ماہنامہ الفاران
ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۳
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد نکاحوں کی حکمتیں اور مصلحتیں
حضرت مفتی نفیس احمد جمالپوری المظاہری استاد حدیث و فقہ: مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا (ہماچل پردیش)
نبی اکرم ﷺ کے متعدد نکاحوں کی حکمتیں و مصلحتیں
(اوربعض لوگوں کی بہتان تراشیوں اور اعتراضات کے جوابات)
ہم اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں اور درودوسلام بھیجتے ہیں اللہ کے برگزیدہ پیغمبر آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل رضوان اللہ عنھم اجمعین اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین پر اوران ہستیوں پر جنھوں نے قیامت تک کے لیے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔
درود وسلام کے بعد! میں آ پ کو مبارکباد دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو اسلام جیسی پاکیزہ اور بے پایاں نعمت سے سرفراز فرمایا اور اللہ سے اس کی محبت اور خوشنودی کا خواستگار ہوں۔دعا گو ہوں کہ اللہ ہمیں اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ہمیں گفتار اور کردار کا غازی بنائے،ہمیں ایمان کامل اور صدق و یقین کی دولت سے مالا مال فرمائے، یقیناً وہی دعاؤں کا سننے والا قبول کرنے والا ہے۔
اے عزیزان ملت! کیاآپ دیکھتے نہیں کہ نصف النہار کے وقت جب سورج اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا ہوتا ہے تو کوئی پردہ اس کی روشنی کو ڈھانپ نہیں سکتا،کوئی بادل اس کی شعاعوں کو روک نہیں سکتا۔اگر کوئی عقل کا اندھا انسان اس چراغ کو گل کرنے کے لیے یا اس کی روشنی کو آنکھوں سے اوجھل کرنے کے لیے پھونکیں مارتا ہے یا اپنی چادر لاکر اس کے آگے تان دیتاہے تو آ پ ہی بتائیں کیا اس طرح اس کی روشنی ختم ہوجائے گی؟نہیں۔ہرگز نہیں!کچھ ایسی ہی کیفیت ہمارے اس آفتاب کی ہے جس کے متعلق ہم آج گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔
برادران ملت! آپ سوچتے ہونگے کہ میں آسمان کی بلندیوں پر چمکنے و الے آفتاب کی بات کروں گا،نہیں،ہرگز نہیں!میں تو آفتاب روحانی کی بات کرتا ہوں جو مکہ کے اُفق سے اٹھا اور فاران کی چوٹیوں پہ نمودار ہوا۔میں ہرگز اس سورج کی بات نہیں کررہا جو جسموں کو گرم کرتا ہے۔بلکہ اس سورج کی بات کرتا ہوں جس نے دلوں کو جلا بخشی۔کیا آپ نے اس آفتاب کو پہچانا نہیں؟جس آفتاب کی میں بات کر رہا ہوں،وہ آفتاب نبوت ہے،مہتاب رسالت ہے۔جس سے ہدایت کے سوتے پھوٹے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ظلمتوں کو شکست وریخت سے دوچار کیا اور اسلام کی روشنی کو دائمی فیروز مندی بخشی،بلاشبہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے،اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:یُریدونَ لِیُطفِئوا نورَ اللہِ بِأَفوٰہِہِم وَاللَّہ مُتِمُّ نورِہِ وَلَو کَرِہَ الکٰفِرونَ۔(الصف،آیت ۸۔)یہ لوگ چاہتے ہیں کہ پھونکیں مار مار کر اللہ کی روشنی بجھادیں،حالانکہ اللہ یہ روشنی پوری کئے بغیر رہنے والا نہیں،اگرچہ نافرمانوں کو بُرا لگے(الصف:8) اس سے اگلی آیت یوں ہے:ہُوَ الَّذی أَرسَلَ رَسولَہُ بِالہُدیٰ وَدینِ الحَقِّ لِیُظہِرَہُ عَلَی الدّینِ کُلِّہِ وَلَو کَرِہَ المُشرِکونَ (الصف،آیت ۹۔)وہ اللہ جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقی ہدایت اور دین حق دے کر مبعوث فرمایا تاکہ اس دین کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کردے،اگرچہ شریک ٹہرانے والوں کو پسند نہ آئے،ہاں یہی وہ مدینے کی گلیوں میں چلنے والا آفتاب تھا،جو آج ہمارا موضوع سخن ہے جس کو قرآن ان شاندار اور خوشنما الفاظ سے یاد کرتا ہے:یٰأَیُّہَا النَّبِیُّ إِنّا أَرسَلنٰکَ شاہِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذیرًا۔وَداعِیًا إِلَی اللَّہِ بِإِذنِہِ وَسِراجًا مُنیرًا۔ا(لأحزاب) اے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وسلم)!بیشک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا،بشارت پہنچانے والا،جہنم سے ڈرانے والا،راہ الٰہی کی طرف دعوت دینے والا اور ایک نورانی مشعل بنا کر بھیجایہاں سراج منیر سے مراد وہی آفتاب ہے جو اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ چمکا اور چہار سوئے عالم کو روشن کر دیا،عقلمندوں نے اسے دیکھ کر خوش آمدید کہا،لیکن عقل کے اندھوں نے آنکھیں پھیر لیں۔اللہ بھلاکرے اس شاعر کاجس نے کہا:وشمسنا فی سماء العز ساطعۃ:ما ضرہا حین تعمی عندہا العورہمارا آفتاب عزت کے آسمانوں میں چمک رہا ہے۔بھینگا(کانا) اگر اس کے سامنے اندھا بن جائے تو بھلا سورج کا اس سے کیا نقصان ہوگاآنکھیں گر ہوں بند تو دن بھی رات ہے،بھلا کیا قصور ہے اس میں آفتاب کا!
درحقیقت دشمنان دین نے شروع دن سے ہی پیغمبر اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات کا یہ سلسلہ شروع کردیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو طعن وتشنیع کانشانہ بنایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات پر عیب جوئی کی اور طرح طرح کے جھوٹ گھڑے تاکہ مسلمان اپنے دین کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہوجائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ماننے سے باز رہیں۔
اس میں تعجب کی بات نہیں کہ ہم انبیاء ورسل کے بارے میں اس قسم کی ہرزہ گوئیاں اور گمراہ کن باتیں سن رہے ہیں،کیونکہ اپنی مخلوق کے بارے میں اللہ کا یہی دستور چلا آرہا ہے اور اللہ کے ٹھہرائے ہوئے دستور کو بدلا نہیں جاسکتا۔اللہ نے سچ فرمایا ہے:وَکَذٰلِکَ جَعَلنا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِنَ المُجرِمین وَکَفیٰ بِرَبِّکَ ہادِیًا وَنَصیرًا (الفرقان)اے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وسلم)! اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے مجرموں کو دشمن ٹھہرادیا اور آپ کا رب ہدایت دینے اور مدد دینے کو کافی ہے،قبل اس کے کہ ہم امہات المومنین الطاہرات کے متعلق گفتگو کریں اور وہ حکمتیں واضح کریں جن کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد شادیاں کیں۔ایک شبہ کا ردضروری سمجھتے ہیں جسے کینہ پرور معاندین اسلام،صلیبیوں اور مغرب کے متعصب مستشرقین نے خوب اُچھالا۔پھر عقائد اسلامیہ کو خراب کرنے،حقائق کو مسخ کرنے اور ر سالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو کم کرنے کے لیے اس کا خوب ڈھنڈورا پیٹا۔چنانچہ وہ کہتے ہیں:محمد صلی اللہ علیہ وسلم (معاذاللہ) ایک شہوت پرست انسان تھا۔جو خواہش نفس کا غلام اور لطف اندوزی کا مریض ہو،جس نے اپنے پیروکاروں کو تو چار سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت نہ دی لیکن خود چار پر اکتفا نہ کرسکا بلکہ شہوت اور خواہش نفس سے مغلوب ہوکر دس یا اس سے بھی زیادہ عورتوں سے نکاح کیا(معاذاللہ)وہ مزید الزام تراشی کرتے ہیں:عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہت بڑا فرق ہے۔ایک طرف عیسیٰ علیہ السلام تھے،جنھوں نے اپنے نفس سے لڑائی کی اور اپنی خواہشات کو مغلوب کیا اور دوسری طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھا۔جو (معاذاللہ) خواہشات کا بندہ،لطف اندوزی اور شہوت پرستی کامریض تھا،کَبُرَت کَلِمَۃً تَخرُجُ مِن أَفوٰہِہِم إِن یَقولونَ إِلّا کَذِبًا(الکھف)کتنی سنگین بات ہے جو ان کی(زہر آلود) زبان سے نکلی ہے یقیناً وہ سراسر جھوٹ بکتے ہیں
دراصل یہ لوگ بغض وعناد اور مذہبی ر قابت سے مغلوب ہوکر جھوٹ بول رہے ہیں۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہر گز شہوت پرست انسان نہ تھے بلکہ آپ تو انسانیت کے غم خوار پیغمبر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عام انسانوں کی طرح شادیاں کیں تاکہ وہ راہ راست سے بھٹکی انسانیت کے لیے عائلی زندگی کابھی عملی نمونہ پیش کرسکیں،نہ وہ اللہ تھے اور نہ اللہ کے بیٹے جیسا کہ نصاریٰ کا عقیدہ ہے۔بلکہ انہی کی طرح ایک انسان تھے جنھیں اللہ نے نبوت ورسالت کے ذریعے پوری کائنات پر فضیلت بخشی:قُل إِنَّما أَنا بَشَرٌ مِثلُکُم یوحیٰ إِلَیّ(الکھف)اے پیغمبر! ان کو بتادیں کہ میں تم جیسا ایک انسان ہوں،ہاں البتہ اللہ نے مجھے وحی(کے ذریعے تم پر فضیلت) بخشی ہےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی پہلے پیغمبر تو نہیں تھے کہ انہوں نے متعدد شادیاں کرکے سابقہ انبیاء کی سنت کی مخالفت کی یا ان کے منہج میں کمی بیشی کی،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی رسول آئے جنھوں نے متعدد شادیاں کیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:وَلَقَد أَرسَلنا رُسُلًا مِن قَبلِکَ وَجَعَلنا لَہُم أَزوٰجًا وَذُرِّیَّۃ(الرعد)اورحقیقت یہ ہے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی بے شمار پیغمبر قوموں میں بھیجے،ہم نے انہیں بیویاں بھی دی تھیں اور اولاد بھی معلوم ہوا کہ سابقہ انبیاء علیہ السلام کے ہاں تعدد ازواج کا رواج تھا۔لیکن یہ لوگ ان انبیاء علیہ السلام کی شان میں کبھی گستاخی نہیں کرتے تو پھر آخر یہ لوگ خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ طوفان کیوں کھڑا کررہے ہیں اور کیوں شدید تعصب اور جانبداری کاشکار ہیں۔
در اصل بات یہ ہے، جیسا کہ کسی شاعر نے کہا:قد تنکر العین ضوء الشمس من رمد:وینکر الفم طعم الماء من سقم البوصیری۔آشوب چشم انسان سورج کی شعاعوں کو برداشت نہیں کرسکتا،اور مریض آدمی کو میٹھا پانی بھی ترش معلوم ہوتاہے،اس اعتبار سے اللہ نے سچ فرمایا ہے:فَإِنَّہا لا تَعمَی الأَبصارُ وَلٰکِن تَعمَی القُلوبُ الَّتی فِی الصُّدورِ (الحج)حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی اندھے پن میں پڑتا ہے توآ نکھیں اندھی نہیں ہوجایا کرتیں بلکہ سینوں میں بسنے و الے دل بھی اندھے ہوجاتے ہیں ،یہاں دو باتوں کو یاد رکھنا ضروری ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے شبہات کے تمام بادل صاف کردیتی ہیں اور ہرزہ سرائی کرنے والے ان تمام معاندین کامنہ بند کردیتی ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کوکم کرنے کے درپے ہیں،ضروری ہے کہ ہم ان دو باتوں سے کبھی غافل نہ ہوں اور جب بھی امہات المومنین رضوان اللہ عنھن اجمعین اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعدد ازواج کی حکمت کے بارے میں گفتگو کریں تو ہمیشہ ان دو بنیادی باتوں کو اپنے سامنے رکھیں۔(۱)یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد نکاح اس وقت کیے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑھاپے کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر50 سال سے بھی تجاوز کرچکی تھی۔(۲)یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوا آپ نے جن خواتین سے بھی نکاح کیے وہ تمام کی تمام بیوہ اور ضعیف العمر تھیں،صرف ایک عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں جو کنواری اور نوجوان تھیں۔ان دو نکات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ تعصب وعناد کے شکار مستشرقین کی یہ تہمت کس قدر بے ہودہ اور یہ زہر افشانی کس قدر باطل ہے۔اگر شادی سے نعو ذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد ہوس پرستی،خواہش نفس کی تکمیل اور محض عورتوں سے تمتع ہوتا تو کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت پیری میں متعدد شادیاں نہ کرتے بلکہ جوانی کے عالم میں کرتے اور کبھی بیوہ اور معمر خواتین سے نکاح نہ کرتے بلکہ نوجوان کنواری لڑکیوں سے نکاح کرتے۔چنانچہ جب جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حالت میں آئے کہ ان کا چہرہ شاداں وفرحاں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:کیا تو نے شادی کی ہے؟کہا:جی یا رسول اللہ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:کنواری سے یا بیوہ سے؟کہا: بیوہ سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تو نے کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہ کی تاکہ تو اس کے ساتھ کھیلتا اور وہ تیرے ساتھ کھیلتی،تو اس کے ساتھ دل بہلاتا اور وہ تیرے ساتھ دل بہلاتی۔دیکھئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کنواری لڑکی سے شادی کرنے کا مشورہ دیا،کیونکہ آپ تمتع اور قضائے شہوت کے طریقوں سے خوب واقف تھے،لیکن اس کے باوجود آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنواریوں کو چھوڑ کر بیواؤں سے نکاح کیا اور پچاس سال کی عمر تک ایک بوڑھی خاتون خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ جوانی گزاری۔اگر متعدد شادیاں کیں تو اس وقت جب جوانی ڈھل کر بڑھاپے کا لبادہ اوڑھ چکے تھے۔آپ خود ہی فیصلہ کریں،کیا یہ نفس پرستی اور خواہشات نفس کی تکمیل تھی؟۔
تاریخ گواہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین آ پ کے اشارہئ ابرو پر اپنی آسائشوں اور جانوں کو قربان کرنے والے تھے۔اگر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی خوبرو،جوان اور کنواری لڑکی سے شادی کی آرزو کرتے تو یقیناً ان میں سے کوئی بھی ذرا تامل نہ کرتا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آرزو کی تکمیل میں فخرمحسوس کرتا تو پھر آخر کیا وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عنفوان شباب میں شادی نہ کی اور کیوں کنواریوں کو چھوڑ کر بیواؤں کو ترجیح دی۔یہاں مشرکین مکہ کی نبی اکرم کو ابو طالب کی زبانی وہ پیشکش بھی سامنے رہنی چاہیے کہ جس میں انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب کی سب سے خوبصورت لڑکی سے شادی کی پیشکش کی تھی اور اس کے بدلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ا پنی دعوت حقہ چھوڑدینے کا تقاضا کیا تھا۔لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے قوی عزم کے ساتھ ان تینوں پیشکشوں کو ٹھکرادیا تھا۔بالفرض مستشرقین کا دعویٰ درست ہوتو آپ کے اس طرز عمل کی وہ کیا توجیہ کریں گے؟۔
بلاشبہ اس نکتے پر غور کرنے سے جھوٹ اور ہرزہ گوئیوں کے تمام بادل چھٹ جاتے ہیں اور تمام شکوک وشبہات رفع ہوجاتے ہیں اور اس میں معاندین کے اعتراض کا جواب بھی مل جاتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو کم کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت کو داغدار کرنے کے درپے ہیں۔ اس نکتہ پر غور کرنے سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیاں نفس پرستی اور قضائے شہوت کے پیش نظر نہ تھیں بلکہ تمام کی تمام شادیاں دین اسلام کی پیش رفت،اپنے رفقا ء کے ساتھ مودت ومحبت کے رشتہ کی استواری،بلند مقاصد اور دیگر دینی،معاشرتی وسیاسی مصلحتوں کے تحت کی گئیں تھیں۔
دشمنان اسلام اگر اندھے مذہبی تعصب سے بالاتر ہوکر اور عقل وشعور کو فیصل مان کر ذرا غور کریں تو ان پر یہ حقیقت واشگاف ہوجائیگی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن مصالح اور مقاصد کے تحت شادیاں کیں وہ مقاصد کس قدر عظیم اور اہمیت کے حامل تھے اور ہرشادی انہیں انسانی عظمت کی عمدہ مثال نظر آئے گی جو یقیناً ایسے عظیم انسان اور مجسمہئ رحمت پیغمبر میں ہونی چاہیے جو دوسروں کی مصلحت کی خاطر اپنی راحتوں کو قربان کردیا کرتاہے اور اسلام اور دعوت دین کی خاطر اپنے آپ کو ہلکان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
عزیزان ملت!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بکثرت شادیاں کرنے کی بے شمار حکمتیں اور مصلحتیں تھیں۔ہم ان میں سے درج ذیل چار بنیادی مصلحتوں کا تذکرہ کریں گے:1۔تعلیمی مصلحت۔2۔دینی مصلحت۔3۔معاشرتی مصلحت۔4۔سیاسی مصلحت۔اب ہم مندرجہ بالا ہر مصلحت کے متعلق قدرے اختصار سے گفتگو کریں گے پھر تھوڑا سا اُمہات المومنین رضوان اللہ عنھن اجمعین کے بارے میں ذکر کریں گے۔اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر شادی کی الگ الگ حکمت بیان کریں گے۔اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔
تعلیمی مصلحت:۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ شادیاں کرنے کابنیادی مقصد یہ تھا کہ چند ایسی معلمات تیار ہوجائیں جو عورتوں کو شرعی مسائل کی تعلیم دیں،کیونکہ عورتیں معاشرے کا نصف حصہ ہیں اور ان پر ویسے ہی احکامات فرض ہیں،جیسے مردوں پر فرض ہیں۔پھر عورتوں کی اکثریت ایسی تھی جو فطرتاً بعض شرعی مسائل کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے میں شرم محسوس کرتی تھی۔خاص طور پر وہ مسائل جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں مثلاً حیض،نفاس،جنابت اور وظیفہ زوجیت وغیرہ۔اور وہ پیغمبر جو خود شرم وحیا کا پیکرتھا،جیسا کہ کتب احادیث میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باپردہ کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے بھلاعورتیں اس سے شرم کیوں نہ کرتیں۔اس لیے اس مجسمہ حیا کے بس کی بات نہ تھی کہ وہ عورتوں کے ہر سوال کاجواب مکمل صراحت سے دیتے۔چنانچہ اکثر ایسا ہوتا کہ جب آپ کسی سوال کاجواب اشارہ وکنایہ سے دیتے تو عورتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کو سمجھ نہ پاتیں۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ قبیلہئ انصار کی ایک عورت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل حیض کے متعلق سوا ل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غسل کا طریقہ سمجھانے کے بعد کہا کہ خوشبو لگی روئی لے کر اس سے صفائی کرلینا،تو وہ کہنے لگی:اس کے ساتھ میں کیسے صفائی کروں؟
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا اور اسے بتایا کہ اس روئی کو اپنے مقام مخصوصہ میں رکھو اور اس سے خون کے نشانات صاف کردو اور پھر میں نے صراحت سے اس عضو مخصوصہ کی نشاندہی کردی،اب بتائیے،شرم وحیا کا پیکر پیغمبر اس قسم کی صراحت کی جرائت کیسے کرسکتا؟اور اسی طرح شاذونادر ہی کوئی ایسی عورت ہوگی جو ضبط نفس کرکے اور شرم وحیا کو مغلوب کرکے اس قسم کے پیش آمدہ مسائل کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتی۔اس صورت حال میں اگر آپ کی ازواج مطہرات یہ فریضہ انجام نہ دیتیں تو یقیناً خواتین کے مخصوص مسائل شرم وحیا کی بنا پرمخفی رہ جاتے۔چنانچہ اس طرح کا ایک اور واقعہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالہ سے صحیحین میں ملتا ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ:صحابی رسول ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ(اُم سلیم)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی:اے اللہ کے رسول صلی اللہعلیہ وسلم!اللہ بیان حق سے نہیں شرماتا۔لہذا مجھے بتلایئے کہ عورت کو احتلام ہوجائے تو کیا وہ غسل کرے گی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں جب وہ منی دیکھے۔توحضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا:اے ام سلیم!تو نے عورتوں کو رسوا کردیا۔تو کیا عورتوں کو بھی احتلام ہوتا ہے؟یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جواب دیا:احتلام نہیں ہوتا تو تو پھر بچہ عورت کے مشابہ کیسے ہوتا ہے؟آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ مرد و زن کے نطفہ کے باہم امتزاج سے جنین پیدا ہوتاہے اور اسی وجہ سے کبھی بچہ ماں کے مشابہ ہوتاہے۔اور اس کی دلیل قر آن کی یہ آیت ہے:إِنّا خَلَقنَا الإِنسانَ مِن نُطفَۃٍ أَمشاجٍ نَبتَلیہِ فَجَعَلناہ سَمیعًا بَصیرًا(الدھر)ہم نے انسان کو(مرد اور عورت کے مخلوط) نطفہ سے پیدا کیا تاکہ ہم اس کا امتحان لیں اور ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا،حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:امشاج اخلاط کو کہتے ہیں جس کا معنی ایسی چیز ہے جس کا بعض بعض سے ملا ہوا ہو۔عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا:امشاج عورت اور مرد کے پانی کے باہم امتزاج واختلاط کو کہتے ہیں۔پس اس قسم کے سوالات جن میں شرم وحیا کا پہلو تھا،ان کے جوابات کی ذمہ د اری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین نے اُٹھا رکھی تھی۔لہذاحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:اللہ انصار کی عورتوں پر رحم فرمائے،حیا انہیں دین کی سمجھ حاصل کرنے سے نہیں روکتی انصار کی عورتیں رات کے اندھیرے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لاتیں اور ان سے دین کے بعض مسائل،حیض،نفاس،جنابت وغیرہ کے احکام کے متعلق سوال کیا کرتیں تو گویا پیغمبر کی بیویاں عورتوں کے لیے بہترین معلمہ اور مربیہ تھیں جن کے فیض سے ہزاروں عورتوں نے دین کا علم سیکھا۔پھر یہ بات تو کسی سے مخفی نہیں کہ سنت مطہرہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال پر منحصر نہیں ہے۔بلکہ یہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال،افعال اور تقریرات(وہ اُمور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی)سب کو شامل ہے جو کہ شر یعت اسلامیہ کا حصہ ہیں جس کی ا تباع اُمت کے لیے ضروری ہے تو ان عورتوں کے علاوہ جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں اُمہات المومنین رضوان اللہ عنھن اجمعین اور دنیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہونے کے شرف سے سرفراز فرمایا،کون ایسا تھا جو ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نجی اور خانگی زندگی سے متعلق آگاہ کرتا!
چنانچہ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین ہی نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرائیویٹ اور گھریلو زندگی کے تمام احوال واطوار اور افعال کو نقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اگر وہ نہ ہوتیں تو ہم شریعت کے ایک عظیم ذخیرے سے محروم ہوجاتے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انہی بیویوں میں سے بعض عظیم معلمہ اور محدثہ بنیں جنھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو آگے منتقل کیا اور قوت حفظ،علمی قابلیت اور ذہانت وفطانت میں مشہور ہوئیں۔
دینی وشرعی مصلحت:۔اس سلسلے میں دوسری بنیادی اور اہم مصلحت جو آپ کے متعدد شادیاں کرنے میں کارفرماتھی وہ دینی اور شرعی مصلحت تھی۔یہ مصلحت اس قدر واضح ہے کہ ہرشخص بخوبی اس کا ادراک کرسکتا ہے۔وہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے جاہلیت کی بعض غلط اورخلاف فطرت رسومات کا خاتمہ ہوجائے۔مثال کے طور پر متنبیٰ(منہ بولے) بیٹے کی رسم تھی،جو اسلام سے پہلے عربوں میں رائج تھی بلکہ ان کے دین کا حصہ بن چکی تھی۔وہ وراثت،نکاح،طلاق وغیرہ تمام معاملات میں لے پالک(منہ بولے) بیٹوں کو بالکل صلبی (حقیقی) بیٹوں کادرجہ دیتے تھے۔یہ باقاعدہ ایک مذہب تھا جس کی وہ نسل در نسل تقلید اور پیروی کرتے چلے آرہے تھے۔اور یہ ممکن نہ تھا کہ کوئی آدمی اپنے لے پالک کی مطلقہ سے شادی کرلے۔دوسروں کے بیٹوں کو لے پالک بنالینے کا دستور بھی عا م تھا اور اس کا طریقہئ کار یہ تھا کہ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کے بیٹے سے کہتا:تو میرا حقیقی بیٹا ہے،تومیر اوارث ہوگا اور میں تیرا وارث ہوں گا۔اب یہ کیسے ہوسکتاتھا کہ اسلام اس باطل نظریہ کو برقرار رکھتا اور لوگوں کو جہالت کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑدیتا۔چنانچہ اللہ نے اس جاہلی رسم کے خاتمہ کی راہ ہموار کرنے کے لیے اپنے پیغمبر کو نبوت عطا کرنے سے پہلے ہی ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ کسی کے بیٹے کو اپنا لے پالک بنالیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے قبل عربوں کے دستور کے مطابق زید بن حارثہ کو ا پنا متنبیٰ بنا لیا۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے زید بن حارثہ کو متنبیٰ بنانے کے پیچھے ایک عجیب وغریب و اقعہ اور ایک عظیم مصلحت کارفرما تھی جس کا ظہور بعد میں ہونے والاتھا۔یہ واقعہ لمبا ہے مختصر یوں ہے کہ بنو قین ا بن جسر نے ان کے ننھیال پر حملہ کرکے ان کو اور دیگر لوگوں کو غلام بنالیا۔بعد میں عکاظ کے میلے سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام نے انہیں خرید کر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ہبہ کردیا۔ان کے والد حارثہ اور چچا اطلاع ملنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انہیں لینے کے لیے آئے تو آپ نے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پاس رہنے یا اپنے والد کے ساتھ چلے جانے کا اختیار دے دیا۔ اس موقع پر زید نے اپنے والد اور چچا کے ساتھ جانے کی بجائے آپ کی رحمت و شفقت کے سبب آپ کے پاس ہی رہنے کو ترجیح دی۔اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہوکر انہیں آزاد کردیا اور مسجد حرام میں قریش کے مجمع میں یہ اعلان کردیا کہ آپ سب لوگ گواہ ہوجائیں کہ آج کے بعدزید میرا بیٹا ہے،یہ میرا و ارث ہوگا اور میں اس کایہ صورت حال دیکھ حضرت زید کے والد اور چچا راضی خوشی واپس چلے گئے۔(الاصابہ:2/494ومسند احمد 3/161) بہر کیف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کو اپنا لے پالک بنالیا۔اسی روز سے لوگوں نے انہیں زید بن محمد سے پکارنا شروع کردیا۔چنانچہ بخاری اور مسلم میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ:ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام زید بن حارثہ کو زید بن محمد کہہ کر بلایا کرتے تھے،یہاں تک کہ اللہ نے قرآن میں یہ حکم نازل کردیا:ادعوہُملِآباءِہِم ہُوَ أَقسَطُ عِندَ اللّہِ(الأحزاب)منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو،یہی اللہ کے نزدیک قرین عدل ہےتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے زید! تو زید بن محمد نہیں،بلکہ زید بن حارثہ بن شراحیل ہے۔اسی طرح گویا اس باطل رسم کو ختم کرنے کے لیے راہ ہموار ہوگئی۔(صحیح بخاری:حدیث 4782)حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عزت افزائی کے لیے ان کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن زینب بنت جحش سے کردیا جن کا تعلق بنی اسد سے تھا۔کچھ مدت تک تو وہ ان کے ساتھ نباہ کرتی رہی لیکن آخر کار ان کے آپس کے تعلقات خراب ہونا شروع ہوگئے۔جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت زینب کے مزاج میں تمکنت،تیزی تھی اور وہ تفوق وشرف کا ا حساس بھی رکھتی تھیں اور زبان سے اس کا ا ظہار بھی کرتیں،جبکہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لے پالک بننے سے پہلے ایک غلام تھے۔ اور حضرت زینب ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔نتیجہ یہ ہواکہ حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو طلاق دے دی۔اسی میں وہ مصلحت تھی جو اللہ چاہتے تھے اور جس کا اللہ فیصلہ کرچکے تھے چنانچہ وہ وقت آگیا کہ اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی اس رسم باطل کا خاتمہ اور اسلام کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے اپنے پیغمبر کو اپنے لے پالک کی مطلقہ سے نکاح کرنے کا حکم دے دیالیکن اس صورت میں منافقین اور فاجر قسم کے لوگوں کی نکتہ چینیوں اور زبان درازیوں کا اندیشہ تھا کہ وہ کہیں گے کہ محمدﷺ نے اپنے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کرلیا۔اس لیے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پس وپیش کرتے اور گریزاں رہے۔آخر کار اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر کو شدید ڈانٹ پلائی گئی: وَتُخفی فی نَفسِکَ مَا اللّہُ مُبدیہِ وَتَخشَی النّاسَ وَاللّہُ أَحَقُّ أَن تَخشیٰہُ فَلَمّا قَضیٰ زَیدٌ مِنہا وَطَرًا زَوَّجنٰکَہا لِکَی لا یَکونَ عَلَی المُؤمِنینَ حَرَجٌ فی أَزوٰجِ أَدعِیاءِہِم إِذا قَضَوا مِنہُنَّ وَطَرًا وَکانَ أَمرُ اللَّہِ مَفعولًا(الأحزاب)اے پیغمبر(صلی اللہ علیہ وسلم) تم لوگوں سے ڈرتے ہوحالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو، جب زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے اپنا رشتہ کاٹ لیا تو ہم نے تیرا نکاح اس سے کردیا تاکہ مومنوں پر ان کے لے پالکوں کی بیویوں کے بارے میں،جب وہ ان سے اپنا تعلق توڑ لیں،کوئی تنگی باقی نہ رہے اور خدا کا فیصلہ ہوکے ہی رہتاہے، اسی طرح آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا پنے ہاتھوں اس پتھر کو توڑا اور اس قسم کی تمام رسومات کا خاتمہ کردیا جودور جاہلیت میں چلی آرہی تھیں بلکہ ایک دین کا روپ دھر چکی تھی جس کی تقلید واجب اور ان سے انحراف کسی طرح بھی ممکن نہ تھا۔پھر اللہ نے اپنے اس قانون کو مزید پختہ کرنے کے لیے یہ آیت نازل فرمائی: ما کانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِجالِکُم وَلٰکِن رَسولَ اللّہِ وَخاتَمَ النَّبِیّین وَکانَ اللَّہُ بِکُلِّ شَیءٍ عَلیمًا(الأحزاب)محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں،بلکہ اللہ کے رسول اور سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہےاس سے معلوم ہواکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نکاح قضائے شہوت کی بناء پر نہیں تھا جیسا کہ بعض کمینہ صفت اللہ کے دشمن پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔بلکہ حکم الٰہی کے مطابق ایک عظیم حکمت اور بلند مقصد کی خاطر تھاتاکہ دور جاہلیت کی باطل رسومات کاخاتمہ ہوجائے۔اللہ نے اس نکاح کی غرض وغایت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:لِکَی لا یَکونَ عَلَی المُؤمِنینَ حَرَجٌ فی أَزوٰجِ أَدعِیاءِہِم إِذا قَضَوا مِنہُنَّ وَطَرًا(الأحزاب)تاکہ مومنوں پر ان کے لے پالکوں کی بیویوں کے بارے میں،جب وہ ان سے اپنا تعلق منقطع کرلیں،کوئی تنگی باقی نہ رہےاسی طرح امام بخاری نے اپنی سند سے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا،باقی ازواج مطہرات پر فخر کیاکرتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا اور میرا نکاح عرش کے رب نے ساتویں آسمان پر کیا۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نکاح اللہ کے حکم سے اُمت کے لیے ایک قانون بن گیا۔پس پاک ہے وہ ذات جس کی حکمتیں اتنی عظیم اور دقیق ہیں کہ انسانی عقلیں اس کے ادراک سے قاصر ہیں۔اللہ نے سچ فرمایا:وَمَا أُوتِیتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِیلاً' کہ تم بہت تھوڑا علم دیئے گئے ہو۔
معاشرتی مصلحت:۔تیسری مصلحت معاشرتی زندگی سے متعلق ہے اسی حکمت ومصلحت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ اول حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی سے اور پھر خلیفہئ ثانی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی سے نکاح کیا۔اسی حکمت کے پیش نظر آپ نے اکثر شادیاں قبیلہئ قریش میں کیں جن کی بدولت سسرالی اور نسبی رشتہ داریاں مضبوط ہوئیں۔عرب کے مختلف قبائل میں اسلام پھیلا۔دیرینہ دشمنی جاتی رہی،لوگ متوالوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر گرنے لگے۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے ذریعے اللہ کی حاکمیت اعلیٰ اور اقتدار کوتسلیم کرلیا اور دائرہ ئایمان میں داخل ہوگئے۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا تو صرف اسی بنا پر کہ وہ ایک ایسے شخص کی بیٹی تھیں جو پوری کائنات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ پیارا اور جلیل القدر تھا جو سب سے پہلے شمع نبوت کا پروانہ بنا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع اور دین کی نصرت کے لیے اپنی جان ومال اور سب کچھ قربان کردیا۔ظلم وستم کے طوفان اٹھ گئے،گزر گئے مگر اس مرد مجاہد نے اپنی جگہ سے ذرا جنبش نہ کی،حتیٰ کہ پیغمبر کو بھی ان کی مدح میں کہنا پڑامجھ پر کسی کا کوئی احسان نہیں مگر میں نے اس کابدلہ چکادیا،سوائے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جس کے احسانات اتنے زیادہ ہیں کہ اس کا بدلہ روز قیامت اللہ ہی دے گا۔جتنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا روپیہ میرے کام آیا کسی دوسرے کا نہیں،میں نے جس شخص کو بھی اسلام کی دعوت دی اس نے توقف اور تردد کیا،سوائے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے،میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور انھوں نے بلاتردد اس کی تصدیق کی۔اگر میرے لیے یہ ممکن ہوتا کہ میں کسی شخص کو اپنا خلیل بناسکتا(اسے وہ محبت دیتا جو محبت کا آخری درجہ ہے) تو یقیناً اس کے لیے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کرتا۔مگر مجھے تواللہ نے اپناخلیل بنا لیا ہے(جس میں کوئی اور شریک نہیں ہوسکتا)(سنن ترمذی) اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دنیا میں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانیوں کا صلہ شائد اس سے بڑھ کر کوئی اور نہ ہوتا کہ آپ ان کی بیٹی سے عقدکرکے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کردیتے،جس سے دونوں کے مابین رشتہ داری کا تعلق قائم ہوجاتا اور باہمی اُلفت ومحبت میں اضافہ ہوجاتا۔اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا تو وہ بھی ان کے اسلام،صدق واخلاص اوراپنے آپ کو دین کے راستے میں کھپا دینے کا صلہ تھا۔وہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسلام کا شاہِ سوار تھا جن کے ذریعے اللہ نے اسلام اور مسلمانوں کو عزت بخشی اور اسلام کا بول بالا ہوا،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے قرابت داری کا رشتہ استوار کرنا گویا ان کی قربانیوں کا بہترین صلہ تھا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کی بدولت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اپنے پہلے وزیر ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان مساوات قائم کی تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ا ن کی بیٹیوں سے نکاح کرنا ان کے لیے بہت بڑا شرف تھا۔بلکہ بہت بڑا صلہ اور احسان عظیم تھا۔جس سے بڑھ کر شاید اس دنیا میں ان کے لیے کوئی اور شرف نہ ہوتا۔کیاہی عظیم حکمت عملی تھی اور ا پنے وفادار مخلص ساتھیوں کے ساتھ کیا ہی عظیم وفاداری کا ثبوت تھا۔اس کاموازنہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اپنی بیٹیوں کا نکاح کرکے انہیں دامادی کا شرف بخشا۔یہی وہ چار شخصیتیں تھیں جن کامرتبہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے بلند تھا اور یہی بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے جانشین بنے۔
سیاسی مصلحت:۔ بعض عورتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقصد کی خاطر شادی کی کہ عرب کے قبائل آپ کی طرف مائل ہو جا ئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاون بن جا ئیں۔ درحقیقت جب انسان کسی خاندان یا قبیلہ میں شادی کرتا ہے تو اس کے اور قبلیے والوں کے درمیان قرابت داری اور دامادی کا رشتہ قائم ہو جا تا ہے اور فطری طور پر یہ تعلق انہیں اپنے داماد کی نصرت و حمایت پر مجبور کردیتا ہے ہم اس پر چند مثالیں ذکر کرتے ہیں تاکہ ہمارے سامنے وہ حکمت و مصلحت واضح ہو جا ئے جس کے پیش نظر آپ نے متعدد شادیاں کیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا جو بنی مصطلق کے ایک رئیس حارث کی بیٹی تھیں اور ان اسیروں میں سے تھیں جن کو غزوہ ئبنی مصطلق میں قید کیا گیا۔ پھر یہ ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں آئیں اور انھوں نے مکاتبت کرلی۔پھر زر کتابت کی ادائیگی کے سلسلہ میں اعانت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیش کش کی کہ میں تمھاری کتابت کی رقم ادا کردیتا ہوں اور تم سے نکاح کرلیتا ہوں۔ یہ راضی ہو گئیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔جب مسلمانوں کو معلوم ہوا تو انھوں نے کہا: بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی ہماری قید میں ہوں؟چنانچہ سب نے اپنے غلام آزاد کردئیے۔ جب بنو مصطلق نے مسلمانوں کا یہ برتاؤ دیکھا تو سب مسلمان ہو کر اللہ کے دین میں داخل ہو گئے۔(البدایہ والنہایہ)۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کرنا خود ان کے لیے اور ان کی قوم کے لیے باعث برکت تھا کیونکہ اس شادی کی وجہ سے قبیلہئ بنی مصطلق کے لوگ آزاد ہو کر اسلام میں داخل ہو گئے (اور بقول عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے زیادہ کوئی عورت اپنے خاندان کے لیے باعث برکت نہیں بنی۔ (البدایہ والنہایہ:159/4) صحیح بخاری میں عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنی مصطلق کی عورتوں کو قیدی بنا لیا تو ان میں سے خمس (پانچواں حصہ جو بیت المال کے لیے نکالا جاتا ہے) نکال کر باقی عورتوں کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا۔ اس طرح کہ سوار مجاہد کے لیے دو حصے اور پیادہ کے لیے ایک حصہ مقرر کیا تو حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں آئیں۔چنانچہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا: یارسول اللہ میں جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوں حارث بن ابی ضرار سردار قوم کی بیٹی!ہم پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مخفی نہیں میں ثابت بن قیس کے حصہ میں آئی تھی اور میں نے اس سے نواوقیہ(تقریباً360درہم) چاندی کے بدلے مکاتبت کرلی ہے زر کتابت کی ادائیگی کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعاون کی خواستگارہوں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمھارے ساتھ اس سے بہتر برتاؤ کیا جائے تو قبول کروگی؟ اس نے پوچھا: یارسول اللہ وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا: کیا یہ ٹھیک نہیں کہ میں تمھاری کتابت کی رقم ادا کردوں اور تم سے شادی کرلوں؟تو انھوں نے عرض کیا: ہاں!یارسول اللہ مجھے منظور ہے،جب صحابہئ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کر لیا ہے تو انھوں کہا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی ہمارے غلام ہیں؟ چنانچہ سب نے اپنے غلام آزاد کر دئیے اس طرح اس شادی کی وجہ سے بنی مصطلق کے سوکنبے آزاد ہو گئے۔2۔اور اسی مصلحت کے تحت ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب سے شادی کی جو کہ غزوہئ خیبر میں اپنے خاوند کے قتل کے بعد قید ہو گئیں اور دحیہئ کلبی کےحصہ میں آئیں لیکن بعض صاحب الرای صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے مشورہ دیا:یا رسول اللہ وہ بنی قریظہ کی رئیسہ اور ممتاز خاتون ہیں وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شایان شان ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور کہا:دو صورتیں ہیں جس کو مرضی اختیار کرلو۔ پہلی صورت یہ ہے کہ میں تمھیں آزاد کردوں اور نکاح کر کے اپنی بیوی بنالوں یا پھر ہم تجھے آزاد کردیتے ہیں اور تو اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا۔ اس نے پہلی صورت کو ترجیح دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی بننا پسند کیا۔ یہ عجلت کا فیصلہ اور نوجوانی کا اقدام نہ تھا بلکہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت شان کردار اور حسن برتاؤ سے متاثر ہونے کے بعد یہ فیصلہ کیا اور مسلمان ہو گئیں پھر ان کی وجہ سے قبیلہ کے لوگوں کی بڑی تعداد حلقہ اسلام میں داخل ہو گئی۔
بیان کیا جا تا ہے کہ حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کر کے فرما یا: تیرے باپ کی مجھ سے عداوت تمام یہودیوں کی نسبت زیادہ تھی۔ یہاں تک کہ اللہ نے اسے ہلاک کردیا، تو انھوں نے جواب دیا: یا رسول اللہ!اللہ کا فرمان ہے کہ کسی شخص کا بوجھ کسی دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا(یعنی وہ خود اپنے عمل کا ذمہ دار ہو گا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: میں تجھے دوباتوں کا اختیار دیتا ہوں۔ اگر تو اسلام کو اختیار کرے گی تومیں تجھے اپنے لیے رکھ لوں گا اور اگر یہودیت کو اختیار کرے گی تو میں تجھے آزاد کردوں گا تاکہ تو اپنی قوم کے پاس چلی جائے۔صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا۔ یا رسول اللہ یقین جانئے آپ کے گھر میں آنے سے پہلے ہی اسلام میرے دل میں جاگزیں ہو چکا تھا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کر چکی تھی اب میرے لیے یہودیت میں باقی ہی کیا بچا ہے،نہ میرا باپ رہا نہ کوئی بھائی اور آپ نے مجھے کفر اور اسلام کے درمیان اختیار دے دیا ہے۔ لیکن میں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو آزادی اور اپنی قوم میں پلٹنے پر ترجیح دیتی ہوں۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے عقد میں داخل کر لیا۔ (طبقات ابن سعد الکبریٰ:88/8)۔اور اسی مصلحت کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کی جو کہ ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی تھیں اور ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت کفر کا علم برداراور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید ترین دشمن تھا۔ اس کی بیٹی مکہ میں مسلمان ہو گئی پھر دین کو بچانے کی خاطر اپنے خاوند کے ساتھ مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ اس کا خاوند فوت ہو گیا اور یہ پھر تنہا رہ گئیں کوئی مددگار اور غمگسارنہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعہ کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو پیغام بھیجا کہ وہ اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح مجھ سے کردے جب نجاشی نے حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نکا ح کا پیغام دیا تو اللہ جانتا ہے ان کی خوشی کی کوئی حد نہ رہی۔کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر وہ اپنے باپ اور گھر والوں کے پاس واپس چلی گئیں تو وہ انہیں کفرکی طرف پلٹنے پر مجبور کردیں گے۔وگرنہ ان پر ظلم کے پہاڑ توڑیں گے۔ نجاشی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح پڑھا دیا اور چار ہزار دینار کے علاوہ نہایت عمدہ تحائف بطور حق مہر ادا کئے اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ بھیج دیا۔ (البدایہ والنہایہ: 143/4)۔
جب ابو سفیان کو یہ خبر پہنچی تو اس نے اس شادی کو تسلیم کیا اور کہا:وہ معزز انسان ہے اس کی عزت کو داغدار نہیں کیا جا سکتایعنی اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فخر کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا کفوتسلیم کیا۔ آخر اللہ نے حضرت ابوسفیان کو بھی اسلام قبول کرنے کی تو فیق عطا فرمائی۔چنانچہ ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شادی ایک عظیم حکمت و مصلحت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔اس شادی کی بدولت ابو سفیان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مخالفت کم ہوئی۔دونوں کے درمیان قرابت داری کا رشتہ استوار ہوا۔باوجود یکہ ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بدترین دشمن تھا۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی بیٹی سے نکاح کرلینا اس کے اور اس کے قبیلے کے لیے مودت قلبی کاسبب بنا کیونکہ حضرت امُ حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے محض دین بچانے کی خاطر گھر سے ہجرت کی تھی اور کوئی ان کا مونس و غمگسار نہ تھا اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ایمان کی قدر کرتے ہوئے انہیں اپنی زوجیت کاشرف بخشا۔کیاخوب تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست۔اور کیا عظیم تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بصیرت!۔چنانچہ ایک غیر مسلم سردار سورن سنگھ ا پنے شاعرانہ ہندی مضمون ویرتا میں رقمطراز ہے:ذرا رکیے،ایک یتیم جو دنیا کے ہنگاموں سے دور ایک سرراہ پتھر کی طرح غارحرا میں محو خواب تھا،کوئی اسے نہیں جانتا تھا۔وہ ایک متمول خاتون کی ملازمت کرتا تھا،اس کی دنیاوی حیثیت ایک عام آدمی سے مختلف نہ تھی لیکن وہی گمنام جب الہامی آواز پر اٹھ کھڑا ہواتو اس نے ہزاروں چنگاریاں سلگا دیں۔جس کے باعث ریگزار عرب کاظلمت کدہ یکایک روشن ہوگیا۔اس عظیم ہیرو کی ضیاپاش آنکھوں نے پرشا(دہلی) سے لے کر سپین تک ایک دنیا کو منور کردیا۔غار حرا سے اس نے جو آواز دی ہاں! پیغمبر نے اللہ کی عظمت کی گواہی دی کہ پوری کائنات اس سے لر ز اٹھی۔اقتباس از(Nai Bandh Chineka)
دراصل متعدد شادیاں کرنا،سابقہ انبیاء علیہ السلام کی سنت ہے جسے انہوں نے ہزاروں سال سے اپنے پاکیزہ اور محکم چال چلن سے قائم کیا تھا،چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انبیاء علیہم السلام سابقین کی سنت پر عمل کیا اورمنہاج کو برقرار رکھا۔سابقہ انبیاء کے متعلق ملاحظہ فرمائیے:سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تین بیویاں تھیں:1۔سیدہ ہاجرہ رضیاللہ عنھا۔والدہ حضرت اسماعیل علیہ السلام 2۔سیدہ سارہ رضی اللہ عنھا والدہ حضرت اسحاق علیہ السلام 3۔فتورہ خاتون والدہ زمران۔اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کی چار بیویاں تھیں:1۔لیہ۔2۔زلفہ3۔راحیل4/بلھہ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی چار بیویاں تھیں،تفصیل کے لیے:رحمۃ اللعالمین از سلیمان منصور پوری جلد 2،ص119،حضر ت داود علیہ السلام کی نوبیویاں اور 10حریموں کا ذکر بائبل سے ملتا ہے۔دیکھئے(ایضا:جلد2 ص119) حضر ت سلیمان کی سات سو بیگمات اور 300 سوحرمیں تھیں۔سلاطین 3،11ان حوالہ جات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے برگزیدہ انبیاء علیہ السلام کے گھروں میں بھی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔اس کے باوجود عیسائیوں نے ان انبیاء علیھم السلام کی تقدیس میں کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔لہذا ان کو چاہیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گستاخانہ لفظ کہنے سے اسی طرح سے باز آجائیں جیسیے دیگر انبیاء کے سامنے مہر برلب ہیں۔چنانچہ انگریز مستشرقVaglieri لکھتا ہے:دشمنان اسلام کی کوشش ہے کہ آپ کو اپنے مشن سے عدم مطابقت رکھنے والا کمزور کردار کا حامل قرار دیاجائے۔وہ اس امر پر توجہ نہیں دیتے کہ اپنی زندگی کے ان تمام برسوں کے دوران جب فطرتاً انسان کی جنسی طلب سب سے زیادہ قوی ہوتی ہے۔باوجود یہ کہ آ پؐ اس معاشرے میں رہتے تھے جہاں تعدد ازواج کا دور دورہ تھا اور جہاں طلاق فی الواقع بہت ہی آسان بات تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح صرف ایک خاتون خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ہوا جو عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی تھیں۔جب وہ وفات پاگئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود 50 سال سے بھی اوپر کے ہوگئے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا نکاح کیا اور پھر کئی نکاح کیے اور ان نکاحوں کی کوئی نہ کوئی سماجی یا سیاسی وجہ تھی،صرف ایک حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن خواتین سے نکاح کیے،وہ نہ کنواری تھیں،نہ نوجوان اور نہ حسین وجمیل،تو کیا یہ نفس پرستی تھی؟(ازواج مطہرات اور مستشرقین،از ظفر علی قریشی، آسی ضیائی،ص 50)۔چنانچہ یہ کہنابجا ہے کہ اگر امہات المومنین رضوان اللہ عنھن اجمعین یہ فرض انجام نہ دیتیں تو آج سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی باب بھی ہمیں مکمل نظر نہ آتا،ہر بالغ نظر تاریخ اسلام کے اوراق اُلٹ کردیکھ سکتاہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دین کی جوزریں خدمات انجام دیں،قرآن وسنت کو جس محنت شاقہ سے پھیلایا۔عام مستورات اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔عورتیں تو عورتیں بڑے بڑے فقیہ اور محدث،صحابہ وتابعین بھی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مستفید ہوتے تھے۔
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ کا نکاح بھی ایک حکمت کے پیش نظر تھا۔وہ اس طرح کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو منہ بولا بھائی بنایا ہواتھا۔جب خولہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نکاح کی بابت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بات چیت کی تو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عذر پیش کیا کہ حضور تو میرے منہ بولے بھائی ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بھتیجی کو عقد میں لائیں؟جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عذر سنا تو فرمایا کہ دینی بھائی یامنہ بولا بھائی،حقیقی بھائی جیسا نہیں ہوسکتا کہ اس کی اولاد سے رشتہ ناطہ نہ ہوسکے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضا مند ہوگئے۔لیکن نکاح کو اس واسطے التواء میں ڈال دیا کہ عرب کے جاہل لوگ شوال کے مہینے کومنحوس سمجھتے تھے اور اس میں بیاہ شادی نہ رچاتے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیح رسم کو بھی توڑا اور فرمایا کہ اسلام کسی تقریب کے لیے وقت کا پابند نہیں اور بے ہودہ رسم ورواج کو بہت نا پسند کرتا ہے۔پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ماہ شوال میں نکاح کرکے یہ سبق دیا کہ ہرمسلمان کو جاہلانہ رسوم سے بچنا چاہیے۔ واللہ اعلم۔
والسلام