ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۳
کہیں دیر نہ ہو جائے
حضرت مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب، نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ذاتی اور شخصی کمزوریوں میں ایک بڑی کمزوری کام میں تاخیر کی ہے، ٹال مٹول اور وقت پر کام کر گزرنے کا مزاج اصلا ختم ہوتا جا رہا ہے،دفاتر خواہ سرکاری ہو ں یا غیر سرکاری ان میں دیر سے حاضر ہونا ایک فیشن سا ہو گیا ہے ، سرکاری دفاتر میں یہ معاملہ کچھ زیادہ ہی ہے، پٹنہ میں بعض سرکاری دفاتر کے کارکنان کا نعرہ ہے، ’’بارہ بجے لیٹ نہیں اور تین بجے کے بعد بھینٹ نہیں‘‘ کم کارکنان ہیں جواس اصول سے اپنے کو الگ رکھتے ہیں، غیرسرکاری دفاتر میں چوںکہ داروگیر کا مزاج ہے اور سب کچھ دفتر کے سربراہ اور باس کے رحم وکرم پرہوتا ہے، اس لیے ہٹا دیے جانے اورتنخواہ کٹ جانے کے ڈر سے یہاں تاخیر کا تناسب کم ہوتا ہے، دفتر کے ذمہ داروں نے اس کاحل یہ نکالا کہ حاضری کے لیے مشین کا استعمال کرایا جائے، بھائیوں نے اس کا حل بھی ڈھونڈنکالا اور انگوٹھا لگا کر چلتے رہنے کا چلن عام سا ہو گیا، بات وہیں کی وہیں رہ گئی۔
ذمہ داریوں کی ادائیگی میں تاخیر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور غیر شریفانہ عمل ہے، مہینے بھر میں ایک دو دن تاخیر ہو سکتی ہے، لیکن اس کو معمول بنا لینا غیر شرعی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ اعذا ر بہت سارے بیان کیے جا سکتے ہیں، اور لوگ کرتے ہی رہتے ہیں، لیکن عذر کی پیشی تاخیر سے کام کو انجام دینے اور دفتر میں حاضری کا بدل کسی طور پر نہیں ہے۔اس لیے اس عادت کو جس قدر جلد ہو ترک کرنا چاہیے، تاخیر کیوں ہوتی ہے؟ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ہم کام کے سلسلہ میں سنجیدہ نہیں ہوتے، ہر وقت ذہن ودماغ میں یہ بات گردش کرتی ہے کہ اچھا کرلیں گے نا، ابھی بہت وقت ہے، دفتر چلے جائیں گے نا، بعض لوگ پندرہ پندرہ منٹ پر یاد دہانی کے لیے الارم لگا کر رکھتے ہیں، وقت نکلتا جاتا ہے اور الارم کے بار بار یاد دہانی کاان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، انہیں عین وقت پر کوئی کام یاد آجاتا ہے، بعض لوگ’’ گھورپیٹھ‘‘ کے عادی ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کو دفتر سے نکلنے کے بعد گھر کا کوئی کام یاد آجاتا ہے اور تھوڑی دور چل کر وہ گھر کی طرف چل پڑتے ہیں، ظاہر ہے ایسے میںتاخیر ہونی ہی ہے، اب اگر پوچھیے کہ لیٹ کیوں آتے ہو تو مچل کر کہیں گے کہ ’’میں دیر کرتا نہیں دیر ہوجاتی ہے‘‘۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس پروجکٹ اور منصوبے پر ہم کام کر رہے ہوتے ہیں اور اسے وقت پر مکمل کرکے کمپنی یا ادارے کے حوالہ کرنا ہے، تاخیر کی عادت کی وجہ سے ہمارے اوپر یہ خوف طاری ہوتا ہے کہ شاید ہم اس کام کووقت پر مکمل نہیں کر سکیں گے، اس سوچ سے نفسیاتی طور پر ہمارے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور واقعۃً ہم اس کام کو وقت پر پورا نہیں کر پاتے ، اگر ہم پوری ایمانداری کے ساتھ اس منصوبہ پر وقت کی پابندی کے ساتھ کام کرتے تو کام وقت پر مکمل ہوجاتا اور ہمیں اپنے سے بڑے ذمہ دار کی جھڑکیاں نہیں سننی پڑتیں۔
ٹالنا ایک عادت ہے، اس عادت کی وجہ سے ہی تاخیر ہوتی ہے، بڑوں نے کہا ہے کہ’’ آج کا کام کل پر نہ ڈال، جو کل کرنا ہے اسے آج کراور جو آج کرنا ہے اسے ابھی کر ڈال‘‘، جو لوگ ٹال مٹول کرتے ہیں ان کی قوت ارادی کمزور ہوتی ہے، وہ بعد میں کر لیں گے کا ورد تو کرتے رہتے ہیں، لیکن وہ ’’بعد‘‘ کبھی نہیں آپاتا، جس میں وہ اس کام کے کر گزرنے پر قادر ہوجائیں، کیوں کہ ایسے لوگوں کا ذہن آرام طلب ہوتا ہے وہ جسمانی آرام کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ، یہ آرام طلبی انہیں سست اور کاہل بنا دیتی ہے، اس سے وقتی آرام تو مل جاتا ہے، لیکن نتیجہ کے اعتبار سے بعد میں یہ تکلیف دہ ہوجاتا ہے اور اس کا نقصان کبھی تو اس شخص کو اور کبھی جس ادارے اور تنظیم سے وہ جُرا ہوا ہے اس کو اٹھانا پڑتا ہے۔
نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹالنے اور تاخیر کا بنیادی سبب ہمارا دماغ ہے، ہم جب جذبات میں ہوتے ہیں تو دماغ کا وہ حصہ سر گرم عمل ہوتا ہے جسے طبی زبان میں ’’لِمبک سسٹم ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، دماغ کا ایک دوسرا حصہ پری فنٹل کارٹکس کہلاتا ہے، یہ حصہ منصوبہ بنانے، مقاصد تک پہونچنے اور فیصلہ لینے میں ہماری مدد کرتا ہے، دماغ کے ان دونوں حصوں میں جب کھینچ تان اور کشمکش شروع ہوتی ہے اور پری منٹل کارٹکس اس کشاکش میں مغلوب ہوجاتا ہے اور ِلمبک سسٹم غالب آجاتا ہے تو ہمارے اندر لیٹ لطیفی آجاتی ہے اور ہم ٹال مٹول اور تاخیر کی گاڑی پر سوار ی کرنے لگتے ہیں،اس کی وجہ سے تاخیر تو ہوتی ہے، انسان ذہنی تناؤ کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔
مثل مشہور ہے کہ ’’گاڑی اسٹیشن کے قریب والے کی چھوٹتی ہے‘‘ کیوں کہ ذہنی طور پر آدمی سوچتا ہے کہ تو بغل میں اسٹیشن ہے دس منٹ بھی توجانے میں نہیں لگیں گے، پھر جب ٹرین ٹائم کو آدھا گھنٹہ رہتا ہے تو دماغ میں یہ بات گردش کرتی رہتی ہے کہ ابھی بہت وقت ہے، جب پندرہ منٹ بچ گئے تو بھی فکرنہیں ہوتی ہے جب پانچ منٹ بچ جاتے ہیں تو بھاگم بھاگ ٹرین پکڑنے کی فکر ہوتی ہے اور اب ذہن پر سوال ہوتا ہے کہ کس طرح جلد اسٹیشن پہونچیں اور پھر دماغ فیصلہ کر دیتا ہے کہ ٹرین آگئی اب تو پکڑا ہی نہیں سکتی اس طرح ٹرین تو چلی جاتی ہے اور وہ خود اپنی تاخیر کی وجہ سے منہ دیکھتا رہ جاتا ہے، اب جہاں جانا تھا اس کے لیے بہانے ڈھونڈنے میں ذہنی توانائی صرف ہوتی ہے، توانائی کام کو آگے بڑھانے میں لگنی تھی، وہ بہانے ڈھونڈھنے میں برباد ہوتی رہتی ہے۔
ٹالنے اور تاخیر کے کئی وجوہات ہوا کرتے ہیں، بعض لوگ کام کو اس لیے ٹالتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی اس کام کے کرنے کا وقت ہی نہیں آیا، بعد میں کر لیا جائے گا۔ بعض لوگوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ میرے ذمہ جو کام کیا گیا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے لیے کافی وقت چاہیے، ابھی میرے پاس اتنا وقت ہے ہی نہیں۔ بعضوں میں خوف کی نفسیات اس قدر غالب ہوتی ہے کہ اسے لگتا ہے کہ ہم اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے اس لیے وہ کام کو کل پر ٹالتے رہنے میں عافیت محسوس کرتا ہے، بعضوں میں قوت فیصلہ کی کمی ہوتی ہے، وہ یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ مجھے یہ کام کرنا چاہیے یا نہیں، بعض لوگ کام کو ٹال کر آخر وقت میں بھاگ دوڑ اور جلد بازی کا مزہ لینا چاہتے ہیں۔
ٹال مٹول اور تاخیر کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا اعتماد آپ کی صلاحیت سے ختم ہوجاتا ہے، وہ آپ کو کاہل ناکارہ اوراز کاررفتہ سمجھ کر آپ کے ذمہ کام دینا بند کر دیتے ہیں، ایسے میں آپ کا وقت برباد ہوتا ہے اور آپ بغیر کسی مطلب کے اپنے کو مشغول دکھنا چاہتے ہیں، انگریزی میں اس صورت حال کو بزی فار نتھنگ (Busy for nothing)سے تعبیر کرتے ہیں، اگر آپ کو وقت پر کام کرنے کی عادت نہیں ہے تو آپ ہمیشہ بھاگتے نظر آئیں گے، کام کا خیال آپ پرغالب آئے گا ، لیکن تاخیر کی وجہ سے خوف کی نفسیات آپ پر غالب آجائے گی اور آپ کسی کام کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گھبرائیں گے اور ٹالنے کے لیے سینکڑوں بہانے خود سے تخلیق کر ڈالیں گے، طویل عرصہ تک اگر آپ ایسا کرتے رہے تو آپ کی ہمت پست ہوجائے گی اور دھیرے دھیرے آپ کی توانائی اور کام کرنے کی صلاحیت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ تناؤ ، فکر ، اور قوت ارادی میں کمی آپ کی زندگی کا مقدر ہوجائے گی۔
ٹال مٹول اور کاہلی کو عام طور سے لوگ ایک ہی سمجھتے ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، ٹال مٹول میں آپ ضروری کا م کو چھوڑ کرغیر ضروری کام میںمشغول ہوجاتے ہیں، جب کہ کاہلی اور سستی میں ایسا نہیں ہوتا، سستی میں آدمی کسی کام کے کرنے سے گھبراتا ہے، وہ کام کوٹالتا نہیں ، بلکہ اس میں کام کرنے کی خواہش ہی نہیں ہوتی، مقصد ٹالنا نہیں کام سے گریز کرنا ہوتا ہے۔
ٹال مٹول کی بُری عادت کا خاتمہ ایک دن میں نہیں ہو سکتا، خصوصا اس شکل میں جب ٹال مٹول اور تاخیر اس لت میں مبتلا شخص کے نزدیک معیوب بھی نہ ہو، ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے مرحلہ میں اس بات کو مانے کہ اس کے اندر ٹال مٹول کی بُری عادت موجود ہے، اس اقرار کے بعد جب بھی تاخیر سے کام کرنے یا ٹالنے کا خیال آئے، فوراسر کو جھٹکے اور خود کلامی کے انداز میں کہے کہ مجھے اس کام کو ابھی کرلینا چاہیے کیوں کہ یہ کام بہت اہم ہے، پھر مضبوط قوت ارادی کے ساتھ اس کام کو شروع کر دے، وقت کا انتظار نہ کرے، اس لیے کہ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا، اگر آپ کادماغ کہے کہ اسے اچھے سے کرنا ہے، اعلیٰ درجہ پر لے جانا ہے تو سمجھئے کہ ابھی ٹالنے کی عادت آپ سے رخصت نہیں ہوئی ہے، ایسے موقع سے آپ سوچیے کہ کام نہ ہونے سے بہتر ہے کہ کچھ ہوجائے، آپ کی یہ سوچ آپ کو کام کے لیے تیار کرے گی اور ہو سکتا ہے کہ آپ اس کو اچھے انداز میں بھی کر گذریں۔
ایک جائزہ کے مطابق دنیا کے تقریبا پنچانوے فی صد لوگ ٹال مٹول اور تاخیر والے رویہ کے شکار ہیں، یہ ایک ایسی عادت ہے جس نے مرض کی شکل اختیار کر لی ہے، ہمیں اس مرض سے ہر حال میں نجات پانا چاہیے، نجات پانے کے طریقوں پر اوپر روشنی ڈالی گئی ہے، اس کے علاوہ ایک طریقہ فرانسکو سیریلونے پیش کیا ہے، اس کا اصطلاحی نام پروفیشنل پوموڈ ور و ہے، پوموڈورو اطالوی زبان میں ٹماٹر کے معنی میں آتا ہے، چونکہ سیریلو نے پہلے اسے ٹماٹر سے ملتی جلتی گھڑی کے طو پر پیش کیا تھا، اس لیے اس کا نام پوموڈ ورو رکھا گیا، اس فارمولے کے مطابق تاخیر اور ٹال مٹول کی عادت کو چار مرحلوں میں دور کیا جا سکتاہے، پہلے ایک کام طے کیجئے، پچیس منٹ تک مسلسل اس کام کو کرتے رہیے۔ پچیس منٹ کے بعد پانچ منٹ آرام فرمائیے، اس طرح چار پوموڈور ومکمل کرکے تیس منٹ کا وقفہ لیجئے،لیکن ضروری ہے کہ پچیس ، پچیس منٹ کا جو وقت آپ نے طے کیا ہے اس میں کوئی دوسرا کام نہ کریں حتی کہ فون کا استعمال بھی نہ کریں، تب ٹال مٹول کی عادت آپ کی جاتی رہے گی ۔
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے اسے وقت کی پابندی کے ساتھ نماز کا حکم دیا گیا ہے، ٹال مٹول کرنے والے اگر وقت کی پابندی کے ساتھ با جماعت نماز کا اہتما م کرنے لگیں اور اسے اپنی عملی زندگی میں داخل کر لیں تو کبھی نہ لیٹ ہوں گے اور نہ ہی ٹال مٹول کا مزاج بنے گا، نماز کی پابندی تکبیر اولیٰ اور جماعت کے ساتھ اس کی ادائیگی تاخیر کرنے والوں کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے، نماز کی پابندی عبادت ہی نہیں ہمیں تاخیر اور ٹال مٹول نہ کرنے کا سبق بھی دیتی ہے، کاش میری قوم اسے سمجھ پاتی۔
ذمہ داریوں کی ادائیگی میں تاخیر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور غیر شریفانہ عمل ہے، مہینے بھر میں ایک دو دن تاخیر ہو سکتی ہے، لیکن اس کو معمول بنا لینا غیر شرعی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ اعذا ر بہت سارے بیان کیے جا سکتے ہیں، اور لوگ کرتے ہی رہتے ہیں، لیکن عذر کی پیشی تاخیر سے کام کو انجام دینے اور دفتر میں حاضری کا بدل کسی طور پر نہیں ہے۔اس لیے اس عادت کو جس قدر جلد ہو ترک کرنا چاہیے، تاخیر کیوں ہوتی ہے؟ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ ہم کام کے سلسلہ میں سنجیدہ نہیں ہوتے، ہر وقت ذہن ودماغ میں یہ بات گردش کرتی ہے کہ اچھا کرلیں گے نا، ابھی بہت وقت ہے، دفتر چلے جائیں گے نا، بعض لوگ پندرہ پندرہ منٹ پر یاد دہانی کے لیے الارم لگا کر رکھتے ہیں، وقت نکلتا جاتا ہے اور الارم کے بار بار یاد دہانی کاان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، انہیں عین وقت پر کوئی کام یاد آجاتا ہے، بعض لوگ’’ گھورپیٹھ‘‘ کے عادی ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کو دفتر سے نکلنے کے بعد گھر کا کوئی کام یاد آجاتا ہے اور تھوڑی دور چل کر وہ گھر کی طرف چل پڑتے ہیں، ظاہر ہے ایسے میںتاخیر ہونی ہی ہے، اب اگر پوچھیے کہ لیٹ کیوں آتے ہو تو مچل کر کہیں گے کہ ’’میں دیر کرتا نہیں دیر ہوجاتی ہے‘‘۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس پروجکٹ اور منصوبے پر ہم کام کر رہے ہوتے ہیں اور اسے وقت پر مکمل کرکے کمپنی یا ادارے کے حوالہ کرنا ہے، تاخیر کی عادت کی وجہ سے ہمارے اوپر یہ خوف طاری ہوتا ہے کہ شاید ہم اس کام کووقت پر مکمل نہیں کر سکیں گے، اس سوچ سے نفسیاتی طور پر ہمارے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور واقعۃً ہم اس کام کو وقت پر پورا نہیں کر پاتے ، اگر ہم پوری ایمانداری کے ساتھ اس منصوبہ پر وقت کی پابندی کے ساتھ کام کرتے تو کام وقت پر مکمل ہوجاتا اور ہمیں اپنے سے بڑے ذمہ دار کی جھڑکیاں نہیں سننی پڑتیں۔
ٹالنا ایک عادت ہے، اس عادت کی وجہ سے ہی تاخیر ہوتی ہے، بڑوں نے کہا ہے کہ’’ آج کا کام کل پر نہ ڈال، جو کل کرنا ہے اسے آج کراور جو آج کرنا ہے اسے ابھی کر ڈال‘‘، جو لوگ ٹال مٹول کرتے ہیں ان کی قوت ارادی کمزور ہوتی ہے، وہ بعد میں کر لیں گے کا ورد تو کرتے رہتے ہیں، لیکن وہ ’’بعد‘‘ کبھی نہیں آپاتا، جس میں وہ اس کام کے کر گزرنے پر قادر ہوجائیں، کیوں کہ ایسے لوگوں کا ذہن آرام طلب ہوتا ہے وہ جسمانی آرام کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ، یہ آرام طلبی انہیں سست اور کاہل بنا دیتی ہے، اس سے وقتی آرام تو مل جاتا ہے، لیکن نتیجہ کے اعتبار سے بعد میں یہ تکلیف دہ ہوجاتا ہے اور اس کا نقصان کبھی تو اس شخص کو اور کبھی جس ادارے اور تنظیم سے وہ جُرا ہوا ہے اس کو اٹھانا پڑتا ہے۔
نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹالنے اور تاخیر کا بنیادی سبب ہمارا دماغ ہے، ہم جب جذبات میں ہوتے ہیں تو دماغ کا وہ حصہ سر گرم عمل ہوتا ہے جسے طبی زبان میں ’’لِمبک سسٹم ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، دماغ کا ایک دوسرا حصہ پری فنٹل کارٹکس کہلاتا ہے، یہ حصہ منصوبہ بنانے، مقاصد تک پہونچنے اور فیصلہ لینے میں ہماری مدد کرتا ہے، دماغ کے ان دونوں حصوں میں جب کھینچ تان اور کشمکش شروع ہوتی ہے اور پری منٹل کارٹکس اس کشاکش میں مغلوب ہوجاتا ہے اور ِلمبک سسٹم غالب آجاتا ہے تو ہمارے اندر لیٹ لطیفی آجاتی ہے اور ہم ٹال مٹول اور تاخیر کی گاڑی پر سوار ی کرنے لگتے ہیں،اس کی وجہ سے تاخیر تو ہوتی ہے، انسان ذہنی تناؤ کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔
مثل مشہور ہے کہ ’’گاڑی اسٹیشن کے قریب والے کی چھوٹتی ہے‘‘ کیوں کہ ذہنی طور پر آدمی سوچتا ہے کہ تو بغل میں اسٹیشن ہے دس منٹ بھی توجانے میں نہیں لگیں گے، پھر جب ٹرین ٹائم کو آدھا گھنٹہ رہتا ہے تو دماغ میں یہ بات گردش کرتی رہتی ہے کہ ابھی بہت وقت ہے، جب پندرہ منٹ بچ گئے تو بھی فکرنہیں ہوتی ہے جب پانچ منٹ بچ جاتے ہیں تو بھاگم بھاگ ٹرین پکڑنے کی فکر ہوتی ہے اور اب ذہن پر سوال ہوتا ہے کہ کس طرح جلد اسٹیشن پہونچیں اور پھر دماغ فیصلہ کر دیتا ہے کہ ٹرین آگئی اب تو پکڑا ہی نہیں سکتی اس طرح ٹرین تو چلی جاتی ہے اور وہ خود اپنی تاخیر کی وجہ سے منہ دیکھتا رہ جاتا ہے، اب جہاں جانا تھا اس کے لیے بہانے ڈھونڈنے میں ذہنی توانائی صرف ہوتی ہے، توانائی کام کو آگے بڑھانے میں لگنی تھی، وہ بہانے ڈھونڈھنے میں برباد ہوتی رہتی ہے۔
ٹالنے اور تاخیر کے کئی وجوہات ہوا کرتے ہیں، بعض لوگ کام کو اس لیے ٹالتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ابھی اس کام کے کرنے کا وقت ہی نہیں آیا، بعد میں کر لیا جائے گا۔ بعض لوگوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ میرے ذمہ جو کام کیا گیا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے لیے کافی وقت چاہیے، ابھی میرے پاس اتنا وقت ہے ہی نہیں۔ بعضوں میں خوف کی نفسیات اس قدر غالب ہوتی ہے کہ اسے لگتا ہے کہ ہم اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے اس لیے وہ کام کو کل پر ٹالتے رہنے میں عافیت محسوس کرتا ہے، بعضوں میں قوت فیصلہ کی کمی ہوتی ہے، وہ یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ مجھے یہ کام کرنا چاہیے یا نہیں، بعض لوگ کام کو ٹال کر آخر وقت میں بھاگ دوڑ اور جلد بازی کا مزہ لینا چاہتے ہیں۔
ٹال مٹول اور تاخیر کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کا اعتماد آپ کی صلاحیت سے ختم ہوجاتا ہے، وہ آپ کو کاہل ناکارہ اوراز کاررفتہ سمجھ کر آپ کے ذمہ کام دینا بند کر دیتے ہیں، ایسے میں آپ کا وقت برباد ہوتا ہے اور آپ بغیر کسی مطلب کے اپنے کو مشغول دکھنا چاہتے ہیں، انگریزی میں اس صورت حال کو بزی فار نتھنگ (Busy for nothing)سے تعبیر کرتے ہیں، اگر آپ کو وقت پر کام کرنے کی عادت نہیں ہے تو آپ ہمیشہ بھاگتے نظر آئیں گے، کام کا خیال آپ پرغالب آئے گا ، لیکن تاخیر کی وجہ سے خوف کی نفسیات آپ پر غالب آجائے گی اور آپ کسی کام کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گھبرائیں گے اور ٹالنے کے لیے سینکڑوں بہانے خود سے تخلیق کر ڈالیں گے، طویل عرصہ تک اگر آپ ایسا کرتے رہے تو آپ کی ہمت پست ہوجائے گی اور دھیرے دھیرے آپ کی توانائی اور کام کرنے کی صلاحیت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ تناؤ ، فکر ، اور قوت ارادی میں کمی آپ کی زندگی کا مقدر ہوجائے گی۔
ٹال مٹول اور کاہلی کو عام طور سے لوگ ایک ہی سمجھتے ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، ٹال مٹول میں آپ ضروری کا م کو چھوڑ کرغیر ضروری کام میںمشغول ہوجاتے ہیں، جب کہ کاہلی اور سستی میں ایسا نہیں ہوتا، سستی میں آدمی کسی کام کے کرنے سے گھبراتا ہے، وہ کام کوٹالتا نہیں ، بلکہ اس میں کام کرنے کی خواہش ہی نہیں ہوتی، مقصد ٹالنا نہیں کام سے گریز کرنا ہوتا ہے۔
ٹال مٹول کی بُری عادت کا خاتمہ ایک دن میں نہیں ہو سکتا، خصوصا اس شکل میں جب ٹال مٹول اور تاخیر اس لت میں مبتلا شخص کے نزدیک معیوب بھی نہ ہو، ایسے شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے مرحلہ میں اس بات کو مانے کہ اس کے اندر ٹال مٹول کی بُری عادت موجود ہے، اس اقرار کے بعد جب بھی تاخیر سے کام کرنے یا ٹالنے کا خیال آئے، فوراسر کو جھٹکے اور خود کلامی کے انداز میں کہے کہ مجھے اس کام کو ابھی کرلینا چاہیے کیوں کہ یہ کام بہت اہم ہے، پھر مضبوط قوت ارادی کے ساتھ اس کام کو شروع کر دے، وقت کا انتظار نہ کرے، اس لیے کہ گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا، اگر آپ کادماغ کہے کہ اسے اچھے سے کرنا ہے، اعلیٰ درجہ پر لے جانا ہے تو سمجھئے کہ ابھی ٹالنے کی عادت آپ سے رخصت نہیں ہوئی ہے، ایسے موقع سے آپ سوچیے کہ کام نہ ہونے سے بہتر ہے کہ کچھ ہوجائے، آپ کی یہ سوچ آپ کو کام کے لیے تیار کرے گی اور ہو سکتا ہے کہ آپ اس کو اچھے انداز میں بھی کر گذریں۔
ایک جائزہ کے مطابق دنیا کے تقریبا پنچانوے فی صد لوگ ٹال مٹول اور تاخیر والے رویہ کے شکار ہیں، یہ ایک ایسی عادت ہے جس نے مرض کی شکل اختیار کر لی ہے، ہمیں اس مرض سے ہر حال میں نجات پانا چاہیے، نجات پانے کے طریقوں پر اوپر روشنی ڈالی گئی ہے، اس کے علاوہ ایک طریقہ فرانسکو سیریلونے پیش کیا ہے، اس کا اصطلاحی نام پروفیشنل پوموڈ ور و ہے، پوموڈورو اطالوی زبان میں ٹماٹر کے معنی میں آتا ہے، چونکہ سیریلو نے پہلے اسے ٹماٹر سے ملتی جلتی گھڑی کے طو پر پیش کیا تھا، اس لیے اس کا نام پوموڈ ورو رکھا گیا، اس فارمولے کے مطابق تاخیر اور ٹال مٹول کی عادت کو چار مرحلوں میں دور کیا جا سکتاہے، پہلے ایک کام طے کیجئے، پچیس منٹ تک مسلسل اس کام کو کرتے رہیے۔ پچیس منٹ کے بعد پانچ منٹ آرام فرمائیے، اس طرح چار پوموڈور ومکمل کرکے تیس منٹ کا وقفہ لیجئے،لیکن ضروری ہے کہ پچیس ، پچیس منٹ کا جو وقت آپ نے طے کیا ہے اس میں کوئی دوسرا کام نہ کریں حتی کہ فون کا استعمال بھی نہ کریں، تب ٹال مٹول کی عادت آپ کی جاتی رہے گی ۔
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے اسے وقت کی پابندی کے ساتھ نماز کا حکم دیا گیا ہے، ٹال مٹول کرنے والے اگر وقت کی پابندی کے ساتھ با جماعت نماز کا اہتما م کرنے لگیں اور اسے اپنی عملی زندگی میں داخل کر لیں تو کبھی نہ لیٹ ہوں گے اور نہ ہی ٹال مٹول کا مزاج بنے گا، نماز کی پابندی تکبیر اولیٰ اور جماعت کے ساتھ اس کی ادائیگی تاخیر کرنے والوں کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے، نماز کی پابندی عبادت ہی نہیں ہمیں تاخیر اور ٹال مٹول نہ کرنے کا سبق بھی دیتی ہے، کاش میری قوم اسے سمجھ پاتی۔