ماہنامہ الفاران

ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۳

علماء اور وقت کی قدر دانی

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب المعہد العالی الاسلامی( حیدرآباد)


وقت اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ خود اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کتنے ہی مقامات پر وقت کی قسم کھائی ہے ، کبھی رات اور صبح کی قسم کھائی گئی ( لیل : ۱-۲ ، مدثر : ۳۳-۳۴ ، تکویر : ۱۷-۲۸) کبھی رات کے ساتھ’’ شفق‘‘ کی قسم کھائی گئی (انشقاق : ۱۶-۱۷) ، کبھی فجراور اس کے ساتھ دس راتوں کی ( الفجر : ۱-۲) ، کبھی دن کی روشنی اور رات کے چھاجانے کی ( الضحیٰ : ۱-۲) اور کبھی خود زمانہ کی ( العصر : ۱) دنوں کی آمد و رفت اور سورج و چاند کے طلوع و غروب سے اوقات کا علم ہوتا ہے ، قرآن مجید نے جابجا اﷲ کی نعمت کی حیثیت سے ان کا ذکر فرمایا ہے ۔
ا ﷲ تعالیٰ قیامت میں انسان سے اس کی عمر کے بارے میں بھی سوال فرمائیں گے کہ کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی ، جس میں نصیحت حاصل کرنے والے لوگ نصیحت حاصل کرسکیں ؟ ’’ أولم نعمرکم مایتذکر فیہ من تذکر‘‘ ( الفاطر : ۳۷ ) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن آدمی سے سوال کیا جائے کہ اس نے اپنی عمر کس کام میں گذاری اور اپنی جوانی کو کس مقصد میں صرف کیا ؟ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکہ میں مبتلا ہیں : صحت اور فراغت ِوقت ۔
وقت کی قدردانی اور اس کا صحیح استعمال یوں تو ہر شخص کا فریضہ ہے؛ لیکن علماء کو اس طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، افسوس کہ موجودہ دور میں نوجوان فضلاء اپنا ڈھیر سارا قیمتی وقت سوشل میڈیا پر اور نامنصفانہ وغیر مفید تنقید وتبصرہ میں گزار دیتے ہیں، نوجوانوں میں چوں کہ قوت عمل زیادہ ہوتی ہے، امنگ ہوتی ہے، کام کا جذبہ ہوتا ہے، اگر وہ سلامت طبع کے ساتھ اپنے اوقات کا صحیح استعمال کریں تو امت کے لئے متاع گراں مایہ ثابت ہو سکتے ہیں، پھر تو اُن کو شکایت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ ان کو کوئی مقام نہیں دیا جاتا، امت خود ان کو اپنے سروں کا تاج بنائے گی۔
سلف ِصالحین جنھوں نے اعلیٰ درجہ اور بلند قیمت علمی کام کئے ہیں ، اپنے وقت کے ایک ایک لمحہ کو وصول کرتے تھے اور ایک منٹ کا ضائع ہونا بھی ان کو گوارا نہیں تھا ، وہ آخر دم تک اپنے وقت کو مشغول رکھتے تھے ، امام ابویوسفؒ (۱۱۳-۱۸۲ھ ) اسلامی تاریخ کے پہلے قاضی القضاۃ ہیں ، ان کے بارے میں اہل تذکرہ نے قاضی جراح سے نقل کیا ہے کہ وہ مرضِ وفات میں امام صاحبؒ کی عیادت کے لئے پہنچے ، آپؒ پر بے ہوشی طاری تھی ، ابراہیم بیٹھے رہے ، کچھ دیر میں ہوش آیا ، امام صاحبؒ نے پوچھا کہ حج میں جمرات کی رمی پیدل کرنا افضل ہے یا سواری پر ؟ ابراہیم نے استاذ سے عرض کیا : اس حال میں بھی آپ فکر و تحقیق کو نہیں چھوڑتے ، امام ابویوسفؒ نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ، ابراہیم نے کہا: سوار ہوکر رمی کرنا افضل ہے ، امام ابویوسفؒ نے کہا : یہ غلط ہے ، ابراہیم نے کہا : پھر پیدل رمی کرنا افضل ہوگا ، فرمایا : یہ بھی غلط ، ابراہیم نے عرض کیا : جو رائے صحیح ہو اسے آپ ہی ارشاد فرمائیں ، فرمایا : جس رمی کے بعد کوئی اور رمی ہو ، اس کو پیدل کرنا افضل ہے اور جس کے بعد اور کوئی رمی نہ ہو اسے سوار ہوکر ، ابراہیم وہاں سے اٹھے اور امام صاحبؒ کے گھر کے دروازے ہی پر پہنچے تھے کہ اہل خانہ کے رونے کی آواز آئی ، دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ امام ابویوسفؒ کا انتقال ہوگیا ہے ، یہی امام ابویوسفؒ ہیں جن کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے سترہ سال تک اپنے استاذ امام ابوحنیفہؒ کی مجلس میں اس طرح شرکت کی کہ کبھی فجر کی نماز فوت نہیں ہوئی ، یہاں تک کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے دن بھی ، بلکہ صاحبزادے کا انتقال ہوگیا تو تجہیز و تکفین کا انتظام اپنے اعزہ اور پڑوسیوں کے حوالہ کرکے درس میں شریک رہے اور درس سے محرومی کو گوارہ نہیں کیا ۔ ( مناقب مکی : ۱؍۴۷۲)
ایک بڑے محدث عبید بن یعیشؒ گذرے ہیں ،جو امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کے اساتذہ میں ہیں ، ان سے حافظ ذہبیؒ نے نقل کیا ہے کہ تیس سال تک رات میں اپنے ہاتھ سے کھانا نہیں کھایا ؛ بلکہ خود حدیث لکھنے میں مصروف رہتے اور بہن منہ میں لقمہ دیتی جاتیں ، ( سیر اعلام النبلاء : ۱۱؍۴۵۸) احمد بن یحییٰ شیبانی ( ۲۰۰-۲۹۱ھ ) عربی لغت ، ادب ، گرامر اور قراءت وغیرہ کے بڑے نامی گرامی عالم تھے اور ’ ثعلب ‘ کے نام سے مشہور تھے ، ان کا حال یہ تھا کہ اگر دعوت دی جاتی تو داعی سے فرماتے : کھانے کے وقت ان کے لئے چمڑے کے تکیہ کی مقدار جگہ خالی رکھی جائے ، جس میں وہ کتاب رکھ کر مطالعہ کریں ، ( الحث علی طلب العلم الخ للعسکری : ۷۷) امام ثعلبؒ کا معمول تھا کہ راستہ چلتے بھی ہاتھ میں کتاب رہتی اور مطالعہ کرتے جاتے ؛ چنانچہ اسی طرح چل رہے تھے کہ گھوڑے نے ٹکر دی ، گڑھے میں گر پڑے اور ایسی چوٹ آئی کہ دوسرے ہی دن وفات ہوگئی ( وفیات الاعیان لابن خلکان : ۱؍۱۰۴) ، اسی کا نتیجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں اہل علم نے اتنا عظیم تصنیفی اور تالیفی کام انجام دیا ہے کہ سن کر اور پڑھ کر حیرت ہوتی ہے اور آج ان کتابوں کو ایک شخص کا پڑھ لینا بھی دشوار ہے ، امام ابن جریر طبریؒ بہت ہی بلند پایہ مفسر ، محدث اورفقیہ ہیں ، انھوں نے اپنی عظیم الشان تفسیر ۳؍ہزار اوراق میں ٢٨٣ تا ۲۹۰ھ یعنی صرف سات سال کے عرصہ میں مکمل کی ، پھر ایک تفصیلی تاریخ لکھنی شروع کی ، جس سے ۳۰۳ھ میں فارغ ہوئے ، یہ دونوں کتابیں تین تین ہزار گویا چھ ہزار اوراق پر مشتمل ہیں ، طبری کی یہ تفسیر ۱۱؍ضخیم جلدوں میں منظر عام پر آچکی ہے ، بعض حضرات نے لکھا ہے کہ طبری کی تصنیفات کا حساب لگایا جائے تو یومیہ ۱۴ ؍ورق یعنی ۲۸ ؍صفحات کا اوسط ہوتا ہے ۔
حافظ ذہبیؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ انھوں نے جو روشنائی خریدی ، اس کا حساب کیا گیا تو وہ سات سو درہم کی تھی ، ابو ریحان بیرونیؒ کی وفات کے وقت اس زمانہ کے مشہور فقیہ ابوالحسن ولوالجی گئے ، بیرونیؒ نزع کی حالت میں تھے اور سینے میں گھٹن محسوس کررہے تھے، اس وقت انھوں نے علامہ ولوالجی سے ’’ جداتِ فاسدہ ‘‘ ( نانی ) کے حق میراث کا مسئلہ پوچھا ، ولوالجی کو رحم آیا اور کہنے لگے : اس وقت بھی آپ کو یہ فکر پڑی ہے ؟ بیرونیؒ نے کہا کہ دنیا سے اس مسئلہ سے واقف ہوکر جانا بہتر ہے یا ناواقف رہ کر ؟ ولوالجی نے مسئلہ کی وضاحت کردی اور واپس ہوئے ، کچھ دور آئے تھے کہ رونے دھونے کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ علامہ بیرونیؒ کا انتقال ہوگیا ہے ۔
وقت کی حفاظت کرنے والے بزرگوں میں علامہ ابن عقیلؒ بھی ہیں ، جو بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں ، ان کی سب سے اہم کتاب ’’ الفنون ‘‘ ہے ، جس کے بارے میں بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اس کی ۸ سو جلدیں تھیں ، اس کا کچھ حصہ ڈاکٹر جارج مقدسی مستشرق نے دو جلدوں میں ۷۱ – ۱۹۷۰ء میں شائع کیا ہے ، امام ابن جوزیؒ تاریخ اسلام کے بڑے مصنفین میں ہیں ، وہ ان لوگوں کو بہت ناپسند کرتے تھے جو چاہتے کہ ان کے پاس ملاقاتیوں اور ہم نشینوں کی بھیڑ لگی رہے ، خود بھی بے مقصد آنے والوں سے بہت نالاں رہتے اور مجبوراً جن لوگوں سے ملاقات کرنی ہوتی ، ان سے ملاقات کے اوقات کو اس طرح استعمال فرماتے کہ اس وقت حسب ِضرورت کاغذ کاٹتے جاتے ، قلم تراش لیتے اور لکھتے ہوئے اوراق باندھ لیتے ، اس کا نتیجہ تھا کہ بقولِ حافظ ابن رجبؒ شاید ہی کوئی فن ہو، جس میں ابن جوزیؒ کی کوئی کتاب نہ ہو ، ابن جوزیؒ کی تصنیفات پانچ سو سے اوپر ہیں اور اُن میں سے بعض بیس جلدوں اور بعض دس جلدوں پر مشتمل ہیں ، ابن جوزیؒ کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے جن قلموں سے حدیثیں تحریر کی تھیں ، ان کے ڈھیر سارے تراشے جمع ہوگئے تھے ، انھوں نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے مرنے کے بعد میرے غسل کا پانی اسی سے گرم کیا جائے ؛ چنانچہ پانی گرم کرنے کے بعد بھی قلم کے تراشے بچے رہے ۔
مشہور مفسر اور صاحب ِنظر امام رازیؒ کھانے کے وقت پر بھی افسوس کا اظہار کرتے کہ اس وقت علمی مشغلہ فوت ہوجاتا ہے ، مشہور محدث علامہ منذریؒ کے صاحبزادے رشید الدین (م : ۶۴۳) کا انتقال ہوگیا ، جو اُن کو بہت محبوب تھے تو اپنے جواں مرد بیٹے کی نمازِ جنازہ خود پڑھائی ، مدرسہ کے دروازہ تک جنازہ کے ساتھ خود چلے اور وہاں سے ﷲ کے حوالے کرکے اپنے معمولات میں مشغول ہوگئے ۔
امام نوویؒ جیسے محدث اور صاحب ِعلم سے کون ناواقف ہوگا ، راستہ چلتے ہوئے بھی علمی مذاکرہ میں اپنا وقت گذارتے ،صرف ۴۵ سال کی عمر پائی ، لیکن ہزارہا ہزار صفحات ان کے قلم سے آج بھی محفوظ ہیں ، جو اہل علم کے لئے حرزِ جاں ہیں ، ابن النفیس میڈیکل سائنس کی یادگار شخصیتوں میں ہیں ، جسم میں دورانِ خون کا نظام سب سے پہلے انھوں نے ہی دریافت کیا ، طب میں آپ کی کتاب ’’ الشامل ‘‘ تقریباً ۳۰ جلدوں میں ہے ، شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ کا حال یہ تھا کہ سفر و حضر اور صحت و بیماری کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیتے ، ان کے شاگرد ابن قیمؒ نے ان کی تصنیفات کی تعداد پر جو رسالہ لکھا ہے وہ خود ۲۲ ؍صفحات کا ہے ، اخیر دور کے اہل علم میں علامہ شوکانیؒ کا حال یہ تھا کہ روزانہ دس اسباق پڑھاتے ، فتاویٰ بھی لکھتے ، فریضۂ قضاء بھی انجام دیتے اور اس کے ساتھ ساتھ ۱۱۴؍اہم تصنیفات آپ کی یادگار ہیں ، علامہ شہاب الدین آلوسیؒ ( ۱۲۱۷-۱۲۷۰) کا حال یہ تھا کہ روزانہ چوبیس اسباق پڑھاتے ، افتاء کا کام بھی کرتے اور اس کے ساتھ انھوں نے ’’روح المعانی ‘‘کے نام سے ایسی عظیم الشان اور مبسوط تفسیر لکھی ہے، جس کی پورے عالم نے داد دی ہے ۔
ہندوستان کے علماء میں مولانا عبدالحئی فرنگی محلیؒ نے صرف ۳۹؍ سال کی عمر پائی؛ لیکن ان کی تصانیف ۱۱؍ سے بھی زیادہ ہیں اور ہر کتاب گویا اپنے موضوع پر حرفِ آخر ہے، مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتابوں اور رسائل کی تعداد ہزار کے قریب ہے، مولانا عبدالحئی حسنیؒ نے ’’ الثقافۃ الاسلامیۃ فی الھند‘‘ مولانا حبیب الرحمٰن شیروانیؒ نے ’’ علماء سلف‘‘ اور مشہور محقق شیخ عبدالفتاح ابو غدہؒ نے اپنی نہایت اہم اور فاضلانہ تصنیف ’’ قیمۃ الزمن عند العلماء‘‘ میں سلفِ صالحین کے ایسے کتنے ہی واقعات نقل ہیں، یہ ہمارے لئے مایۂ عبرت اور مشعل راہ ہیں۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی