ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الثانی - ۱۴۴۳
اداریہ:سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم بین الاقوامی، غیر مسلموں کی نظر میں
حضرت الحاج مولاناکبیرالدین فاران صاحب المظاہری ، ناظم مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش و سرپرست ماہنامہ الفاران
اللہ تبار ک وتعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوپہلوں کی تمام صفات کے ساتھ متصف فرما کر آپ کے پیغامات میں ہر ایک کیلئے دین و دنیا کی بھلائی مضمر اور زندگی گذارنے کا احسن طریقہ اور مرنے کے بعد کی زندگی کیلئے سرخ روئی کا ذریعہ سامان بہم پہنوچایا۔
آپ کی بے لوث دعوت اور اخلاق کریمہ کا اپنوں اور غیروں نے اعتراف کیا، ان میں وہ بھی ہیں جوآپ کی رسالت پر ایمان تو نہیں لائے لیکن آپ ﷺ کی زندگی سے متائثر ہوئے بغیرنہ رہ سکے اور بر ملا اپنی تحریر و تقریر میں اعتراف کئے بنانہ رہ سکے!
ڈاکٹر میکل ایچ ہارٹ کا قلبی تأثر ہے ”میں نے لقمان کی دانائی پڑھی،ارسطو کی منطق اور فلسفہ پڑھا،بوعلی سینا، کی حذاقت و طبابت پڑ ھی، رستم و سہراب کا جائزہ لیا، لینن وکارل مارکس کے فارمولے پڑھے،مشرق و مغرب کی ساری لیڈرشپ اور عرب و عجم کے تمام لیڈروں کا بغور جائزہ لیا، لیکن مجھے ایسا قائد جس کی شخصیت کاہر پہلوبے داغ اور محبوب ہو،جس سے اپنے اور پرائے محبت کرنے پر مجبو ر ہوجائیں،ان میں سے کوئی نظر نہیں آیاجن کامیں نے بڑی عرق ریزی سے مطالعہ کیا تھا بس کون و مکان کی ایک ہی شخصیت میں دنیائے خیر کے تمام پہلوسمٹے ہوئے نظر آئے وہ شخصیت جس کے لئے یہ عالم وجود میں آیا اس کا نام نامی”محمد“ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
(لا۔مارٹن) نے کہا ”آئین و قانون سازی، سپہ سالار، فاتح اصول و نظریات، بستیوں علاقائی سلطنتوں کے معمار، دینی و روحانی حکومت کے بانی، یہ ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انسانی عظمت کے ہی پیمانے کو سامنے رکھ کر ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ہے کوئی جوان سے بڑا، ان سے بڑھکر عظیم ہو؟“
بلبل ہند، سروجنی نائیڈو کہنے پر مجبور ہوئے! ”نبی عربی ﷺاس معاشرتی اور بین الاقوامی انقلاب کے بانی ہیں جس کا سراغ اس سے قبل تاریخ میں نہیں ملتا، انھوں نے ایک ایسی حکومت کی بنیا د رکھی جسے تمام کرہئ ارض پر پھیلنا تھا اور جس میں سوائے عد ل اور احسان کے اور کسی قانون کو رائج نہیں ہونا تھا اس کی تعلیم تمام انسانوں کو مساوات، باہمی تعاون اور عالمگیر اخوت تھی۔آپ کی تعلیم میں حقیقی اور خالص جمہوریت کا رنگ پایا جاتاہے جو اپنی اعلیٰ شان و شوکت کے لحاظ سے ہمارے زمانے کی نام نہاد جمہوریت سے بدرجہ اعلیٰ تر ہے یہ وہ رنگ ہے جس کو اعلیٰ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کو نہ مذہب عیسوی پیدا کر سکا نہ میرا مذہب ہی۔ جو تاریخ عالم میں بہت پرانا ہے۔
سوامی لکشمن جی مؤلف ”عرب کا چاند“نے اپنی کتاب میں لکھاہے کہ ”جہالت اورضلالت کے مرکز اعظم جزیرہ نمائے عرب کے کو ہ فاراں کی چوٹیوں سے ایک نور چمکا جس نے دنیا کی حالت کو یکسر بدل دیا اس گمراہ ملک کے شہر مکہ مکرمہ کی گلیوں سے ایک انقلاب آفریں صدا اٹھی جس نے ظلم و ستم کی فضاؤں میں تہلکہ مچا دیا یہیں سے ہدایت کا وہ چشمہ پھوٹا جس نے اقلیم قلوب کی مرجھائی ہوئی کھیتیوں کو سر سبز وشاداب کردیں،اسی ریگستانی چمنستان میں روحانیت کا وہ پھول کھلا جس کی روح پرور مہک نے دہریت کی دماغ سوز بو سے گھرے ہوئے انسانوں کے مشام جاں کو منور ومعتبر کر دیا اورجہالت و باطل کی تاریکیوں کو دور کر کے ذرے ذرے کو اپنی ایمان پاش روشنی سے جگمگا کر رشک طور بنادیا گویاایک دفعہ پھر خزاں کی جگہ سعادت کی بہار آگئی۔
سردار دیوان سنگھ مفتوں ایڈیٹر”ریاست“ایک روز مولوی صاحب نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی وہ حدیث سنائی جس میں پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے، سلطان جابر کے سامنے کلمہ ئ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے“میں نے غور کیا اس شخصیت کی بلندی کا کیا اندازہ کیا جا سکتا ہے جس نے یہ کلمات کہے ہوں ان ہونٹوں کی قدر وقیمت کا کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا جن ہونٹوں سے اس حدیث کے الفاظ نکلے۔
میجرآر تھر گلن لیونارڈ نے اعتراف کرتے ہوئے کہا!”حضرت محمدﷺ نہایت عظیم المرتبت انسان تھے اور ایک مفکر و معمار تھے انھوں نے اپنے زمانے کے حالات کے مقابلہ کی فکر نہیں کی اوربس تعمیر کی، انہوں نے صرف اپنے ہی زمانے کیلئے نہیں بلکہ رہتی دنیا تک کیلئے مسائل کو سوچااور جو تعمیر کی وہ ہمیشہ کیلئے کی“
بدھشٹ پیشوائے اعظم بدھ مذہبمانگ تونگ نے اظہار کیا کہ ”حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ظہور بنی نوع انسانی پر خد ا کی ایک رحمت تھا لوگ کتنا ہی انکا ر کریں مگر آپ کی اصلاحاتِ عظمہ سے چشم پو شی ممکن نہیں۔ ہم بدھی لوگ حضرت محمد ﷺ سے محبت کرتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں“
میکائل ہارٹ نے کہا کہ ”یہ ایک حقیقت ہیکہ پوری انسانی تاریخ میں صرف وہی ایک انسان ایسے تھے جو دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے غیر معمولی طور پر کامیا ب، کامران اور سرفراز ٹھہرے“
مشہور شخصیت پنڈت شیونارائن جی نے اقرار کیا کہ ”اندھی تقلید کی کا لے پردے پھاڑکر اس تمام قوموں کے دلوں پر واحد خدا کی حکومت قائم کی وہ ا نسا نی لعل کون تھا؟ محمدصلی اللہ علیہ وسلم
معروف علی شخصیت پروفیسر ہوگ جرمن نے تحقیق کے بعد لکھا کہ”میں محمد(ﷺ)کی اس تعلیم کو بغورپڑھاہے۔ جو انہوں نے خلق خدا کی خدمت اوراصلا حِ خلق کیلئے دی ہے میری رائے ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم بھی اسلا م کی تعلیم کی ہدایتوں پر عمل کرے تووہ بہت کچھ ترقی کرسکتاہے میرے خیال میں موجودہ زمانہ میں سوسائٹی کی اصلا ح کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ اسلام کی تعلیم کو رائج کیاجائے“
سوامی برج نارائن سنیاسی بھی کہنے پر مجبور ہئے کہ ”پیغمبر اسلا م نے ایک جنگ بھی جارحانہ نہیں کی بلکہ ہر ایک موقع پر مدافعانہ لڑائی لڑنے پر آپ کو مجبور کیا گیا“
معتدل مزاج جناب سوامی لکشمن رائے بھی اقرار کرتے ہیں کہ ”غیر مسلم مصنفوں کا بر اہو جنہوں نے قسم کھالی ہے کہ قلم ہاتھ میں لیتے وقت عقل کو چھٹی کردیا کریں گے اور آنکھوں پر تعصب کے پتھر رکھ کر ہر واقعہ کواپنی ناسمجھی اور تعصب کے رنگ میں رنگ کردنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ آنکھیں چکاچوند ہوجاتی ہیں اور ان گستا خ اور کج رقم قلموں کو اعتراف کرتے ہی بنتی ہے کہ واقعی اس نفس کش پیغمبر جس شان و استغنا ء سے دولت، عزت ،شہر ت اور حسن طلسمی طاقتوں کو اپنے اصول پر قربان کیا وہ ہر کس و ناکس کا نہیں“
بی ایس رندھاواجی نے اعتراف کیا ہے کہ ”محمد(ﷺ) کی زند گی پر تنقید کرنے والوں نے اسلا می تاریخ اور بانی اسلا م کی سیر ت کا صحیح طور پر مطالعہ کرنے کی تکلیف گوارہ نہیں کی بلکہ سنی سنائی اور بے بنیا د باتوں کو سرمایہ بناکر اعتراضات کی بوچھار کردی اگر وہ اسلا می روایات کو سمجھ لیتے اور سچائی کے اظہار کیلئے اپنے اندر کوئی جرأ ت و ہمت پاتے، تو وہ یقینااپنی رائے تبدیل کرنے پر مجبور ہوجاتے“
ہینرہینڈ مین نے لکھا ہے کہ ”محمدصلی اللہ علیہ وسلم ایسے لیڈر تھے کہ جن کے نزدیک ان کا اور ایک عام آدمی کا Statusایک تھا۔ انہوں نے کبھی خود اپنی ذات کو مالی مفاد سے نہیں نوازا۔
یہی وجہ تھی کہ لوگوں نے ان کا تب بھی ساتھ دیا کہ جب محمدصلی اللہ علیہ وسلم غربت کی زندگی گزار رہے تھے اور تب بھی ان کے اعتماد کا پیمانہ وہی تھا کہ جب محمد ﷺ ایک عظیم سلطنت کے شہنشاہ تھے“۔
عالمی شخصیت فرانسیسی ہیرو نیپولین بوناپارٹ نے دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ”سب سے بہترین مذہب محمدبن عبداللہ کا مذہب ہے“ حقیقت یہ ہے کہ حضرت محمد بہت بڑے اور عظیم انسان تھے اس قدر عظیم انقلاب کے بعد اگر کوئی دوسرا ہوتاتو خدائی کا دعویٰ کر تا۔
ایڈولف ہٹلرنے کہا ہے”صرف ایک ہی مذہب ہے جس کی میں عزت کرتاہوں اور وہ اسلام ہے۔صرف ایک ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی شان کا میں قائل ہوں اور وہ محمد ہیں“
مشہور مجاہد آزادی بی این پا نڈے نے کہا کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تشریف لائے جب عر ب معاشرہ طرح طرح کی برائیوں میں جکڑ ا ہو ا تھا۔ آپ ﷺ نے آکر مساوات کی تعلیم دی جسے آ ج ہم ”جمہوریت“ کہتے ہیں اسلام نے ”جمہوریت“کے اصول کو دنیامیں پہلی با ر عملی طور پر پیش کیا جو ایک کامیا ب زندگی کیلئے مشعل راہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو جہالت کے دور سے نکال کر علم کی روشنی کی طرف لائے۔ اسلام میں علم کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ جب جنگ خندق میں بہت سے لوگ گرفتار کر لئے گئے تو آپنے انکی رہائی کی یہ شرط رکھی کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تعلیم حاصل کروچاہے چین جانا پڑے۔
کے۔ آر۔ ملکانی سینٹر نائب صدر بی جے پی نے کہاکہ ”اللہ کے رسول (ﷺ ٌ) دور جہالت میں اسلا م کا پیغام لیکر آئے انکی آمد سے عرب اور دنیا کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا پہلے عرب معاشرے پر اور پھر پور ی دنیا پر ان کے پیغام کا زبر دست اثر ہوا آپ نے عرب قوم میں ایک اتحاد پید اکیا، ان کو جہالت کے دَور سے نکالا،وہ عرب جو مختلف قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے اور آ پس میں لڑتے جھگڑ تے تھے ان کو ایک انسان دوست قوم بنایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساوات کی تعلیم دی اور کہاکہ کوئی چھوٹابڑ انہیں ہے سب برابر ہیں علامہ اقبال ؒ نے اسی بات کو اس طرح کہا ہے کہ۔
مساوات کی وجہ سے ہی مولانا حسرت موہانی سوویت روس کے انقلاب کو بہت پسند کرتے تھے اور کہا کرتے تھے”سوویت“ کا مطلب ہے مساوات۔ یہ اسلا م کے بہت قریب ہے جس نے مجھے بہت متاثر کیا اور جسکی آج بہت سخت ضرورت ہے اوروہ ہے تعلیم
ایک بدھ مت لیڈر یوکمباؤمائنٹ کا اقرار ہے ”میں پیغمبر اسلام کو خراج عقیدت پیش کرتاہو ں اور کہتاہوں کہ کوئی شخص جو پیغمبر اسلام کے حالات زندگی پڑھے اور آپ کے تو شاندار کارناموں پر خوشی اور تحسین کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حضرت محمد (ﷺ) کی زندگی ازحد معروف اور قابل تحسین کا رناموں سے لبریز ہے اسی طرح پروفیسر اوچی رام ممبر پنجاب کونسل کا کہناہے آپ نے انسانی ترقی کیلئے جس قدر کوششیں فرمائیں وہ بالکل غیرفانی ہیں ان کوششوں کے باعث دنیا آپ کی ہمیشہ احسان مند رہے گی۔
مشہور فلاسفر جارج بر نارڈشانے کہا کہ ”موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا کے حکمراں (رہنماء) بنیں اورمجھے یقین ہے کہ اگر آج کی دنیا کی قیادت کرنے کیلئے ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم“ آجائیں تو وہ تمام عالمی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ہم بالآخر خوشحالی اور اتفاق کی فضامیں زندگی بسر کر رہے ہونگے اس لئے کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مذہب کی، حیران کن استقامت کی بنا پر ہمیشہ تعظیم کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کی یہ وہ واحد مذہب ہے جس میں گہرائی ہے اور یہی چیز لوگوں کے لیے دلکش ثابت ہوئی ہے، میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مذہب کے بارے میں پیشن گوئی کرنا چاہتا ہوں کہ سوسال بعد اگر یورپ کا کوئی مذہب ہوگا تو وہ صرف اسلام ہوگا۔ میں بصیرت کیساتھ اس حقیقت کا اعلان کرتاہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلمنسل انسانی کے ہادی اور نجات دینے والے تھے،بلکہ میں صاف طور پر اعلان کرتاہوں کہ آج دنیا کی حکومت اور ڈکٹیٹر شپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کامل انسان کے سپرد کر دی جائے تو آج اس کرہئ ارض کے تمام مسائل حیات اور مشکلات کو اس طرح حل کریں کہ تمام دنیا امن اور راحت کا گہوارہ بن جائے گی۔
حکیم چند رکمارنے تجزیہ کیاہے کہ ”عالم شباب میں آپ کی یہ حالت تھی کہ آپ تازہ شادی کے بعد کئی کئی روز تک گھر سے غیر حاضر رہ کر تذکیہ نفس اور ریاضت کشی میں مشغول رہتے تھے حضرت عائشہ ؓ کے سواء جتنی خواتین آ پکے عقد میں آئیں سب کی سب بیوہ تھیں ان حالات پر غور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شادیاں نکاح کی خاطرنہ تھیں بلکہ کسی اخلاقی ذمہ داری کی ادائیگی کی خاطر تھیں“
آنجہانی موتی لال ورا گورنر یوپی بھی کہنے پر آمادہ ہوئے کہ”یہ آپ ﷺ کی ذات کی برکت تھی کہ وہ دورختم ہوا جب لڑکیوں کوپید اہوتے ہی زمین میں دفن کردیا جاتاتھا۔ اور یہ آپ کے پیغام کا آثر ہے کہ اب لڑکیوں کو بھی لڑکوں کی طرح آنکھ کا نور سمجھا جانے لگا“
امریکہ کی سپریم کورٹ کی اسٹیٹ مینٹ ہے کہ ”حضرت محمد ﷺ دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ انصاف کرنے والے تھے“۔سبحان اللہ۔ ایک غیر مسلم ملک کے سپریم کورٹ کی یہ رائے۔
موہن داس کرم چندگاندھی نے بھی اظہار حقیقت کیا کہ ”میری نظر میں اسلام تلوار سے نہیں بلکہ اسلامی رہنما ؤں کی قربانی سے پھیلا ہے“
روسی فلاسفر، لیو ٹالسٹائے نے کہا کہ ”اب پوری دنیا میں صرف محمد ﷺ کے قانون کی ہی حکمرانی ہوگی“
سرباسورتھ سمتھ کی زبانی کہ”کائنات میں اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس نے منصفانہ طور پر ایماندار ی سے حکومت کی ہے، تو وہ صرف ”محمد ﷺ“ کی ذات ہے۔“
رومن کنگ،ہر کولیس کو بھی کہنا پڑا”اگر میں حضرت محمد ﷺ کے زمانے میں ہوتا‘تو میں ان کے قدموں میں بیٹھ کر ان کے پاؤں دھوتا“
مکمل ضابطہ ہے،زندگی کے گوشے گوشے کا