ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الاول - ۱۴۴۳
استاذ! فرش سے عر ش تک پہونچانے والی ذات؛ قسط۔2 ۔( استاذکامنصب ومقام)
حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب المظاہری ناظم مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا،ہماچل پردیش و سرپرست:ماہنامہ الفاران
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان پر علم کا حاصل کرنا فرض قرار دیا(مشکوٰۃ جلد ۱ صفحہ ۴۳) خود اپنی ذات اقدس کے بارے اہم صفت کی طرف اشارہ فرمایا کہ انما بعثت معلماً (ابن ماجہ صفحہ ۱۲مکتبہ البدر دیوبند،ترمذی ج ۲ ص ۷۹) کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا کیلئے معلم اور مدرس بنا کر مبعوث کیا ہے اسلئے معلم اور استاذ ہونا صفت نبوی ﷺ سے متصف ہونے کی سعادت سے مالامال ہوناہے وہیں معلم ہونا ایک بڑی نعمت،عظیم سعادت او ردارین میں سرخروئی کی علامت بھی ہے۔
تعلیم وتدریس نہایت ہی مقدس اور محترم پیشہ ہے انسانوں کا سب سے برگزیدہ طبقہ پیغمبروں کا ہے یہ انسانیت کا مربی اور معلم ہوتاہے وہ تعلیم بھی دیتاہے اور انسانیت کو اس علم کے سانچہ میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش بھی کرتاہے۔
اسلام نے معلم کو روحانی باپ قرار دے کر ایک بلند مقام عطاکیاہے اناعبد من علمنی حرفا واحد ا ان شاء باع وان شاء اعتق(تعلیم المتعلم للزر نوجص ۶۶ مکتبہ المعہد العالی قاھرہ) حضرت علی ;230; کا فرمان ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف سکھا یا وہ میرا آقاہے اس لئے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معلمین کو درس وتدریس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ انتظامی امور پر فائز کیا حضرتﷺ نے معلم کو تمام انسانوں میں معیاری شخص قرار دیتے ہوئے فرمایا خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ (ابن ماجہ ص ۸۱)کہ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اوردوسروں کو سکھائے(سنن ابن ماجہ ص ۸۱)
ارشاد نبوی ﷺہے کہ العلماءُ ورثۃُ الاَنبیاءِ (ترمذی ج۲ ص۷۹ مکتبہ البدر دیوبند) اس منصب جلیل کے حامل شخص کو انبیاء کرام کا وارث قرار دیاہے۔
استاذ کیساہو
اساتذہَ کرام کوشرافت نفسی،علمی اور عملی صلاحیتوں کے ساتھ مشفق والد کی طرح طلبہ سے محبت و شفقت کابرتاءواور اپنی عملی زندگی سے بہتر رہنمائی کرنی چاہئے کہ یہ آپ کیلئے رزق حلال،علوم دینیہ کی اشاعت وحفاظت کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ آپ کا ملی واخلاقی فریضہ بھی ہے۔
استاذ کا درجہ بچے کیلئے باپ کے بعد کا ہے یعنی بچے پر استاذ کی نظر باپ کی سی ہونی چاہئے جب تک استاذ اچھا نہ ہو،علمی تبحراور اخلاق وکردار کا مجسم نہ ہواس وقت تک بچہ بھی اچھا اور ہونہار نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے کہاجاتاہے کہ استاذ میں اچھے اخلا ق کا بچوں پر شفقت و توجہ کا،وقت کی پابند ی کا، انصاف پسندی اور غیر جانبداری کا،صبر و تحمل تعصب سے دوری کا، دوسروں کی غیبت اور شکایت سے پرہیز کا قائدانہ اور رہبرانہ صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔
استاذ صحیح معنوں میں اسی وقت ہوسکتا ہے جبکہ وہ اعلیٰ تربیت یافتہ ہو علم یعنی اپنے فن پر عبور ہو جدید نظریات اور خیالات کو بہتر طور پر سمجھنے والا ہواور بچوں کیساتھ حسن سلوک کرنے والا ہو۔ اس لئے ہمارے اکابر حضرات کو جب بچوں کو تعلیم دلوانی ہوتی تو کوئی نیک اور متقی استاذ ڈھونڈ تے تھے۔
پیرطریقت حضرت مولانا ذوالفقار علی نقشبندی مجددی دامت برکاتہم فرماتے ہیں’’استاذ کے اوپر بہت کچھ انحصار ہو تاہے بچہ ماں باپ کی بات کو غلط سمجھ لیتاہے لیکن استاذ کی بات کو غلط نہیں سمجھتابعض لوگ دینی علم پڑھا نے کیلئے غیر متقی قسم کے استاذ کو چن لیتے ہیں اور وہ بچہ کو گمراہ کردیتے ہیں لہٰذا نیک متقی صحیح عقائد والا استاذ ڈھونڈنا یہ ماں باپ کی ذمہ داری ہے کیونکہ اس کے بچہ کے اوپر ا ثر ات پڑتے ہیں‘‘
شاعر مشرق علامہ اقبال;231; کے حالات میں ہے کہ ان کو بچپن میں فارسی پڑھا نے والے استاذ بہت متقی تھے ان کا تقویٰ مشہور تھا یہ اس استاذ کی محنت ہے کہ اس نے اس بچپن کی عمر میں اس بچہ کے دل میں اسلام کی ایسی محبت بھردی تھی کہ جب یہ بڑے ہوکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ چلے گئے تو وہا ں جاکر بھی لکھتے ہیں
ع نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی
حضرت مولانا ممتاز احمد قاسمی صاحب نے ایک نکتہ کی بات کہی ہے’’استاذ کا عقیدہ ایمان بالغیب اور وحدانیت پر ہے تو دوسرے مذاہب کے خیالات پڑھاکر بھی بچہ کو صحیح العقیدہ رکھ سکے گا اوراگر استاذ دوسرے خیالات کا ہوگاتووہ بچہ کو کچھ بھی پڑھائے گا تو اسے اپنے خیالات میں کرلیگا‘‘
حضرت امام غزالی فرماتے ہیں ’’استاذ کو برد بار اور حلیم الطبع ہونا چاہئے‘‘۔ایک بزر گ فرماتے ہیں کہ معلم کو مہر و محبت کا مجسّمہ ہونا چاہئے درشت خوآدمی کی بات سننے کے لئے کوئی تیا ر نہیں ہوتاحدیہ ہے کہ مریض کڑوی دوا کو یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ یہ مرض زائل کرے گی پینے سے گریز کرتاہے۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ;231; نے فرمایا جب تک تیر ا غصہ باقی ہے اپنے کو اہل علم میں شمار نہ کر۔
حقیقت یہ ہے کہ نظام تعلیم کے پورے ڈھانچے میں استاذ کوریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے کوئی بھی نظامِ تعلیم استاذکی اچھی کار کردگی کے بغیر کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا استاذ کو اول تو اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاناچاہئے کہ اس ذات بابر کت نے اسکو علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو سکھانے کی توفیق عطا فرمائی۔ تعلیم کے شعبہ میں حتی الامکا ن پیغمبر ﷺ کے طریقے کو مشعلِ راہ بنانا چاہئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انما بعثت معلما ’’مجھے معلم بناکر بھیجاگیا ہے‘‘ (ابن ماجہ ص ۱۲مکتبہ البدر دیوبند) آ پ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شعبہَ تعلیم میں معلمین و مدرسین کی ایسی رہنمائی فرمائی کہ رہتی دنیا تک اس کی مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔
سابق صدر جمہوریہ َہند جناب ڈاکٹر ذاکر حسین نے ’’اچھا استاذ‘‘نامی کتاب میں لکھا ہے کہ اچھا مدرس ہونے کا امتیاز یہی ہے کہ اس کی زندگی کی جڑیں محبت کے سر چشمہ سے سیراب ہوتی ہیں، وہاں تازہ دم رہتاہے جہاں دوسرے تھک جاتے ہیں اسے وہاں روشنی دکھائی دیتی ہے جہاں دوسرے اندھیرے کی شکایت کرتے ہیں،یہ زندگی کی پستیوں کو بھی دیکھتاہے لیکن اس کی وجہ سے ان بلندیوں کو بھول نہیں جاتا،بے بس بچے کی خدمت کو زندگی کا افتخار جانتاہے اور بچہ کی طرف سے جب ساری دنیا مایوس ہوجاتی ہے تو بس دولوگ ہوتے ہیں جن کے سینے میں امید باقی رہتی ہے ایک اس کی ماں اور دوسرا اس کا استاذ آج بھی انہیں استاذوں سے امیدیں وابستہ ہیں ان کے دامن کے سائے میں ہی قوم کے نونہالوں کی نشوونما ہوگی اگر یہی اساتذہ اپنے ذہنوں کو وسیع کرلیں اور یہ سوچیں کہ جو ایک ذرہ انہیں طالب علم کی شکل میں ملا ہے، علم کے نور سے اس ذرّہ کو آفتاب بنادیں اگر ایسا رہا تو پھر قوم کا بچہ بچہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوگا پھروہ اپنے استاذ کی عزت وتوقیراور مرتبہ دینے میں اپنی خوش قسمتی تصور کریگا۔
فی الواقع استاذ کاکام نہایت ہی عزت اور قدر کے قابل ہے بشرطیکہ اسکی ذات اس عزت کے کم کردینے والی نہ ہو استاذ کے اوضاع واطوار ایسے ہونے چاہئے کہ وہ نیکی وپرہیزگاری کاسیر ت وکردار سے مثالی استاذ کا مکمل ومجسم نمونہ ہو اور اس کی زیارت ہی سے تعلیم کے مقدس فیض کا عکس طالب علم کے دل ودماغ میں کھنچ جائے۔
استاذصفات کے آئینہ میں!
حضرت نبی اکرم ﷺ نے معلم کیلئے خیر کی دعافرمائی نضر اللہ امرءً سمع مقالتی فوعاھا واداھا کما سمعکہ اللہ تعالیٰ خوش وخرّم رکھے اس شخص کو جس نے ہم سے کچھ سنا اسے محفوظ رکھا اور اسے آگے بھی یعنی لوگوں کو بتایا(ترمذی ج ۲ ص۴۹مکتبہ البدردیوبند)اس لئے معلم کا پیشہ تمام پیشوں سے اشر ف اور افضل ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہیکہ الدنیا ملعونۃ وملعون من فیھا الا عالما اومتعلما اوذکر اللہ وما والاہ(ابن ماجہ ص ۲۰۳،۳۰۳)د نیا اور جوکچھ دنیا میں ہے وہ سب ملعون ہے سوائے اللہ کے ذکر، عالم اور متعلم کے۔ (ابن ماجہ ص ۲۰۳و ۳۰۳)
معلم خیر کے متعلق پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی ہے ان اللہ وملائکتہ واھل السمٰوات والارضین حتی النملۃ فی جحر ھا وحتیٰ الحوت لیصلون علی معلم الخیر (ترمذی ج ۲ ص ۸۹)کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت نازل کرتے ہیں اور تمام زمین و آسمان والے حتیٰ کہ چیونٹی تک اپنے بل میں معلم خیر کیلئے بھلائی مانگتی ہے۔ فرمان عالیﷺ ہے کہ خیر کی تعلیم دینے والے استاذ کے حق میں دنیا کی ہر شئے دعا گو ہوتی ہے حتیٰ کہ سمندر کی مچھلیاں بھی۔
معلم کے کردار کی ہمہ گیریت کی نشان دہی اور معلم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ معلم اول خود رب ذوالجلال ہیں ارشادہے الرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الانْسَانَ عَلَّمَہُ الْبَیان (رحمن ہی ہے جس نے قرآن سکھایا جو اس کی عطاءوں اور نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ورحمت ہے اور بنایاہے اسی نے انسا ن کو پھر سکھا یا اس کو بات کرنا اور نطق و گویائی کی نعمت سے سرفراز کیا جس کے باعث وہ اللہ کا کلام پڑھ سکے،سیکھ سکے اور تلاوت کرسکے۔ (پارہ ۷۲ رکوع ۱۱ سورہ رحمن آیت ۱ تا ۳)
قابل غور ہے کہ اسماء حسنیٰ میں الرحمن اسم مبار ک لائے جس میں ایک لطیف اشارہ ہیکہ ہر استاذ کو چاہئے کہ کسی بات کو سکھانے کیلئے سب سے پہلی صفت ایک استاذ میں رحمت کی ہونی چاہئے اپنے دل میں رحمت وشفقت کا جذبہ پیداکرناچاہئے۔
یہ حقیقت ہے کہ سماج اور قوم کی تعمیر میں اساتذہ کا بڑارول ہے وہ نہ صرف طلبہ بلکہ سماج کیلئے بھی قابلِ احترام ہیں۔
یہ حقیقت واقعہ ہے کہ تعلیم کا عمل جن چیزوں کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا وہ استاذ، طالب علم اور نصاب ہیں۔
استاذ کے اخلا ق کیسے ہوں!
استاذ کیلئے ضروری ہے کہ وہ شاگر د وں پر شفیق و مہر بان ہوان سے ہمدردی رکھتا ہواور انکی بے اعتدالیوں کو درگذر کرنا جانتاہو۔ اللہ نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص صفت بیان کی ہے وہ رئوف اور رحیم ہیں صحابہ کرام جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین شاگرد ہیں ان میں سے متعدد نے جب حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی مشفقانہ تعلیم دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرویدہ ہوگئے کہنے لگے کہ زندگی میں ایسابہتر ین معلم اور استاذ نہیں دیکھا جو اتنے پیار و محبت سے سمجھاتاہو، تعلیم دیتا ہو، غلطیوں سے در گذر کرتا ہواور بے اعتدالیوں کو معاف کرتاہو۔
معاملہ تعلیم کا ہو یا تربیت کا استاذ کا رول بہر حال اہم ہوتا ہے اگر استاذ کا کردار اچھا اور مضبوط ہے تو اسکی شخصیت کا اثر طالب علموں پر پڑیگاکیونکہ استاذ مثل آئینہ ہوتاہے جس میں شاگرد اپنا سنہرا مستقبل دیکھتاہے۔ ب
ڑوں کی سیرت میں نظرآتا ہے کہ ان کے اساتذہ اخلا ق و کردار کے اعتبارسے اچھے تھے۔ انکا چال چلن درست تھا۔ اسلام میں تو یہ ایک باقاعدہ اصول ہے کہ تعلیم سے قبل استاذ کی شخصیت کو دیکھاجائے۔
حضرت ابن سیرین نے ایک مرتبہ حدیث کے طلبہ سے فرمایا کہ ان ھذا العلم دین فانظروواعمن تاخذون دینکم (مسلم شریف باب تحصیل العلم) یہ علم دین ہے اس بارے میں غو ر کرتے رہوکہ یہ علم تم کس سے حاصل کررہے ہو۔ مقصد تھا کہ اپنے استاذ کی شخصیت و اخلاق و کردار پر بھی نگاہ رکھو اور اسی سے علم حاصل کرو جو اچھے اخلاق و کردار کامالک ہو۔
حضرت مولانا عباداللہ صاحب ندوی نے لکھا ہے ’’اساتذہ کیلئے علمی لیاقت کے ساتھ اخلاقی اقدار بھی نہایت ضروری وصف ہے استاذ کو اتنا باوقار ہناچاہئے کہ اس کی ایک نگاہ درشت سے طلبہ سہم جائیں اگر اساتذہ خود اخلاقی پستی میں مبتلاہوں،طلبہ سے سطحی گفتگو کرتے ہوں،ان کے سامنے فحش،ہنسی ومذاق کیاکرتے ہوں،ان کے کردار کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھاجاتاہو،ان کی زبان وبیان سے وقتاً فوقتاًسوقیانہ پن اور پھوہڑپن کا اظہار ہوتاہوتو بجاطور پر طلبہ ان کو اپنابے تکلف دوست سمجھتے ہیں اور استاذکا درجہ نہیں دیتے کیونکہ یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان خود کتنا بھی براہووہ اپنے بزرگوں کو اس سے ماوراء دیکھنا چاہتاہے‘‘ (جاری)
تعلیم وتدریس نہایت ہی مقدس اور محترم پیشہ ہے انسانوں کا سب سے برگزیدہ طبقہ پیغمبروں کا ہے یہ انسانیت کا مربی اور معلم ہوتاہے وہ تعلیم بھی دیتاہے اور انسانیت کو اس علم کے سانچہ میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش بھی کرتاہے۔
اسلام نے معلم کو روحانی باپ قرار دے کر ایک بلند مقام عطاکیاہے اناعبد من علمنی حرفا واحد ا ان شاء باع وان شاء اعتق(تعلیم المتعلم للزر نوجص ۶۶ مکتبہ المعہد العالی قاھرہ) حضرت علی ;230; کا فرمان ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف سکھا یا وہ میرا آقاہے اس لئے حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معلمین کو درس وتدریس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ انتظامی امور پر فائز کیا حضرتﷺ نے معلم کو تمام انسانوں میں معیاری شخص قرار دیتے ہوئے فرمایا خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ (ابن ماجہ ص ۸۱)کہ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اوردوسروں کو سکھائے(سنن ابن ماجہ ص ۸۱)
ارشاد نبوی ﷺہے کہ العلماءُ ورثۃُ الاَنبیاءِ (ترمذی ج۲ ص۷۹ مکتبہ البدر دیوبند) اس منصب جلیل کے حامل شخص کو انبیاء کرام کا وارث قرار دیاہے۔
استاذ کیساہو
اساتذہَ کرام کوشرافت نفسی،علمی اور عملی صلاحیتوں کے ساتھ مشفق والد کی طرح طلبہ سے محبت و شفقت کابرتاءواور اپنی عملی زندگی سے بہتر رہنمائی کرنی چاہئے کہ یہ آپ کیلئے رزق حلال،علوم دینیہ کی اشاعت وحفاظت کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ آپ کا ملی واخلاقی فریضہ بھی ہے۔
استاذ کا درجہ بچے کیلئے باپ کے بعد کا ہے یعنی بچے پر استاذ کی نظر باپ کی سی ہونی چاہئے جب تک استاذ اچھا نہ ہو،علمی تبحراور اخلاق وکردار کا مجسم نہ ہواس وقت تک بچہ بھی اچھا اور ہونہار نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے کہاجاتاہے کہ استاذ میں اچھے اخلا ق کا بچوں پر شفقت و توجہ کا،وقت کی پابند ی کا، انصاف پسندی اور غیر جانبداری کا،صبر و تحمل تعصب سے دوری کا، دوسروں کی غیبت اور شکایت سے پرہیز کا قائدانہ اور رہبرانہ صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔
استاذ صحیح معنوں میں اسی وقت ہوسکتا ہے جبکہ وہ اعلیٰ تربیت یافتہ ہو علم یعنی اپنے فن پر عبور ہو جدید نظریات اور خیالات کو بہتر طور پر سمجھنے والا ہواور بچوں کیساتھ حسن سلوک کرنے والا ہو۔ اس لئے ہمارے اکابر حضرات کو جب بچوں کو تعلیم دلوانی ہوتی تو کوئی نیک اور متقی استاذ ڈھونڈ تے تھے۔
پیرطریقت حضرت مولانا ذوالفقار علی نقشبندی مجددی دامت برکاتہم فرماتے ہیں’’استاذ کے اوپر بہت کچھ انحصار ہو تاہے بچہ ماں باپ کی بات کو غلط سمجھ لیتاہے لیکن استاذ کی بات کو غلط نہیں سمجھتابعض لوگ دینی علم پڑھا نے کیلئے غیر متقی قسم کے استاذ کو چن لیتے ہیں اور وہ بچہ کو گمراہ کردیتے ہیں لہٰذا نیک متقی صحیح عقائد والا استاذ ڈھونڈنا یہ ماں باپ کی ذمہ داری ہے کیونکہ اس کے بچہ کے اوپر ا ثر ات پڑتے ہیں‘‘
شاعر مشرق علامہ اقبال;231; کے حالات میں ہے کہ ان کو بچپن میں فارسی پڑھا نے والے استاذ بہت متقی تھے ان کا تقویٰ مشہور تھا یہ اس استاذ کی محنت ہے کہ اس نے اس بچپن کی عمر میں اس بچہ کے دل میں اسلام کی ایسی محبت بھردی تھی کہ جب یہ بڑے ہوکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ چلے گئے تو وہا ں جاکر بھی لکھتے ہیں
حضرت مولانا ممتاز احمد قاسمی صاحب نے ایک نکتہ کی بات کہی ہے’’استاذ کا عقیدہ ایمان بالغیب اور وحدانیت پر ہے تو دوسرے مذاہب کے خیالات پڑھاکر بھی بچہ کو صحیح العقیدہ رکھ سکے گا اوراگر استاذ دوسرے خیالات کا ہوگاتووہ بچہ کو کچھ بھی پڑھائے گا تو اسے اپنے خیالات میں کرلیگا‘‘
حضرت امام غزالی فرماتے ہیں ’’استاذ کو برد بار اور حلیم الطبع ہونا چاہئے‘‘۔ایک بزر گ فرماتے ہیں کہ معلم کو مہر و محبت کا مجسّمہ ہونا چاہئے درشت خوآدمی کی بات سننے کے لئے کوئی تیا ر نہیں ہوتاحدیہ ہے کہ مریض کڑوی دوا کو یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ یہ مرض زائل کرے گی پینے سے گریز کرتاہے۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ;231; نے فرمایا جب تک تیر ا غصہ باقی ہے اپنے کو اہل علم میں شمار نہ کر۔
حقیقت یہ ہے کہ نظام تعلیم کے پورے ڈھانچے میں استاذ کوریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے کوئی بھی نظامِ تعلیم استاذکی اچھی کار کردگی کے بغیر کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا استاذ کو اول تو اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاناچاہئے کہ اس ذات بابر کت نے اسکو علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو سکھانے کی توفیق عطا فرمائی۔ تعلیم کے شعبہ میں حتی الامکا ن پیغمبر ﷺ کے طریقے کو مشعلِ راہ بنانا چاہئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انما بعثت معلما ’’مجھے معلم بناکر بھیجاگیا ہے‘‘ (ابن ماجہ ص ۱۲مکتبہ البدر دیوبند) آ پ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شعبہَ تعلیم میں معلمین و مدرسین کی ایسی رہنمائی فرمائی کہ رہتی دنیا تک اس کی مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔
سابق صدر جمہوریہ َہند جناب ڈاکٹر ذاکر حسین نے ’’اچھا استاذ‘‘نامی کتاب میں لکھا ہے کہ اچھا مدرس ہونے کا امتیاز یہی ہے کہ اس کی زندگی کی جڑیں محبت کے سر چشمہ سے سیراب ہوتی ہیں، وہاں تازہ دم رہتاہے جہاں دوسرے تھک جاتے ہیں اسے وہاں روشنی دکھائی دیتی ہے جہاں دوسرے اندھیرے کی شکایت کرتے ہیں،یہ زندگی کی پستیوں کو بھی دیکھتاہے لیکن اس کی وجہ سے ان بلندیوں کو بھول نہیں جاتا،بے بس بچے کی خدمت کو زندگی کا افتخار جانتاہے اور بچہ کی طرف سے جب ساری دنیا مایوس ہوجاتی ہے تو بس دولوگ ہوتے ہیں جن کے سینے میں امید باقی رہتی ہے ایک اس کی ماں اور دوسرا اس کا استاذ آج بھی انہیں استاذوں سے امیدیں وابستہ ہیں ان کے دامن کے سائے میں ہی قوم کے نونہالوں کی نشوونما ہوگی اگر یہی اساتذہ اپنے ذہنوں کو وسیع کرلیں اور یہ سوچیں کہ جو ایک ذرہ انہیں طالب علم کی شکل میں ملا ہے، علم کے نور سے اس ذرّہ کو آفتاب بنادیں اگر ایسا رہا تو پھر قوم کا بچہ بچہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوگا پھروہ اپنے استاذ کی عزت وتوقیراور مرتبہ دینے میں اپنی خوش قسمتی تصور کریگا۔
فی الواقع استاذ کاکام نہایت ہی عزت اور قدر کے قابل ہے بشرطیکہ اسکی ذات اس عزت کے کم کردینے والی نہ ہو استاذ کے اوضاع واطوار ایسے ہونے چاہئے کہ وہ نیکی وپرہیزگاری کاسیر ت وکردار سے مثالی استاذ کا مکمل ومجسم نمونہ ہو اور اس کی زیارت ہی سے تعلیم کے مقدس فیض کا عکس طالب علم کے دل ودماغ میں کھنچ جائے۔
استاذصفات کے آئینہ میں!
حضرت نبی اکرم ﷺ نے معلم کیلئے خیر کی دعافرمائی نضر اللہ امرءً سمع مقالتی فوعاھا واداھا کما سمعکہ اللہ تعالیٰ خوش وخرّم رکھے اس شخص کو جس نے ہم سے کچھ سنا اسے محفوظ رکھا اور اسے آگے بھی یعنی لوگوں کو بتایا(ترمذی ج ۲ ص۴۹مکتبہ البدردیوبند)اس لئے معلم کا پیشہ تمام پیشوں سے اشر ف اور افضل ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہیکہ الدنیا ملعونۃ وملعون من فیھا الا عالما اومتعلما اوذکر اللہ وما والاہ(ابن ماجہ ص ۲۰۳،۳۰۳)د نیا اور جوکچھ دنیا میں ہے وہ سب ملعون ہے سوائے اللہ کے ذکر، عالم اور متعلم کے۔ (ابن ماجہ ص ۲۰۳و ۳۰۳)
معلم خیر کے متعلق پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی ہے ان اللہ وملائکتہ واھل السمٰوات والارضین حتی النملۃ فی جحر ھا وحتیٰ الحوت لیصلون علی معلم الخیر (ترمذی ج ۲ ص ۸۹)کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت نازل کرتے ہیں اور تمام زمین و آسمان والے حتیٰ کہ چیونٹی تک اپنے بل میں معلم خیر کیلئے بھلائی مانگتی ہے۔ فرمان عالیﷺ ہے کہ خیر کی تعلیم دینے والے استاذ کے حق میں دنیا کی ہر شئے دعا گو ہوتی ہے حتیٰ کہ سمندر کی مچھلیاں بھی۔
معلم کے کردار کی ہمہ گیریت کی نشان دہی اور معلم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ معلم اول خود رب ذوالجلال ہیں ارشادہے الرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الانْسَانَ عَلَّمَہُ الْبَیان (رحمن ہی ہے جس نے قرآن سکھایا جو اس کی عطاءوں اور نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ورحمت ہے اور بنایاہے اسی نے انسا ن کو پھر سکھا یا اس کو بات کرنا اور نطق و گویائی کی نعمت سے سرفراز کیا جس کے باعث وہ اللہ کا کلام پڑھ سکے،سیکھ سکے اور تلاوت کرسکے۔ (پارہ ۷۲ رکوع ۱۱ سورہ رحمن آیت ۱ تا ۳)
قابل غور ہے کہ اسماء حسنیٰ میں الرحمن اسم مبار ک لائے جس میں ایک لطیف اشارہ ہیکہ ہر استاذ کو چاہئے کہ کسی بات کو سکھانے کیلئے سب سے پہلی صفت ایک استاذ میں رحمت کی ہونی چاہئے اپنے دل میں رحمت وشفقت کا جذبہ پیداکرناچاہئے۔
یہ حقیقت ہے کہ سماج اور قوم کی تعمیر میں اساتذہ کا بڑارول ہے وہ نہ صرف طلبہ بلکہ سماج کیلئے بھی قابلِ احترام ہیں۔
یہ حقیقت واقعہ ہے کہ تعلیم کا عمل جن چیزوں کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا وہ استاذ، طالب علم اور نصاب ہیں۔
استاذ کے اخلا ق کیسے ہوں!
استاذ کیلئے ضروری ہے کہ وہ شاگر د وں پر شفیق و مہر بان ہوان سے ہمدردی رکھتا ہواور انکی بے اعتدالیوں کو درگذر کرنا جانتاہو۔ اللہ نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص صفت بیان کی ہے وہ رئوف اور رحیم ہیں صحابہ کرام جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین شاگرد ہیں ان میں سے متعدد نے جب حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی مشفقانہ تعلیم دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرویدہ ہوگئے کہنے لگے کہ زندگی میں ایسابہتر ین معلم اور استاذ نہیں دیکھا جو اتنے پیار و محبت سے سمجھاتاہو، تعلیم دیتا ہو، غلطیوں سے در گذر کرتا ہواور بے اعتدالیوں کو معاف کرتاہو۔
معاملہ تعلیم کا ہو یا تربیت کا استاذ کا رول بہر حال اہم ہوتا ہے اگر استاذ کا کردار اچھا اور مضبوط ہے تو اسکی شخصیت کا اثر طالب علموں پر پڑیگاکیونکہ استاذ مثل آئینہ ہوتاہے جس میں شاگرد اپنا سنہرا مستقبل دیکھتاہے۔ ب
ڑوں کی سیرت میں نظرآتا ہے کہ ان کے اساتذہ اخلا ق و کردار کے اعتبارسے اچھے تھے۔ انکا چال چلن درست تھا۔ اسلام میں تو یہ ایک باقاعدہ اصول ہے کہ تعلیم سے قبل استاذ کی شخصیت کو دیکھاجائے۔
حضرت ابن سیرین نے ایک مرتبہ حدیث کے طلبہ سے فرمایا کہ ان ھذا العلم دین فانظروواعمن تاخذون دینکم (مسلم شریف باب تحصیل العلم) یہ علم دین ہے اس بارے میں غو ر کرتے رہوکہ یہ علم تم کس سے حاصل کررہے ہو۔ مقصد تھا کہ اپنے استاذ کی شخصیت و اخلاق و کردار پر بھی نگاہ رکھو اور اسی سے علم حاصل کرو جو اچھے اخلاق و کردار کامالک ہو۔
حضرت مولانا عباداللہ صاحب ندوی نے لکھا ہے ’’اساتذہ کیلئے علمی لیاقت کے ساتھ اخلاقی اقدار بھی نہایت ضروری وصف ہے استاذ کو اتنا باوقار ہناچاہئے کہ اس کی ایک نگاہ درشت سے طلبہ سہم جائیں اگر اساتذہ خود اخلاقی پستی میں مبتلاہوں،طلبہ سے سطحی گفتگو کرتے ہوں،ان کے سامنے فحش،ہنسی ومذاق کیاکرتے ہوں،ان کے کردار کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھاجاتاہو،ان کی زبان وبیان سے وقتاً فوقتاًسوقیانہ پن اور پھوہڑپن کا اظہار ہوتاہوتو بجاطور پر طلبہ ان کو اپنابے تکلف دوست سمجھتے ہیں اور استاذکا درجہ نہیں دیتے کیونکہ یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان خود کتنا بھی براہووہ اپنے بزرگوں کو اس سے ماوراء دیکھنا چاہتاہے‘‘ (جاری)