ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الاول - ۱۴۴۳
مساجد کے ائمہ اور خدام کامالی خیال بھی دین کی بقاء کا اہم ترین حصہ ہے
حضرت مفتی نفیس احمد جمالپوری صاحب،المظاہری استاد حدیث و فقہ:مدرسہ عربیہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش ونائب مدیر:ماہنامہ الفاران
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارے دین کی اہم بقاء مساجد ومدارس پر منحصر ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے تغافل کی حد ہے مساجد کے ائمہ کرام اور مدارس کے مدرسین عظام کی ضروریات کس طرح پوری ہوتی ہیں اس کا کوئی خیال نہیں کم از کم تنخواہ لینے والے مدرسین یاائمہ کو تلاش کرنے والی قوم کیسے ترقی کرسکتی ہے امام یا مدرس کی حیثیت قوم کی نظر میں گارے پتھر والے مزدور سے زائد نہیں ایک امام کو متولی نے کہا کہ میرے بیٹے کی نوکری کے لئے دعا کردیجئے انہونےان الفاظ میں دعا کی کہ یااللہ اس کےبیٹے کو اچھی ملازمت عنایت فرما اور تنخواہ بھی اتنی ہو جتنی میری ہےتومتولی برہم ہوگیاکہ اتنی قلیل سی تنخواہ میں میرے بچے کا گزر بسر کیسے ہوگا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں اس پر مزید گفتگو ہم مضمون کے آخر میں کریں گے ۔
مساجد کی اہمیت اللہ ورسول کی نظر میں
مساجد کی بقاء کے لئے رب کانظام قرآن میں ان الفاظ میں مذکور ہے وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا۔ سورۃ الحج آیت نمبر 40اگر اللہ تعالی لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا تو عبادت خانے ،گرجے ،یہودیوں کے معبد خانے اور وہ مسجدیں بھی ڈھا دی جاتیں جہاں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے۔
مساجد بنانا اطاعت اور عبادت ہے، اللہ تعالی نے مسجد بنانے والے سے جنت کا وعدہ فرمایا، آپ ﷺ کا فرمان ہے:جس نے اللہ کیلیے مسجد بنائی، اللہ تعالی اس کیلیے جنت میں ویسا ہی گھر بناتا ہے۔ بخاری ومسلم مسجد جانے والے کو بھی اجر عظیم ملتا ہے ، آپ ﷺ کا فرمان ہے:اس کیلیے ہر قدم کے بدلے میں نیکی ہے، اللہ تعالی اس کا ایک درجہ بلند اور اس کی ایک برائی مٹا دیتا ہے۔ مسلم بلکہ مسجد سے واپس گھر آتے ہوئے بھی اسی طرح نیکیاں لکھی جاتی ہیں، ایک آدمی نے آپ ﷺ سے عرض کیامیں چاہتا ہوں کہ میرا مسجد جانا اور مسجد سے واپس گھر آنا دونوں ہی بطورِ ثواب لکھا جائےتو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے تمہارے لیے یہ سب کچھ لکھ دیا ہے ۔مسلم مساجد کی جانب زیادہ سے زیادہ چل کر جانا اور مساجد میں نمازوں کا انتظار کرنا رباط راہِ الہی میں پہرہ دینے کے مترادف ہے، جب بھی صبح یا شام کوئی مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کیلیے جنت میں مہمان نوازی کی تیاری فرماتا ہے۔ بخاری ومسلم نماز کیلیے جو جتنا دور سے چل کر آئے گا اس کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا، اور امام کے ساتھ نماز ادا کرنے کیلیے انتظار کرنے والے کا اجر اس شخص سے زیادہ ہے جو [تنہا] نماز پڑھ کر سو جائے ) بخاری ومسلم مسجدوں کی جانب چل کر جانا بھی گناہوں کی بخشش کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص نماز کیلیے اچھی طرح وضو کرے اور فرض نماز ادا کرنے کیلیے چلے پھر لوگوں کے ساتھ یا جماعت کے ساتھ یا مسجد میں [اکیلے]نماز ادا کرے تو اللہ تعالی اس کے گناہ بخش دیتا ہے) مسلم مسجد جانے کی پابندی اور مسجد سے لگاؤ: ہدایت اور بہتری کا باعث ہے، جن سات لوگوں کو اللہ تعالی اپنا سایہ نصیب فرمائے گا جب اس کے سائے کے علاوہ کسی کا سایہ نہیں ہوگا، ان میں وہ شخص بھی ہے: (جس کا دل مسجد کے ساتھ اٹکا ہوا ہے) مسلم، امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:"اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے مسجد کے ساتھ سخت لگاؤ تھا اور وہ مسجد میں نماز با جماعت کا اہتمام کرتا تھا" مسجد میں داخل ہونے کے بعد مسلمان اس وقت تک نماز کی حالت میں ہوتا ہے جب تک نماز اسے مسجد میں روکے رکھے، اور جب تک وہ اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہے تو اس کیلیے فرشتے دعائیں کرتے ہوئے کہتے ہیں: یا اللہ! اسے بخش دے، یا اللہ! اسے بخش دے ،مساجد بنانے کا اجرسابقہ امتوں میں بھی مساجد کا مقام بہت بلند تھا، اللہ تعالی نے ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کو مسجد الحرام کی صفائی ستھرائی کا حکم دیا: وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ سورۃ البقرۃ آیت 125ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو گے ،
جناب عمران کی اہلیہ نے بھی اپنے نو مولود کی مسجد اقصی کی خدمت کیلیے نذر مانی تھی:رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا سورۃ آل عمران آیت 35پروردگار! میں نے نذر مانی ہے کہ جو کچھ میرے بطن میں ہے وہمسجد اقصی کی خدمت کیلیے آزاد ہے۔
اسلام نے بھی مسجد کو خوب مقام و مرتبہ دیا، اور خادمِ مسجد کی عزت افزائی فرمائی، چنانچہ نبی ﷺ نے مسجد میں جھاڑو دینے والی خاتون کے بارے میں استفسار کیا تو صحابہ نے کہا: "وہ تو فوت ہو گئی ہے" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (مجھے اس کی قبر بتلاؤ) تو صحابہ کرام نے ان کی قبر بتلا دی، تو نبی ﷺ نے اس کا جنازہ پڑھا ۔ بخاری
جس وقت دیہاتی شخص نے مسجد میں پیشاب کیا تو آپ ﷺ نے پانی کا ایک ڈول اس پر بہانے کا حکم دیا، پھر اسے مسجد میں پیشاب کی حرمت بھی بتلائی اور فرمایا: (مسجدوں میں بول و براز کرنا بالکل بھی درست نہیں) مسلم
مسجد میں آنے کے آداب میں یہ شامل ہے کہ اچھے لباس کے ساتھ آئیں، فرمانِ باری تعالی ہے:يَابَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ سورۃ الأعراف آیت نمبر 31 اے بنی آدم ! جب بھی کسی مسجد میں جاؤ تو آراستہ ہو کر جاؤ
مسجد کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ مسجد میں آ کر سکون اور وقار کے ساتھ رہے اور چلے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:جب نماز کی اقامت ہو جائے تو دوڑتے ہوئے مسجد نہ آؤ، بلکہ پر وقار انداز سے چلو، نماز کا جو حصہ مل جائے وہ پڑھ لو اور جو رہ جائے وہ پورا کر لو ۔بخاری ومسلم
جب مسجد میں داخل ہو تو مسجد کے احترام میں پہلے اپنا دایاں قدم رکھے ، اور چونکہ مسجد عبادت، رحمت اور دعا کی جگہ ہے اس لیے داخل ہوتے وقت کہے: اَللَّهُمَّ افْتَحْ لِيْ أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ یا اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دےاور جب باہر نکلے تو کہے:اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ یا اللہ! میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں مسلم مساجد کی تعمیر وترقی کے لئے خود سعی کرے جیسا کہ صحیح بخاری میں باب اور اس ضمن کی حدیث سے واضح ہوتا ہے صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ التَّعَاوُنِ فِي بِنَاءِ المَسْجِدِ ترجمة الباب: مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالكُفْرِ، أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ، إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ، فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ المُهْتَدِينَ قال ابْنُ عَبَّاسٍ لعکرمۃ وَلِابْنِهِ عَلِيٍّ: انْطَلِقَا إِلَى أَبِي سَعِيدٍ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ، فَانْطَلَقْنَا فَإِذَا هُوَ فِي حَائِطٍ يُصْلِحُهُ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَاحْتَبَى، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا حَتَّى أَتَى ذكْرُ بِنَاءِ المَسْجِدِ، فَقَالَ: كُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَعَمَّارٌ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «وَيْحَ عَمَّارٍ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ» قَالَ: يَقُولُ عَمَّارٌ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الفِتَنِ ترجمۃ الباب:اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ “ مشرکین کے لیے لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کی تعمیر میں حصہ لیں۔ ” الآیہ۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے اپنے شاگرد عکرمہ اور اپنے لخت جگر علی سے کہا: تم دونوں حضرت ابوسعید خدری ؓ کے پاس جاؤ اور ان سے احادیث سنو، چنانچہ وہ دونوں گئے تو دیکھا کہ وہ ایک باغ میں ہیں اور اسے درست کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی چادر لی اور اسے کمر سے گھٹنوں تک لپیٹ کر بیٹھ گئے اور احادیث سنانے لگے حتی کہ مسجد نبوی کی تعمیر کا ذکر آیا تو فرمایا: ہم ایک ایک اینٹ اٹھاتے تھے جبکہ حضرت عمار ؓ دو، دو اینٹیں اٹھا کر لا رہے تھے۔ نبی ﷺ نے جب حضرت عمار ؓ کو دیکھا تو ان کے جسم سے مٹی جھاڑتے ہوئے فرمانے لگے: "عمار کی حالت قابل رحم ہے، انہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ یہ انہیں جنت کی دعوت دیں گے اور وہ انہیں جہنم کی طرف بلائیں گے۔" حضرت ابوسعید خدری ؓ نے کہا:حضرت عمار ؓ (یہ سن کر اکثر) کہا کرتے تھے: میں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
تشریح1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی کی تعمیر کے وقت مسجد کے قریب ہی کچی اینٹیں تیار کرائی تھی،وہ اتنی وزنی تھیں کہ بمشکل ایک آدمی ایک اینٹ ہی اٹھاسکتا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ اینٹیں اٹھارہے تھے۔صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عر ض کیا کہ آپ تکلیف نہ کریں،یہ کام کرنے کے لیے ہم کافی ہیں،چنانچہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ دو،دواینٹیں اٹھا کر لارہے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم دو،دواینٹیں کیوں اٹھارہے ہو؟انھوں نےجواب دیا کہ ایک اینٹ اپنے حصے کی اور دوسری آپ کے حصے کی لارہا ہوں جیسا کہ حافظ ا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے جامع معمر کے حوالے سے لکھاہے۔( فتح الباری 701/1۔) مزید برآں حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ جواب بھی روایت میں منقول ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ ثواب لینے کے لیے یہ مشقت برداشت کررہاہوں جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مستخرج ابی نعیم کے حوالے سے لکھاہے۔( فتح الباری 702/1۔) اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسرت ورنج کے ملے جلے جذبات کے ساتھ فرمایا:"عمار کی شہادت ایک باغی گروہ کے ہاتھوں سے ہوگی۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مساجد کی تعمیر مسلمانوں کوخود کرنی چاہیے اور اس کی تعمیر میں پتھر اٹھا اٹھا کرمدد دینا اتنا ثواب کا کام ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں کیاجاسکتا۔۔اس حدیث کے پیش نظر بعض اہل علم حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو"باغی" کہتے ہیں۔اس سلسلے میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تالیف"منہاج السنہ" میں فیصلہ کن بحث کی ہے ۔ہم اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خیال تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر خلیفہ کی اطاعت اور بیعت لازم ہے کیونکہ مسلمانوں کا ایک ہی خلیفہ ہوسکتا ہے اور یہ لوگ خلیفہ کی اطاعت سےباہر ہیں اور بیعت سے توقف کرکے ایک امرواجب سے گریز کررہے ہیں،پھر ان کا کچھ اثر ورسوخ بھی ہے۔اس بنا پر ان سے لڑنا ضروری ہے تاآنکہ اطاعت قبول کرلیں اور مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوجائیں،جبکہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فریق کا یہ خیال تھا کہ ہم پر ان کی اطاعت وبیعت واجب نہیں۔اگر اسی بنیاد پر ہم سے جنگ کی گئی تو ہم مظلوم ہوں گے کیونکہ باتفاق اہل اسلام حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ظلم وعدوان سے شہید کیاگیا ہے اور قاتلین عثمان حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کیمپ میں موجود ہیں۔اور وہ ان میں اپنا اثرورسوخ بھی رکھتے ہیں۔اگرہم اس خلیفے کی اطاعت میں آجائیں تو قاتلین عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم پر ظلم وستم کریں گے،حضرت علی انھیں روک نہیں سکیں گے جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دفاع نہیں کرسکے۔ہم پر اس خلیفے کی بیعت لازم ہے جو ہمارے ساتھ انصاف کرسکے۔اگرگروہ بندی میں شامل ہونے والوں میں کچھ جاہل قسم کے لوگ بھی موجود تھے،جوحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق برے خیالات رکھتے تھے،حالانکہ دونوں بزرگوں کا ان سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ان میں سے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کا حکم دیا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے کہ میں نےنہ قتل کیااور نہ ان کے قتل پر راضی ہی تھا اور نہ میں نےقاتلین کے ساتھ کوئی تعاون ہی کیا۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بیان میں حق بجانب تھے مگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض حامی اور مخالف اس پروپیگنڈے میں شریک تھے ۔آپ کے حامی تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرتے کہ واقعی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ قتل ہی کے حقدار تھے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےجائز طور پر ان کے قتل کا حکم دیا تھا جبکہ مخالفین کا مقصد یہ تھا کہ ایسی باتین پھیلاکر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کیچڑ اچھالاجائے کہ انھوں نے مظلوم خلیفے کو قتل کرنے پر تعاون کیا ہے۔ایسے انسان کی اطاعت کس بنیاد پر کی جائے؟حدیث میں ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔اس کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے۔بعض نے اس حدیث پر جرح کی ہے مگریہ درست نہیں کیونکہ یہ حدیث صحیح مسلم اور صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں موجود ہے جبکہ بعض حضرات یہ تاویل کرتے ہیں کہ باغیہ کے معنی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بدلہ طلب کرنے والی جماعت ہیں۔یہ تاویل بھی غلط ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے بظاہر جو معلوم ہورہا ہے وہ مبنی برحقیقت ہے،البتہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو باغیہ جماعت کے قتل کرنے سے اس جماعت کا کفر یانفاق لازم نہیں آتا جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٩﴾ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) "اگرمومنوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرادو پھر ان میں سے کوئی فریق دوسرے پر زیادتی کرے توزیادتی کرنے والے سے لڑو آنکھ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔پھر اگر وہ لوٹ آئےتو ان کے درمیان انصاف سےصلح کرادو کیونکہ اللہ عدل کرنےوالوں کو پسند کرتاہے۔مومن تو سب آپس میں بھائی بھائی ہیں،لہذااپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرادیاکرو۔"( الحجرات 9/10) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں افتتال اوربغی کے باوجود اہل ایمان قراردیا ہے بلکہ باغی گروہ کے ساتھ لڑائی کے حکم کے باوجود انھیں مومن گردانا ہے،لہذا بَغی ،ظلم اور تعدی تو عوام الناس کو بھی ایمان سے خارج نہیں کرتے اور نہ ان کو لعنت کے سزا وار قراردیتے ہیں،اگر خیر القرون میں سے کوئی یہ کام کر بیٹھے تواسے ایمان سے کیوں کر خارج کیا جاسکتا ہے؟دراصل باغی،ظالم،تعدی کرنے والا اور کسی گناہ کا مرتکب دوطرح کا ہوتا ہے متاول اور غیر متاول۔متاول مجتہد سے مراد وہ ماہرین علم ودین ہیں جو دینی معاملات میں اجتہاد کرتے ہیں۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک عالم کسی چیز کی حلت کا قائل ہے تو دوسرا اس کی حرمت کا موید ہوتا ہے جیساکہ اشربہ،سود کی بعض اقسام،عقد حلالہ اور نکاح متعہ جیسے مسائل میں ایسا ہوا ہے۔اس قسم کے اختلافات سلف میں بھی پائے جاتے ہیں۔یہ متاول مجتہد ہیں۔ان میں سے ایک فریق خطا پرہوتاہے اورخطا اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ہاں صحیح فیصلے کے علم کے باوجود غلط فیصلہ کرنا ظلم ہوگا اور اس پر اصرار فسق،بلکہ تحریم کے علم کے بعد اسے حلال قراردینا کفر ہوگا۔بغی کو بھی اسی اصول پر جانچنا چاہیے،چنانچہ باغی اگرمجتہد اور متاول ہے یعنی اسے یہ معلوم نہیں کہ میں باغی ہوں بلکہ وہ ا پنے برحق ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے تو ا س کے حق میں"باغی" کا اطلاق اسے بغاوت کے گناہ کا سزاوار نہیں بناتا۔جولوگ متاول باغیوں کے قتال کے قائل ہیں وہ بھی ان کے عدوان ظلم کو دور کرنے کے لیے ان سے لڑائی کے قائل ہیں انھیں سزادینے کے طور پر نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ عادل ہیں ،فاسق نہیں۔جس طرح بچے،مجنون بھولنے،والے بے ہوش اور سونے والے کو نقصان کرنے سے روکاجاتاہے اسی طرح انھیں بھی روکا جائے گا۔اگربغاوت بلاتاویل ہے تو بھی وہ ایک گناہ ہی ہے اور گناہ کی سزا،توبہ،حسنات اور مصائب وآلام وغیرہ اسباب سے زائل ہوسکتی ہے ،نیز اس حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ فئۃ باغیہ سے مراد ضرورحضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھی ہی ہیں۔ممکن ہے کہ اسے مراد وہ خاص گروہ ہو جنھوں نے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کیا اور انھیں شہید کیا اور وہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر میں ایک طائفہ تھا حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل پر راضی ہونے والے بھی اسی فہرست میں شامل ہوں گے کیونکہ ان کے لشکر میں ایسے لوگ موجود تھے۔البتہ وہ افراد جو قتل عمار پر راضی نہیں تھے وہ اس وعید میں شامل نہیں ہوں گے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسے نہ اچھا سمجھتے تھے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ مروی ہے کہ انھوں نے اس حدیث کی تاویل کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاتل وہی ہے جو اسے میدان جنگ میں لایا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس تاویل کا یہ جواب دیا کہ پھر تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی ہم نے ہی قتل کیا ہوگا کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود کو قاتل عمار نہیں سمجھتے تھے اس طرح وہ خود کو باغی بھی نہیں خیال کرتے تھے۔اس لیے جس شخص کی ظاہر ی حالت کی بنا پر باغی سمجھا جاسکتا ہو لیکن وہ اپنے آپ کو باغی نہ سمجھے تو اسے متاول مخطی کے درجے میں سمجھنا چاہیے۔۔اس حدیث میں ہے کہ حضر ت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ انھیں جنت کی دعوت دیتے تھے جبکہ وہ انھیں جہنم کی طرف بلارہے تھے۔اس میں ایک اشکال ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ صفین میں شہید ہوئے جبکہ وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے اور انھیں قتل کرنے والے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کیمپ میں تھے اور ان میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی تھے۔ایسے حالات میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ انھیں جہنم کی دعوت دیتے تھے؟حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ وہ اپنے گمان کے مطابق لوگوں کو جنت کی دعوت دیتے تھے چونکہ معاملہ اجتہادی ہے اس لیے وہ اپنے ظنون کی اتباع میں قابل ملامت نہیں۔جنت کی دعوت دینے سے مراد دخول جنت کے اسباب کی دعوت دینا ہے اور وہ امام کی اطاعت وبیعت ہے۔حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو اطاعت امام ،یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دعوت دیتے تھے جو اس وقت واجب التعمیل تھی اور ان کے مخالفین اپنے اجتہاد کی وجہ سے اس کے خلاف کی دعوت دیتے تھے۔لیکن انھیں اپنی تاویل واجتہاد کی بناپر معذور خیال کیا جائے گا۔( فتح الباری 701/1۔)۔بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جماعت پر"اسے باغی گروہ قتل کر یگا"تو صادق آتا ہے اور ان کے ہاں اس کی توجیہ یہ ہےکہ فعل ان حضرات سے خطائے اجتہادی کے طور پر صادرہوا لیکن آگے جو فرمایا کہ"وہ انھیں جنت کی دعوت دیتے تھے اور وہ اسے آگ کی طرف بلاتے تھے"اس کاتعلق حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوران کی جماعت سے نہیں بلکہ یہ جملہ مستانفہ ہے۔اس میں ایک دوسری بات بیان کی گئی ہے کہ ان کا معاملہ مشرکین مکہ کے ساتھ بھی بڑا قابل رحم رہا،ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جارہے تھے،والدہ تک شہید کردی گئیں جبکہ عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان مشرکین کو جنت کی طرف دعوت دیتے تھے اور مشرکین قریش انھیں جہنم کی طرف بلاتے تھے لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس توجیہ سے مطمئن نہیں کیونکہ الفاظ حدیث اس توجیہ کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ اس سے مراد حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتلین اہل شام ہیں۔( فتح الباری 702/1۔) واللہ اعلم۔6م۔حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ مشاجرات صحابہ کے سلسلے میں بڑے حساس تھے۔ان سے ایک د فعہ سوال ہو ا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق کیاکہتے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا:ان کے متعلق اچھی بات کہتا ہوں۔اللہ تعالیٰ ان سب پر رحم کرے۔( السنۃ للخلال حدیث 460۔) بلکہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرمایا ہے کہ وہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق مشہور حدیث"انھیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔" کےمتعلق بحث وتکرار ہی کو ناپسند کرتے تھے،یعنی اس حدیث کو بیان تو کرتے لیکن اس پر مزید بات کرنے کو ناپسند خیال کرتے تھے۔( السیر 421/1۔)۔بہرحال مساجد کی تعمیر وترقی کے بےشمار فضائل موجود ہیں لیکن وہ تمام اسی وقت حاصل ہونگے جبکہ نماز پڑھانے والے کی دل میں خوب محبت ہو اور اس کا خوب تعاون کرے اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مساجد کی اہمیت اللہ ورسول کی نظر میں
مساجد کی بقاء کے لئے رب کانظام قرآن میں ان الفاظ میں مذکور ہے وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا۔ سورۃ الحج آیت نمبر 40اگر اللہ تعالی لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا تو عبادت خانے ،گرجے ،یہودیوں کے معبد خانے اور وہ مسجدیں بھی ڈھا دی جاتیں جہاں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے۔
مساجد بنانا اطاعت اور عبادت ہے، اللہ تعالی نے مسجد بنانے والے سے جنت کا وعدہ فرمایا، آپ ﷺ کا فرمان ہے:جس نے اللہ کیلیے مسجد بنائی، اللہ تعالی اس کیلیے جنت میں ویسا ہی گھر بناتا ہے۔ بخاری ومسلم مسجد جانے والے کو بھی اجر عظیم ملتا ہے ، آپ ﷺ کا فرمان ہے:اس کیلیے ہر قدم کے بدلے میں نیکی ہے، اللہ تعالی اس کا ایک درجہ بلند اور اس کی ایک برائی مٹا دیتا ہے۔ مسلم بلکہ مسجد سے واپس گھر آتے ہوئے بھی اسی طرح نیکیاں لکھی جاتی ہیں، ایک آدمی نے آپ ﷺ سے عرض کیامیں چاہتا ہوں کہ میرا مسجد جانا اور مسجد سے واپس گھر آنا دونوں ہی بطورِ ثواب لکھا جائےتو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے تمہارے لیے یہ سب کچھ لکھ دیا ہے ۔مسلم مساجد کی جانب زیادہ سے زیادہ چل کر جانا اور مساجد میں نمازوں کا انتظار کرنا رباط راہِ الہی میں پہرہ دینے کے مترادف ہے، جب بھی صبح یا شام کوئی مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کیلیے جنت میں مہمان نوازی کی تیاری فرماتا ہے۔ بخاری ومسلم نماز کیلیے جو جتنا دور سے چل کر آئے گا اس کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا، اور امام کے ساتھ نماز ادا کرنے کیلیے انتظار کرنے والے کا اجر اس شخص سے زیادہ ہے جو [تنہا] نماز پڑھ کر سو جائے ) بخاری ومسلم مسجدوں کی جانب چل کر جانا بھی گناہوں کی بخشش کا باعث ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: جو شخص نماز کیلیے اچھی طرح وضو کرے اور فرض نماز ادا کرنے کیلیے چلے پھر لوگوں کے ساتھ یا جماعت کے ساتھ یا مسجد میں [اکیلے]نماز ادا کرے تو اللہ تعالی اس کے گناہ بخش دیتا ہے) مسلم مسجد جانے کی پابندی اور مسجد سے لگاؤ: ہدایت اور بہتری کا باعث ہے، جن سات لوگوں کو اللہ تعالی اپنا سایہ نصیب فرمائے گا جب اس کے سائے کے علاوہ کسی کا سایہ نہیں ہوگا، ان میں وہ شخص بھی ہے: (جس کا دل مسجد کے ساتھ اٹکا ہوا ہے) مسلم، امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:"اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے مسجد کے ساتھ سخت لگاؤ تھا اور وہ مسجد میں نماز با جماعت کا اہتمام کرتا تھا" مسجد میں داخل ہونے کے بعد مسلمان اس وقت تک نماز کی حالت میں ہوتا ہے جب تک نماز اسے مسجد میں روکے رکھے، اور جب تک وہ اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہے تو اس کیلیے فرشتے دعائیں کرتے ہوئے کہتے ہیں: یا اللہ! اسے بخش دے، یا اللہ! اسے بخش دے ،مساجد بنانے کا اجرسابقہ امتوں میں بھی مساجد کا مقام بہت بلند تھا، اللہ تعالی نے ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کو مسجد الحرام کی صفائی ستھرائی کا حکم دیا: وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ سورۃ البقرۃ آیت 125ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو گے ،
جناب عمران کی اہلیہ نے بھی اپنے نو مولود کی مسجد اقصی کی خدمت کیلیے نذر مانی تھی:رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا سورۃ آل عمران آیت 35پروردگار! میں نے نذر مانی ہے کہ جو کچھ میرے بطن میں ہے وہمسجد اقصی کی خدمت کیلیے آزاد ہے۔
اسلام نے بھی مسجد کو خوب مقام و مرتبہ دیا، اور خادمِ مسجد کی عزت افزائی فرمائی، چنانچہ نبی ﷺ نے مسجد میں جھاڑو دینے والی خاتون کے بارے میں استفسار کیا تو صحابہ نے کہا: "وہ تو فوت ہو گئی ہے" تو آپ ﷺ نے فرمایا: (مجھے اس کی قبر بتلاؤ) تو صحابہ کرام نے ان کی قبر بتلا دی، تو نبی ﷺ نے اس کا جنازہ پڑھا ۔ بخاری
جس وقت دیہاتی شخص نے مسجد میں پیشاب کیا تو آپ ﷺ نے پانی کا ایک ڈول اس پر بہانے کا حکم دیا، پھر اسے مسجد میں پیشاب کی حرمت بھی بتلائی اور فرمایا: (مسجدوں میں بول و براز کرنا بالکل بھی درست نہیں) مسلم
مسجد میں آنے کے آداب میں یہ شامل ہے کہ اچھے لباس کے ساتھ آئیں، فرمانِ باری تعالی ہے:يَابَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ سورۃ الأعراف آیت نمبر 31 اے بنی آدم ! جب بھی کسی مسجد میں جاؤ تو آراستہ ہو کر جاؤ
مسجد کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ مسجد میں آ کر سکون اور وقار کے ساتھ رہے اور چلے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:جب نماز کی اقامت ہو جائے تو دوڑتے ہوئے مسجد نہ آؤ، بلکہ پر وقار انداز سے چلو، نماز کا جو حصہ مل جائے وہ پڑھ لو اور جو رہ جائے وہ پورا کر لو ۔بخاری ومسلم
جب مسجد میں داخل ہو تو مسجد کے احترام میں پہلے اپنا دایاں قدم رکھے ، اور چونکہ مسجد عبادت، رحمت اور دعا کی جگہ ہے اس لیے داخل ہوتے وقت کہے: اَللَّهُمَّ افْتَحْ لِيْ أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ یا اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دےاور جب باہر نکلے تو کہے:اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ یا اللہ! میں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں مسلم مساجد کی تعمیر وترقی کے لئے خود سعی کرے جیسا کہ صحیح بخاری میں باب اور اس ضمن کی حدیث سے واضح ہوتا ہے صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ التَّعَاوُنِ فِي بِنَاءِ المَسْجِدِ ترجمة الباب: مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالكُفْرِ، أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ، إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ، فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ المُهْتَدِينَ قال ابْنُ عَبَّاسٍ لعکرمۃ وَلِابْنِهِ عَلِيٍّ: انْطَلِقَا إِلَى أَبِي سَعِيدٍ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ، فَانْطَلَقْنَا فَإِذَا هُوَ فِي حَائِطٍ يُصْلِحُهُ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَاحْتَبَى، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا حَتَّى أَتَى ذكْرُ بِنَاءِ المَسْجِدِ، فَقَالَ: كُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَعَمَّارٌ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «وَيْحَ عَمَّارٍ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ» قَالَ: يَقُولُ عَمَّارٌ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الفِتَنِ ترجمۃ الباب:اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ “ مشرکین کے لیے لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کی تعمیر میں حصہ لیں۔ ” الآیہ۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے اپنے شاگرد عکرمہ اور اپنے لخت جگر علی سے کہا: تم دونوں حضرت ابوسعید خدری ؓ کے پاس جاؤ اور ان سے احادیث سنو، چنانچہ وہ دونوں گئے تو دیکھا کہ وہ ایک باغ میں ہیں اور اسے درست کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی چادر لی اور اسے کمر سے گھٹنوں تک لپیٹ کر بیٹھ گئے اور احادیث سنانے لگے حتی کہ مسجد نبوی کی تعمیر کا ذکر آیا تو فرمایا: ہم ایک ایک اینٹ اٹھاتے تھے جبکہ حضرت عمار ؓ دو، دو اینٹیں اٹھا کر لا رہے تھے۔ نبی ﷺ نے جب حضرت عمار ؓ کو دیکھا تو ان کے جسم سے مٹی جھاڑتے ہوئے فرمانے لگے: "عمار کی حالت قابل رحم ہے، انہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ یہ انہیں جنت کی دعوت دیں گے اور وہ انہیں جہنم کی طرف بلائیں گے۔" حضرت ابوسعید خدری ؓ نے کہا:حضرت عمار ؓ (یہ سن کر اکثر) کہا کرتے تھے: میں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
تشریح1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی کی تعمیر کے وقت مسجد کے قریب ہی کچی اینٹیں تیار کرائی تھی،وہ اتنی وزنی تھیں کہ بمشکل ایک آدمی ایک اینٹ ہی اٹھاسکتا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ اینٹیں اٹھارہے تھے۔صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عر ض کیا کہ آپ تکلیف نہ کریں،یہ کام کرنے کے لیے ہم کافی ہیں،چنانچہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ دو،دواینٹیں اٹھا کر لارہے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم دو،دواینٹیں کیوں اٹھارہے ہو؟انھوں نےجواب دیا کہ ایک اینٹ اپنے حصے کی اور دوسری آپ کے حصے کی لارہا ہوں جیسا کہ حافظ ا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے جامع معمر کے حوالے سے لکھاہے۔( فتح الباری 701/1۔) مزید برآں حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ جواب بھی روایت میں منقول ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ ثواب لینے کے لیے یہ مشقت برداشت کررہاہوں جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مستخرج ابی نعیم کے حوالے سے لکھاہے۔( فتح الباری 702/1۔) اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسرت ورنج کے ملے جلے جذبات کے ساتھ فرمایا:"عمار کی شہادت ایک باغی گروہ کے ہاتھوں سے ہوگی۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مساجد کی تعمیر مسلمانوں کوخود کرنی چاہیے اور اس کی تعمیر میں پتھر اٹھا اٹھا کرمدد دینا اتنا ثواب کا کام ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں کیاجاسکتا۔۔اس حدیث کے پیش نظر بعض اہل علم حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو"باغی" کہتے ہیں۔اس سلسلے میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تالیف"منہاج السنہ" میں فیصلہ کن بحث کی ہے ۔ہم اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خیال تھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر خلیفہ کی اطاعت اور بیعت لازم ہے کیونکہ مسلمانوں کا ایک ہی خلیفہ ہوسکتا ہے اور یہ لوگ خلیفہ کی اطاعت سےباہر ہیں اور بیعت سے توقف کرکے ایک امرواجب سے گریز کررہے ہیں،پھر ان کا کچھ اثر ورسوخ بھی ہے۔اس بنا پر ان سے لڑنا ضروری ہے تاآنکہ اطاعت قبول کرلیں اور مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوجائیں،جبکہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فریق کا یہ خیال تھا کہ ہم پر ان کی اطاعت وبیعت واجب نہیں۔اگر اسی بنیاد پر ہم سے جنگ کی گئی تو ہم مظلوم ہوں گے کیونکہ باتفاق اہل اسلام حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ظلم وعدوان سے شہید کیاگیا ہے اور قاتلین عثمان حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کیمپ میں موجود ہیں۔اور وہ ان میں اپنا اثرورسوخ بھی رکھتے ہیں۔اگرہم اس خلیفے کی اطاعت میں آجائیں تو قاتلین عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم پر ظلم وستم کریں گے،حضرت علی انھیں روک نہیں سکیں گے جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دفاع نہیں کرسکے۔ہم پر اس خلیفے کی بیعت لازم ہے جو ہمارے ساتھ انصاف کرسکے۔اگرگروہ بندی میں شامل ہونے والوں میں کچھ جاہل قسم کے لوگ بھی موجود تھے،جوحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق برے خیالات رکھتے تھے،حالانکہ دونوں بزرگوں کا ان سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ان میں سے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کا حکم دیا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے کہ میں نےنہ قتل کیااور نہ ان کے قتل پر راضی ہی تھا اور نہ میں نےقاتلین کے ساتھ کوئی تعاون ہی کیا۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بیان میں حق بجانب تھے مگر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض حامی اور مخالف اس پروپیگنڈے میں شریک تھے ۔آپ کے حامی تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرتے کہ واقعی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ قتل ہی کے حقدار تھے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےجائز طور پر ان کے قتل کا حکم دیا تھا جبکہ مخالفین کا مقصد یہ تھا کہ ایسی باتین پھیلاکر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کیچڑ اچھالاجائے کہ انھوں نے مظلوم خلیفے کو قتل کرنے پر تعاون کیا ہے۔ایسے انسان کی اطاعت کس بنیاد پر کی جائے؟حدیث میں ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔اس کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے۔بعض نے اس حدیث پر جرح کی ہے مگریہ درست نہیں کیونکہ یہ حدیث صحیح مسلم اور صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں موجود ہے جبکہ بعض حضرات یہ تاویل کرتے ہیں کہ باغیہ کے معنی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بدلہ طلب کرنے والی جماعت ہیں۔یہ تاویل بھی غلط ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے بظاہر جو معلوم ہورہا ہے وہ مبنی برحقیقت ہے،البتہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو باغیہ جماعت کے قتل کرنے سے اس جماعت کا کفر یانفاق لازم نہیں آتا جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٩﴾ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) "اگرمومنوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرادو پھر ان میں سے کوئی فریق دوسرے پر زیادتی کرے توزیادتی کرنے والے سے لڑو آنکھ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔پھر اگر وہ لوٹ آئےتو ان کے درمیان انصاف سےصلح کرادو کیونکہ اللہ عدل کرنےوالوں کو پسند کرتاہے۔مومن تو سب آپس میں بھائی بھائی ہیں،لہذااپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرادیاکرو۔"( الحجرات 9/10) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں افتتال اوربغی کے باوجود اہل ایمان قراردیا ہے بلکہ باغی گروہ کے ساتھ لڑائی کے حکم کے باوجود انھیں مومن گردانا ہے،لہذا بَغی ،ظلم اور تعدی تو عوام الناس کو بھی ایمان سے خارج نہیں کرتے اور نہ ان کو لعنت کے سزا وار قراردیتے ہیں،اگر خیر القرون میں سے کوئی یہ کام کر بیٹھے تواسے ایمان سے کیوں کر خارج کیا جاسکتا ہے؟دراصل باغی،ظالم،تعدی کرنے والا اور کسی گناہ کا مرتکب دوطرح کا ہوتا ہے متاول اور غیر متاول۔متاول مجتہد سے مراد وہ ماہرین علم ودین ہیں جو دینی معاملات میں اجتہاد کرتے ہیں۔کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک عالم کسی چیز کی حلت کا قائل ہے تو دوسرا اس کی حرمت کا موید ہوتا ہے جیساکہ اشربہ،سود کی بعض اقسام،عقد حلالہ اور نکاح متعہ جیسے مسائل میں ایسا ہوا ہے۔اس قسم کے اختلافات سلف میں بھی پائے جاتے ہیں۔یہ متاول مجتہد ہیں۔ان میں سے ایک فریق خطا پرہوتاہے اورخطا اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ہاں صحیح فیصلے کے علم کے باوجود غلط فیصلہ کرنا ظلم ہوگا اور اس پر اصرار فسق،بلکہ تحریم کے علم کے بعد اسے حلال قراردینا کفر ہوگا۔بغی کو بھی اسی اصول پر جانچنا چاہیے،چنانچہ باغی اگرمجتہد اور متاول ہے یعنی اسے یہ معلوم نہیں کہ میں باغی ہوں بلکہ وہ ا پنے برحق ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے تو ا س کے حق میں"باغی" کا اطلاق اسے بغاوت کے گناہ کا سزاوار نہیں بناتا۔جولوگ متاول باغیوں کے قتال کے قائل ہیں وہ بھی ان کے عدوان ظلم کو دور کرنے کے لیے ان سے لڑائی کے قائل ہیں انھیں سزادینے کے طور پر نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ عادل ہیں ،فاسق نہیں۔جس طرح بچے،مجنون بھولنے،والے بے ہوش اور سونے والے کو نقصان کرنے سے روکاجاتاہے اسی طرح انھیں بھی روکا جائے گا۔اگربغاوت بلاتاویل ہے تو بھی وہ ایک گناہ ہی ہے اور گناہ کی سزا،توبہ،حسنات اور مصائب وآلام وغیرہ اسباب سے زائل ہوسکتی ہے ،نیز اس حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ فئۃ باغیہ سے مراد ضرورحضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھی ہی ہیں۔ممکن ہے کہ اسے مراد وہ خاص گروہ ہو جنھوں نے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کیا اور انھیں شہید کیا اور وہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر میں ایک طائفہ تھا حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل پر راضی ہونے والے بھی اسی فہرست میں شامل ہوں گے کیونکہ ان کے لشکر میں ایسے لوگ موجود تھے۔البتہ وہ افراد جو قتل عمار پر راضی نہیں تھے وہ اس وعید میں شامل نہیں ہوں گے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسے نہ اچھا سمجھتے تھے۔حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ مروی ہے کہ انھوں نے اس حدیث کی تاویل کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاتل وہی ہے جو اسے میدان جنگ میں لایا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس تاویل کا یہ جواب دیا کہ پھر تو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی ہم نے ہی قتل کیا ہوگا کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود کو قاتل عمار نہیں سمجھتے تھے اس طرح وہ خود کو باغی بھی نہیں خیال کرتے تھے۔اس لیے جس شخص کی ظاہر ی حالت کی بنا پر باغی سمجھا جاسکتا ہو لیکن وہ اپنے آپ کو باغی نہ سمجھے تو اسے متاول مخطی کے درجے میں سمجھنا چاہیے۔۔اس حدیث میں ہے کہ حضر ت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ انھیں جنت کی دعوت دیتے تھے جبکہ وہ انھیں جہنم کی طرف بلارہے تھے۔اس میں ایک اشکال ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ صفین میں شہید ہوئے جبکہ وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے اور انھیں قتل کرنے والے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کیمپ میں تھے اور ان میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی تھے۔ایسے حالات میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ انھیں جہنم کی دعوت دیتے تھے؟حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ وہ اپنے گمان کے مطابق لوگوں کو جنت کی دعوت دیتے تھے چونکہ معاملہ اجتہادی ہے اس لیے وہ اپنے ظنون کی اتباع میں قابل ملامت نہیں۔جنت کی دعوت دینے سے مراد دخول جنت کے اسباب کی دعوت دینا ہے اور وہ امام کی اطاعت وبیعت ہے۔حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو اطاعت امام ،یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دعوت دیتے تھے جو اس وقت واجب التعمیل تھی اور ان کے مخالفین اپنے اجتہاد کی وجہ سے اس کے خلاف کی دعوت دیتے تھے۔لیکن انھیں اپنی تاویل واجتہاد کی بناپر معذور خیال کیا جائے گا۔( فتح الباری 701/1۔)۔بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جماعت پر"اسے باغی گروہ قتل کر یگا"تو صادق آتا ہے اور ان کے ہاں اس کی توجیہ یہ ہےکہ فعل ان حضرات سے خطائے اجتہادی کے طور پر صادرہوا لیکن آگے جو فرمایا کہ"وہ انھیں جنت کی دعوت دیتے تھے اور وہ اسے آگ کی طرف بلاتے تھے"اس کاتعلق حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوران کی جماعت سے نہیں بلکہ یہ جملہ مستانفہ ہے۔اس میں ایک دوسری بات بیان کی گئی ہے کہ ان کا معاملہ مشرکین مکہ کے ساتھ بھی بڑا قابل رحم رہا،ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جارہے تھے،والدہ تک شہید کردی گئیں جبکہ عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان مشرکین کو جنت کی طرف دعوت دیتے تھے اور مشرکین قریش انھیں جہنم کی طرف بلاتے تھے لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس توجیہ سے مطمئن نہیں کیونکہ الفاظ حدیث اس توجیہ کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ اس سے مراد حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتلین اہل شام ہیں۔( فتح الباری 702/1۔) واللہ اعلم۔6م۔حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ مشاجرات صحابہ کے سلسلے میں بڑے حساس تھے۔ان سے ایک د فعہ سوال ہو ا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق کیاکہتے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا:ان کے متعلق اچھی بات کہتا ہوں۔اللہ تعالیٰ ان سب پر رحم کرے۔( السنۃ للخلال حدیث 460۔) بلکہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرمایا ہے کہ وہ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق مشہور حدیث"انھیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔" کےمتعلق بحث وتکرار ہی کو ناپسند کرتے تھے،یعنی اس حدیث کو بیان تو کرتے لیکن اس پر مزید بات کرنے کو ناپسند خیال کرتے تھے۔( السیر 421/1۔)۔بہرحال مساجد کی تعمیر وترقی کے بےشمار فضائل موجود ہیں لیکن وہ تمام اسی وقت حاصل ہونگے جبکہ نماز پڑھانے والے کی دل میں خوب محبت ہو اور اس کا خوب تعاون کرے اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین