ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الاول - ۱۴۴۳
نصیب کی مچھلی
حضرت مفتی خالد انور :پورنوی،المظاہری، ایڈیٹر"ترجمان ملت"پٹنہ و استاذ حدیژ و فقہ:جامعہ مدنیہ،سبل پور،پٹنہ
مچھلی ،پکڑو،کہاں ہے،اِدھرہے۔بس ہم بھی گاڑی سے ا ترے،مچھلی پرہاتھ دیا،وہ بھاگی پانی کی طرف اورپھرکودگئی سوکھے کی طرف،تھوڑی ہی مزاحمت کے بعد مچھلی ہمارے ہاتھ میں آگئی۔
ایک تعلیمی بیداری کانفرنس سے ہم اوراشرف بھائی واپس لوٹ رہے تھے،مغرب کاوقت تھااورہم دونوں موٹرسائیکل میں سوارہوکراپنے منزل کی طرف جارہے تھے،سڑک ٹوٹی ہوئی تھی اورپانی کاہلکاسا بہاؤ بھی، مچھلی، مچھلی کی آوازنے ہمیں چونکادیا۔پکڑااورگھرکی طرف لیکرچلدیا۔گھروالوں نے دیکھااوراس داستان کو سناتودنگ رہ گئے،تقریباًپون کیلوکی مچھلی اوریونہی پکڑلئے بغیرکسی ہتھیاراورسامان کے۔
جی ہاں! صرف واقعہ سنانامقصدنہیں ہے،اس طرح کے واقعات توہزاروں لوگوں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ہمیں بتانایہ ہے کہ انسان کوجوکچھ بھی ملتاہے اس کی نصیب سے ملتاہے،اوراسے اتناہی ملتاہے جتنارزق اس کے مقدرمیں لکھاہے۔
اللہ کے رسول سرکاردوعالم ﷺ ارشادفرماتے ہیں:کہ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے قلم کو پیداکیا، پھراس سے فرمایا:لکھو!قلم نے کہا:میں کیالکھوں؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جوکچھ ہونے والاہے اس کو لکھو! قلم رواں ہوگیا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والاہے اس نے سب کچھ لکھ دیا۔
جب ماں کے پیٹ میں نطفہ قرارپکڑتاہے اورچارماہ سے زیادہ گذرجاتے ہیں تواللہ تبارک وتعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتاہے جواس میں روح پھونکتاہے،اس کارزق ،اجل ،عمل اوراس کا بدبخت ، نیک بخت ہونا لکھ دیتاہے۔
قرآن کریم کی مختلف آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح کرکے بتایاہے کہ رزق دینااللہ کاکام ہے، اللہ جسے چاہتاہے بے حساب رزق دیتاہے۔اورانسانوں کاکام یہ ہے کہ اس کی عبادت کرے، اس کے احکام کی بجاآوری کرے۔مگرآج ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارامکمل زورصرف اورصرف رزق کے حصول ہی میں ہوتاہے، اوراس کیلئے ہراچھے اوربُرے راستے اختیارکرنے سے بھی نہیں گریزکرتے ہیں،اوراللہ کے احکام کی پابندی اوررسول اللہﷺ کی اطاعت وتابعداری سے ہم غافل بنے بیٹھے ہیں۔
کتابوں میں بہت ہی دلچسپ واقعہ لکھاہے :ایک لکڑہاراہردن جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جاتاتھا،کسی نے بلاکرکہا:یہ بڑاساہیرالو!آج کے بعدلکڑیاں کاٹنے کی ضرورت نہیں۔راستہ میں ایک ندی تھی،ہاتھ ،منہ دھونے گیا، کنارے پرپاؤں پھسلااورہیراندی میں گرگیا،ہیراکی تلاش میں ندی میں کودا،بسیارتلاش کے بعدہیرانہیں ملا اورتھک کرچورہوگیا،گھرگیاجوبچھاکھچاتھا،کھایااورسوگیا۔
دوسرے دن پھرلکڑہاراجنگل کارخ کیا،جنگل کے قریب اس کی ملاقات اسی شخص سے ہوئی ،پوراواقعہ سنایا، پھراس نے اسے قیمتی لال موتیوں کاہاردیا،وہ خوشی خوشی لیکرچل دیا،گھرکے قریب پہونچاتواُڑتی ہوئی چیل لال موتیوں کے ہارکوگوشت سمجھ کر جھپٹی اورپگڑی سمیت اچک لے گئی،گھرپہونچااوربھوکاہی سوگیا۔
تیسرے دن صبح ہوتے ہی لکڑہارالکڑیاں کاٹنے جنگل کی طرف چلدیا،راستے میں پھرہوئی ملاقات اسی سے۔اِس بار اس نے خالص سونے کاکنگن دیا،لکڑہارے نے یہ کہتے ہوئے لینے سے انکارکردیا: ’’اپنی محنت سے کمائی ہوئی سوکھی روٹی فاقے سے بہترہے۔‘‘لکڑہاراجنگل میں داخل ہوکرایک درخت پر لکڑیاں کاٹنے چڑھا، درخت کی اونچی شاخ پرچیل کاگھونسلہ تھا،نظراس پرجمائی تو ایک کپڑالال رنگ کا لٹکا ہوا ملا، اوپر چڑھا تودیکھاوہی موتیوں کاہارہے،لکڑہارالکڑی اورہارنیچے لیکراترا،اورگھرکارخ کیا،راستہ میں ندی سے مچھلی پکڑی، گھرپہونچا، بیوی نے مچھلی کاپیٹ چاک کیا،پیٹ سے وہی ہیرانکل آیاجوندی میں گھراتھا۔
بہت سے پڑے ہوئے انسان تنگدستی کی زندگی گذارتے ہیں،اوربہت سے جاہل اَن پڑھ لوگ خوشحالی کی زندگی بسرکرتے ہیں،چاروں طرف ان کے خدام اورنوکر،چاکرکی لائن لگی رہتی ہے،اس سے کیایہ سمجھناآسان نہیں ہے کہ دولت جسے جتنی ملتی ہے نصیب سے ملتی ہے۔
اس کامطلب یہ بھی نہیں کہ ہم رزق کے حصول کی فکروکوشش نہ کریں،اورہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ تدبیربھی ضروری ہے،محنت وجدوجہدبھی اس کالازمی حصہ ہے،ہل جوتنا،بیج ڈالنا،مناسب دیکھ بھال کرنا،کھیتی کی کامیابی کیلئے لازمی امورہیں،ہاں سب کچھ کرنے کے بعدفیصلہ تقدیرپر-اگرناکامی ہوئی تواللہ کو یہی منظورتھا، یاہوسکتاہے ہم سے کہیں چوک ہوئی ہو،یاکمی رہ گئی ہو،یاپھرآزمائش مقصدہو!
سورۃ الاعراف میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:اوراگربستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیارکرتے تو آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے ان پر کھول دیتے،لیکن انہوں نے جھٹلایا اس لئے ہم نے ان کی کمائی کی پاداش میں پکڑلیا۔
جب تک شہروں اورملکوں کے لوگ اللہ تعالیٰ کے فرمانبرداررہتے ہیں تواللہ تعالیٰ کی رحمتیں اوربرکتیں اس پر سایہ فگن رہتی ہیں،اورجب لوگوں میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں شروع ہوتی ہیں،توقحط سالی آتی ہے، رزق میں تنگی آتی ہے،اورخوف ودہشت کاماحول پیداہوتاہے۔
تاریخ عالم پرنظردورائیں توسمجھ میں آتاہے کہ اللہ رب العالمین نے بھی اندلس میں غرناطہ کو،عراق میں بغدادوبصرہ کو،ہندوستان میں دہلی،آگرہ واودھ کو چنا،اوران شہروں کواپنی رحمتوں ،برکتوں سے تہذیب وتمدن اورعلم وہنرکے ساتھ ساتھ ہرطرح کی رزق کاگہوارہ بنادیا۔لیکن جب ان شہروں کے لوگوں نے اللہ کی نافرمانیاں کیں،سماجی ،اخلاقی برائیوں میں ملوث ہوکرفرقوں میں بٹ گئے ،تواللہ کی رحمتیں اوربرکتیں وہاں سے روٹھ گئیں، پھرکہیں ازابیلاوفرنانڈس آتاہے ،توکہیں ہلاکوخان اورکہیں ایسٹ انڈیاکمپنی۔
سورۃ النحل میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:اللہ ایک بستی کی مثال دیتاہے،وہ امن واطمینان کی زندگی بسرکررہی تھی اورہرطرف سے اس کو بفر اغت رزق پہونچ رہاتھاکہ اس نے اللہ کی نعمتوں کاکفران شروع کردیا، تب اللہ نے اس کے باشندوں کی ان کے کرتوتوں کامزہ چکھایاکہ بھوک اورخوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں۔
قدم قدم پرمسلمانوں کویہ بتایاجارہاہے کہ تم رزق کے حصول کیلئے خوب سے خوب محنت کرو،لیکن یہ ضرور یادرکھو!رزق دینے والابھی اللہ ہی ہے،اگروہ نہ دے تو ہل جوتنے ا ورہزارہامحنت ومشقت کے باوجودبھی کھیتی سے پھل،پھول نہ اُگے،آسمان سے بارشیں بھی ہورہی ہوں،لیکن رحمت کے بجائے زحمت بن جائے،اورہم ایک ایک دانے کوترستے رہیں۔
ایک جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایاہے:جوشخص اس بات کوپسندکرے کہ اس کے رزق میں کشادگی اورعمرمیں درازگی ہوتواسے صلہ رحمی سے کام لیناچائیے۔
قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے تقویٰ اختیارکرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں:جوکوئی اللہ سے ڈرتاہے اللہ تعالیٰ اس کیلئے راستے کھولدیتے ہیں،اوراس کو ایسی جگہ سے رزق عطاکرتاہے جہاں اس کے وہم وگماں میں بھی نہیں ہے۔جس ذات نے ہمیں پیداکیا،ہمارے جینے کے سامان بھی اسی نے مہیافرمادیئے،ہم اس بھاگ ڈوروالی زندگی میں اس حقیقی پالنہارکوبھول جاتے ہیں،مگروہ ذات پل بھرکیلئے بھی ہمیں نہیں بھولتی ہے،اپنے بزنس،کاروبار،اوردوسری ضروریات زندگی کے حاصل کرنے میں زندگی دینے والے کہ احکام سے غافل ہوجاتے ہیں،مگروہ ذات غافل نہیں ہے۔ہم گناہ کے عادی ہیں، بارباراقرارواعتراف کے باوجوداسی راستے پرچل پڑتے ہیں،جس سے ہمیں منع کیاگیاتھا۔پھربھی ہمارا رزق بندنہیں ہوتاہے،وہ ذات کریمی ہمیں باربارمعاف فرمادیتی ہے۔خداکوبھول گئے لوگ فکرروزی میں
خیالِ رزق ہے رازق کاخیال نہیں
معاملہ ایسابھی نہیں ہے کہ صرف اللہ اللہ کریں،اوریہ سوچ لیں کہ اگرنصیب میں ہے توسڑک کے کنارے ہمیں مچھلی مل ہی جائے گی،یہ بھول مذہب اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے،محنت کرنا،مزدوری کرنا،اوراہل وعیال کی کفالت کاسامان مہیاکرنابھی عین عبادت ہے،اوراس پراجروثواب کاوعدہ اللہ کی طرف سے متعین ہے۔
بہت سے لوگ اپنی ضرورتوں کی شکایت لیکرآپ ﷺ کے پاس آتے،اورمطالبہ کرتے کہ انہیں کچھ مال ومتاع دے دیاجائے،تاکہ اہل وعیال کی کفالت ہوسکے،آپ انہیں ذرہ برابربھی مال نہیں دیتے،بلکہ کام کرنے کی طرف توجہ دلاتے،اوراس اندازمیں رہنمائی فرماتے کہ ان کی پریشانی بھی دورہوجائے، اورکام کی جانب رغبت پیداہو۔
قبیلہ انصارکاایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا،اوراس نے کچھ مال کامطالبہ کیا،آپ نے فرمایا:تمہارے گھرمیں کوئی چیرہے،اس نے فرمایا: موٹاکپڑاہے،کچھ بچھاتاہوں،اورکچھ اوڑھتاہوں، ایک پیالہ ہے جس میں پانی پیتاہوں،آپ نے فرمایا:دونوں لے آؤ!وہ گیااوردونوں چیزلیکرحضورﷺکی خدمت میں پیش کردیا،آپ ﷺنے اپنے ہاتھوں میں لیکرفرمایا:انہیں کون خریدے گا؟ ایک شخص کھڑاہوا اورکہا:میں ایک درہم میں خریدونگا،آپ ﷺنے فرمایا:اس سے زائدمیں کون خریدگا! دوسراشخص کھڑاہوا اورکہا:میں دودرہم میں خریدونگا۔حضورﷺ نے دونوں چیزیں اس شخص کودے دیں،اوروہ دودرہم اس انصاری صحابی کو دیا،آپ ﷺنے فرمایا:ایک درہم سے کھانے پینے کی چیزخریدو، اوراہل وعیال پرخرچ کرو،اوردوسرے درہم سے کلہاڑی خریدو،جنگل جاؤ،لکڑیاں کاٹو، اوربازارمیں فرو خت کرو،اس نے ایساہی کیا،اوردس درہم کامنافع ہوا،چنددنوں کے بعدنبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا،آپ ﷺنے فرمایا:تمہارے لئے اس حرکت سے کہیں بہترہے کہ تم معمولی چیزکیلئے لوگوں سے سوال کرتے پھرو،جس کے سبب تمہاری پیشانی پربدنماداغ لگے ۔اصحاب رسولﷺ کے مجمع میں ایک شخص کاگذرنبی کریم ﷺ کے پاس سے ہوا،صحابہ کرامث اس شخص کی قوت اورپھرتلے پن کو دیکھ بیک آوازکہہ اٹھے یارسول اللہ!کاش یہ شخص اللہ کے راستہ میں ہوتاتوآپﷺ نے فرمایا:اگریہ شخص اپنے کمسن بچوں کی پرورش کی خاطر کسب معاش کیلئے نکلاہے تو وہ اللہ کے راستہ میں ہے،اگریہ عمررسیدہ ناتواں ،کمزوروالدین کی پرورش کی خاطرنکلاے تو اللہ کے راستہ میں ہے،اوراگراپنے نفس کے واسطے کسب معاش کیلئے نکلاہے تو بھی اللہ کے راستہ میں ہے،اوراگران سب مقاصدکے علاوہ صرف ریااورنمودکیلئے نکلاہے تو یہ نکلناشیطانی راستہ میں نکلنے کی مانندہے۔
صحابہ کرامث کے مجمع میں ایک شخص کاتذکرہ ہواوہ کثرت سے نمازتہجداداکیاکرتاتھا،آپ ﷺ کوخبرہوئی،آپﷺ نے فرمایا:اس شخص کی کفالت اورروزمرہ کی ضروریات کون پوراکرتاہے؟صحابہ کرامث نے عرض کیا:ہم سب مل کر اس کی کفالت کرتے ہیں،آپ ﷺ نے ارشادفرمایا:تم میں کاہرشخص اس سے کہیں زیادہ عبادت گذاراورمقرب الی اللہ ہے۔
مذہب اسلام نے رہبانیت کی تعلیم نہیں دی ہے،وہ سکھایاہے ،بتایاہے کہ محنت ،مزدوری کرو،ہاں شرط یہ ہے کہ تلاش رزق میں رازق کونہ بھولو،دنیائے فانی کے چکرمیں اپنی آخرت کونہ بھولو،اس دنیاکے حصول میں اتنانہ لگوکہ اسی کو مقصدسمجھنے لگو،اورجس مقصدکیلئے اس دنیامیں بھیجے گئے ہواسی کو بھول جاؤ!!اے طائرلاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پروازمیں کوتاہی
ایک تعلیمی بیداری کانفرنس سے ہم اوراشرف بھائی واپس لوٹ رہے تھے،مغرب کاوقت تھااورہم دونوں موٹرسائیکل میں سوارہوکراپنے منزل کی طرف جارہے تھے،سڑک ٹوٹی ہوئی تھی اورپانی کاہلکاسا بہاؤ بھی، مچھلی، مچھلی کی آوازنے ہمیں چونکادیا۔پکڑااورگھرکی طرف لیکرچلدیا۔گھروالوں نے دیکھااوراس داستان کو سناتودنگ رہ گئے،تقریباًپون کیلوکی مچھلی اوریونہی پکڑلئے بغیرکسی ہتھیاراورسامان کے۔
جی ہاں! صرف واقعہ سنانامقصدنہیں ہے،اس طرح کے واقعات توہزاروں لوگوں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ہمیں بتانایہ ہے کہ انسان کوجوکچھ بھی ملتاہے اس کی نصیب سے ملتاہے،اوراسے اتناہی ملتاہے جتنارزق اس کے مقدرمیں لکھاہے۔
اللہ کے رسول سرکاردوعالم ﷺ ارشادفرماتے ہیں:کہ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے قلم کو پیداکیا، پھراس سے فرمایا:لکھو!قلم نے کہا:میں کیالکھوں؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا:جوکچھ ہونے والاہے اس کو لکھو! قلم رواں ہوگیا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والاہے اس نے سب کچھ لکھ دیا۔
جب ماں کے پیٹ میں نطفہ قرارپکڑتاہے اورچارماہ سے زیادہ گذرجاتے ہیں تواللہ تبارک وتعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتاہے جواس میں روح پھونکتاہے،اس کارزق ،اجل ،عمل اوراس کا بدبخت ، نیک بخت ہونا لکھ دیتاہے۔
قرآن کریم کی مختلف آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح کرکے بتایاہے کہ رزق دینااللہ کاکام ہے، اللہ جسے چاہتاہے بے حساب رزق دیتاہے۔اورانسانوں کاکام یہ ہے کہ اس کی عبادت کرے، اس کے احکام کی بجاآوری کرے۔مگرآج ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارامکمل زورصرف اورصرف رزق کے حصول ہی میں ہوتاہے، اوراس کیلئے ہراچھے اوربُرے راستے اختیارکرنے سے بھی نہیں گریزکرتے ہیں،اوراللہ کے احکام کی پابندی اوررسول اللہﷺ کی اطاعت وتابعداری سے ہم غافل بنے بیٹھے ہیں۔
کتابوں میں بہت ہی دلچسپ واقعہ لکھاہے :ایک لکڑہاراہردن جنگل میں لکڑیاں کاٹنے جاتاتھا،کسی نے بلاکرکہا:یہ بڑاساہیرالو!آج کے بعدلکڑیاں کاٹنے کی ضرورت نہیں۔راستہ میں ایک ندی تھی،ہاتھ ،منہ دھونے گیا، کنارے پرپاؤں پھسلااورہیراندی میں گرگیا،ہیراکی تلاش میں ندی میں کودا،بسیارتلاش کے بعدہیرانہیں ملا اورتھک کرچورہوگیا،گھرگیاجوبچھاکھچاتھا،کھایااورسوگیا۔
دوسرے دن پھرلکڑہاراجنگل کارخ کیا،جنگل کے قریب اس کی ملاقات اسی شخص سے ہوئی ،پوراواقعہ سنایا، پھراس نے اسے قیمتی لال موتیوں کاہاردیا،وہ خوشی خوشی لیکرچل دیا،گھرکے قریب پہونچاتواُڑتی ہوئی چیل لال موتیوں کے ہارکوگوشت سمجھ کر جھپٹی اورپگڑی سمیت اچک لے گئی،گھرپہونچااوربھوکاہی سوگیا۔
تیسرے دن صبح ہوتے ہی لکڑہارالکڑیاں کاٹنے جنگل کی طرف چلدیا،راستے میں پھرہوئی ملاقات اسی سے۔اِس بار اس نے خالص سونے کاکنگن دیا،لکڑہارے نے یہ کہتے ہوئے لینے سے انکارکردیا: ’’اپنی محنت سے کمائی ہوئی سوکھی روٹی فاقے سے بہترہے۔‘‘لکڑہاراجنگل میں داخل ہوکرایک درخت پر لکڑیاں کاٹنے چڑھا، درخت کی اونچی شاخ پرچیل کاگھونسلہ تھا،نظراس پرجمائی تو ایک کپڑالال رنگ کا لٹکا ہوا ملا، اوپر چڑھا تودیکھاوہی موتیوں کاہارہے،لکڑہارالکڑی اورہارنیچے لیکراترا،اورگھرکارخ کیا،راستہ میں ندی سے مچھلی پکڑی، گھرپہونچا، بیوی نے مچھلی کاپیٹ چاک کیا،پیٹ سے وہی ہیرانکل آیاجوندی میں گھراتھا۔
بہت سے پڑے ہوئے انسان تنگدستی کی زندگی گذارتے ہیں،اوربہت سے جاہل اَن پڑھ لوگ خوشحالی کی زندگی بسرکرتے ہیں،چاروں طرف ان کے خدام اورنوکر،چاکرکی لائن لگی رہتی ہے،اس سے کیایہ سمجھناآسان نہیں ہے کہ دولت جسے جتنی ملتی ہے نصیب سے ملتی ہے۔
اس کامطلب یہ بھی نہیں کہ ہم رزق کے حصول کی فکروکوشش نہ کریں،اورہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ تدبیربھی ضروری ہے،محنت وجدوجہدبھی اس کالازمی حصہ ہے،ہل جوتنا،بیج ڈالنا،مناسب دیکھ بھال کرنا،کھیتی کی کامیابی کیلئے لازمی امورہیں،ہاں سب کچھ کرنے کے بعدفیصلہ تقدیرپر-اگرناکامی ہوئی تواللہ کو یہی منظورتھا، یاہوسکتاہے ہم سے کہیں چوک ہوئی ہو،یاکمی رہ گئی ہو،یاپھرآزمائش مقصدہو!
سورۃ الاعراف میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:اوراگربستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیارکرتے تو آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے ان پر کھول دیتے،لیکن انہوں نے جھٹلایا اس لئے ہم نے ان کی کمائی کی پاداش میں پکڑلیا۔
جب تک شہروں اورملکوں کے لوگ اللہ تعالیٰ کے فرمانبرداررہتے ہیں تواللہ تعالیٰ کی رحمتیں اوربرکتیں اس پر سایہ فگن رہتی ہیں،اورجب لوگوں میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں شروع ہوتی ہیں،توقحط سالی آتی ہے، رزق میں تنگی آتی ہے،اورخوف ودہشت کاماحول پیداہوتاہے۔
تاریخ عالم پرنظردورائیں توسمجھ میں آتاہے کہ اللہ رب العالمین نے بھی اندلس میں غرناطہ کو،عراق میں بغدادوبصرہ کو،ہندوستان میں دہلی،آگرہ واودھ کو چنا،اوران شہروں کواپنی رحمتوں ،برکتوں سے تہذیب وتمدن اورعلم وہنرکے ساتھ ساتھ ہرطرح کی رزق کاگہوارہ بنادیا۔لیکن جب ان شہروں کے لوگوں نے اللہ کی نافرمانیاں کیں،سماجی ،اخلاقی برائیوں میں ملوث ہوکرفرقوں میں بٹ گئے ،تواللہ کی رحمتیں اوربرکتیں وہاں سے روٹھ گئیں، پھرکہیں ازابیلاوفرنانڈس آتاہے ،توکہیں ہلاکوخان اورکہیں ایسٹ انڈیاکمپنی۔
سورۃ النحل میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں:اللہ ایک بستی کی مثال دیتاہے،وہ امن واطمینان کی زندگی بسرکررہی تھی اورہرطرف سے اس کو بفر اغت رزق پہونچ رہاتھاکہ اس نے اللہ کی نعمتوں کاکفران شروع کردیا، تب اللہ نے اس کے باشندوں کی ان کے کرتوتوں کامزہ چکھایاکہ بھوک اورخوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں۔
قدم قدم پرمسلمانوں کویہ بتایاجارہاہے کہ تم رزق کے حصول کیلئے خوب سے خوب محنت کرو،لیکن یہ ضرور یادرکھو!رزق دینے والابھی اللہ ہی ہے،اگروہ نہ دے تو ہل جوتنے ا ورہزارہامحنت ومشقت کے باوجودبھی کھیتی سے پھل،پھول نہ اُگے،آسمان سے بارشیں بھی ہورہی ہوں،لیکن رحمت کے بجائے زحمت بن جائے،اورہم ایک ایک دانے کوترستے رہیں۔
ایک جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایاہے:جوشخص اس بات کوپسندکرے کہ اس کے رزق میں کشادگی اورعمرمیں درازگی ہوتواسے صلہ رحمی سے کام لیناچائیے۔
قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے تقویٰ اختیارکرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں:جوکوئی اللہ سے ڈرتاہے اللہ تعالیٰ اس کیلئے راستے کھولدیتے ہیں،اوراس کو ایسی جگہ سے رزق عطاکرتاہے جہاں اس کے وہم وگماں میں بھی نہیں ہے۔جس ذات نے ہمیں پیداکیا،ہمارے جینے کے سامان بھی اسی نے مہیافرمادیئے،ہم اس بھاگ ڈوروالی زندگی میں اس حقیقی پالنہارکوبھول جاتے ہیں،مگروہ ذات پل بھرکیلئے بھی ہمیں نہیں بھولتی ہے،اپنے بزنس،کاروبار،اوردوسری ضروریات زندگی کے حاصل کرنے میں زندگی دینے والے کہ احکام سے غافل ہوجاتے ہیں،مگروہ ذات غافل نہیں ہے۔ہم گناہ کے عادی ہیں، بارباراقرارواعتراف کے باوجوداسی راستے پرچل پڑتے ہیں،جس سے ہمیں منع کیاگیاتھا۔پھربھی ہمارا رزق بندنہیں ہوتاہے،وہ ذات کریمی ہمیں باربارمعاف فرمادیتی ہے۔
خیالِ رزق ہے رازق کاخیال نہیں
معاملہ ایسابھی نہیں ہے کہ صرف اللہ اللہ کریں،اوریہ سوچ لیں کہ اگرنصیب میں ہے توسڑک کے کنارے ہمیں مچھلی مل ہی جائے گی،یہ بھول مذہب اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے،محنت کرنا،مزدوری کرنا،اوراہل وعیال کی کفالت کاسامان مہیاکرنابھی عین عبادت ہے،اوراس پراجروثواب کاوعدہ اللہ کی طرف سے متعین ہے۔
بہت سے لوگ اپنی ضرورتوں کی شکایت لیکرآپ ﷺ کے پاس آتے،اورمطالبہ کرتے کہ انہیں کچھ مال ومتاع دے دیاجائے،تاکہ اہل وعیال کی کفالت ہوسکے،آپ انہیں ذرہ برابربھی مال نہیں دیتے،بلکہ کام کرنے کی طرف توجہ دلاتے،اوراس اندازمیں رہنمائی فرماتے کہ ان کی پریشانی بھی دورہوجائے، اورکام کی جانب رغبت پیداہو۔
قبیلہ انصارکاایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا،اوراس نے کچھ مال کامطالبہ کیا،آپ نے فرمایا:تمہارے گھرمیں کوئی چیرہے،اس نے فرمایا: موٹاکپڑاہے،کچھ بچھاتاہوں،اورکچھ اوڑھتاہوں، ایک پیالہ ہے جس میں پانی پیتاہوں،آپ نے فرمایا:دونوں لے آؤ!وہ گیااوردونوں چیزلیکرحضورﷺکی خدمت میں پیش کردیا،آپ ﷺنے اپنے ہاتھوں میں لیکرفرمایا:انہیں کون خریدے گا؟ ایک شخص کھڑاہوا اورکہا:میں ایک درہم میں خریدونگا،آپ ﷺنے فرمایا:اس سے زائدمیں کون خریدگا! دوسراشخص کھڑاہوا اورکہا:میں دودرہم میں خریدونگا۔حضورﷺ نے دونوں چیزیں اس شخص کودے دیں،اوروہ دودرہم اس انصاری صحابی کو دیا،آپ ﷺنے فرمایا:ایک درہم سے کھانے پینے کی چیزخریدو، اوراہل وعیال پرخرچ کرو،اوردوسرے درہم سے کلہاڑی خریدو،جنگل جاؤ،لکڑیاں کاٹو، اوربازارمیں فرو خت کرو،اس نے ایساہی کیا،اوردس درہم کامنافع ہوا،چنددنوں کے بعدنبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا،آپ ﷺنے فرمایا:تمہارے لئے اس حرکت سے کہیں بہترہے کہ تم معمولی چیزکیلئے لوگوں سے سوال کرتے پھرو،جس کے سبب تمہاری پیشانی پربدنماداغ لگے ۔اصحاب رسولﷺ کے مجمع میں ایک شخص کاگذرنبی کریم ﷺ کے پاس سے ہوا،صحابہ کرامث اس شخص کی قوت اورپھرتلے پن کو دیکھ بیک آوازکہہ اٹھے یارسول اللہ!کاش یہ شخص اللہ کے راستہ میں ہوتاتوآپﷺ نے فرمایا:اگریہ شخص اپنے کمسن بچوں کی پرورش کی خاطر کسب معاش کیلئے نکلاہے تو وہ اللہ کے راستہ میں ہے،اگریہ عمررسیدہ ناتواں ،کمزوروالدین کی پرورش کی خاطرنکلاے تو اللہ کے راستہ میں ہے،اوراگراپنے نفس کے واسطے کسب معاش کیلئے نکلاہے تو بھی اللہ کے راستہ میں ہے،اوراگران سب مقاصدکے علاوہ صرف ریااورنمودکیلئے نکلاہے تو یہ نکلناشیطانی راستہ میں نکلنے کی مانندہے۔
صحابہ کرامث کے مجمع میں ایک شخص کاتذکرہ ہواوہ کثرت سے نمازتہجداداکیاکرتاتھا،آپ ﷺ کوخبرہوئی،آپﷺ نے فرمایا:اس شخص کی کفالت اورروزمرہ کی ضروریات کون پوراکرتاہے؟صحابہ کرامث نے عرض کیا:ہم سب مل کر اس کی کفالت کرتے ہیں،آپ ﷺ نے ارشادفرمایا:تم میں کاہرشخص اس سے کہیں زیادہ عبادت گذاراورمقرب الی اللہ ہے۔
مذہب اسلام نے رہبانیت کی تعلیم نہیں دی ہے،وہ سکھایاہے ،بتایاہے کہ محنت ،مزدوری کرو،ہاں شرط یہ ہے کہ تلاش رزق میں رازق کونہ بھولو،دنیائے فانی کے چکرمیں اپنی آخرت کونہ بھولو،اس دنیاکے حصول میں اتنانہ لگوکہ اسی کو مقصدسمجھنے لگو،اورجس مقصدکیلئے اس دنیامیں بھیجے گئے ہواسی کو بھول جاؤ!!
جس رزق سے آتی ہو پروازمیں کوتاہی