ماہنامہ الفاران

ماہِ جمادی الاول - ۱۴۴۳

اسلام اور نظام معاشرت

مفتی شعیب احمد المظاہری مدرس عربی مدرسہ عربیہ قادریہ مسروالا ہماچل پردیش

اصلاح عقیدہ کے بعد جس چیز پر قرآن مجید میں سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے وہ اصلاح معاشرہ ہے، سماجی اور اخلاقی برائیوں کودور کرنے کی جگہ جگہ تلقین کی گئی ہے، انفرادی اور اجتماعی حقوق و معاملات کو بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، حضرات انبیاء کرام علیہم السلام میں بعضوں کی بعثت کے مقاصد میں اخلاق و معاملات کی خرابیاں دور کرنے کا تذکرہ ملتا ہے۔
حضرت شعیبؑ کی قوم معاملات کی خرابیوں میں حد سے آگے بڑھ گئی تھی، ناپ تول میں کمی کرنا اور ڈنڈی مارنا ان کا شیوہ بن گیا تھا، حضرت شعیبؑ اسی لیے بھیجے گئے کہ وہ دعوت توحید کے ساتھ ان کی اس بدمعاملگی کو دور فرمائیں ، چنانچہ اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے وہ اس کا تذکرہ فرماتے ہیں : {یَـٰا قَوْمِ اعْبُدُوْا اﷲَ مَا لَکُمْ مِنْ إلٰہٍ غَیْرُہُ وَلاَ تَنْقُصُوْا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ إِنِّيْ أَرَاکُمْ بِخَیْرٍ وَّإِنِّيْ أَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ} (اے میری قوم کے لوگو! اﷲ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ تول میں کمی مت کرو، میں تمہیں مزے میں دیکھ رہا ہوں ، اور مجھے تم پر اس دن کے عذاب کا اندیشہ ہے جو گھیر لینے والا ہے)۔
سماج افراد سے بنتا ہے، اجتماعیت محبت و سلوک سے پیدا ہوتی ہے، افراد جب تک اپنے اندر محبت وا یثار نہ پیدا کریں اس وقت تک اجتماعیت پنپ نہیں سکتی، اس میں صرف اپنی لذت، اپنی راحت، اپنی دولت کا فلسفہ چھوڑنا لازم ہے، سماج کی فکر، اس کو صحیح رُخ پر لانے کی ضرورت کا احساس اور انسانوں کو انسان بنانے کا جذبہ جب تک پیدا نہیں ہوگا، اور اس کے لیے اپنی لذت و راحت کو تج دینے اور ضرورت پڑجائے تو اپنے فائدے سے دست بردار ہوجانے اور دوسروں کے لیے قربانی دینے کا عزم و حوصلہ جب تک پیدا نہیں ہوگا اور اس کے لیے ہر سماج میں کچھ افراد سر بہ کف کھڑے نہیں ہوجائیں گے اس وقت تک حالات میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔
حد سے زیادہ بڑھی ہوئی مال کی محبت، اسراف و فضول خرچی، نام و نمود کی حرص، بے حیائی، یہ سب وہ برائیاں ہیں جنھوں نے آج پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، اور اس سے بڑ ھ کر خطرہ کی بات یہ ہے کہ برائیوں کو برائی کہنے والے ختم ہوتے جارہے ہیں اور اگر کوئی اچھی طبیعت رکھنٕے والا ھمت بھی کرتا ھے تو دس لوگ اسکی ھمت کو توڑنے کے لۓ کھڑے ہوجاتے ھیں ۔
اجتماعی زندگی کے اصول جب بھی بنائے جائیں گے اس میں ہر ایک کا خیال رکھنا ہوگا، ہر طبقہ کو اس کا حق دینا ہوگا، غریبوں کے حقوق، مالداروں کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، غیروں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، کچھ وقت ساتھ گزارنے والوں کے حقوق، سب کے اپنے اپنے خانے ہیں اور ہر ایک کو اس کی جگہ رکھنا اور توازن کو بگڑنے نہ دینا اسلام کی تعلیم ہے۔ہر ایک کی اپنی جگہ ہے، اس کو اس کی جگہ اعتدال کے ساتھ قائم رکھنا سماج کے لیے ضروری ہے، لیکن انسانی عقل نے جب بھی اس کا نظام خود طے کیا ہے وہ افراط و تفریط کا شکار ہوئی ہے، ہر عقل کا ایک سانچہ ہوتا ہے جس میں وہ پروان چڑھتی اور ڈھلتی ھے،اس لیے سماجی نظام کو توازن کے ساتھ باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کے پیدا کرنے والے نے انسانوں کے لیے جو اجتماعی نظام تجویز کیا ہے اور اپنے پیغمبروں کے ذریعہ وہ دنیا کے انسانوں تک پہنچایا ہے اس کا کھلے دل سے مطالعہ کیا جائے اور اس کی روشنی میں پورا نظام طے کیا جائے، وہ نظام خدا کی آخری کتاب قرآن مجید میں موجود ہے، اور آخری نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کو مزید وضاحت اور تفصیل کے ساتھ انسانوں کے سامنے پیش کیا ہے اور ایک ایک چیز کی وضاحت کی ہے۔
حضرات خلفائے راشدین کے دور میں جب پورے اسلام پر عمل تھا، دنیا نے امن واطمینان اور راحت و سکون کی صدیوں کے بعد سانس لی تھی، اور پھر عرصہ تک اس کی ٹھنڈی ہوائیں چلتی رہیں ، ایک عورت بے خوف و خطر ایک شہر سے دوسرے شہر چلی جاتی، کسی کے لیے چوں چرا کی گنجائش نہیں تھی، پھر جب مسلمانوں نے اسلام کو چھوڑا تو حالات کچھ کے کچھ ہوگئے۔آج دنیا کو دوبارہ پلٹنے کی ضرورت ہے، جو تجربہ ہوچکا اگر وہ دہرا دیا جائے تو شاید حالات پھر بدل جائیں ، لیکن اس کے لیے آسمانی تعلیمات کا سہارا لینے کی ضرورت ہے، قرآن مجید جس کو لوگوں کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا، اس کی روشنی میں آنے کی ضرورت ہے۔
حکیم الامت حضرت تھانوی علیہ الرحمة ”آداب المعاشرت“ میں فرماتے ہیں کہ ”شریعت کے پانچ جز ہیں: عقیدہ، اعمال،اخلاق، معاملات، حسنِ معاشرت۔ شریعت ان پانچوں اجزا کے مجموعے کا نام ہے۔ مسلمانوں کو ان سب کا اختیار کرنا ضروری ہے،لفظ معاشرہ کا استعمال کم سے کم دو فرد یا دو قوموں کے باہمی سلوک، رہن سہن، طریقہ بود و باش اور ثقافتی انداز پر ہوتا ہے، نیز عرفِ عام میں آپس میں مل جل کر رہنے والے افراد کو بھی معاشرہ کہتے ہیں،پھر یہ باہمی برتاؤ اگر اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر ہو تو یہ انسانی معاشرہ، نھیں بلکہ حیوانی معاشرہ ہوجاتا ھے ۔
انسانی معاشرے کی ابتدا و تاریخ
انسانی معاشرےکی خشت اول اسی وقت رکھی گا جب اس کا ئنات کے سب سے اول فرد ابو البشر سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد جنت کی راحت بھری زندگی بھی ان کے لۓ بے کیف تھی تو خالق کائنات خدا تعالی نے انکی تنھا کی وحشت کو انسیت میں بدلنے کے لۓ انکی رفیقہ ٕ حیات کو بھی پیدا فرمایا ،ابھی حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت حوا علیہا السلام کے ساتھ رھنے کا ارادہ ھی کیا تھا کہ انکو اللہ تعالی نے نکاح کرنے کی تعلیم دی اور انھیں آپکی منکوحہ بناکر دونوں کو جنت میں رھنے کی اجازت دی وقلنا یا آدم اسکن انت و زوجک الجنة ۔البقرہ ۔(ھم نے کہا اے آدم تم اور تمھاری رفیقہ حیات دونوں جنت میں مقیم رہو ) پھر ایک قضیہ ٕ نا مرضیہ کے نتیجہ میں یہ دو نفری قافلہ روۓ زمین پر آباد ہوا اور انکے ازدواجی رشتہ کی برکت سے راہ رو آتے گۓ اور کاروان انسانیت بنتا گیا۔
اسلامی نظام معاشرت کا ارتقا اور اس کی تکمیل
الحاصل انسانی معاشرے کی ابتدا ایک مرد اور ایک عورت سے ہوئی اور اسلامی معاشرت کی ابتدا انہیں دو افراد کے درمیان نکاح اور اس کے متعلقہ اَحکام و قوانین سے ہوئی اور باقی تمام رشتے ماں باپ اور بھائی بہن وغیرہ اسی ایک رشتہ نکاح کی فروع کے طور پر ظاہر ہوئے، پھر ہر رشتے کے اعتبار سے حسب ضرورت انتظامی احکام کی بھی ضرورت پڑتی گئی، اس طرح نظام معاشرت وحی الٰہی کے ذریعے وجود میں آیا اور اس کی انتہاو تکمیل اسلام کے آخری پیغمبر سید الاولین والآخرین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر ہوئی: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ (المائدة:3) ”آج میں نے تمہارا دین تمہارے واسطے مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔“
بہر حال شریعتِ محمدیہ ایک مکمل نظام معاشرت ہی نہیں، بلکہ سارے عالم کے لیے مکمل نظامِ حیات بھی ہے۔ افراد معاشرہ کا ذاتی اتحاد اور صفاتی تنوع جب روئے زمین پر بسنے والے سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ٹھہرے، تو اس عمومی رشتہٴ انسانیت اور آدمیت کے لحاظ سے سب ذاتی طور پر متحد اور ایک ہی صف میں کھڑے ہیں، تاہم مختلف علاقوں اور زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہونے کی وجہ سے، ان میں آپس میں مختلف برادریاں، قرابت داریاں اور حیثیتیں قائم ہوگئیں، چناں چہ وہی اولادِ آدم مرد و عورت کی شکل میں کہیں شوہر بیوی کی حیثیت رکھتے ہیں، تو کہیں باپ اور بیٹی کی، کہیں ماں اور بیٹے کی تو کہیں حاکم محکوم کی وغیرہ وغیرہ۔ الغرض تمام افرادِ بشر کا آدمیت کے اعتبار سے متحد ہونے کے باوجود حیثیت اور نوعیت کے لحاظ سے مختلف ہونا، ایک حسین امتزاج ہے، جو برائے افتراق و تفریق نہیں، بلکہ برائے زینت و مصلحت ہے۔ برائے زینت اس طرح ہے کہ جیسے کسی باغ و چمن کی زیبائش مختلف النوع پھولوں سے ہے، اسی طرح چمنِ انسانیت کی زینت مختلف النوع افراد سے ہے، گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن اے ذوق! اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے اور برائے مصلحت اس طرح کہ برادریوں کے اختلاف سے افراد کی شناخت اور تعارف حاصل ہوتا ہے، اگر برادریاں مختلف نہ ہوتیں تو لاکھوں کروڑوں انسانوں میں ہم نام لوگوں کی شناخت کیسے ہوسکتی تھی؟ قرآن کریم اسی عظیم مصلحت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا (سورة الحجرات) ”اے انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ماں باپ کی اولاد بنایا اور تم کو مختلف شاخوں، خاندانوں اور برادریوں میں بانٹا، تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرسکو۔“
اسلام کے معاشرتی احکام و تعلیمات کی بنیاد اگر بہ غور دیکھا جائے، تو پورا انسانی کنبہ دو منظم رشتوں سے جڑا ہوا ہے، ایک عمومی رشتہ یعنی انسانیت، دوسرے خاندانی قرابت داریاں۔ انسان ان ہی دو رشتوں کی بنیاد پر معاشرتی ذمے داریوں اور فرائض کو بجا لانے کا مکلف ہے مثلاً: مرد کو لے لیجیے۔ اگر معاشرے میں اس کی حیثیت شوہر کی ہے تو رشتہ زوجیت کی وجہ سے وہ بیوی پر حاکمانہ اختیار کا مالک ہے اور اگر باپ کی ہے تو رشتہ اَبُوَّتْ کی وجہ سے وہ حقوق پدری کو انجام دینے کا مکلف ہے، اسی طرح اگر بیٹا ہے تو رشتہٴ فرزندی کی وجہ سے اس پر والدین کی اطاعت واجب ہے۔ پھر عورت کو لے لیجیے، اگر معاشرے میں اس کی حیثیت بیوی کی ہے، تو منکوحہ ہونے کی حیثیت سے اس پر اپنے شوہر کی تابع داری میں رہنا ضروری ہے۔اور اگر وہ ماں ہے، تو بچوں کو اپنی ممتا کے سائے میں اُن کی دینی تربیت کرنا اس کا فریضہ ہے، اسی طرح اگر کوئی حکومت کے اختیارات کا حامل ہے، تو محکومین کے ساتھ عدل و انصاف قائم کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔
اسی طرح روحانی رشتے سے جڑے ہوئے افراد کو دیکھیے، مثلاً استاذ وشاگرد کو لے لیجیے کہ شاگرد پر طالب علما نہ رشتہ کی وجہ سے استاذ کی تعظیم و توقیر کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح دو فرد کے درمیان نسبتی قرابت نہ بھی ہو؛ تب بھی اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسانی ہمدردی کے ناطے ایک مسلمان دوسرے شخص کے ساتھ حسن سلوک کا مکلف ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہے:وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبیٰ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبیٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْب (النساء: ) اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو تعلیم دی گئی کہ وہ رشتہ دار اور غیر رشتہ دار سبھی کے ساتھ حسن سلوک کریں۔ خلاصہ یہ کہ معاشرے کا ہر فرد رشتہٴ قرابت یا رشتہٴ انسانیت واخوت کی بنیاد پر ہی نظامِ معاشرت سے وابستہ اور معاشرتی فرائض کا پابند ہے۔سبحان اللہ! کتنا معقول نظام ہے اسلام کی معاشرت کا۔
اسلام کے معاشرتی نظام کی تفصیلی جھلکیاں
اسلام، افراد و اجتماعیت کو سنوارنے کے لیے اور ایک خوب صورت مثالی معاشرہ تشکیل دینے کے لیے کیا کیا اقدامات کرتا اور کیسی عمدہ تعلیمات فراہم کرتا ہے، ان سب کو ان چند سطروں میں جمع کرنا محال نہیں تو مشکل ضرور ہے؛ کیوں کہ ”سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے“قرآن و سنت ایسی ہی تعلیمات سے لبریز ہیں، تاہم معاشرتی تعلیم کے چند اہم گوشوں کی طرف ہم قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔
مہذب اور شائستہ گفتگو کا طریقہ:
سب سے پہلے انسان اپنے معاشرے میں، جس چیز سے اپنی شناخت قائم کرتا ہے وہ اس کی بات چیت کا انداز ہے، ہم جانتے ہیں کہ انداز تکلم، گفتگو کی شائستگی، زبان کی مٹھاس اور اس کی حلاوت و گھلاوٹ ایسی چیز ہے، جو مخاطب کے جسم پر نہیں، بلکہ اس کے قلب و دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے، بات کے پَر نہیں ہوتے، پھر بھی وہ طاقتِ پرواز رکھتی ہے، گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا ،حسن کلام کی اسی تاثیر کے پیش نظر قرآن کریم نے مہذب گفتگو کے لیے کیسی جامع تہذیب سکھائی ہے!! فرمایا:وَقُولُواْ لِلنَّاسِ حُسْناً۔ (البقرة) ترجمہ:”لوگوں سے خوب صورت بات کرو۔“ پھر بات میں حسن و جمال کیسے پیدا ہو؟ اس کے لیے قرآنِ کریم نے دیگر مختلف مقامات پر قول کی 9 صفات بیان فرمائی: 1۔قول کریم ،عزت کی بات فرمایا: وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما(بنی اسرائیل)2۔قول سدید ، درست بات، فرمایا: وَقُولُوا قَوْلاً سَدِیْداً (احزاب) 3۔قول معروف، بھلی بات، فرمایا:وَقُولُواْ لَہُمْ قَوْلاً مَّعْرُوفا (النساء) 4۔.قول طیب ،پاک اور عمدہ بات، فرمایا:وَمَثلُ کَلِمَة طَیِّبَة․ (ابراہیم) 5۔قول بلیغ،بامقصد اور موثربات،فرمایا:وَقُل لَّہُمْ فِیْ أَنفُسِہِمْ قَوْلاً بَلِیْغا․ (النساء) 6۔قول میسور، آسانی کی بات فرمایا:وقل لھم قولا میسوراً (بنی اسرائیل) 7۔قولِ لین ،نرم بات، فرمایا:وقولا لہ قولا لیناً (طٰہ) 8۔قولِ سلام،رفع شر اور عافیت کی بات، فرمایا:واذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاماً (فرقان) 9۔قول صدق،سچی بات، فرمایا:کونوا مع الصادقین (التوبة)
قارئین کرام: ملاحظہ فرمائیے کہ قرآن کریم خوب صورت بات کی تشریح ان نو اوصاف سے کرتا ہے، تاکہ ہر بات اپنے موقع محل اور مخاطبین کے معیار کے مناسب ہو، ظاہر ہے کہ جس شخص کی بات ان نو اوصاف سے آراستہ ہوگی، وہ اپنے معاشرے کا کیسا فرد بنے گا، کیوں نہیں لوگ اس کی جادوبیانی سے متاثر و مسحور ہوں گے؟جب گفتگو کی تہذیب کا یہ عالم ہے، تو دیگر اعمال و اخلاق کی تہذیب پر اسلام نے کتنا زور دیا ہوگا؟ کیوں کہ بات سے زیادہ اہم انسان کا عمل ہے، چناں چہ حسنِ عمل کے لیے قرآن کریم ایک اصولی ضابطہ بیان کرتا ہے: خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً۔ (الملک) اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کو اس لیے پیدا فرمایا، تاکہ وہ تمہارا امتحان لے کہ کون اچھا عمل پیش کرتا ہے؟ غور فرمائیے ! کہ جب حسن کلام کے لیے نو اوصاف کا ہونا ضروری ہے تو عمل؛ جو کلام سے بھی زیادہ اہم ہے، اس کے حسن کے لیے کتنی صفات کا ہونا ضروری ہوگا؟ جب کہ حسنِ عمل ہی پر ہمارا امتحان ہونا ہے اور اسی پر ہماری کام یابی کا مدار بھی ہے۔
اسلام کی معاشرتی تعلیم کا دوسرا اہم گوشہ والدین اور قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی ہے:
والدین کی عظمت و بزرگی ہر معاشرے میں مسلم ضرور ہے، لیکن اسلامی تعلیم دیکھیے، فرمایا گیا:وَإِن جَاہَدَاکَ عَلی أَن تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِیْ الدُّنْیَا مَعْرُوفاً (لقمان) والدین اگر کافر و مشرک بھی ہوں تب بھی ان کے ساتھ بے رخی اور بے تعلقی جائز نہیں، بلکہ حسنِ سلوک میں کافر والدین بھی مسلم والدین کے برابر ہیں، حالاں کہ مذہبی اختلاف باعث عداوت و بغض ہے، لیکن پھر بھی ایسا جامع ادب سکھلایا گیا، جو ظاہری محبت اور بغض فی اللہ، یعنی محبت و نفرت کا حسین سنگم ہے۔
اسلامی تہذیب کا تیسرا اور اہم گوشہ مسلمانوں کا باہمی اتحاد واتفاق ہے:
آج امتِ مسلمہ کی سب سے اہم ترین ضرورت اتحاد و اتفاق ہے، یہی ہر فرد کے دل کی آواز ہے، تو آئیے! اسلامی تہذیب کے پلیٹ فارم سے قرآن و سنت کی وہ تعلیمات و آداب معلوم کریں، جن پر عمل کرنے سے ہماری صفوں میں اتحاد پیدا ہو۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں: ”اسلام میں معاشرت کی تعلیم اس طرح دی گئی، جس سے انسان میں تواضع پیدا ہو اور تجربہ کرلیا جائے کہ بدونِ تواضع کے ہمدردی و اتفاق پیدا نہیں ہوسکتا اور یہی معاشرت کی جڑ ہے“۔ (آداب المعاشرت ص/ 26) ایک اور جگہ فرمایا: ”تکبر اور تکلف تو معاشرے کی جڑیں اکھاڑتا ہے، اس لیے کہ متکبر دوسروں سے بڑا بن کر رہتا ہے، پھر دوسروں کے ساتھ مساوات و ہم دردی کہاں رہی؟!“ (ایضاً ص/ 25) حضرت رحمة اللہ علیہ کے ارشاد سے دو باتیں سمجھ میں آئیں۔ 1..مسلمانوں کا باہمی اتفاق اسلامی تہذیب و معاشرت کا اہم جز ہے۔ 2..باہمی اتحاد و ہمدردی کا اصل ذریعہ تواضع ہے، جب کہ تکبر نا اتفاقیوں اور نفرتوں کا کلیدی سبب ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تواضع کے ذریعے امت متحد کیسے ہوگی؟ تو اس کو سمجھنے کے لیے اردو زبان کے ایک محاورے پر غور کیجیے: اردو میں دو شخص اور دو قوموں کی آپسی محبت و اتحاد کو اس جملہ سے تعبیر کرنا ہو تو کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں شِیر و شکر ہوگئے۔ یعنی جس طرح شکر دودھ میں گھل مل جاتی ہے اور دونوں دو قالب و یک جان ہوجاتے ہیں، اسی طرح دونوں شخص آپس میں متحد ہوگئے۔ شکر اور دودھ کے اتحاد کا راز بھی درحقیقت تواضع ہے، کیوں کہ تواضع کہتے ہیں اپنے آپ کو چھوٹا سمجھنے اور خود کے مٹادینے کو، تو چوں کہ شکر نے دودھ میں مل کر خود کے وجود کو مٹادیا، اس لیے شیر وشکر میں اتحاد قائم ہوگیا اور وہ یک جان دو قالب ہوگئے۔ من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری بس یہی حقیقت ہے معاشرے میں اتحاد کے قائم ہونے کی، اگر کوئی فرد یا جماعت اللہ کی رضا کے لیے خود کو چھوٹا بنالے اور اپنی خودی کو مٹادے، تو وہ دوسرے فرد یا جماعت کے ساتھ یقینا ضم ہوجائے گا، لیکن اگر کوئی ایک فرد دوسرے کے سامنے نہ جھکے تو یہی تکبر ہے اور یہیں سے انتشار شروع ہوجائے گا۔ پس ثابت ہوا کہ تواضع امت کے جوڑ کا ذریعہ ہے اور تکبر امت کے توڑ کا سبب ہے۔ اسلامی معاشرت کا چوتھا اہم گوشہ نکاح اورخصوصاًعورتوں کے لیے پردے کے احکام ہیں: معاشرے سے بدکاری اور بے حیائی کے سد باب کے لیے اسلام نے نوجوان لڑکا اور لڑکی کے سرپرستوں کو ہدایت دی کہ وہ ان کے نکاح میں تاخیر نہ کریں، اسی طرح عورتوں کو نامحرموں کے ساتھ اختلاط سے منع فرمایا، نظر اور شرم گاہ کی حفاظت کی تعلیم دی۔وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْن۔ (المومنون) ولا تقربو االزناکہہ کر بدکاری کے قریب لے جانے والے اسباب پر روک لگائی۔ نیز جذبات سے مغلوب اور زائد قدرت رکھنے والوں کو متعدد شادیاں کرنے کی اجازت دی، تاکہ بے نکاحی عورتوں کی کثرت سے معاشرے میں زنا کے اڈے قائم نہ ہوں۔ اور اسی کوتاہی کی بنیاد پر خواتین ارتداد کے دھانے پر کھڑی ھیں کہ وقت پر انکا نکاح نھیں کیا جاتا اور وہ مذھب اسلام کو نظر انداز کرکے غیروں کا مذھب اپنانے پر مجبور ہوجاتی ھے غیروں کی آغوش میں جانا انکی مجبوری بن جاتا ھے اسلۓ والدین کو چاھۓ کہ جب بچہ بالغ ہو جاۓ تو اس کے جوڑ کا رشتہ تلاش کرکے اسکا نکاح کردیا جاۓ ،حدیث کا مفھوم ھے : کہ اگر قرآن سے معلوم ہو کہ اولاد شادی کرنا چاھتی ھے ورنہ گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ھے اور پھر بھی والدین بلا کسی عذر کے ا نکی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کرے تو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئیگا۔ والسلام

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی