ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۳
جہیز ایک لعنت
مولاناارشدکبیرخاقان مظاہری،سکریٹری: تنظیم فلاح ملت (رجسٹرڈ) مرکزی دفتر:مدرسہ نور المعارف،مولانا علی میاں نگر، دیا گنج،ضلع ارریہ و مدیر مسئول
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہیز ایک لعنت ہے اوراس لعنت نے معاشرے میں کینسر کی طرح اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہے،اس لعنت نے لاکھوں بہن اوربیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے،اس لعنت نے ان کی آنکھوں میں بسنے والے حسین اور رنگین خواب کو چھین لیا ہے،ان کی حسین زندگی کے سپنوں، آرزوؤں اور تمناؤں کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے،انہیں مایوسی،نا امیدی کی اندھیری اور گہری کھائی میں دھکیل کر زندگی کی تمام خوشیوں میں آگ لگا دی ہے۔یہ بات سب مانتے ہیں، لیکن کیا جہیز کو ایک لعنت سمجھنے والوں نے ذاتی طورپر کبھی اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کوئی عملی ا قدم کیا ہے؟ ہمارے معاشرے کے لئے یہ ایک سلگتا سوال ہے، جس پر بحث اور نظر کرنے کی اور اس سوال کے جواب کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
محترم قارئین! جہیز ایسی قبیح اور بد ترین رسم ہے کہ والدین زندہ درگور ہو کر بھی اس امید پر زندہ ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت اس لعنت سے پاک ان کے لخت جگر کو دو جوڑے کپڑوں میں قبول کر لے گا، مگر معاشرے میں گذرتے وقت کے ساتھ جہیز کی جن رسومات نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں ان سے نجات حاصل کر نا بظاہر ناممکن نظر آرہا ہے۔
اس ٹیکنا لوجی کے دور میں جیسے جیسے تعلیمی و مالی ترقی ہو رہی ہے ویسے ویسے جہیز میں بھی ترقی ہو رہی ہے، لڑکی والے جہیز دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں جبکہ لڑکے والے جہیز لینا اپنا حق، ہمارے معاشرے میں اس قبیح رسم نے فرض کی حیثیت اختیار کر لی ہے، پہلے صرف معمولی گھریلو ساز و سامان جہیر کا حصہ تھے مگر آج کے دور میں بے تحاشہ ساز و سامان مثلاََ: قیمتی فرنیچر،زیورات،گھڑی،تمام رشتہ دار وں کے لئے مہنگے کپڑے،ہوم اپلائنسس،فریج،ایر کنڈیشنر،موٹر کار یا کم از کم موٹر سائیکل اور اس جیسی نہ جانے کتنی مہنگے اور لگژری چیزیں جہیز کا حصہ بن گئی ہیں، جس بنا پر والدین کا چین و سکون حرام ہوا رہتا ہے، اس خود ساختہ اور فرسودہ روایت کو پورا کرنے کے لئے باپ اور بھائی اپنی تمام تر جمع پونجی لگا دیتے ہیں، اس کے باوجود بھی لڑکے والوں کا منھ بند نہیں ہوتا، لڑکی والوں سے وقتاََ فوقتاََ مختلف طریقوں سے مطالبات کرتے رہتے ہیں، یاد رہے کہ شادی میں جہیز کے علاوہ بھی دیگر اخراجات ہوتے ہیں اور یہ شادی دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں روپئے کی خطیر رقم پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔
نا چیز کے خیال کے مطابق اس لعنتی روایت کے خاتمے کی پہل کے لئے اگر کو ئی سبیل ہو سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ شروعات لڑکے یا اس کے گھر والوں کی طرف سے کی جائے، اگر یہ مبارک قدم لڑکے والے اٹھائیں اور جہیز لینے سے صاف طور پر منع کردیں تو یہ منحوس روایت آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی، لیکن اگر لڑکے والے جہیز لینے کو اپنا فرض سمجھتے رہیں گے تو ہمیشہ یہ رسم یوں ہی چلتی رہے گی اور لڑکی والوں پہ بوجھ یکسر بڑھتا ہی جائے گا، ہاں! اگر نا چیز کی حقیر سی تجویز پر عمل کا عزم مصمم کیا جائے تو فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر خود ان کی تقلید کریں گے، یاد رہے کہ یہ عمل اخلاص کے ساتھ ہو، کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ شادی کے بعد جہیز نہ ملنے کی صورت میں لڑکی کو لعن طعن اور احسان جتلا کر اسکا جینا حرام کردیتے ہیں اور بعض اوقات تو معاملات اتنے پیچیدہ ہو جاتے ہیں کہ نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔”زیبا ہے جس قدر ہو مذمت جہیز کی، آئی کہاں سے ملک میں لعنت جہیز کی“
حقیقت یہ ہے کہ جہیز خالصتاََایک ہندوستانی رسم ہے اور ہندو معاشرے میں تلک کے نام سے مشہور ہے،مجودہ دور میں اس لعنت نے ایسا زور پکڑا ہوا ہے کہ کمزور گھرانوں کے لڑکے بھی رشتہ کے لئے خود سے زیادہ مالدار گھرانوں کا رخ کر نے لگے ہیں،نتیجہ یہ ہوتا کہ غریب اور کمزور گھرانوں کی لڑکیاں شادی سے محروم اپنی چہاردیواری میں بیٹھے رہنے کو مجبور ہیں اورناچیز کے علم کے مطابق تلک جیسے ناسور کو ہمارے مسلم معاشرے نے بھی اپنا لیا ہے۔ تلک اور جہیر نے معاشرے میں اپنی جگہ اس قدر مضبوطی سے بنا لی ہے کہ لڑکی کے والدین بھی اس رسم کو ادا کرنے میں اپنی عزت سمجھتے ہیں: کہ کہیں سماج اور معاشرے میں ہماری ناک نہ کٹ جائے اور لوگ ہمیں کمتر سمجھیں، قرض کے سمندر میں ڈوب جانے کی یہ بھی ایک وجہ ہے۔ اسی بنا پر احقر کی رائے ہے کہ لڑکے والے ہی ذاتی طور پر اس لعنتی اور خود ساختہ روایت کو ختم کرنے میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
در حقیقت جہیز کی اصل اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ لڑکی کے والدین جنہوں نے اسے پال پوس کر بڑا کیا اور شادی کے بعد گھر کی دہلیز سے رخصت ہوتے وقت کچھ تحائف دیتے ہیں تو وہ جہیز نہیں بلکہ اپنی اولاد سے تعلق اور محبت کی بنا پر ایک فطری عمل ہے، مگر موجودہ دور میں ان تحائف کی جو صورت بنا دی گئی ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی، سازوسامان اور دولت کے لالچی لڑکے والوں نے ماں باپ کے اس تحفے کو فرمائشی پروگرام بنا کر رکھ دیا ہے، پورا نہ ہونے کی صورت میں لڑکی اور اس کے ماں باپ پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے جو سراسربے شرمی اور ناانصافی ہے، یہی وہ ہے کہ خود ساختہ اور فرسودہ رسم پہلے سماجی رسم ہوا کرتی تھی اور آج جبر بن گیا ہے۔اس لعنت کی وجہ سے جو ظلم و ستم بہو اور بیٹیوں پر کئے جاتے ہیں وہ بیان نہیں کئے جا سکتے۔ ”طلب جہیز نے چھین لیں ان کی تمام شوخیاں،دیکھو اداس بیٹھی ہیں حوّا کی بیٹیاں“
ضرورت اس امر کی ہے کہ جہیز جیسے اہم سماجی ایشو پر بحث اور تبادلہئ خیال کیا جائے، حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسے قوانین بنائے جس میں چہیز لینے دینے کو جرم قرار دیا جائے اور جو اس جرم کا ارتکاب کرے اس کو جیل اور بھاری جرمانہ لگایا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسا گھناونا مطالبہ نہ کر سکے، ساتھ ہی ساتھ ان جوہات کو بھی سامنے لایا جائے جن کی وجہ سے اس مسئلہ نے ناسور بن کر لڑکی اور اس کے والدین کا جینا دوبھر کر دیا ہے، ہزاروں کی تعداد میں لڑکیاں آج اس لئے کنواری بیٹھی ہیں کہ ان کے والدین لڑکے والوں کے ''مطالبے'' کے مطابق ''عالی شان'' جہیز نہیں دے سکتے۔ شادی جو کہ سنت ہے اسکوجہیز جیسی خود ساختہ اور فرسودہ رسم کے ساتھ جوڑناحرام ہے۔ اس موضوع پر بات کرنے کے لئے ہماری میڈیااور ملی تنظیموں کو بھی کردار ادا کرنا ہو گا اور انہیں بتانا ہوگاکہ ہم جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں وہ سادگی کا درس دیتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ اگر میڈیا اور ملی تنظیم س اہم موضوع کو ہائی لائٹ کرنے میں اپنا کردار ادا کرے تو یقیناََمعاشرے پہ اس کے مثبت اثرات ہوں گے۔”ماں باپ کا گھر بکا تو بیٹی کا گھر بسا،کتنی نا مراد ہے یہ رسم جہیز بھی“
ٹرک بھر بھر کر جہیز دینے کا کوئی تصوراسلام میں نہیں ہے یہ سب ہماری خود ساختہ روایات ہیں۔ جن کے بوجھ تلے ہم دبے ہیں۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللی تعالی عنہا کی شادی کی تھی تو چند انتہائی ضرورت کی اشیاء ان کو بطور جہیز دی تھی جس کی رقم حضرت علی رضی اللی تعالی عنہ نے اپنی زرہ بیچ کر ادا کی کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہی حضرت علی کے سرپرست تھے۔ اس حوالے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام ہمیں سادگی اپنانے کا راستہ بتاتا ہے جس پرہمیں عمل کرنا چاہئے، معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے میں والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا چاہئے اور عہد کرنا چاہئے کہ نہ جہیز لیں گے نہ دیں گے۔ لوگوں کو یہ بھی بتایا جائے کہ جہیز مانگنا ہی جرم نہیں بلکہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر تحائف کے نام پر جہیز دینا یا اپنی جائداد وغیرہ فروخت کر کے مطالبات پورے کرنا ایک اخلاقی جرم ہے۔
معاشرے میں جہیز کے علاوہ بہت سی غیر اسلامی رسمیں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے سماج میں زبردست بے چینی بڑھ رہی ہے، امرا کے لئے تو کوئی بات نہیں مگر غریبوں کے لئے مصیبت ثابت ہو کر روزانہ ہزاروں بیٹیاں اس ناسور کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، چونکہ جہیز غیر اسلامی رسم ہے اس گھناونی غیر اسلامی رسم کو ختم کرنے میں نو جوان اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، ممکن ہے کہ آج کی نسل اگر جہیز کی لالچ اپنے دلوں سے تو سماج میں اس مخلصانہ عمل سے انقلاب برپا ہو جائے۔
بہت سے لوگوں میں یہ تصور عام ہے کہ لڑکی کو جہیز تو دے دیا جاتا ہے مگر وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا جو کہ اس کا شرعی حق ہے لڑکیاں بھی اس بات کی عادی ہو چکی ہیں لہذا وہ خود ہی اپنا حق ''معاف'' کر دیتی ہیں آپ اندازہ کریں ایک رسم جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اسے ہم بھرپور طریقے سے ادا کرتے جبکہ دوسری طرف جہاں اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ وراثت میں لڑکی کا حق دیا جائے تو ہم عذر پیش کرتے ہیں۔ میری گزارش ہے کہ اپنے اپنے طور پہ جو لوگ اس رسم کے خلاف قدم اٹھا سکتے ہیں وہ ضرور اٹھائیں ہو سکتا ہے آپ سے متاثر ہو کر آپ کا کوئی قریبی بھی اس فرسودہ روایت کو ختم کرنے کے لئے آپ کا ساتھ دے اور معاشرے سے آہستہ آہستہ یہ فرسودہ رسم ختم ہوجائے۔
والسلام
محترم قارئین! جہیز ایسی قبیح اور بد ترین رسم ہے کہ والدین زندہ درگور ہو کر بھی اس امید پر زندہ ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت اس لعنت سے پاک ان کے لخت جگر کو دو جوڑے کپڑوں میں قبول کر لے گا، مگر معاشرے میں گذرتے وقت کے ساتھ جہیز کی جن رسومات نے اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں ان سے نجات حاصل کر نا بظاہر ناممکن نظر آرہا ہے۔
اس ٹیکنا لوجی کے دور میں جیسے جیسے تعلیمی و مالی ترقی ہو رہی ہے ویسے ویسے جہیز میں بھی ترقی ہو رہی ہے، لڑکی والے جہیز دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں جبکہ لڑکے والے جہیز لینا اپنا حق، ہمارے معاشرے میں اس قبیح رسم نے فرض کی حیثیت اختیار کر لی ہے، پہلے صرف معمولی گھریلو ساز و سامان جہیر کا حصہ تھے مگر آج کے دور میں بے تحاشہ ساز و سامان مثلاََ: قیمتی فرنیچر،زیورات،گھڑی،تمام رشتہ دار وں کے لئے مہنگے کپڑے،ہوم اپلائنسس،فریج،ایر کنڈیشنر،موٹر کار یا کم از کم موٹر سائیکل اور اس جیسی نہ جانے کتنی مہنگے اور لگژری چیزیں جہیز کا حصہ بن گئی ہیں، جس بنا پر والدین کا چین و سکون حرام ہوا رہتا ہے، اس خود ساختہ اور فرسودہ روایت کو پورا کرنے کے لئے باپ اور بھائی اپنی تمام تر جمع پونجی لگا دیتے ہیں، اس کے باوجود بھی لڑکے والوں کا منھ بند نہیں ہوتا، لڑکی والوں سے وقتاََ فوقتاََ مختلف طریقوں سے مطالبات کرتے رہتے ہیں، یاد رہے کہ شادی میں جہیز کے علاوہ بھی دیگر اخراجات ہوتے ہیں اور یہ شادی دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں روپئے کی خطیر رقم پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔
نا چیز کے خیال کے مطابق اس لعنتی روایت کے خاتمے کی پہل کے لئے اگر کو ئی سبیل ہو سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ شروعات لڑکے یا اس کے گھر والوں کی طرف سے کی جائے، اگر یہ مبارک قدم لڑکے والے اٹھائیں اور جہیز لینے سے صاف طور پر منع کردیں تو یہ منحوس روایت آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی، لیکن اگر لڑکے والے جہیز لینے کو اپنا فرض سمجھتے رہیں گے تو ہمیشہ یہ رسم یوں ہی چلتی رہے گی اور لڑکی والوں پہ بوجھ یکسر بڑھتا ہی جائے گا، ہاں! اگر نا چیز کی حقیر سی تجویز پر عمل کا عزم مصمم کیا جائے تو فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر خود ان کی تقلید کریں گے، یاد رہے کہ یہ عمل اخلاص کے ساتھ ہو، کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ شادی کے بعد جہیز نہ ملنے کی صورت میں لڑکی کو لعن طعن اور احسان جتلا کر اسکا جینا حرام کردیتے ہیں اور بعض اوقات تو معاملات اتنے پیچیدہ ہو جاتے ہیں کہ نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جہیز خالصتاََایک ہندوستانی رسم ہے اور ہندو معاشرے میں تلک کے نام سے مشہور ہے،مجودہ دور میں اس لعنت نے ایسا زور پکڑا ہوا ہے کہ کمزور گھرانوں کے لڑکے بھی رشتہ کے لئے خود سے زیادہ مالدار گھرانوں کا رخ کر نے لگے ہیں،نتیجہ یہ ہوتا کہ غریب اور کمزور گھرانوں کی لڑکیاں شادی سے محروم اپنی چہاردیواری میں بیٹھے رہنے کو مجبور ہیں اورناچیز کے علم کے مطابق تلک جیسے ناسور کو ہمارے مسلم معاشرے نے بھی اپنا لیا ہے۔ تلک اور جہیر نے معاشرے میں اپنی جگہ اس قدر مضبوطی سے بنا لی ہے کہ لڑکی کے والدین بھی اس رسم کو ادا کرنے میں اپنی عزت سمجھتے ہیں: کہ کہیں سماج اور معاشرے میں ہماری ناک نہ کٹ جائے اور لوگ ہمیں کمتر سمجھیں، قرض کے سمندر میں ڈوب جانے کی یہ بھی ایک وجہ ہے۔ اسی بنا پر احقر کی رائے ہے کہ لڑکے والے ہی ذاتی طور پر اس لعنتی اور خود ساختہ روایت کو ختم کرنے میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
در حقیقت جہیز کی اصل اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ لڑکی کے والدین جنہوں نے اسے پال پوس کر بڑا کیا اور شادی کے بعد گھر کی دہلیز سے رخصت ہوتے وقت کچھ تحائف دیتے ہیں تو وہ جہیز نہیں بلکہ اپنی اولاد سے تعلق اور محبت کی بنا پر ایک فطری عمل ہے، مگر موجودہ دور میں ان تحائف کی جو صورت بنا دی گئی ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی، سازوسامان اور دولت کے لالچی لڑکے والوں نے ماں باپ کے اس تحفے کو فرمائشی پروگرام بنا کر رکھ دیا ہے، پورا نہ ہونے کی صورت میں لڑکی اور اس کے ماں باپ پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے جو سراسربے شرمی اور ناانصافی ہے، یہی وہ ہے کہ خود ساختہ اور فرسودہ رسم پہلے سماجی رسم ہوا کرتی تھی اور آج جبر بن گیا ہے۔اس لعنت کی وجہ سے جو ظلم و ستم بہو اور بیٹیوں پر کئے جاتے ہیں وہ بیان نہیں کئے جا سکتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جہیز جیسے اہم سماجی ایشو پر بحث اور تبادلہئ خیال کیا جائے، حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسے قوانین بنائے جس میں چہیز لینے دینے کو جرم قرار دیا جائے اور جو اس جرم کا ارتکاب کرے اس کو جیل اور بھاری جرمانہ لگایا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسا گھناونا مطالبہ نہ کر سکے، ساتھ ہی ساتھ ان جوہات کو بھی سامنے لایا جائے جن کی وجہ سے اس مسئلہ نے ناسور بن کر لڑکی اور اس کے والدین کا جینا دوبھر کر دیا ہے، ہزاروں کی تعداد میں لڑکیاں آج اس لئے کنواری بیٹھی ہیں کہ ان کے والدین لڑکے والوں کے ''مطالبے'' کے مطابق ''عالی شان'' جہیز نہیں دے سکتے۔ شادی جو کہ سنت ہے اسکوجہیز جیسی خود ساختہ اور فرسودہ رسم کے ساتھ جوڑناحرام ہے۔ اس موضوع پر بات کرنے کے لئے ہماری میڈیااور ملی تنظیموں کو بھی کردار ادا کرنا ہو گا اور انہیں بتانا ہوگاکہ ہم جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں وہ سادگی کا درس دیتا ہے۔مجھے یقین ہے کہ اگر میڈیا اور ملی تنظیم س اہم موضوع کو ہائی لائٹ کرنے میں اپنا کردار ادا کرے تو یقیناََمعاشرے پہ اس کے مثبت اثرات ہوں گے۔
ٹرک بھر بھر کر جہیز دینے کا کوئی تصوراسلام میں نہیں ہے یہ سب ہماری خود ساختہ روایات ہیں۔ جن کے بوجھ تلے ہم دبے ہیں۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللی تعالی عنہا کی شادی کی تھی تو چند انتہائی ضرورت کی اشیاء ان کو بطور جہیز دی تھی جس کی رقم حضرت علی رضی اللی تعالی عنہ نے اپنی زرہ بیچ کر ادا کی کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہی حضرت علی کے سرپرست تھے۔ اس حوالے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام ہمیں سادگی اپنانے کا راستہ بتاتا ہے جس پرہمیں عمل کرنا چاہئے، معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے میں والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا چاہئے اور عہد کرنا چاہئے کہ نہ جہیز لیں گے نہ دیں گے۔ لوگوں کو یہ بھی بتایا جائے کہ جہیز مانگنا ہی جرم نہیں بلکہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر تحائف کے نام پر جہیز دینا یا اپنی جائداد وغیرہ فروخت کر کے مطالبات پورے کرنا ایک اخلاقی جرم ہے۔
معاشرے میں جہیز کے علاوہ بہت سی غیر اسلامی رسمیں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے سماج میں زبردست بے چینی بڑھ رہی ہے، امرا کے لئے تو کوئی بات نہیں مگر غریبوں کے لئے مصیبت ثابت ہو کر روزانہ ہزاروں بیٹیاں اس ناسور کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، چونکہ جہیز غیر اسلامی رسم ہے اس گھناونی غیر اسلامی رسم کو ختم کرنے میں نو جوان اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، ممکن ہے کہ آج کی نسل اگر جہیز کی لالچ اپنے دلوں سے تو سماج میں اس مخلصانہ عمل سے انقلاب برپا ہو جائے۔
بہت سے لوگوں میں یہ تصور عام ہے کہ لڑکی کو جہیز تو دے دیا جاتا ہے مگر وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا جو کہ اس کا شرعی حق ہے لڑکیاں بھی اس بات کی عادی ہو چکی ہیں لہذا وہ خود ہی اپنا حق ''معاف'' کر دیتی ہیں آپ اندازہ کریں ایک رسم جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اسے ہم بھرپور طریقے سے ادا کرتے جبکہ دوسری طرف جہاں اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ وراثت میں لڑکی کا حق دیا جائے تو ہم عذر پیش کرتے ہیں۔ میری گزارش ہے کہ اپنے اپنے طور پہ جو لوگ اس رسم کے خلاف قدم اٹھا سکتے ہیں وہ ضرور اٹھائیں ہو سکتا ہے آپ سے متاثر ہو کر آپ کا کوئی قریبی بھی اس فرسودہ روایت کو ختم کرنے کے لئے آپ کا ساتھ دے اور معاشرے سے آہستہ آہستہ یہ فرسودہ رسم ختم ہوجائے۔
والسلام