ماہنامہ الفاران

ماہِ جمادی الاول - ۱۴۴۳

رَو میں ہے رخشِ عمر

حضرت مفتی ظفر امام صاحب القاسمی، استاد عربی ادب: دارالعلوم،بہادر گنج،کشن گنج،بہار

بزمِ کائنات میں ایک اور نئے سال یعنی ۲۰۲۲؁ء کی شمع جل چکی ہے،جس کی زرتاب اورچکا چوندکرنوں کے سامنے پرانی شمع کی تھرتھراتی کرنیں سدا کے لئے گل ہوگئی ہیں،نئی اور پرانی کرنوں کا یہ تعاقبانہ تصادم کرۂ ارضی پر بسنے والے انسانوں کو بزبانِ حال یہ پیغام سناتا ہے کہ محفلِ حیات کی کسی بھی شئی کو قرار نہیں، یہاں کی کوئی بھی چیز ہمیشہ ایک ہی ساخت پر متصلب نہیں رہتی، زندگی کی کایا سدا ایک ہی ڈگر پر نہیں چلتی، حیاتِ فانی کا سفینہ ہمیشہ بادِ موافق کے دوش پر ہی سوار نہیں ہوتا، کاروانِ زندگی ہمیشہ ایک ہی جادہ پر محوِ سفر نہیں ہوتا،بلکہ انجام کار ہر چمکتی شئ کا مقدر ماند ہونا اور ہر دمکتے عناصر کی بخت پر گہن لگنا ہے۔
زندگی اور زندگی کے احساسات بھی عجیب رنگ و روپ کے سایہ تلے پلتے اور پروان چڑھتے ہیں،گزرنے سے پہلے یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ یہ پہاڑ سی زندگی کیسے گزرے گی؟ اور جب گزر جاتی ہے تو یہ احساس غم کھلاتا اور کچوکے لگاتا ہے کہ یہ اتنی جلدی گزر کیسے گئی؟ شام و سحر کا یہ تبادلہ اور روز و شب کا یہ انقلاب اس برق رفتاری اور تیز روی کے ساتھ ہوتا ہے کہ ان میں ماضی اور مستقبل کا امتیاز کرنا محال ہوجاتا ہے کہ ان میں کون ماضی تھا اور کون مستقبل؟ اور ماضی و مستقبل کا وہ معجون من حیث المجموع یوں لگنے لگتا ہے کہ اس کی عمر ایک دن یا اس سے زائد کی نہیں، حالانکہ وہ برسوں کا سفر طے کرچکا ہوتا ہے۔ رازِ ہستی کی یہاں کس کو خبر ہوتی ہے
زیست ایک سلسلۂ شام و سحر ہوتی ہے

ابھی کل ہی کی تو بات تھی کہ ہم ۲۰۲۱؁ءکی دہلیز پر کھڑے ہوکر ۲۰۲۰؁ءکو با چشمِ پُرنم اور بہ قلبِ حزیں سلامِ متارکت پیش کر رہے تھے،اور اپنی دیوارِ حیات سے اوندھے منہ ایک اور اینٹ گر جانے پر صفِ ماتم بچھا رہے تھے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ۲۰۲۱؁ءبھی ہمیں داغِ مفارقت دے گیا اور ایک بار پھر ہمیں اپنی زندگی کی ایک اور گراں مایہ اینٹ کے گر جانے پر سوگوار کرگیا۔ رَو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھئے تھمے
نے ہاتھ باگ میں ہے نہ پا ہے رکاب میں

ویسے تو ماہ و سال اور روز و شب کے ادلنے بدلنے کا یہ سلسلہ ہمارے لئے کوئی نیا اور انوکھا نہیں ہے، بلکہ یہ سلسلہ اس جہانِ آب وگل میں اسی دن سے قائم ہے جس دن سے مصورِ کائنات نے اس کی پنکھڑیوں میں تصویری رنگ بھرا ہے، اس بیچ نہ جانے کتنے ماہ قصۂ پارینہ ہوئے اور کتنے سال پردۂ عدم سے وجود میں آکر افسانۂ ماضی ہوئے، آسمان نے کیسے کیسے رنگ بدلے اور زمین نے کیسے کیسے گل کھلائے، لیکن اگر کوئی چیز اب تک نہیں بدلی اور اس کا رنگ اب تک پھیکا نہیں پڑا تو وہ انسان کی خُو ہے جو بدلنے کے بجائے ہر گزرتے دن اور ہر بیتتے لمحے کے ساتھ سرکشی و طغیانی اور منہ زوری و سخت قلبی کی چادر میں لپٹتی چلی گئی،اور اس کو اوڑھنے والا انسان جادۂ مستقیم سے ہٹتے ہٹتے اتنی دور پہونچ گیا جہاں سے اسے نشانِ منزل بھی نظر نہیں آتا۔
آج انسان پر حالات کے جو حزن ناک ابر منڈلا رہے ہیں، انسان کی جوئے حیات جن سنگ ریزوں سے ٹکرا رہی ہے،وجودِ انسانی جن پُر مشقت و پُر ہول دور سے گزر رہا ہے اور انسانی شعبہائے حیات پر جو افتاد آن پڑی ہے، اگر یہی افتاد کسی پتھر پر آپڑتی تو یقینا وہ پتھر شق ہوجاتا، پہاڑ کراہ اٹھتا،دریا کی روانی اپنا رخ موڑلیتی،سمندر کی طوفانی موجیں سہم جاتیں، لیکن! انسان اپنی فطرت اور جبلت میں اتنا سخت جاں اور سنگ دل ہوگیا ہے کہ وہ بدلنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے، ان کی نظر وںمیں دنیا کی وقعت اتنی جاگزیں ہوگئی ہے کہ آخرت اور آخرت کی باتیں ان کے لئے محض ایک سراب بن کر رہ گئی ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوا کرتی۔
زیادہ دور تک اوراقِ ماضیہ کو کھنگالنے کی ضرورت نہیں، صرف اگر آپ سال ۲۰۲۰_۲۱؁ء پر ایک عبرت کی نظر ڈالیںگےتو یقینا آپ پر رعشہ طاری ہوجائے گا، آپ کا دماغ مفلوج ہونے لگے گا، دل پر ایک ہوش ربا جھرجھری وارد ہونے لگے گی اور بے ساختہ سینے سے ” آہ “ کی ایک کراہتی صدا خارج ہوجائے گی کہ ان دو سالوں میں ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا، ان کی جو المناک اور دردآگیں روداد ہے وہ آپ سے مخفی نہیں، ہم اسے یہاں ذکر کرکے آپ کے کارآمد وقت میں رخنہ ڈالنا کسی طور مناسب نہیں۔ لیکن! وائے محرومی کہ ” کارواں کے دل سے احساسِ زیاں بھی جاتا رہا “ ہمارے ساتھ اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی ہم نہیں سدھرے، حالات کے بگولے ہم کو عرش سے فرش پر پٹخنی دیتے رہے لیکن ہم ” وہی ڈھاک کے تین پات “ کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی روایتی روش پر گامژن رہے،نہ ہم نے حالات سے کچھ سیکھا، نہ ہی ہم پر خدا کا خوف طاری ہوا، نہ ہی ہم نے کج روی ترک کی اور نہ ہی ہم بےرہ روی سے کنارہ کش ہوئے۔
حالات آتے ہیں جادۂ مستقیم سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہِ راست پر لانے کے لئے، ان کو یہ سجھانے اور سمجھانے کے لئے کہ جس راستے پر تم چل رہے ہو وہ راستہ تمہیں کعبہ تک کبھی نہیں پہونچائےگا، لیکن ہم قدرت کی طرف سے پیدا کردہ ان حالات کا مذاق اڑاتے رہ گئے، روزانہ طائرانِ یاد دہاں قرآنِ کریم کی پُرتہدید آیت ” أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا ‘‘ (کیا تمہارا گمان ہے کہ ہم نے تم کو بیکار پیدا کیا ہے) ہمارے کانوں میں گنگناتےرہے، مگر ہمارے کانوں میں جوں تک نہ رینگی، ہم اس آیت کے معنی و مفہوم پر غور کرنے کے بجائے دنیا کی رنگ رلیوں اور زمانے کی نیرنگیوں میں مزید کھوتے چلےگئے۔
آج جب کہ حالات ہمیں کسی اور رخ پر بہنے کی دعوت دے رہے ہیں، لیکن ہمارا فیشن ایبل ہونے کا شوق اور آزاد خیال رہنے کا ذوق ہمارے لئے پابہ زنجیر ثابت ہو رہے ہیں، مغرب کی تہذیب و تمدن اور اس کی اسلام متصادم تھیوری ہمارے ذہن و دماغ میں کچھ اس طرح نقش ہوگئی ہے کہ ہمیں اس سے رہائی حاصل کرتے ہوئے شرم سی آنے لگتی ہے،انگریزی ثقافت کی بو باس ہمارے دلوں میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اس کا تصور ہی ہمارے اوپر خمار طاری کردیتا ہے، انگریزوں کے نقشِ حیات پر چلنے میں ہمارے دلوں کو تسکین ملتی ہے اور یہودی لابیوں کی خودساختہ بیہودگیوں کے اپنانے کو ہم اپنی زندگی کی معراج سمجھتے ہیں۔
نئے سال کی آمد پر جشنِ چراغاں کرنا، ہیپپی نیو ائیر کے بیہودہ نعرے لگانا،برقی قمقموں اور فانوسوں سے گھروں کو سجانا اور سنوارنا، رقص و سرود کی محفلیں قائم کرنا اور سرِ راہ طوفانِ بدتمیزی کی فضا قائم کرنا یہ اسلام دشمن انگریزوں اور یہودی لابیوں کی دین ہے، اسلام میں اس طرح کے جشن منانے کی قطعا اجازت نہیں، اسلام تو اپنے نام لیواؤں کو عربی سال کے آغاز میں بھی اس طرح کی خرافات اور بیہودگیوں کی اجازت نہیں دیتا تو بھلا انگریزی سال کے شروع ہونے میں یہ اجازت کیونکر دے گا؟
لیکن! صد افسوس کہ آج بیشتر مسلمان اس دین کش خرافات اور بیہودہ رسم کو نہ صرف مناتے ہیں بلکہ اس کا ایک اہم حصہ بنے ہوئے ہیں، جب ۳۱ دسمبر کا کہر آلود سورج شفق کی مہندی رنگ لالی کے پیچھے دبک جاتا ہے اورمحفلِ کائنات پر پہلی جنوری کی ٹھٹھرتی شام کا دھندلکا اپنی بانہیں پھیلانا شروع کرتا ہے تو اغیار کے شانہ بشانہ ہمارے بھولے مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد بھی بڑی بےصبری سے گھڑی کے بارہ بجانے کا انتظار کرنا شروع کر دیتی ہے،اور پھر جونہی گھڑی ” ٹک ٹک “ کرتی بارہ بجے کا راگ الاپتی ہے تو بیک وقت پٹاخوں کی مہیب گونج سے آسمان کا جگر دہل اٹھتا ہے،رنگا رنگ پھلجھڑیوں سے سماں جگمگا اٹھتا ہے، فانوس کے گلاسوں سے نکلنے والی ست رنگ شعاعیں نگاہوں کو مسحور کرنے لگتی ہیں، جام چھلک پڑتے ہیں، ساغر جوش میں آجاتے ہیں،وہسکی (ودیشی شراب) کی بوتلیں خالی ہونے لگتی ہیں، گھنگھرو بج اٹھتے ہیں، نقاب عریاں ہونے لگتے ہیں اور موسیقی کے وجد آفریں زیر و بم میں مسلمان اتنے مست و ملنگ ہوجاتے ہیں کہ وہ کچھ دیر کے لئے عالمِ خود فراموشی میں پہونچ جاتے ہیں، وہ نشۂ غفلت میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد یوں رنگ رلیاں منانا نہیں بلکہ اس کا ایک ایک لمحہ رب کائنات کی رضا جوئی اور اس کی طلبِ خوشنودی میں صرف کرنا ہے۔
جب کہ ایک مسلمان کی زندگی کے فرض منصبی میں یہ بات داخل ہے کہ جب بھی نئے سال کی آمد ہو خواہ وہ سال انگریزی کا ہو یا عربی کا وہ خود احتسابی کرنے بیٹھ جائے، وہ پورے سال کو اپنی یادداشت کی میزان میں تولے اور یہ حساب لگائے کہ گزشتہ سال ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا، کھونے پر احساسِ ندامت اظہار اور اشکِ افسوس بہائے اور پانے پر خدا کا شکر ادا کرے، اور اگلے سال کے لئے ایک نیا لائحۂ عمل تیار کرے اور خود سے اس بات کا عہد و پیمان کرے کہ اب اپنی ان خامیوں اور گناہوں کا اعادہ نہیں کرے گا جو سالِ گزشتہ ان سے سرزد ہوئے ہیں۔
یاد رکھئے! یہ زندگی آپ کے ہاتھوں میں خدا کی دی ہوئی ایک امانت ہے، یہ دوبارہ آپ کو نہیں ملے گی، آپ پر لازم ہے کہ آپ اس کا صحیح استعمال کریں، ورنہ یاد رکھیں کہ میدانِ محشر ہوگا، نفسانفسی کا عالم ہوگا، آپ ہوں گے اور آپ کے سامنے خدا کا دربارِ عالی ہوگا، آپ اس دربارِ عالی سے اس وقت تک ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھاسکیں گے جب تک کہ خداوند قدوس کے اس سوال کا جواب نہیں دے دینگے کہ ” بابو! زندگی کن کاموں میں صرف کیا “ ؟ اب یہ آپ پر ہے کہ آپ اس جواب دہی کے لئے کتنی تیاری کر رہے ہیں؟
مولائے دوجہاں ہمیں صحیح سمجھ عطا کرے، انگریزی کلچر اور مغربی ثقافت سے بچنے کی ہمیں توفیق بخشے اور رسم و رواج کی اس بھیانک آندھی میں ہمیں چراغِ دین کو اجالنے کی ہمت و طاقت عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی