاد حدیث و فقہ: مدرسہ عربیہ قادریہ،مسروالا (ہماچل پردیش)

26جنوری 1950 کوگورنمنٹ آف انڈیاایکٹ(1935)کو ہٹاکر ہندوستان کا آئین نافذ کیا گیا قابل ذکر بات یہ ہے کہ 26 نومبر 1949 کو دستور ساز اسمبلی کی طرف سے آئین کو اپنایا گیا اور اس کے ٹھیک دوماہ بعد26 جنوری 1950 کو اس کو ایک جمہوری‎ نظام کے ساتھ نافذ کیا گیا۔ایسے میں یہ ایک سوال ہے کہ آخر26 جنوری کو ہی آئین کیوں نافذ ہوا۔دراصل اس کے لیے26 جنوری کو اس لئے چنا گیاکہ 1930 میں اسی دن انڈین نیشنل کانگریس نے ہندوستان کی مکمل خود مختاریت کا اعلان کیا تھا۔اسی مناسبت سے26 جنوری کو یوم جمہوریہ کی تقریب پر صدر جمہوریہ کے ذریعے ترنگا پھہرایا جاتا ہے۔ اور ہمارے دینی ادارے بھی اساتذہ ومشائخ کی موجودگی میں مدارس اسلامیہ میں پرچم لہراکرمجاہدین آزادی کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے میں سب سے آگے رہتے ہیں۔
دارالعلوم مظاہر علوم ندوۃ العلماءسمیت تمام مدارس اس خوشی میں شریک ہوتے ہیں اس موقع پر ہرسال ایک عظیم الشان پریڈ بھی انڈیا گیٹ سے راشٹر پتی بھون تک راج پتھ پر منعقد کی جا تی ہے۔ اس پریڈ میں ہندوستانی فوج کے مختلف ریجمنٹ، فضائیہ، بحریہ وغیرہ حصہ لیتے ہیں۔اس کے تاریخی تناظر پر بات کی جائے تو 1929 میں لاہور میں پنڈت جواہرلعل نہرو کی صدارت میں انڈین نیشنل کانگریس کا اجلاس ہواتھا، جس میں تجویز منظور کرکے اس بات کا اعلان کیا گیا تھاکہ اگر انگریز حکومت 26 جنوری 1930 تک ہندوستان کو ڈومینین کا عہدہ فراہم نہیں کرے‌گی، جس کے تحت ہندوستان برٹش سامراج میں ہی خودمختار حکومت کی اکائی بن جاتی، تو ہندوستان اپنے آپ کو مکمل طورپر آزاد قرار دے‌گا۔ہندوستان کے آزاد ہو جانے کے بعد دستور ساز اسمبلی کا اعلان ہوا اور اس نے اپنا کام 9 دسمبر 1947 سے شروع کر دیا۔ دستور ساز اسمبلی نے 2 سال، 11 مہینے، 18 دن میں ہندوستانی آئین کو مرتب کیا اور دستور ساز اسمبلی کے صدر ڈاکٹر راجیندر پرساد کو 26 نومبر 1949 کو ہندوستان کا آئین سپرد کیاگیا، اس لئے 26 نومبر کے دن کو ہندوستان میں یوم آئین کے طور پر ہرسال منایا جاتا ہے۔ غور طلب ہے کہ کئی اصلاحات اور تبدیلیوں کے بعد کمیٹی کے 308 ممبروں نے 24 جنوری 1950 کو آئین کی ہاتھ سے لکھی ہوئی دوکاپیوں پر دستخط کئے۔ اس کے دو دن بعد آئین 26 جنوری کو ملک بھر میں نافذ ہو گیا۔ 26 جنوری کی اہمیت بنائے رکھنے کے لئے اسی دن ہندوستان کو جمہوری شناخت عطا کی گئی۔ہندوستان کو 15 اگست 1947 کو آزادی ملی، جس کے بعد 26 جنوری1950کو ہندوستان جمہوری ملک میں بدلا اور ملک میں آئین نافذ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ہرسال 26 جنوری کو یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے۔ پی آئی بی (پریس انفارمیشن بیورو ، حکومت ہند) کے مطابق ہماراملک 26 جنوری 1950 کو صبح10بجکر18منٹ پر ایک جمہوری ملک بنا۔اس کےٹھیک 6 منٹ بعد 10بجکر24منٹ پرڈاکٹرراجیندر پرساد صاحب نے ہندوستان کے پہلے صدر کے طور پر حلف لیا ۔ اسی دن پہلی بار بطور صدر ڈاکٹر راجیندر پرساد صاحب بگھی پر بیٹھ‌کرراشٹر پتی بھون سے نکلے ۔ اسی دن پہلی بار انہوں نے ہندوستانی فوج کی سلامی لی ۔ پہلی بار ان کو گارڈ آف آنر دیا گیا۔
لیکن یہ آزادی ہمیں کس طرح ملی اس پر میں تھوڑی سی روشنی ڈالنے کی کوشش کرونگا اٹھارہویں صدی کے وسط میں سلطنت مغلیہ کا آفتاب مائل بہ غروب تھا اور انگریزی اقتدار کی گھٹائیں دن بدن گاڑھی ہورہی تھیں ، انگریز جب ہندوستان پہنچے تھے تو تاجروں کی حیثیت سے پہنچے تھے اور عام لوگوں نے انھیں ایک معمولی تاجر کے سوا اور کچھ نہیں سمجھا؛ لیکن ان کی نیت صاف نہیں تھی، وہ ہمارے اپنوں کی کمزوریوں اورہماری نااتفاقی سے فائدہ اٹھاکر اپنی شاطرانہ اور عیارانہ چالوں کے ذریعہ یہاں کے سیاہ وسفید کے مالک ہوگئے اور ہندوستانی قوم کو غلامی کی غیر مرئی زنجیروں میں قید کرنے میں کامیاب ہوگئے، یہاں کی دولت و ثروت کوبے دریغ لوٹنے لگے، یہاں کے باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے اور یہاں کی تہذیب سے کھلواڑ کرنے لگے اور اس کا سلسلہ مزید بڑھتا ہی گیا، پانی جب سر سے اوپر ہوگیا، تو ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادیئ وطن کا جذبہ پیدا ہوا اور سب سے پہلے مسلمانوں نے اس خطرے کی سنگینی کو محسوس کیا، نواب سراج الدولہ اور سلطان ٹیپو شہید اور دیگر مسلم فرماں روا اپنی تمام ترقوتوں کے ساتھ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں کود پڑے اور یوں تحریک آزادی کی ابتداء ہوئی پھر یہ تحریک رکی نہیں بلکہ اس نے زور پکڑنا شروع کیا اور اب علماء ہند کفن باندھ کر انگریزوں کو للکار نے لگے اور یہ ایسی جماعت تھی جس کی جفا کشی عزائم و ہمم ، صبر آزمائی ، دور اندیشی اور ایثار و قربانی نے اس دور کی تاریخ کو انقلاب آفریں بنادیا اور مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ، مولانا اسمٰعیل شہید، مولانا عبد الحئی لکھنوی اور آگے چل کر علماء دیوبند ، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمدگنگوہی، حافظ ضامن شہیدتھانوی جیسے پیکر استقلال اور کوہ گراں پیدا ہوئے ، جنھوں نے اپنی تقریروں، تحریروں؛ بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے آزادیئ وطن کی بنیاد رکھی۔
انھیں علماء کرام کی جلائی ہوئی مشعل کی روشنی میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی جس میں ہندوستان کے ہر فرقے کے لوگ شامل تھے؛ لیکن یہ جنگ ناکام ہوئی اور ناکامی کی قیمت سب سے زیادہ مسلمانوں کو چکانی پڑی، تقریبا دولاکھ مسلمان شہید ہوگئے جن میں تقریبا باون ہزارعلماء تھے ان کی جائدادیں لوٹ لی گئیں،اس قدر جانی و مالی نقصان کے باوجود تحریک آزادی کا سلسلہ مختلف شکلوں میں جاری رہااورمجاہدین آزادی کی ترائینگ کے لیے دارالعلوم دیوبند اور جمیعت علماء ہند وغیرہ کاوجود ہوا جس سےبانئ تحریک ریشمی رومال سیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی اور ان کے شاگرد مفتی کفایت اللہ دہلوی مولانا حسین احمد مدنی مولانا زکریا کاندھلوی وغیرہ نے آزادی کے لئے انتھک کوششیں اورتدبیریں اختیار کیں اور بالآخر ہمارا ملک تمام فرقوں ، بالخصوص مسلمانوں اور خاص طور سے علماء کی جہد مسلسل اور پیہم کو شش اور جانی ومالی قربانی کے بعد 15/اگست 1947ء کو آزاد ہوگیا، اور 26/جنوری 1950 ء سےہمارا ملک جمہوری قرار دیا گیا اور دستور کو سیکولر دستورکا نام دیا گیا۔۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی