ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الاول - ۱۴۴۳
نوجوان خواتین ارتداد کے دھانے پر
حضرت مفتی محمد غفران حیدر صاحب،مدرسہ نور المعارف، مولانا علی میاں نگر، دیاگنج،ضلع ارریہ،بہار
حامدا ومصلیاََ
محترم قارئین !
افسوس صد افسوس مسلم خواتین ارتداد پر مجبور ھوکر ایک غیر مسلم سے شادی کرتی ہیں سوچنے اور سمجھنے کا وقت اور تدبر کے بعد سنبھلنے اور اپنی اولاد کو سنبھالنے کا وقت ھے کہ ھماری وہ مسلمان خواتین جنکے بطن سے عبداللہ اور عبدالرحمان حامد غازی پیدا ھوتے ھیں وہ اپنے بطن میں رام داس کی پرورش کرینگی حسن کی کلی اسلام کی پری دین کو چاھنے والی اور مسلمان کے گھر میں پلنے والی خنزیر کھانے والے کے پہلو میں جسکی جدید مثال شوشل میڈیا پر شاٸع ھونے والی تصویر ھے جس میں رانی بانو بنت حنیف احمد جاۓ ساکن ضلع گونہ ھے جو کہ ایک غیر مسلم آکاش پرجاپتی کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ کر مذھب اسلام کو آگاہ کرکے گٸی ھے جسکی فکر امت کے ھر فرد کے لئے از حد ضروی ھے اور نہ جانے آۓ دن ایسے کتنے واقعات آنکھوں سے گزرتے ھیں جن کو اھل مذھب (مسلمان ) نظر انداز کردیتے ھیں یقینا اس طرح کی اطلاعات دل کو تڑپا کر جسم کے اندر تھر تھراھٹ پیدا کردیتی ھیں ، ایک وقت تھا کہ کفار کی عورتیں مسلمان ھوکر اھل اسلام سے نکاح کرتی تھیں اور اپنے آپکو جھنم کے ایندھن سے بچانے کی فکر میں رھتی تھیں ،لیکن آج اس دور قحط الرجال میں اس کا بر عکس ھے کہ مسلمان خواتین کافر کے ساتھ نکاح کرکے اپنے آپکو جھنم کا ایندھن بناتے ہوئے اسکو بخوشی قبول کر رھی ھیں آخر کیا وجہ ھے ؟ کس چیز نے مسلم خواتین کو اتداد پر مجبور کیا آخر کیا کوتاھی ھے اھل اسلام کی کہ اس محبوب مذھب کو چھوڑ کر اس کے تمام اخروی فضاٸل کو نظر انداز کرکے غیروں کے مذاھب کی تمام تر حقیقت کا علم رکھتے ھوۓ ان کے مذھب کی حقیقت اور اسکے اخروی انجام کو جانتے ھوۓ اسلام کو چھوڑ کر مرتد ھونے کو اپنے لئے بھتر سمجھتی ہیں آخر اتنے بڑے فیصلہ کے لئے کیسے تیار ھوتی ھیں کہ وہ اسلام ک شھزادی جسکو اللہ نے حور عین کا سردار بنایا وہ کس دنیوی لذت کے لئے اپنی آخرت کو بالاۓ طاق رکھکر اپنے محبوب جسم کو جھنم میں لیجانے پر خوش ھے۔
آخر کیا وجہ ھے ؟
سوچنے سے کچھ عیاں ھوتا ھے کہ دوسرے مذاھب سے محبت ارتداد کا پھلا زینہ ھے اپنے مذھب کے تئیں کٹر ھونا فرض ھے لا یتخذالمومنون الکافرین اولیا ٕ من دون المومنین
اپنے مذھب پر کٹر رہیۓ ،معاملات معاشرت دوسرے کے ساتھ دنیا کی ضرورت ھے لکن حدود میں رکھنا بھی عقلمندی ھے، انکو اپنا بھیدی شریک جگری دوست ھمنوا رازدار نہ بنائے،ایک دوسرے کے تھوار میں بے تکلفی سے شرکت یہ دیگر مذھب کی نفرت کو ختم کر انکی محبت کو جنم دیتی ھے اور یہ محبت ھی اتداد کا سبب بنتی ھے ،عدم تعلیم دین بھی ایک بڑی وجہ ھے لیکن اس سے بڑی وجہ ماسوی اللہ سے نفرت نا ھونا ھے ،لاالہ الااللہ پڑھنے کے بعد اس ماسوی اللہ سے نفرت بھی اپناے۔
توحید کے دو بڑے اھم جزٕ ھیں :ایک اثباتی دوسرا منفی ؛اللہ کو ایک ماننا اثباتی ،ما سوی اللہ کا انکار منفی ،یہ دوسری چیز ھی پہلی چیز پر مکمل طور پر عمل کراتی ھے پہلی تو ھو لیکن دوسری نہ ھو یا ھو لیکن اس میں کجی ھو تو یقین مانۓ آپ ارتداد کے دھانے پر کھڑے ھیں ،وکنتم علی شفا حفرةمن النار فانقذکم منھا اپنی اولاد کو دین کی محبت سکھانے کے ساتھ ساتھ دیگر مذاھب کی حقیقت اور اس سے نفرت بھی سکھاۓ تاکہ یہ دن نہ دیکھنا پڑے ،کہ کفر سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگا جاتا ھے ،آج کل مسلم خواتین کے ارتداد کی دو وجوھات سامنے آتی ھے،ایک اسکول کالج میں بالغ خواتین کا جانا اور دوسرے موبائل کے استعمال کی اجازت کا عام ھونا ،بچی کو تعلیم دینا عیب نھیں ھے لیکن اس میں افراط و تفریط کا ھونا اور تعلیمی مقصد کا ختم ھوکر کے تربیت کا بھول جانا یہ عیب ھے ۔
ہم نے لفظ تربیت کو لغت تک محدود کرکے اس پر عمل کرنا ھی چھوڑ دیا حالانکہ تربیت کا تعلق تعلیم سے ایسا ھے جس طرح جسم سے روح کا اگر روح نھیں ھے تو جسم بے فادہ،لھذا تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ ھونی چاھۓ ،اسلۓ کہ اولاد کی تربیت صالح ہوتو ایک نعمت ہے وگرنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے ۔ دین وشریعت میں اولاد کی تربیت ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے ۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے ، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کےحقوق میں کتاہیوں سے بچا جائے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے ۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے ۔اپنی اولاد کی تربیت کے معاملہ میں سردمہری کامظاہرہ کرنے والوں کو کل قیامت کے روز جوکربناک صورت حال پیش آسکتی ہے۔ اس سے اہل ایمان کومحفوظ رکھنےکےلیے اللہ تعالیٰ نے پہلے سےآگاہ کردیا ہے۔ تاکہ وہ اپنی فکر کےساتھ ساتھ اپنے اہل عیال اوراپنی آل اولاد کوعذاب الٰہی میں گرفتار ہونے اور دوزخ کا ایندھن بننے سے بچانے کی بھی فکرکریں۔
بھر حال ایک اور اھم چیز جسکے سبب اس طرح کے واقعات سامنے آتے ھیں وہ وقت پر اولاد کا نکاح نہ کرنا ھے ،بچہ جب بالغ ہوجائے تو جلد سے جلد اس کے جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ کر اس کا نکاح کردینا چاہیے بشرطیکہ لڑکا اپنی بیوی کا نفقہ دینے پر خود قادر ہو یا کوئی ( والد وغیرہ) اس کا اور اس کی بیوی کا خرچہ اٹھانے کے لیے تیار ہو، اگر قرائن سے اندازہ ہو کہ بیٹا شادی کرنا چاہتا ہے ورنہ گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اور پھر بھی والدین بلا کسی عذر کے اس کی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کریں تو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا۔حدیث شریف میں ہے: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه»'' مشکوة ترجمہ: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔
محترم قارئین !
افسوس صد افسوس مسلم خواتین ارتداد پر مجبور ھوکر ایک غیر مسلم سے شادی کرتی ہیں سوچنے اور سمجھنے کا وقت اور تدبر کے بعد سنبھلنے اور اپنی اولاد کو سنبھالنے کا وقت ھے کہ ھماری وہ مسلمان خواتین جنکے بطن سے عبداللہ اور عبدالرحمان حامد غازی پیدا ھوتے ھیں وہ اپنے بطن میں رام داس کی پرورش کرینگی حسن کی کلی اسلام کی پری دین کو چاھنے والی اور مسلمان کے گھر میں پلنے والی خنزیر کھانے والے کے پہلو میں جسکی جدید مثال شوشل میڈیا پر شاٸع ھونے والی تصویر ھے جس میں رانی بانو بنت حنیف احمد جاۓ ساکن ضلع گونہ ھے جو کہ ایک غیر مسلم آکاش پرجاپتی کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ کر مذھب اسلام کو آگاہ کرکے گٸی ھے جسکی فکر امت کے ھر فرد کے لئے از حد ضروی ھے اور نہ جانے آۓ دن ایسے کتنے واقعات آنکھوں سے گزرتے ھیں جن کو اھل مذھب (مسلمان ) نظر انداز کردیتے ھیں یقینا اس طرح کی اطلاعات دل کو تڑپا کر جسم کے اندر تھر تھراھٹ پیدا کردیتی ھیں ، ایک وقت تھا کہ کفار کی عورتیں مسلمان ھوکر اھل اسلام سے نکاح کرتی تھیں اور اپنے آپکو جھنم کے ایندھن سے بچانے کی فکر میں رھتی تھیں ،لیکن آج اس دور قحط الرجال میں اس کا بر عکس ھے کہ مسلمان خواتین کافر کے ساتھ نکاح کرکے اپنے آپکو جھنم کا ایندھن بناتے ہوئے اسکو بخوشی قبول کر رھی ھیں آخر کیا وجہ ھے ؟ کس چیز نے مسلم خواتین کو اتداد پر مجبور کیا آخر کیا کوتاھی ھے اھل اسلام کی کہ اس محبوب مذھب کو چھوڑ کر اس کے تمام اخروی فضاٸل کو نظر انداز کرکے غیروں کے مذاھب کی تمام تر حقیقت کا علم رکھتے ھوۓ ان کے مذھب کی حقیقت اور اسکے اخروی انجام کو جانتے ھوۓ اسلام کو چھوڑ کر مرتد ھونے کو اپنے لئے بھتر سمجھتی ہیں آخر اتنے بڑے فیصلہ کے لئے کیسے تیار ھوتی ھیں کہ وہ اسلام ک شھزادی جسکو اللہ نے حور عین کا سردار بنایا وہ کس دنیوی لذت کے لئے اپنی آخرت کو بالاۓ طاق رکھکر اپنے محبوب جسم کو جھنم میں لیجانے پر خوش ھے۔
آخر کیا وجہ ھے ؟
سوچنے سے کچھ عیاں ھوتا ھے کہ دوسرے مذاھب سے محبت ارتداد کا پھلا زینہ ھے اپنے مذھب کے تئیں کٹر ھونا فرض ھے لا یتخذالمومنون الکافرین اولیا ٕ من دون المومنین
اپنے مذھب پر کٹر رہیۓ ،معاملات معاشرت دوسرے کے ساتھ دنیا کی ضرورت ھے لکن حدود میں رکھنا بھی عقلمندی ھے، انکو اپنا بھیدی شریک جگری دوست ھمنوا رازدار نہ بنائے،ایک دوسرے کے تھوار میں بے تکلفی سے شرکت یہ دیگر مذھب کی نفرت کو ختم کر انکی محبت کو جنم دیتی ھے اور یہ محبت ھی اتداد کا سبب بنتی ھے ،عدم تعلیم دین بھی ایک بڑی وجہ ھے لیکن اس سے بڑی وجہ ماسوی اللہ سے نفرت نا ھونا ھے ،لاالہ الااللہ پڑھنے کے بعد اس ماسوی اللہ سے نفرت بھی اپناے۔
توحید کے دو بڑے اھم جزٕ ھیں :ایک اثباتی دوسرا منفی ؛اللہ کو ایک ماننا اثباتی ،ما سوی اللہ کا انکار منفی ،یہ دوسری چیز ھی پہلی چیز پر مکمل طور پر عمل کراتی ھے پہلی تو ھو لیکن دوسری نہ ھو یا ھو لیکن اس میں کجی ھو تو یقین مانۓ آپ ارتداد کے دھانے پر کھڑے ھیں ،وکنتم علی شفا حفرةمن النار فانقذکم منھا اپنی اولاد کو دین کی محبت سکھانے کے ساتھ ساتھ دیگر مذاھب کی حقیقت اور اس سے نفرت بھی سکھاۓ تاکہ یہ دن نہ دیکھنا پڑے ،کہ کفر سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگا جاتا ھے ،آج کل مسلم خواتین کے ارتداد کی دو وجوھات سامنے آتی ھے،ایک اسکول کالج میں بالغ خواتین کا جانا اور دوسرے موبائل کے استعمال کی اجازت کا عام ھونا ،بچی کو تعلیم دینا عیب نھیں ھے لیکن اس میں افراط و تفریط کا ھونا اور تعلیمی مقصد کا ختم ھوکر کے تربیت کا بھول جانا یہ عیب ھے ۔
ہم نے لفظ تربیت کو لغت تک محدود کرکے اس پر عمل کرنا ھی چھوڑ دیا حالانکہ تربیت کا تعلق تعلیم سے ایسا ھے جس طرح جسم سے روح کا اگر روح نھیں ھے تو جسم بے فادہ،لھذا تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ ھونی چاھۓ ،اسلۓ کہ اولاد کی تربیت صالح ہوتو ایک نعمت ہے وگرنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے ۔ دین وشریعت میں اولاد کی تربیت ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے ۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے ، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کےحقوق میں کتاہیوں سے بچا جائے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے ۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے ۔اپنی اولاد کی تربیت کے معاملہ میں سردمہری کامظاہرہ کرنے والوں کو کل قیامت کے روز جوکربناک صورت حال پیش آسکتی ہے۔ اس سے اہل ایمان کومحفوظ رکھنےکےلیے اللہ تعالیٰ نے پہلے سےآگاہ کردیا ہے۔ تاکہ وہ اپنی فکر کےساتھ ساتھ اپنے اہل عیال اوراپنی آل اولاد کوعذاب الٰہی میں گرفتار ہونے اور دوزخ کا ایندھن بننے سے بچانے کی بھی فکرکریں۔
بھر حال ایک اور اھم چیز جسکے سبب اس طرح کے واقعات سامنے آتے ھیں وہ وقت پر اولاد کا نکاح نہ کرنا ھے ،بچہ جب بالغ ہوجائے تو جلد سے جلد اس کے جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ کر اس کا نکاح کردینا چاہیے بشرطیکہ لڑکا اپنی بیوی کا نفقہ دینے پر خود قادر ہو یا کوئی ( والد وغیرہ) اس کا اور اس کی بیوی کا خرچہ اٹھانے کے لیے تیار ہو، اگر قرائن سے اندازہ ہو کہ بیٹا شادی کرنا چاہتا ہے ورنہ گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اور پھر بھی والدین بلا کسی عذر کے اس کی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کریں تو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا۔حدیث شریف میں ہے: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه»'' مشکوة ترجمہ: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔