ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۳
میری زندگی کا مقصد!
حضرت مفتی خالد انور صاحب مظاہری،ایڈیٹر "ترجمان ملت" و استاذ حدیث و فقہ:جامعہ مدنیہ،سبل پور،پٹنہ
صبح کے نو بجے اٹھنا، دس بجے آفس یاکسی اور ڈیوٹی پر جانا، تین بجے واپس گھر لوٹنا، شام کو مارکیٹ کرنا، رات کو ہوٹل جانا، پھر بارہ بجے سوجانا، کیا زندگی کا یہی مقصد ہے ؟کھانے ،پینے، کمانے ہی کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں؟ دن اور رات کے 24 گھنٹے میں سے کچھ منٹ ہمیں اس کام کےلئے فارغ کرنا چاہئے کہ اپنا احتساب کریں،اور سوچیں کہ ہمارے رب نے ہمیں کیوں پیدا کیا ہے ؟ خالق کائنات نے ہماری تخلیق کیوں فرمائی ہے؟ اس کو سمجھے، جانے، اور اس پر عمل کئے بغیر ہماری زندگی کامیاب نہیں ہوسکتی ہے ۔
ہمیں اس بات پر فخرہے کہ ہم مسلمان ہیں، اور آخری رسول،محمدعربی ﷺ کی امتی ہیں،رب نے ہمیں ایک آئینی اور دستوری کتاب بھی دی ہے، کسی بھی طرح کی تبدیلیوں سے وہ کتاب محفوظ بھی ہے اور قیامت تک اسے محفوظ بھی رہنا ہے،اسی مقدس، محترم اور سب سے زیادہ پاکیزہ کتاب قرآن کریم کے پَنوں اور مبارک آیتوں میں اگر ہم تلاش کریں توہمیں اس سوال کا بہت ہی واضح انداز میں جواب نظر آجائے گا کہ رب نے ہماری تخلیق کیوںفرمائی ہے؟سورہ آل عمران کی آیت نمبر (110)میں اللہ تبارک تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:۔ تم بہترین امت ہو ، پوری انسانیت کےلئے پیدا کی گئی ہو کہ بھلائی کا حکم دو، برائی سے روکو، اور اللہ پر ایمان لاؤ، یعنی آپ خیر امت ہیں ،صرف اپنے لئے نہیں؛بلکہ انسانوں کی بھلائی، فلاح اور بہبود کے لئے پیداکی گئی ہیں، تمہاراکام یہ ہے کہ خود بھی اللہ پر ایمان لاؤ ،دوسروں کو بھی بھلائی کی طرف بلاؤ، اور برائیوں سے روکو، یعنی تینوں امورضروری ہیں،اللہ پر ایمان لانا،دوسروں کو برائیوں سے روکنا،اور اچھائی کا راستی دکھلانا،ان میں سے کسی بھی کام کو چھوڑے بغیر رب کی رضا مندی حاصل نہیں ہوسکتی ہے اور نہ ترقی کے منازل کو ہم طے کرسکتے ہیں۔
نبی کریمﷺ کی آمد سے قبل پوری دنیا تاریکی میں تھی، ظلمت میں تھی، سارے ہی لوگ گناہوں کے دلدل میں پھنسے ہوئے تھے، اور لاکھوں میں ایک، آدھ اگر بچے ہوئے بھی تھے تو انہیں فکر صرف اپنی تھی، دوسروں کی اصلاح،ہدایت اور رہنمائی سے کوئی مطلب ہی نہیں تھا، بلکہ یہ کہتے ہوئے جنگل میں چلے جاتے کہ یہ دنیا بڑی پاپی ہے ، ہم اس سماج میں نہیں رہ سکتے، اس کے نتیجہ میں ظلمت وتاریکی میں حد درجہ اضافہ ہوگیا، خشکی اور تری میں ، سمندر اور اس کے جزیروں میں فساد پھیل گیا، لوگوں کے قلوب تاریک درتاریک ہوگئے، تلاش کرنے سے بھی کوئی ایسا آدمی نہ ملتا، جس کے دل میں خداکی سچی معرفت اور انسانیت کا درد ہو، پھر اللہ کی رحمت جو ش میں آئی، اور عرب کی سرزمین میں، یعنی ان پڑھوں میں محمدبن عبداللہ ﷺ کو قوموںکی اصلاح،تبلیغ اور دعوت کے لئے رسول اور نبی بناکرمبعوث فرمایا۔
یہ ایسی جگہ تھی کہ یہاںکے لوگ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے خداؤں کو پوج رہے تھے، انہیں اصلی خالق اور مالک کی طرف بلانا کوئی آسان کام نہیں تھا، خانہ کعبہ میں 360 بت رکھے ہوئے تھے، کوئی چھوٹا تھا ، کوئی بڑا، مگر وہاں ایک خدا کی طرف دعوت دیناکتنا مشکل کام تھا، اس کے باوجود اللہ کے رسول ﷺنے ہمت نہ ہاری ، مصائب و آلام کی چکی میں پستے رہے، لیکن لوگوں تک اسلام کے پیغام کو پہونچانے میں کسی طرح کی سستی گوارہ نہ کیا، اسکے نتیجہ میں ایک بہت ہی فرمانبردار جماعت تیار ہوگئی، اور وہ تھی حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت، اس جماعت میں امیر بھی تھے، غریب بھی تھے، تاجر بھی تھے، یہاں تک کہ آزاد اور غلام بھی، جو امیر تھے امارت چھوڑ دی، جو غریب تھے اپنا جھونپڑا چھوڑ دیا، جو چھوٹے دکاندار تھے دکان چھوڑدی، جو اعلی درجے کا لباس پہنے ہوئے تھے اپنے لباس سے بے پرواہ ہوگئے۔
یقینایہ دیکھنے میں مٹھی بھر جماعت تھی، لیکن دنیاکے بگاڑ کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آگئی، وہ آگ جو پوری دنیا کوبھسم کر رہی تھی، اس کو بجھانے کے لئے اس چھوٹی سی جماعت نے اپنے آپ کوآگ میں جھونک دیا، بغیر سوچے، سمجھے، مخلصانہ جذبوں کے تحت اس میں کو دگئے، آگے بڑھے اور پھر 23 سال کے مختصر اور قلیل عرصہ میں پوری دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجنے لگا،آج ہمارے سروں پر ٹوپی،چہرہ پر داڑھی،پنج وقتہ نماز کے لئے مسجدوںمیں حاضری،مسجدوںکے میناروں سے کلمہ توحیدکا اقرا رواعلان،رب کی کبریائی کا اظہار ، غرض اسلام اور اس کی تعلیمات کے حوالہ سے جوکچھ بھی رنگ ورونق میسر ہے،وہ انہیں کی قربانیوںکا ثمرہ ہے ۔
حضراتِ صحابہ کرام نے جس طرح دعوت دین کیلئےکوششیں کیں وہ ہم سب کے لئے قابلِ تقلیداور نمونہ عمل ہے،ہمیں یہ جاننااورسمجھناچاہئیے کہ دیگرفرائض کی طرح دعوت دین بھی ہم پرلازم اور ضروری ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ ارشادفرماتے ہیں :مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،تم ضرور بالضرور نیکی کاحکم دوگے،اور گناہوںسےروکوگے،یاپھر اللہ اپنے یہاں سے تم پر عذاب بھیج دے گا،تم دعائیں کروگے لیکن تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوںگی۔ایک اورموقع پراس سے بھی واضح اندازمیں اللہ کے رسولﷺ نے ارشادفرمایا:اللہ عزوجل کچھ لوگوں کے عمل بدکی وجہ سے سب لوگوں کومبتلائے عذاب نہیں کرتے اورجب وہ اپنے میں سے کچھ کوگناہ کرتے دیکھیں اورانہیں گناہ سے روکنے کی بھی ان میں استطاعت ہو،لیکن پھربھی نہ روکیں تواللہ عزوجل تمام خاص وعام پرعذاب نازل فرماتے ہیں۔
جولوگ دعوت دین کے کاموںمیں مصروف رہتے ہیں ،لوگوںکو خیروبھلائی کی طرف بلاتے ہیں،اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل کرتے ہیں،اللہ کے فرشتے،اہل آسمان،اہل زمین ،بلکہ چیونٹیاں اور مچھلیاں ایسے آدمی کے لئے نزول رحمت کی دعائیں کرتی ہیں۔
ہمیں اس دعاکاحصہ بنناچائیے اوریہ سمجھناچائیے کہ دعوت دین کے ذریعہ ہی اس سرزمین کو پر امن بناسکتے ہیں، ہم پرظلم کرنے والوں کواپنادوست،اورفتنہ وفسادکاخاتمہ کرسکتے ہیں،اگرآج ہم نے اس کیلئے تدبیریں نہ سوچیں،اوردیگربرادران وطن تک اسلام کے پیغام امن کونہ پہونچایا،اوراپنے بھائیوں کواسلام پرمضبوطی سے قائم رکھنے کی فکرنہ کی،توآنے والاکل بڑاخطرناک ثابت ہوسکتاہے۔
آپ اندلس کی پوری تاریخ کوپڑھئے !وہاں زوال کیوںآیا؟مورخین لکھتے ہیں: کہ اسلام کے زوال کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھاکہ دعوت وتبلیغ کی طرف سے وہ لوگ غافل ہوگئے تھے،نہ اللہ کے بندوں کومسلمان بنانے کی فکرتھی،اورنہ ہی اپنےمومن بھائیوں کے ایمان کو بچانے کی فکرتھی،عیش وعشرت میں پڑے رہے ، یہاں تک کہ وہ کمزور ہوتے چلے گئے،اور اللہ کاحکم آیاکہ یہاں سے نکل جاؤ!
ملک برما میں کیاہوا؟حضرت مولاناعلی میاںندوی صاحبؒ کا وہ خطاب آج بھی تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے جو انہوں نے ملک برماکی دارالحکومت رنگون میں کیاتھا،فرمایاتھا:کہ تم دوکام کرلو،مسلمانوںکو اسلام پر پختہ کرلو،اورغیروںکو اسلام کی طرف مائل کردو،یہ کام اگرتم نے کرلیاتو اپنے اوپراحسان کروگے،اسلام پر یاکسی دوسرے پر نہیں۔اسپین اوراندلس کے زوال کی داستان بھی سنائی؛مگرلوگوں نے نہ مانا،اس کے نتیجہ میں وہاں فوجی انقلاب آیا،اور جو صبح کے وقت مالدار تھے،دوپہر کو غریب ہوگئے،اور دانہ دانہ کو ترسنے لگے۔
مسلمانو! ہندوستان ہمارا ملک ہے،اس کے لئے ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں،حکومت چونکہ ہمارے ہاتھوںسے چھینی گئی تھی اس لئے سب سے زیادہ ہمیں ہی مشق ستم بنایاگیا،تختہ دار پر ہم ہی پہلے چڑھائے گئے،نہ جانے کتنی ماؤں نے جگرکے ٹکروں کو اس ملک کی آزادی کے لئے قربان کیا،دوسوسال کی طویل جدوجہد کے بعد یہ ملک آزادہوا،اور آزادی کے آج 75سال بیت گئے،آج بھی ہم سے ہمارے وجود کے بارے میں سوال کیاجاتاہے؟ سرعام لنچنگ کردی جاتی ہے،جس کے لئے ہم نے جان،مال،عزت وآبرو،ایک ایک چیز کی قربانی دی، آج ہمیں یہ ثابت کرناپڑرہاہے کہ ہم بھی اس ملک کے محب وطن اور باعزت شہری ہیں ، اس کامطلب واضح ہے کہ آزادی کے بعد ہم نے یقیناتجارت میں ترقی کی،کاروبارکو بڑھایا،پیسے کمائے،مال ودولت میں اضافہ کیا،یعنی ضروریات زندگی کے لئے بہت کچھ کیا؛لیکن مقصد زندگی کوبھول گئے!
ہم یہ نہیں کہ رہے کہ آپ دنیاکاکام چھوڑدیں،تجارت،ملازمت،زراعت،دیگرکاروبار بھی ضروری ہیں، مگر ان تمام میدانوں میں اس بات کو مت بھولئے کہ آپ اگر ایک مسلمان ہیں تو ایک داعی بھی ہیں،اور دین کاداعی جو بھی کام کرتاہے،ان کاہرعمل دین کی طرف دعوت دینے والاہوتاہے،بہترین اخلاق،اور کردار اس بات کی ترجمانی کرے کہ واقعی آپ ایک داعی ہیں،جہاں موقع ملے اسلام کی خوبیوں اور اس کے محاسن کو بیان کرتے ہوئے چوکئے نہیں،اس کے مفیداثرات آپ ضرورمحسوس کریں گے اوراپنی آنکھوں سے آپ خود دیکھیں گے کہ یہ دنیا آپ کو جھک کر سلام کررہی ہے!
دونوںکام ضروری ہیں،تبلیغ دین بھی اوراپنے مسلمان بھائیوں کی اصلاح بھی،اور دونوں ہی دعوتِ دین کا حصہ ہے،طریقہ جو بھی ہو،مگر جس طرح یہ ضرروی ہے کہ انسانوں کو شرک اور بت پرستی سے بچایاجائے ، ہمارے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ ہمارے وہ کلمہ گو بھائی جو مسلمان ہونے کے باوجود مسجدوں سے دور ہیں،نماز، روزہ، طہارت اور دیگر فرائض واجبات سے واقف نہیں ہیں،یاواقف ہیں،لیکن بے پرواہ ہیں؟انہیں تعلیماتِ اسلامی کے قریب کریں،یہ بھی ہمارے فرائض کا ہی حصہ ہے،اور جو لوگ بھی اس ا ہم فریضہ کو انجام دے رہے ہیں،یقینامبارکبادی کے مستحق ہیں۔
1857 کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد ہمارے بزرگوں نے انگریزی فتنوں کا مقابلہ کرنے، اور اسلامی تہذیب وثقافت کی جڑوں کومضبوط کرنے کے لئے بڑی تعدادمیں مدارس اسلامیہ کا قیام عمل میں لایا،یہ مدرسے آج بھی اسی مشن پر قائم ہیں،اور تبلیغ دین کا اہم ذریعہ ہیں،مسلسل لاک ڈاؤن اور کروناوائرس کی مہاماری کی وجہ سے گرچہ ان کی مالی حالت بہت اچھی نہیں ہے،مگر اس کے باجود یہ امت مسلمہ کے لئےغنیمت ہیں،اور ہندوستان میں ہمارے وجود اور ہماری تہذیب وثقافت کوباقی رکھنے کے لئے ان کاوجود باقی رہنا بیحد ضروری ہے۔میری زندگی کامقصد تیرے دیںکی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی
ہمیں اس بات پر فخرہے کہ ہم مسلمان ہیں، اور آخری رسول،محمدعربی ﷺ کی امتی ہیں،رب نے ہمیں ایک آئینی اور دستوری کتاب بھی دی ہے، کسی بھی طرح کی تبدیلیوں سے وہ کتاب محفوظ بھی ہے اور قیامت تک اسے محفوظ بھی رہنا ہے،اسی مقدس، محترم اور سب سے زیادہ پاکیزہ کتاب قرآن کریم کے پَنوں اور مبارک آیتوں میں اگر ہم تلاش کریں توہمیں اس سوال کا بہت ہی واضح انداز میں جواب نظر آجائے گا کہ رب نے ہماری تخلیق کیوںفرمائی ہے؟سورہ آل عمران کی آیت نمبر (110)میں اللہ تبارک تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:۔ تم بہترین امت ہو ، پوری انسانیت کےلئے پیدا کی گئی ہو کہ بھلائی کا حکم دو، برائی سے روکو، اور اللہ پر ایمان لاؤ، یعنی آپ خیر امت ہیں ،صرف اپنے لئے نہیں؛بلکہ انسانوں کی بھلائی، فلاح اور بہبود کے لئے پیداکی گئی ہیں، تمہاراکام یہ ہے کہ خود بھی اللہ پر ایمان لاؤ ،دوسروں کو بھی بھلائی کی طرف بلاؤ، اور برائیوں سے روکو، یعنی تینوں امورضروری ہیں،اللہ پر ایمان لانا،دوسروں کو برائیوں سے روکنا،اور اچھائی کا راستی دکھلانا،ان میں سے کسی بھی کام کو چھوڑے بغیر رب کی رضا مندی حاصل نہیں ہوسکتی ہے اور نہ ترقی کے منازل کو ہم طے کرسکتے ہیں۔
نبی کریمﷺ کی آمد سے قبل پوری دنیا تاریکی میں تھی، ظلمت میں تھی، سارے ہی لوگ گناہوں کے دلدل میں پھنسے ہوئے تھے، اور لاکھوں میں ایک، آدھ اگر بچے ہوئے بھی تھے تو انہیں فکر صرف اپنی تھی، دوسروں کی اصلاح،ہدایت اور رہنمائی سے کوئی مطلب ہی نہیں تھا، بلکہ یہ کہتے ہوئے جنگل میں چلے جاتے کہ یہ دنیا بڑی پاپی ہے ، ہم اس سماج میں نہیں رہ سکتے، اس کے نتیجہ میں ظلمت وتاریکی میں حد درجہ اضافہ ہوگیا، خشکی اور تری میں ، سمندر اور اس کے جزیروں میں فساد پھیل گیا، لوگوں کے قلوب تاریک درتاریک ہوگئے، تلاش کرنے سے بھی کوئی ایسا آدمی نہ ملتا، جس کے دل میں خداکی سچی معرفت اور انسانیت کا درد ہو، پھر اللہ کی رحمت جو ش میں آئی، اور عرب کی سرزمین میں، یعنی ان پڑھوں میں محمدبن عبداللہ ﷺ کو قوموںکی اصلاح،تبلیغ اور دعوت کے لئے رسول اور نبی بناکرمبعوث فرمایا۔
یہ ایسی جگہ تھی کہ یہاںکے لوگ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے خداؤں کو پوج رہے تھے، انہیں اصلی خالق اور مالک کی طرف بلانا کوئی آسان کام نہیں تھا، خانہ کعبہ میں 360 بت رکھے ہوئے تھے، کوئی چھوٹا تھا ، کوئی بڑا، مگر وہاں ایک خدا کی طرف دعوت دیناکتنا مشکل کام تھا، اس کے باوجود اللہ کے رسول ﷺنے ہمت نہ ہاری ، مصائب و آلام کی چکی میں پستے رہے، لیکن لوگوں تک اسلام کے پیغام کو پہونچانے میں کسی طرح کی سستی گوارہ نہ کیا، اسکے نتیجہ میں ایک بہت ہی فرمانبردار جماعت تیار ہوگئی، اور وہ تھی حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت، اس جماعت میں امیر بھی تھے، غریب بھی تھے، تاجر بھی تھے، یہاں تک کہ آزاد اور غلام بھی، جو امیر تھے امارت چھوڑ دی، جو غریب تھے اپنا جھونپڑا چھوڑ دیا، جو چھوٹے دکاندار تھے دکان چھوڑدی، جو اعلی درجے کا لباس پہنے ہوئے تھے اپنے لباس سے بے پرواہ ہوگئے۔
یقینایہ دیکھنے میں مٹھی بھر جماعت تھی، لیکن دنیاکے بگاڑ کا مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آگئی، وہ آگ جو پوری دنیا کوبھسم کر رہی تھی، اس کو بجھانے کے لئے اس چھوٹی سی جماعت نے اپنے آپ کوآگ میں جھونک دیا، بغیر سوچے، سمجھے، مخلصانہ جذبوں کے تحت اس میں کو دگئے، آگے بڑھے اور پھر 23 سال کے مختصر اور قلیل عرصہ میں پوری دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجنے لگا،آج ہمارے سروں پر ٹوپی،چہرہ پر داڑھی،پنج وقتہ نماز کے لئے مسجدوںمیں حاضری،مسجدوںکے میناروں سے کلمہ توحیدکا اقرا رواعلان،رب کی کبریائی کا اظہار ، غرض اسلام اور اس کی تعلیمات کے حوالہ سے جوکچھ بھی رنگ ورونق میسر ہے،وہ انہیں کی قربانیوںکا ثمرہ ہے ۔
حضراتِ صحابہ کرام نے جس طرح دعوت دین کیلئےکوششیں کیں وہ ہم سب کے لئے قابلِ تقلیداور نمونہ عمل ہے،ہمیں یہ جاننااورسمجھناچاہئیے کہ دیگرفرائض کی طرح دعوت دین بھی ہم پرلازم اور ضروری ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ ارشادفرماتے ہیں :مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے،تم ضرور بالضرور نیکی کاحکم دوگے،اور گناہوںسےروکوگے،یاپھر اللہ اپنے یہاں سے تم پر عذاب بھیج دے گا،تم دعائیں کروگے لیکن تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوںگی۔ایک اورموقع پراس سے بھی واضح اندازمیں اللہ کے رسولﷺ نے ارشادفرمایا:اللہ عزوجل کچھ لوگوں کے عمل بدکی وجہ سے سب لوگوں کومبتلائے عذاب نہیں کرتے اورجب وہ اپنے میں سے کچھ کوگناہ کرتے دیکھیں اورانہیں گناہ سے روکنے کی بھی ان میں استطاعت ہو،لیکن پھربھی نہ روکیں تواللہ عزوجل تمام خاص وعام پرعذاب نازل فرماتے ہیں۔
جولوگ دعوت دین کے کاموںمیں مصروف رہتے ہیں ،لوگوںکو خیروبھلائی کی طرف بلاتے ہیں،اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل کرتے ہیں،اللہ کے فرشتے،اہل آسمان،اہل زمین ،بلکہ چیونٹیاں اور مچھلیاں ایسے آدمی کے لئے نزول رحمت کی دعائیں کرتی ہیں۔
ہمیں اس دعاکاحصہ بنناچائیے اوریہ سمجھناچائیے کہ دعوت دین کے ذریعہ ہی اس سرزمین کو پر امن بناسکتے ہیں، ہم پرظلم کرنے والوں کواپنادوست،اورفتنہ وفسادکاخاتمہ کرسکتے ہیں،اگرآج ہم نے اس کیلئے تدبیریں نہ سوچیں،اوردیگربرادران وطن تک اسلام کے پیغام امن کونہ پہونچایا،اوراپنے بھائیوں کواسلام پرمضبوطی سے قائم رکھنے کی فکرنہ کی،توآنے والاکل بڑاخطرناک ثابت ہوسکتاہے۔
آپ اندلس کی پوری تاریخ کوپڑھئے !وہاں زوال کیوںآیا؟مورخین لکھتے ہیں: کہ اسلام کے زوال کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھاکہ دعوت وتبلیغ کی طرف سے وہ لوگ غافل ہوگئے تھے،نہ اللہ کے بندوں کومسلمان بنانے کی فکرتھی،اورنہ ہی اپنےمومن بھائیوں کے ایمان کو بچانے کی فکرتھی،عیش وعشرت میں پڑے رہے ، یہاں تک کہ وہ کمزور ہوتے چلے گئے،اور اللہ کاحکم آیاکہ یہاں سے نکل جاؤ!
ملک برما میں کیاہوا؟حضرت مولاناعلی میاںندوی صاحبؒ کا وہ خطاب آج بھی تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے جو انہوں نے ملک برماکی دارالحکومت رنگون میں کیاتھا،فرمایاتھا:کہ تم دوکام کرلو،مسلمانوںکو اسلام پر پختہ کرلو،اورغیروںکو اسلام کی طرف مائل کردو،یہ کام اگرتم نے کرلیاتو اپنے اوپراحسان کروگے،اسلام پر یاکسی دوسرے پر نہیں۔اسپین اوراندلس کے زوال کی داستان بھی سنائی؛مگرلوگوں نے نہ مانا،اس کے نتیجہ میں وہاں فوجی انقلاب آیا،اور جو صبح کے وقت مالدار تھے،دوپہر کو غریب ہوگئے،اور دانہ دانہ کو ترسنے لگے۔
مسلمانو! ہندوستان ہمارا ملک ہے،اس کے لئے ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں،حکومت چونکہ ہمارے ہاتھوںسے چھینی گئی تھی اس لئے سب سے زیادہ ہمیں ہی مشق ستم بنایاگیا،تختہ دار پر ہم ہی پہلے چڑھائے گئے،نہ جانے کتنی ماؤں نے جگرکے ٹکروں کو اس ملک کی آزادی کے لئے قربان کیا،دوسوسال کی طویل جدوجہد کے بعد یہ ملک آزادہوا،اور آزادی کے آج 75سال بیت گئے،آج بھی ہم سے ہمارے وجود کے بارے میں سوال کیاجاتاہے؟ سرعام لنچنگ کردی جاتی ہے،جس کے لئے ہم نے جان،مال،عزت وآبرو،ایک ایک چیز کی قربانی دی، آج ہمیں یہ ثابت کرناپڑرہاہے کہ ہم بھی اس ملک کے محب وطن اور باعزت شہری ہیں ، اس کامطلب واضح ہے کہ آزادی کے بعد ہم نے یقیناتجارت میں ترقی کی،کاروبارکو بڑھایا،پیسے کمائے،مال ودولت میں اضافہ کیا،یعنی ضروریات زندگی کے لئے بہت کچھ کیا؛لیکن مقصد زندگی کوبھول گئے!
ہم یہ نہیں کہ رہے کہ آپ دنیاکاکام چھوڑدیں،تجارت،ملازمت،زراعت،دیگرکاروبار بھی ضروری ہیں، مگر ان تمام میدانوں میں اس بات کو مت بھولئے کہ آپ اگر ایک مسلمان ہیں تو ایک داعی بھی ہیں،اور دین کاداعی جو بھی کام کرتاہے،ان کاہرعمل دین کی طرف دعوت دینے والاہوتاہے،بہترین اخلاق،اور کردار اس بات کی ترجمانی کرے کہ واقعی آپ ایک داعی ہیں،جہاں موقع ملے اسلام کی خوبیوں اور اس کے محاسن کو بیان کرتے ہوئے چوکئے نہیں،اس کے مفیداثرات آپ ضرورمحسوس کریں گے اوراپنی آنکھوں سے آپ خود دیکھیں گے کہ یہ دنیا آپ کو جھک کر سلام کررہی ہے!
دونوںکام ضروری ہیں،تبلیغ دین بھی اوراپنے مسلمان بھائیوں کی اصلاح بھی،اور دونوں ہی دعوتِ دین کا حصہ ہے،طریقہ جو بھی ہو،مگر جس طرح یہ ضرروی ہے کہ انسانوں کو شرک اور بت پرستی سے بچایاجائے ، ہمارے لئے یہ بھی لازمی ہے کہ ہمارے وہ کلمہ گو بھائی جو مسلمان ہونے کے باوجود مسجدوں سے دور ہیں،نماز، روزہ، طہارت اور دیگر فرائض واجبات سے واقف نہیں ہیں،یاواقف ہیں،لیکن بے پرواہ ہیں؟انہیں تعلیماتِ اسلامی کے قریب کریں،یہ بھی ہمارے فرائض کا ہی حصہ ہے،اور جو لوگ بھی اس ا ہم فریضہ کو انجام دے رہے ہیں،یقینامبارکبادی کے مستحق ہیں۔
1857 کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد ہمارے بزرگوں نے انگریزی فتنوں کا مقابلہ کرنے، اور اسلامی تہذیب وثقافت کی جڑوں کومضبوط کرنے کے لئے بڑی تعدادمیں مدارس اسلامیہ کا قیام عمل میں لایا،یہ مدرسے آج بھی اسی مشن پر قائم ہیں،اور تبلیغ دین کا اہم ذریعہ ہیں،مسلسل لاک ڈاؤن اور کروناوائرس کی مہاماری کی وجہ سے گرچہ ان کی مالی حالت بہت اچھی نہیں ہے،مگر اس کے باجود یہ امت مسلمہ کے لئےغنیمت ہیں،اور ہندوستان میں ہمارے وجود اور ہماری تہذیب وثقافت کوباقی رکھنے کے لئے ان کاوجود باقی رہنا بیحد ضروری ہے۔
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی