ماہنامہ الفاران
ماہِ جمادی الاول - ۱۴۴۳
اداریہ: علمائ کرام کی عظمت و فضیلت اورچند معروضات
مولانا ارشد کبیر خاقان المظاہری،جنرل سکریٹری:ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ و مدیر مسئول:ماہنامہ الفاران
قارئین کرام!
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اسلام میں علم کی فضیلت و اہمیت،ترغیب و تاکید جس اندا زمیں دی گئی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی، تعلیم و تربیت،درس و تدریس گویا اس دین برحق کا جزولاینفک ہے،وحی کے آغاز اور قرآن پاک کے نزول کے وقت سب سے پہلا لفظ جو پروردگار نے رحمت عالم ﷺ کے قلب مبارک پر نازل فرمایا! وہ ”اقرأ“ ہے، یعنی ”پڑھیے“۔قرآن پاک کی آیتوں میں جو سب سے پہلے پانچ آیتیں نازل فرمائی گئیں ان سے قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے،معلوم ہوا کہ”علم“ رب کائنات کے تمام پیغامات واحکامات میں اول درجہ رکھتا ہے، یہ کہنا مناسب ہے کہ اللہ نے اپنے نبی کے ذریعہ اس امت کے نام سب سے پہلا پیغام”علم“ کو سیکھنے اور سکھانے کا دیا ہے۔ علم کے ذریعہ ہی انسان ایمان و یقین کی دنیا آباد کر کے بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے،دشمن کو دوست اور بُروں کو اچھا،بیگانوں کو اپنا بنا کر دنیا میں امن وامان کی فضا ئقائم کرتاہے۔
رب ذوالجلال کی صفات میں سے ایک صفت علم ہے، اس کی ذات ازلی تو اس کی صفت بھی ازلی ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا کچھ حصہ مخلوق کو عطاکیا اور اس میں انسان کو برتر رکھا،بعض حضرات کی تحقیق کے بموجب صفت علم انسان کا خاصہ اور امتیاز ہے، علم سے انسان کو متصف کرنے کی غرض صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ حسن اخلاق،عمدہ صفات،سیرت اور کردار میں خوبی اور بہتری لائے، لہٰذا علم کو انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا۔ذات خداوندی تمام صفات حمیدہ کو جامع ہے اس لئے کہ اسکا علم”علم محیط“ہے،علم کو انسان کی فطرت میں ودیعت اس لئے کیا گیا تا کہ”تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ“ والی حدیث پر عمل درآمد ہو سکے اور انسان اپنے اندر بھی کمال پیدا کر سکے۔حضرت آدم علیہ السلام کو جو خصوصیت اور برتری دی گئی اس کی وجہ بھی تو علم ہے، لہٰذا جتنا علم ہو گا؛انسان اتناہی بااخلاق ہوگا، حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو اللہ نے”علم وحی“ سے نوازا تو ساری انسانیت کے لئے نمونہ ثابت ہوئے۔حضرات صحابہ بھی جب علم الٰہی اور علم نبوی سے سرشار ہوئے تو انکی زندگیوں میں عجیب انقلاب برپا ہوا اور رہتی دنیا تک انسانوں کے لئے اسوہ بن گئے۔اس بات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ علم دین اپنے اندر انقلابی تاثیر رکھتا ہے۔
ایمان قبول کر لینے کے بعد سب سے اہم چیز علم دین ہی ہے کیونکہ ایمان میں کمال اور دین کی اشاعت و حفاطت میں جو چیزیں مطلوب و مقصود ہیں وہ حصول علم دین کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی، اسی بنا پر امام بخاری نے کتاب الایمان کے معاً بعد، علم سے متعلق احادیث کو جمع فرمایا اور انہی کی پیروی کرتے ہوئے ”صاحب مصابیح السنہ“ علامہ بغویؒ نے بھی اپنی تالیف ”مصابیح السنہ“میں کتاب الایمان کے بعد ”کتاب العلم“ کو جگہ دی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک ”علم دین“ بہت ہی افضل شئی ہے اس لئے ”صاحب علم“ کا بھی مخصوص ترین مقام ہے، قرآن پاک میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ہَلْ یَسْتَوِی الّذِیْنََ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْن“ (سورہ زمر،آیت نمبر 9)یعنی جاہل آدمی خواہ کتنے ہی بڑے منصب پر فائز ہوجائے اور کتنی ہی زیادہ عبادت و ریاضت کرلے؛ لیکن وہ صاحب علم کے مقام و مرتبہ کو پالے یہ امر ناممکن اور محال ہے،یہی وجہ ہے کہ حاملین علم کی قرآن و حدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی اور اسے دنیوی اور اخروی بشارتوں سے نوازا گیا۔حقیقت یہی ہے کہ اللہ رب العزت نے وارث رسول ﷺ کے امین ہونے کے باعث علماء کی عظمت و فضیلت پر واضح کلمات میں ارشاد فرمایاکہ عالم کے برابر بے علم نہیں ہو سکتا، دیگر فضائل تو بہت مگر اللہ تعالی نے علماء کو زندہ اور جہلاء کو مردہ قرار دے دیا۔ فرمان الٰہی: ”وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَاءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ“ ترجمہ: زندہ اور مردے برابر نہیں ہو سکتے۔(سورۃ الفاطر،آیت نمبر 22) مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت میں احیاء یعنی زندوں سے مراد مؤمنین یا علماء کرام ہیں اور اموات یعنی مُردوں سے مراد کفار یا جاہل لوگ ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں گروہوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں برابر نہیں۔نا مؤمن اور کافر برابر ہیں اور نا ہی عالم اور جاہل برابر ہیں۔(تفسیر صراط الجنان تحت ہٰذہ الآیۃ)۔اسی طرح اللہ تبارک و تعالی نے علما کی رفعت بیان کرتے ہوئے فرمایا:”یَرفَعِ اللّٰہُ الَّذِینَ اٰمَنُوا مِنکُم وَالَّذِینَ اُوْتُوا العِلْمَ دَرَجٰتٍ“ ترجمہ: اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔(سورۃ المجادلہ، الآیۃ:11) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ علمائے دین کے درجے بلند فرماتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے درجات کی بلندی کا وعدہ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دنیا و آخرت میں انہیں عزت ضرور ملے گی۔ حضرت امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول کہ حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: اے لوگو! اس آیت کو سمجھو اور علم حاصل کرنے کی طرف راغب ہو جاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ مؤمن عالم کو غیر عالم مؤمن سے بلند درجات عطا فرمائے گا۔(خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ:11)
عالم دین کی عزت و توقیر نیز اس کے حق میں دعاء مغفرت کرنے کیلئے اللہ تعالی نے ساری کائنات کو لگارکھا ہے،ساتھ ہی ساتھ آخرت میں ایسے انعامات سے سرفراز کرنے کا وعدہ فرمایا جسے سن کر فرشتے تک رشک کرتے ہیں؛(کما رواہ مسلم عن أبی ہریرۃ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم: '' یقول اللہ تعالی: أعددت لعبادی الصالحین ما لا عین رأت، ولا أذن سمعت، ولا خطر علی قلب بشر، ذخرا من بلہ ما أطلعتم علیہ ''، ثم قرأ: (فلا تعلم نفس ما أخفی لہم من قرۃ أعین جزاء بما کانوا یعملون) دنیا میں بھی اتنا بڑا مقام کہ علماء کی صحبت میں بیٹھنے کو عباد ت قرار دیا، چنانچہ حدیث پاک میں رسول اکرم ﷺ نے علماء کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا ”علماء کی صحبت میں بیٹھنا عبادت ہے“ (مسند الفردوس،باب المیم،حدیث:(6486)فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ علمائے کرام کی صحبت میں بیٹھنے سے علم دین سیکھنے کا موقع ملتا ہے اور علم دین کا حاصل کرنا عبادت سے بھی بڑھ کر ہے یہی وہ علماء ربانیین ہیں جن کے لئے مولائے روم علیہ الرحمہ نے کیا ہی خوب فرمایا:یک زمانہ صحبت ِ با اولیاء بہتر از صد سالہ طاعت بے ریاءلیکن جس طرح اہل علم کا بلند و بالا مقام و مرتبہ ہے، اسی طرح ذمہ داریاں بھی نازک تر ہیں، ان کے چھوٹے چھوٹے کاموں پر جس طرح بے شمار بشارتیں ہیں ٹھیک اسی طرح مفوضہ ذمہ داری سے کنارہ کشی کی صورت میں سخت ترین وعیدیں بھی ہیں، ایسی صورت میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ علماء کرام اس دنیا کے اندر قابل رشک بن کر رہتے، لیکن آج اہل علم کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنے مقام و مرتبہ کو فراموش؛ فضیلتوں و عظمتوں کو نظر انداز؛ نیز کوتاہیوں کی صورت میں وارد شدہ وعیدوں اور دھمکیوں سے تغافل برت کر ان کاموں میں لگا ہوا ہے جن سے پورے طبقۂ علماء کی جگ ہنسائی ہونے کے ساتھ ساتھ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دنیا میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ بے مصرف اور بے فیض سمجھی جارہی ہے تو یہ اہل علم (یعنی مولوی) کی جماعت ہے، حالانکہ اس جماعت کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں پر وقار،لاجواب اور شاندار زندگی گزارنے کا ایسا بہترین نسخہ بتایا تھا، جس پر یہ حضرات عمل کرتے تو ساری کائنات ان کے قدموں میں جھک جاتی، آقا ئے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جماعت کو اہل دنیا کے سامنے کاسۂ گدائی لیکر پھرنے والا راستہ نہیں بتایا تھا، بلکہ ان کو سرداروں اور سربراہوں کی طرح جینے کا سلیقہ عطاء فرمایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق زندگی گزاری؛ دنیا والوں نے ان کو اپنے سروں پر بٹھایا اور آج کے اس گئے گزرے دور میں بھی جولوگ استقامت کے ساتھ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہیں؛دنیا ان کے سامنے ذلیل ہوکر آرہی ہے۔ اور یہ علماء ربانیین دنیا کو اپنی ٹھوکروں میں رکھے ہوئے ہیں۔
زیر نظر مقالہ میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے چند فرامین کو جمع کی کوشش کی گئی ہے؛ مقصد یہ ہے کہ جو شخص علم دین کے لئے کسی صورت میں بھی اپنی خدمات انجام دے رہا ہے اس کو اپنے مقام و مرتبہ اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو اور وہ آقا ﷺکے فرمان کے مطابق اپنی زندگی ڈھال کر اپنا کھویا مقام حاصل کرسکے اور دنیا و آخرت کی تمام ترکامیابیوں کو اپنا مقدّر بنالے۔
علم کی راہ میں ا خلاص اور رضاء الٰہی:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”یقیناً اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، اور ہر انسان کو وہی کچھ ملنے والا ہے، جس کی اس نے نیت کی ہے۔ جس انسان نےدنیا حاصل کرنے کے لئے، یا کسی خاتون سے نکاح کرنے کے لئے ہجرت کی ہو، تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لئے شمار ہوگی، جس کے لئے اس نے ہجرت کی ہے “(اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے)اخلاص عمل اور حسن عمل کا کمال ہے۔ اخلاص یہ ہے کہ آپ تنہا ایک اللہ کی طاعت و عبادت کریں۔ اخلاص یہ ہے کہ مخلوق کی نگاہوں کو بھولتے ہوئے ہمیشہ اللہ کی طرف سے ہونے والی نگرانی کو یاد رکھیں، چنانچہ جو کام اللہ کے لئے ہوگا، اللہ کی کریم ذات اس کا بدلہ ضرور دے گی، اور جو کام اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے ہوگا، تو وہ کام بیکار شمار ہوگا۔
علم دین اس وقت نفع کے بجائے نقصان کا سبب بن جاتا ہے کہ جب کوئی شخص محض دکھاوے کے لئے علم کا جوئندہ بنے یا کوئی عالم محض دنیا داری کے لئے تعلیم و تعلم کا پیشہ اختیار کرے (علم دین کے حاصل کرنے،سیکھنے سکھانے اور اس کے مطابق زندگی کاہر فیصلہ کرنے غرض یہ کہ ہر قدم پر اور ہر وقت اخلاص لازمی شئی ہے)تو ایسے مکار اور ریاکار لوگوں کے انجام کے متعلق نبی اکرم ﷺ نے فرمایا”رجُلٌ تعلَّمَ القرآن وعلَّمَہُ و قرأالقُرآنَ فاُتِیَ بہ فعرّفَہُ نِعَمَہُ، فعرفَہَا، قَالَ فَمَا عَلِمْتَ فِیْہَا· قَالَ تعلَّمتُ العِلْمَ، وعَلَّمْتُہُ وقراتُ القُرآن فیک قَالَ کذبْتَ ولٰکِنَّکَ تعلّمتَ العلْمَ لیُقَالَ اِنَّکَ عَالِمٌ وقراتَ القرآنَ لِیُقَالَ اِنک قَارِیٌ، فَقَدْ قِیلَ ثُمَّ اُمِرَ بِہ فسُحّبَ عَلیٰ وَجْہِہ حَتّٰی اُلْقِیَ فِی النَّارِ“ اللہ تعالیٰ کے دربار میں ایک ایسا شخص لایا جائے گا جس نے دین کا علم حاصل کیاتھا، دوسروں کو اس کی تعلیم بھی دی تھی، قرآن پاک بھی پڑھا تھا، پہلے اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں اپنی عطا کردہ نعمتوں کو یاد دلائے گا، وہ شخص ان نعمتوں کا اعتراف بھی کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائیں گے تم نے ان نعمتوں کے شکرانہ میں میری رضا کے خاطر کون سے کام انجام دئیے، وہ شخص کہے گا میں نے دین کا علم حاصل کیا، دوسروں کو اس کی تعلیم دی اور تیری خوشنودگی کے لئے قرآن پاک پڑھا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تونے جھوٹ کہا، دراصل علم تونے اس غرض سے حاصل کیا تھا، کہ مخلوق کے درمیان تو عالم مشہور ہوجائے اور قرآن پڑھنے کی غرض یہ تھی، کہ لوگ تیرے بارے میں کہیں کہ قاری تو فلاں شخص ہی ہے، تو جو تونے چاہا وہ تجھ کو دنیا میں مل گیا، چہار دانگ عالم میں تمہاری شہرت کے خوب ڈنکے بجے، اب یہاں تم کو کچھ بھی نہیں ملے گا پھر اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں حکم دیں گے، کہ اس کو منھ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں لیجاؤ اوراس کو منھ کے بل جہنم میں ڈال دو، ایک موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جبُّ الحزن“ سے یعنی رنج و غم کے کنویں سے اللہ کی پناہ مانگو، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ”جب الحزن“ کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہنم میں ایک کھائی ہے جس سے خود دوزخ ہر روز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں کون ڈالا جائے گا، آپ نے فرمایا: ”القرّاءُ المرأونَ باَعْمَالِہِم وہ قرآن پڑھنے والے جو اپنے عمل میں ریا کاری کرتے ہیں، شراح حدیث نے ذکر کیا ہے، اس حکم میں ریاکار عابد، عالم، قاری، سب داخل ہیں۔ یہیں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اخلاص کے فقدان کی وجہ سے قیامت کے دن نیک اعمال بھی وبال بن جائیں گے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں عظیم سے عظیم ترین کام اور بڑی سے بڑی قربانی بغیر اخلاص کے ایسی ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم اور خوشبو کے بغیر پھول۔
اخلاص کا حاصل رضائے الٰہی علماء اور طلباء کے لئے علم کی راہ میں اخلاص کو ضروری قرار دیاگیا ہے،حاصل یہ ہے کہ وہ علم کی راہ میں جو بھی محنت اور کوشش کریں وہ صرف اور صرف اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہو، حصول علم اور اشاعت علم کا مقصد حصولِ دنیا نہ ہو۔ اگر کوئی حصول دنیا کی غرض سے علم کی راہ میں لگا ہوا ہے تو اس کے لئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت وعیدیں ہیں۔ ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا: ”مَنْ تعلَّمَ عِلْمًا مِمَّا یُتْبغیٰ بِہ وَجہُ اللّٰہِ لا یتعَلّمہُ اِلاّ لِیُصِیْبَ بِہ عَرضًا مِنَ الدُّنْیَا لَمْ یجِدْ عَرَفَ الجَنَّۃِ یَوْمَ القِیَامَۃِ یعْنِی رِیحَہَا“ جس شخص نے علم کواللہ کی رضا کے علاوہ دنیاوی سازوسامان حاصل کرنے کی غرض سے سیکھا اس کو قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی، علم کی غرض کسب دنیا نہ ہونا چاہئے، البتہ اگر اس کے ذریعہ سے بلا طلب دنیا مل رہی ہے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی طرح کسب معاش کیلئے دنیوی علوم سیکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ علم دین محض اللہ کی رضا کیلئے سیکھنا چاہئے اس میں کسی طرح کی ریاکاری، کوئی دنیوی غرض، اور کسی بھی طرح کا فخر وغرور شامل نہ ہونے دینا چاہئے۔ اوراگر کوئی علم کو اپنی بڑائی اور فوقیت قائم کرنے کیلئے سیکھتا ہے تو یہ بھی سخت جرم ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مَنْ طَلَبَ العلْمَ لِیُجاری بِہ العُلَمَاءَ اَوْ لیُمَارِی بِہ السُّفَہَاءَ اَوْ یَصْرِفَ بہ وجُوہَ النَّاسِ اِلَیْہِ ادخَلَہُ اللّٰہُ النّارَ“جس شخص نے علم اس وجہ سے حاصل کیا کہ اس کے ذریعہ سے علماء دین کا مقابلہ کرے یا بے وقوفوں سے بحث و مباحثہ کرے یا لوگوں کو اپنی شخصیت کی طرف متوجہ کرے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم میں ڈال دیں گے۔
حصول علم کے آداب اوراس میں مشغول رہنے والے کیلئے بشارت:
حصول علم کے لئے ادب اور تعظیم بہت ہی ضروری ہے، علامہ سیوطیؒ فرماتے ہیں:”اَلْاِخْذُبِمَکَارِمِ الْاَخْلَاقِ“ (ادب عمدہ اخلاق کو اپنانے کا نام ہے۔)تر ک فعل اتنا خطرناک نہیں جتنا ترک تعظیم خطرناک ہوا کرتا ہے،اگر کوئی آدمی دین کے کسی حکم پر عمل نہیں کرتا، مثلاََ:نماز چھوڑتا ہے تو وہ گنہگار ہوگامگر ایمان سے خارج نہیں ہوگا،لیکن اگر وہی شخص دین کے اس حکم کی اہانت اور بے حرمتی کردے تو ایمان سے خارج ہو جائے گا،اس لئے کسی بھی چیز کے حصول کے لئے اس کا ادب و احترام اور اسکی تعظیم ضروری ہوتی ہے۔
حصول علم سے متعلق چند حقوق و آداب:
علم کے حصول سے متعلق چند حقوق اور آداب ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جن کا لحاظ کرنا علم نافع کو حاصل کرنے اور طالب علم کو کامیاب بنانے کیلئے از حد ضروری ہے،چنانچہ آداب علم سے متعلق حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ادب یہ ہے کہ نیت کو درست کیا جائے کہ اسی بنا پر انسان کے سارے اعمال اور ساری عبادات کی قبولیت کا مدار ہے،امام بخاریؒ نے اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے صحیح بخاری میں سب سے پہلی روایت اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ذکر کی ہے،اس میں معمولی غفلت انسان کو شرک اصغر یا شرک اکبر میں مبتلا کر دیتی ہے اور اسکا وبال اتنا خطرناک کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: (جوشخص علم سیکھے اور اس کے ذریعہ اللہ کی رضا مقصود نہ ہو بلکہ دنیوی کو ئی مقصد پیش نظر ہو تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائیگا)۔ اگر نیت کی اصلاح نہ ہو تو توہین علم اور توہین قرآن و حدیث لازم آئے گی کیونکہ اس کا بدلہ صرف اور صرف رضائے الٰہی ہے اور دنیوی اغراض اس کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔شریعت کے احکام کی مکمل پابندی کی جائے،ورع و تقویٰ اختیار کیا جائے کہ اس کے بغیر علم نافع نہیں ہوتا،اور ورع کامل یہ ہے کہ زیادہ سونے،کثرت کلام اور پیٹ بھر کھانے بالخصوص بازاری کھانوں سے اجتناب کیا جائے۔اساتذہ کی باتوں اور ان کی تعلیمات کو غور سے سنا جائے کیونکہ ان کی باتوں کو غور سے نہ سنا گیا تو نہ اس کو محفوظ کیا جا سکتا ہے نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی عمل کیا جا سکتا ہے۔
علم سے خوبیوں میں جلا پیدا ہوتا ہے:
ایسا شخص کون ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی خوبی اور اچھائی نہ ہو، ہرشخص کے اندر کچھ نہ کچھ اچھائیاں ضرور ہوتی ہیں، اوراگرکوئی شخص اپنی خوبیوں میں نکھار پیدا کرنا چاہے تواسے چاہئے کہ وہ علم دین حاصل کرے، علم دین سے خوبیوں میں جلا پیدا ہوتا ہے ایک موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خِیارُہُمْ فِیْ الجاہِلِیّۃِ خِیَارُہُمْ فی الاِسْلاَمِ اذَا فَقِہُوْا یعنی وہ لوگ جوحالت کفر میں معزز سمجھے جاتے تھے، اگر چاہتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ میں بھی ان کو عزت و توقیر ملے تو ان کیلئے سب سے مفید نسخہ یہی ہے کہ وہ ”احکام شرعیہ“ کے عالم ہوجائیں، احکام شرعیہ کے علم سے زمانہ جاہلیت کی خوبیوں میں نکھار آجائے گا اوروہ کام کی بن جائیں گی۔ اس حدیث میں ہر مسلمان کے لئے یہ سبق موجود ہے کہ ایک مسلمان کی عزت و عظمت اوراس کی سربلندی کا راز نہ مال و دولت میں ہے نہ حسب و نسب میں؛ بلکہ اس کی خیریت و عافیت اور اس کی ترقی کا انحصار احکام شرعیہ کے علم اوراس کے مطابق عمل کرنے میں ہے۔
علم دین قابل رشک اور علماء بقائے علم کا سبب:
علم دین بہت بڑی نعمت ہے، لہٰذا اس کے حاصل ہونے پر جتنا بھی رشک کیا جائے کم ہے ایک موقعہ پر سرورکائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دوطرح کے لوگ ہی رشک کے قابل ہیں ایک شخص تو وہ ہے جو مال پاکر اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور دوسرے شخص کے بارے میں آپ نے فرمایا: ”وَرَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ الحِکْمَۃَ فَہُوَ یَقْضِیَ بِہَا“ دوسرا شخص وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے دین کا علم عطا فرمایا اور وہ اس علم کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اوراس علم کو لوگوں کو سکھاتا بھی ہو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم دین عطا فرمایا اوراس نے دین کے سکھانے اوراس کے مطابق فیصلہ کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا تو ایسا شخص قابل رشک ہے۔علم دین کا وجودصرف اور صرف علماء ہی کے دم پر ہے،جب اللہ تعالیٰ علماء کو اس دنیا سے اٹھا لیں گے تو علم بھی اٹھ جائے گا اور علم کے اٹھ جانے کے سبب نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر جانب تاریکی پھیل جائے گی،کوئی صحیح راہ دکھانے والا نہیں ہوگا،ہر شخص گمراہی کے گہرے غار میں غرق ہوجائے گا،جہلاء علماء کی جگہ بیٹھ کر ایسی باتیں بتائیں گے کہ جن پر عمل کر کے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔اسی لئے علماء کے وجود کو باعث خیروبرکت سمجھ کر ان سے حتی المقدور استفادہ کی ہر ایک کوشش کرنی چاہئے،ان سے محبت رکھنے کو اپنے لئے سعادت خیال کرنا چاہئے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ”اِنَّ اللّٰہَ لا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انتزاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ العِبَادِ وَلٰکِنْ یَقْبِضُ الْعلَمَاءَ“اللہ تعالیٰ دین کا علم اس طرح نہیں اٹھائیں گے کہ لوگوں کے اندر سے کھینچ لے؛ بلکہ علماء کو اٹھالینے کی صورت میں دین کا علم اٹھ جائے گا، یعنی علماء زندہ رہیں اور ان کے سینوں سے علم نکال لیاجائے!یہ نہیں ہوگا؛ بلکہ اللہ تعالیٰ حاملین علم کو اٹھالیں گے اور ان کی جگہ دوسرے علماء پیدا نہیں ہوں گے۔ اس طرح علم خود بخود ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا بقائے علم کے لئے ہر عالم کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے بعد کچھ علماء چھوڑیں۔
علماء وارثین انبیاء ہیں: ٍ
انبیاء عظام کے بعد علماء ہی کا مرتبہ ہے اور علماء کرام ہی ان کے وارث ہیں،انکی قدر و منزلت کا اندازہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے:”اِنَّ الْعُلَمَاءَ ورثَۃُ الانبیاءِ وانَّ الانبیاءَ لَمْ یُوْرِّثُوْ دِیْنَارًا ولاَ دِرْہَمًا وانَّمَا وَرَّثُوالْعِلْمَ فَمَنْ اخَذَہُ اَخْذَ بِحِظٍ وَافِرٍ“ علماء دین انبیاء کرام کے وارث ہوتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء دینار و درہم کے وارث نہیں بناتے ہیں وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں جس نے دین کا علم حاصل کرلیا اس نے پورا حصہ پالیا۔
عالم دین عابد سے افضل ہے:
شب زندہ دار عابدجو راتوں کو جاگ کر اللہ کے نام کی ضربیں لگاتا ہے اس سے بہت زیادہ مقام و مرتبہ اس عالم دین کا ہوتا ہے جو لوگوں کو نفع پہونچاتا ہو،کیونکہ عالم دین نہ صرف خود کو جہنم سے بچاتا ہے بلکہ امت کے بہت سے لوگوں کو جہنم سے بچا کر جنت والے راستے پر گامزن کر دیتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشادہے: ”اِنَّ فَضْلَ العَالِم عَلَی العابدِ کَفَضْلِ القَمَرِ لَیْلَۃَ البدرِ عَلیٰ سَاءِرِ الکَوَاکِبِ“عالم کو عابد پر ایسی فضیلت ہے جیسے کہ چودھویں رات کے چاند کو تمام تاروں پر بڑائی اور برتری حاصل ہوتی ہے، دوسری جگہ عالم کو عابد پر ترجیح دیتے ہوئے فرمایا: ”فضل العالِمِ عَلَی العَابِدِ کَفَضْلِیْ عَلَی اَدْنَاکمْ“عالم کو عابد پر ایسی ہی فضلیت ہے جیسے کہ مجھ کو تم میں سے ادنیٰ شخص پر حاصل ہے، اس ارشاد سے یہ بات سمجھ میں آئی، کہ جب عالم کوعابد پر اتنی فضیلت ہے تو عام لوگوں پر عالم کو جو فضیلت ہوگی اس کا اندازہ کرنا بہت دشوار بات ہے، لہٰذا عالم کے ساتھ بدکلامی کرنا اس کے بارے میں فاسد خیال رکھا درحقیقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی توہین اور ان کے ارشاد کی پامالی ہے، عالم کو عابد پر اس قدر ترجیح دینے کی وجہ وہی ہے جس کا ذکر کیاگیا کہ عالم کا فائدہ متعدّی ہوتا ہے جبکہ عابد کا فائدہ لازم ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عالم شیطان کے ہتھکنڈوں سے واقف ہونے کی بناء پر اس کے دام میں آنے سے خودکو بھی محفوظ رکھتاہے اورامت کی بھی حفاظت کرتا ہے؛ جبکہ عابد شیطان کے دام میں الجھے رہنے کے باوجود اپنے آپ کو عبادت و ریاضت میں مشغول خیال کرتا ہے، اسی بنیاد پر آپ نے فرمایا: ”فَقِیْہٌ واحِدٌ اَشدُّ عَلَی الشَیْطَانِ مِنْ الفِ عابدٍ“(۱۱) ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے، اس لئے عام لوگوں کوچاہئے کہ وہ نیک عالم کا قرب اختیار کریں تاکہ وہ عالم کی صحبت کی برکت سے شیطان کے ہتھکنڈوں سے محفوظ ررہ سکیں۔
عالم دین کی فرائض سے غفلت:
انبیاء علیہم السلام کا اصل مشن بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھی راہ دکھانا تھا،علماء چونکہ انبیاء عظام کے وارث ہیں اس لئے انکا فرض منصبی ہے کہ وہ لوگوں کو دین کی دعوت دیتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے غافل لوگوں کے دلوں میں اسکی یاد اور محبت پیدا کرنے کی کوشش،اسلام کی اشاعت اور دین کی تبلیغ کیلئے بھرپور جدوجہد کریں، اگر کوئی عالم اپنے اس فریضہ کو فراموش کربیٹھا ہے یا اس سے غفلت برت رہا ہے تو اس کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے حساب سے دین کو ڈھارہا ہے۔اسی پس منظرمیں حضرت زیاد ابن جدیرفرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کو ڈھانے والی کیا چیز ہے؟عرض کیا”نہیں“ تو آپ نے فرمایا: ”یَہْدِمُہُ زِلَّۃُ الْعَالِمِ“ (عالم کا پھسلنا اسلام کو ڈھادیتا ہے) مطلب یہ ہے کہ عالم اگر اپنے فرائض سے غافل ہوکر، خواہش نفس پر عمل کرنے لگے تو اس کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی احکامِ اسلام پر عمل ترک کردیں گے، نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام کی بنیادیں ہل جائیں گی اور اسلام منہدم ہوجائے گا۔اللہ پاک علم کی توفیق بخشے۔آمین یا رب العالمین۔
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اسلام میں علم کی فضیلت و اہمیت،ترغیب و تاکید جس اندا زمیں دی گئی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی، تعلیم و تربیت،درس و تدریس گویا اس دین برحق کا جزولاینفک ہے،وحی کے آغاز اور قرآن پاک کے نزول کے وقت سب سے پہلا لفظ جو پروردگار نے رحمت عالم ﷺ کے قلب مبارک پر نازل فرمایا! وہ ”اقرأ“ ہے، یعنی ”پڑھیے“۔قرآن پاک کی آیتوں میں جو سب سے پہلے پانچ آیتیں نازل فرمائی گئیں ان سے قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے،معلوم ہوا کہ”علم“ رب کائنات کے تمام پیغامات واحکامات میں اول درجہ رکھتا ہے، یہ کہنا مناسب ہے کہ اللہ نے اپنے نبی کے ذریعہ اس امت کے نام سب سے پہلا پیغام”علم“ کو سیکھنے اور سکھانے کا دیا ہے۔ علم کے ذریعہ ہی انسان ایمان و یقین کی دنیا آباد کر کے بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے،دشمن کو دوست اور بُروں کو اچھا،بیگانوں کو اپنا بنا کر دنیا میں امن وامان کی فضا ئقائم کرتاہے۔
رب ذوالجلال کی صفات میں سے ایک صفت علم ہے، اس کی ذات ازلی تو اس کی صفت بھی ازلی ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا کچھ حصہ مخلوق کو عطاکیا اور اس میں انسان کو برتر رکھا،بعض حضرات کی تحقیق کے بموجب صفت علم انسان کا خاصہ اور امتیاز ہے، علم سے انسان کو متصف کرنے کی غرض صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ حسن اخلاق،عمدہ صفات،سیرت اور کردار میں خوبی اور بہتری لائے، لہٰذا علم کو انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا۔ذات خداوندی تمام صفات حمیدہ کو جامع ہے اس لئے کہ اسکا علم”علم محیط“ہے،علم کو انسان کی فطرت میں ودیعت اس لئے کیا گیا تا کہ”تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ“ والی حدیث پر عمل درآمد ہو سکے اور انسان اپنے اندر بھی کمال پیدا کر سکے۔حضرت آدم علیہ السلام کو جو خصوصیت اور برتری دی گئی اس کی وجہ بھی تو علم ہے، لہٰذا جتنا علم ہو گا؛انسان اتناہی بااخلاق ہوگا، حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو اللہ نے”علم وحی“ سے نوازا تو ساری انسانیت کے لئے نمونہ ثابت ہوئے۔حضرات صحابہ بھی جب علم الٰہی اور علم نبوی سے سرشار ہوئے تو انکی زندگیوں میں عجیب انقلاب برپا ہوا اور رہتی دنیا تک انسانوں کے لئے اسوہ بن گئے۔اس بات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ علم دین اپنے اندر انقلابی تاثیر رکھتا ہے۔
ایمان قبول کر لینے کے بعد سب سے اہم چیز علم دین ہی ہے کیونکہ ایمان میں کمال اور دین کی اشاعت و حفاطت میں جو چیزیں مطلوب و مقصود ہیں وہ حصول علم دین کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی، اسی بنا پر امام بخاری نے کتاب الایمان کے معاً بعد، علم سے متعلق احادیث کو جمع فرمایا اور انہی کی پیروی کرتے ہوئے ”صاحب مصابیح السنہ“ علامہ بغویؒ نے بھی اپنی تالیف ”مصابیح السنہ“میں کتاب الایمان کے بعد ”کتاب العلم“ کو جگہ دی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک ”علم دین“ بہت ہی افضل شئی ہے اس لئے ”صاحب علم“ کا بھی مخصوص ترین مقام ہے، قرآن پاک میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”ہَلْ یَسْتَوِی الّذِیْنََ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْن“ (سورہ زمر،آیت نمبر 9)یعنی جاہل آدمی خواہ کتنے ہی بڑے منصب پر فائز ہوجائے اور کتنی ہی زیادہ عبادت و ریاضت کرلے؛ لیکن وہ صاحب علم کے مقام و مرتبہ کو پالے یہ امر ناممکن اور محال ہے،یہی وجہ ہے کہ حاملین علم کی قرآن و حدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی اور اسے دنیوی اور اخروی بشارتوں سے نوازا گیا۔حقیقت یہی ہے کہ اللہ رب العزت نے وارث رسول ﷺ کے امین ہونے کے باعث علماء کی عظمت و فضیلت پر واضح کلمات میں ارشاد فرمایاکہ عالم کے برابر بے علم نہیں ہو سکتا، دیگر فضائل تو بہت مگر اللہ تعالی نے علماء کو زندہ اور جہلاء کو مردہ قرار دے دیا۔ فرمان الٰہی: ”وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَاءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ“ ترجمہ: زندہ اور مردے برابر نہیں ہو سکتے۔(سورۃ الفاطر،آیت نمبر 22) مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت میں احیاء یعنی زندوں سے مراد مؤمنین یا علماء کرام ہیں اور اموات یعنی مُردوں سے مراد کفار یا جاہل لوگ ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں گروہوں کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں برابر نہیں۔نا مؤمن اور کافر برابر ہیں اور نا ہی عالم اور جاہل برابر ہیں۔(تفسیر صراط الجنان تحت ہٰذہ الآیۃ)۔اسی طرح اللہ تبارک و تعالی نے علما کی رفعت بیان کرتے ہوئے فرمایا:”یَرفَعِ اللّٰہُ الَّذِینَ اٰمَنُوا مِنکُم وَالَّذِینَ اُوْتُوا العِلْمَ دَرَجٰتٍ“ ترجمہ: اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔(سورۃ المجادلہ، الآیۃ:11) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ علمائے دین کے درجے بلند فرماتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے درجات کی بلندی کا وعدہ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دنیا و آخرت میں انہیں عزت ضرور ملے گی۔ حضرت امام حسن بصری رحمہ اللہ کا قول کہ حضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: اے لوگو! اس آیت کو سمجھو اور علم حاصل کرنے کی طرف راغب ہو جاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ وہ مؤمن عالم کو غیر عالم مؤمن سے بلند درجات عطا فرمائے گا۔(خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ:11)
عالم دین کی عزت و توقیر نیز اس کے حق میں دعاء مغفرت کرنے کیلئے اللہ تعالی نے ساری کائنات کو لگارکھا ہے،ساتھ ہی ساتھ آخرت میں ایسے انعامات سے سرفراز کرنے کا وعدہ فرمایا جسے سن کر فرشتے تک رشک کرتے ہیں؛(کما رواہ مسلم عن أبی ہریرۃ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم: '' یقول اللہ تعالی: أعددت لعبادی الصالحین ما لا عین رأت، ولا أذن سمعت، ولا خطر علی قلب بشر، ذخرا من بلہ ما أطلعتم علیہ ''، ثم قرأ: (فلا تعلم نفس ما أخفی لہم من قرۃ أعین جزاء بما کانوا یعملون) دنیا میں بھی اتنا بڑا مقام کہ علماء کی صحبت میں بیٹھنے کو عباد ت قرار دیا، چنانچہ حدیث پاک میں رسول اکرم ﷺ نے علماء کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا ”علماء کی صحبت میں بیٹھنا عبادت ہے“ (مسند الفردوس،باب المیم،حدیث:(6486)فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ علمائے کرام کی صحبت میں بیٹھنے سے علم دین سیکھنے کا موقع ملتا ہے اور علم دین کا حاصل کرنا عبادت سے بھی بڑھ کر ہے یہی وہ علماء ربانیین ہیں جن کے لئے مولائے روم علیہ الرحمہ نے کیا ہی خوب فرمایا:یک زمانہ صحبت ِ با اولیاء بہتر از صد سالہ طاعت بے ریاءلیکن جس طرح اہل علم کا بلند و بالا مقام و مرتبہ ہے، اسی طرح ذمہ داریاں بھی نازک تر ہیں، ان کے چھوٹے چھوٹے کاموں پر جس طرح بے شمار بشارتیں ہیں ٹھیک اسی طرح مفوضہ ذمہ داری سے کنارہ کشی کی صورت میں سخت ترین وعیدیں بھی ہیں، ایسی صورت میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ علماء کرام اس دنیا کے اندر قابل رشک بن کر رہتے، لیکن آج اہل علم کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنے مقام و مرتبہ کو فراموش؛ فضیلتوں و عظمتوں کو نظر انداز؛ نیز کوتاہیوں کی صورت میں وارد شدہ وعیدوں اور دھمکیوں سے تغافل برت کر ان کاموں میں لگا ہوا ہے جن سے پورے طبقۂ علماء کی جگ ہنسائی ہونے کے ساتھ ساتھ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دنیا میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ بے مصرف اور بے فیض سمجھی جارہی ہے تو یہ اہل علم (یعنی مولوی) کی جماعت ہے، حالانکہ اس جماعت کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں پر وقار،لاجواب اور شاندار زندگی گزارنے کا ایسا بہترین نسخہ بتایا تھا، جس پر یہ حضرات عمل کرتے تو ساری کائنات ان کے قدموں میں جھک جاتی، آقا ئے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جماعت کو اہل دنیا کے سامنے کاسۂ گدائی لیکر پھرنے والا راستہ نہیں بتایا تھا، بلکہ ان کو سرداروں اور سربراہوں کی طرح جینے کا سلیقہ عطاء فرمایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق زندگی گزاری؛ دنیا والوں نے ان کو اپنے سروں پر بٹھایا اور آج کے اس گئے گزرے دور میں بھی جولوگ استقامت کے ساتھ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہیں؛دنیا ان کے سامنے ذلیل ہوکر آرہی ہے۔ اور یہ علماء ربانیین دنیا کو اپنی ٹھوکروں میں رکھے ہوئے ہیں۔
زیر نظر مقالہ میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے چند فرامین کو جمع کی کوشش کی گئی ہے؛ مقصد یہ ہے کہ جو شخص علم دین کے لئے کسی صورت میں بھی اپنی خدمات انجام دے رہا ہے اس کو اپنے مقام و مرتبہ اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو اور وہ آقا ﷺکے فرمان کے مطابق اپنی زندگی ڈھال کر اپنا کھویا مقام حاصل کرسکے اور دنیا و آخرت کی تمام ترکامیابیوں کو اپنا مقدّر بنالے۔
علم کی راہ میں ا خلاص اور رضاء الٰہی:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”یقیناً اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے، اور ہر انسان کو وہی کچھ ملنے والا ہے، جس کی اس نے نیت کی ہے۔ جس انسان نےدنیا حاصل کرنے کے لئے، یا کسی خاتون سے نکاح کرنے کے لئے ہجرت کی ہو، تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لئے شمار ہوگی، جس کے لئے اس نے ہجرت کی ہے “(اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے)اخلاص عمل اور حسن عمل کا کمال ہے۔ اخلاص یہ ہے کہ آپ تنہا ایک اللہ کی طاعت و عبادت کریں۔ اخلاص یہ ہے کہ مخلوق کی نگاہوں کو بھولتے ہوئے ہمیشہ اللہ کی طرف سے ہونے والی نگرانی کو یاد رکھیں، چنانچہ جو کام اللہ کے لئے ہوگا، اللہ کی کریم ذات اس کا بدلہ ضرور دے گی، اور جو کام اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے ہوگا، تو وہ کام بیکار شمار ہوگا۔
علم دین اس وقت نفع کے بجائے نقصان کا سبب بن جاتا ہے کہ جب کوئی شخص محض دکھاوے کے لئے علم کا جوئندہ بنے یا کوئی عالم محض دنیا داری کے لئے تعلیم و تعلم کا پیشہ اختیار کرے (علم دین کے حاصل کرنے،سیکھنے سکھانے اور اس کے مطابق زندگی کاہر فیصلہ کرنے غرض یہ کہ ہر قدم پر اور ہر وقت اخلاص لازمی شئی ہے)تو ایسے مکار اور ریاکار لوگوں کے انجام کے متعلق نبی اکرم ﷺ نے فرمایا”رجُلٌ تعلَّمَ القرآن وعلَّمَہُ و قرأالقُرآنَ فاُتِیَ بہ فعرّفَہُ نِعَمَہُ، فعرفَہَا، قَالَ فَمَا عَلِمْتَ فِیْہَا· قَالَ تعلَّمتُ العِلْمَ، وعَلَّمْتُہُ وقراتُ القُرآن فیک قَالَ کذبْتَ ولٰکِنَّکَ تعلّمتَ العلْمَ لیُقَالَ اِنَّکَ عَالِمٌ وقراتَ القرآنَ لِیُقَالَ اِنک قَارِیٌ، فَقَدْ قِیلَ ثُمَّ اُمِرَ بِہ فسُحّبَ عَلیٰ وَجْہِہ حَتّٰی اُلْقِیَ فِی النَّارِ“ اللہ تعالیٰ کے دربار میں ایک ایسا شخص لایا جائے گا جس نے دین کا علم حاصل کیاتھا، دوسروں کو اس کی تعلیم بھی دی تھی، قرآن پاک بھی پڑھا تھا، پہلے اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں اپنی عطا کردہ نعمتوں کو یاد دلائے گا، وہ شخص ان نعمتوں کا اعتراف بھی کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے دریافت فرمائیں گے تم نے ان نعمتوں کے شکرانہ میں میری رضا کے خاطر کون سے کام انجام دئیے، وہ شخص کہے گا میں نے دین کا علم حاصل کیا، دوسروں کو اس کی تعلیم دی اور تیری خوشنودگی کے لئے قرآن پاک پڑھا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تونے جھوٹ کہا، دراصل علم تونے اس غرض سے حاصل کیا تھا، کہ مخلوق کے درمیان تو عالم مشہور ہوجائے اور قرآن پڑھنے کی غرض یہ تھی، کہ لوگ تیرے بارے میں کہیں کہ قاری تو فلاں شخص ہی ہے، تو جو تونے چاہا وہ تجھ کو دنیا میں مل گیا، چہار دانگ عالم میں تمہاری شہرت کے خوب ڈنکے بجے، اب یہاں تم کو کچھ بھی نہیں ملے گا پھر اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں حکم دیں گے، کہ اس کو منھ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم میں لیجاؤ اوراس کو منھ کے بل جہنم میں ڈال دو، ایک موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جبُّ الحزن“ سے یعنی رنج و غم کے کنویں سے اللہ کی پناہ مانگو، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ”جب الحزن“ کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہنم میں ایک کھائی ہے جس سے خود دوزخ ہر روز چار سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں کون ڈالا جائے گا، آپ نے فرمایا: ”القرّاءُ المرأونَ باَعْمَالِہِم وہ قرآن پڑھنے والے جو اپنے عمل میں ریا کاری کرتے ہیں، شراح حدیث نے ذکر کیا ہے، اس حکم میں ریاکار عابد، عالم، قاری، سب داخل ہیں۔ یہیں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اخلاص کے فقدان کی وجہ سے قیامت کے دن نیک اعمال بھی وبال بن جائیں گے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں عظیم سے عظیم ترین کام اور بڑی سے بڑی قربانی بغیر اخلاص کے ایسی ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم اور خوشبو کے بغیر پھول۔
اخلاص کا حاصل رضائے الٰہی علماء اور طلباء کے لئے علم کی راہ میں اخلاص کو ضروری قرار دیاگیا ہے،حاصل یہ ہے کہ وہ علم کی راہ میں جو بھی محنت اور کوشش کریں وہ صرف اور صرف اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہو، حصول علم اور اشاعت علم کا مقصد حصولِ دنیا نہ ہو۔ اگر کوئی حصول دنیا کی غرض سے علم کی راہ میں لگا ہوا ہے تو اس کے لئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت وعیدیں ہیں۔ ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا: ”مَنْ تعلَّمَ عِلْمًا مِمَّا یُتْبغیٰ بِہ وَجہُ اللّٰہِ لا یتعَلّمہُ اِلاّ لِیُصِیْبَ بِہ عَرضًا مِنَ الدُّنْیَا لَمْ یجِدْ عَرَفَ الجَنَّۃِ یَوْمَ القِیَامَۃِ یعْنِی رِیحَہَا“ جس شخص نے علم کواللہ کی رضا کے علاوہ دنیاوی سازوسامان حاصل کرنے کی غرض سے سیکھا اس کو قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی، علم کی غرض کسب دنیا نہ ہونا چاہئے، البتہ اگر اس کے ذریعہ سے بلا طلب دنیا مل رہی ہے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی طرح کسب معاش کیلئے دنیوی علوم سیکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ علم دین محض اللہ کی رضا کیلئے سیکھنا چاہئے اس میں کسی طرح کی ریاکاری، کوئی دنیوی غرض، اور کسی بھی طرح کا فخر وغرور شامل نہ ہونے دینا چاہئے۔ اوراگر کوئی علم کو اپنی بڑائی اور فوقیت قائم کرنے کیلئے سیکھتا ہے تو یہ بھی سخت جرم ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مَنْ طَلَبَ العلْمَ لِیُجاری بِہ العُلَمَاءَ اَوْ لیُمَارِی بِہ السُّفَہَاءَ اَوْ یَصْرِفَ بہ وجُوہَ النَّاسِ اِلَیْہِ ادخَلَہُ اللّٰہُ النّارَ“جس شخص نے علم اس وجہ سے حاصل کیا کہ اس کے ذریعہ سے علماء دین کا مقابلہ کرے یا بے وقوفوں سے بحث و مباحثہ کرے یا لوگوں کو اپنی شخصیت کی طرف متوجہ کرے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ جہنم میں ڈال دیں گے۔
حصول علم کے آداب اوراس میں مشغول رہنے والے کیلئے بشارت:
حصول علم کے لئے ادب اور تعظیم بہت ہی ضروری ہے، علامہ سیوطیؒ فرماتے ہیں:”اَلْاِخْذُبِمَکَارِمِ الْاَخْلَاقِ“ (ادب عمدہ اخلاق کو اپنانے کا نام ہے۔)تر ک فعل اتنا خطرناک نہیں جتنا ترک تعظیم خطرناک ہوا کرتا ہے،اگر کوئی آدمی دین کے کسی حکم پر عمل نہیں کرتا، مثلاََ:نماز چھوڑتا ہے تو وہ گنہگار ہوگامگر ایمان سے خارج نہیں ہوگا،لیکن اگر وہی شخص دین کے اس حکم کی اہانت اور بے حرمتی کردے تو ایمان سے خارج ہو جائے گا،اس لئے کسی بھی چیز کے حصول کے لئے اس کا ادب و احترام اور اسکی تعظیم ضروری ہوتی ہے۔
حصول علم سے متعلق چند حقوق و آداب:
علم کے حصول سے متعلق چند حقوق اور آداب ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جن کا لحاظ کرنا علم نافع کو حاصل کرنے اور طالب علم کو کامیاب بنانے کیلئے از حد ضروری ہے،چنانچہ آداب علم سے متعلق حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ادب یہ ہے کہ نیت کو درست کیا جائے کہ اسی بنا پر انسان کے سارے اعمال اور ساری عبادات کی قبولیت کا مدار ہے،امام بخاریؒ نے اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے صحیح بخاری میں سب سے پہلی روایت اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ذکر کی ہے،اس میں معمولی غفلت انسان کو شرک اصغر یا شرک اکبر میں مبتلا کر دیتی ہے اور اسکا وبال اتنا خطرناک کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: (جوشخص علم سیکھے اور اس کے ذریعہ اللہ کی رضا مقصود نہ ہو بلکہ دنیوی کو ئی مقصد پیش نظر ہو تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائیگا)۔ اگر نیت کی اصلاح نہ ہو تو توہین علم اور توہین قرآن و حدیث لازم آئے گی کیونکہ اس کا بدلہ صرف اور صرف رضائے الٰہی ہے اور دنیوی اغراض اس کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔شریعت کے احکام کی مکمل پابندی کی جائے،ورع و تقویٰ اختیار کیا جائے کہ اس کے بغیر علم نافع نہیں ہوتا،اور ورع کامل یہ ہے کہ زیادہ سونے،کثرت کلام اور پیٹ بھر کھانے بالخصوص بازاری کھانوں سے اجتناب کیا جائے۔اساتذہ کی باتوں اور ان کی تعلیمات کو غور سے سنا جائے کیونکہ ان کی باتوں کو غور سے نہ سنا گیا تو نہ اس کو محفوظ کیا جا سکتا ہے نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی عمل کیا جا سکتا ہے۔
علم سے خوبیوں میں جلا پیدا ہوتا ہے:
ایسا شخص کون ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی خوبی اور اچھائی نہ ہو، ہرشخص کے اندر کچھ نہ کچھ اچھائیاں ضرور ہوتی ہیں، اوراگرکوئی شخص اپنی خوبیوں میں نکھار پیدا کرنا چاہے تواسے چاہئے کہ وہ علم دین حاصل کرے، علم دین سے خوبیوں میں جلا پیدا ہوتا ہے ایک موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خِیارُہُمْ فِیْ الجاہِلِیّۃِ خِیَارُہُمْ فی الاِسْلاَمِ اذَا فَقِہُوْا یعنی وہ لوگ جوحالت کفر میں معزز سمجھے جاتے تھے، اگر چاہتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ میں بھی ان کو عزت و توقیر ملے تو ان کیلئے سب سے مفید نسخہ یہی ہے کہ وہ ”احکام شرعیہ“ کے عالم ہوجائیں، احکام شرعیہ کے علم سے زمانہ جاہلیت کی خوبیوں میں نکھار آجائے گا اوروہ کام کی بن جائیں گی۔ اس حدیث میں ہر مسلمان کے لئے یہ سبق موجود ہے کہ ایک مسلمان کی عزت و عظمت اوراس کی سربلندی کا راز نہ مال و دولت میں ہے نہ حسب و نسب میں؛ بلکہ اس کی خیریت و عافیت اور اس کی ترقی کا انحصار احکام شرعیہ کے علم اوراس کے مطابق عمل کرنے میں ہے۔
علم دین قابل رشک اور علماء بقائے علم کا سبب:
علم دین بہت بڑی نعمت ہے، لہٰذا اس کے حاصل ہونے پر جتنا بھی رشک کیا جائے کم ہے ایک موقعہ پر سرورکائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دوطرح کے لوگ ہی رشک کے قابل ہیں ایک شخص تو وہ ہے جو مال پاکر اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور دوسرے شخص کے بارے میں آپ نے فرمایا: ”وَرَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ الحِکْمَۃَ فَہُوَ یَقْضِیَ بِہَا“ دوسرا شخص وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے دین کا علم عطا فرمایا اور وہ اس علم کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اوراس علم کو لوگوں کو سکھاتا بھی ہو اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم دین عطا فرمایا اوراس نے دین کے سکھانے اوراس کے مطابق فیصلہ کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا تو ایسا شخص قابل رشک ہے۔علم دین کا وجودصرف اور صرف علماء ہی کے دم پر ہے،جب اللہ تعالیٰ علماء کو اس دنیا سے اٹھا لیں گے تو علم بھی اٹھ جائے گا اور علم کے اٹھ جانے کے سبب نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر جانب تاریکی پھیل جائے گی،کوئی صحیح راہ دکھانے والا نہیں ہوگا،ہر شخص گمراہی کے گہرے غار میں غرق ہوجائے گا،جہلاء علماء کی جگہ بیٹھ کر ایسی باتیں بتائیں گے کہ جن پر عمل کر کے وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔اسی لئے علماء کے وجود کو باعث خیروبرکت سمجھ کر ان سے حتی المقدور استفادہ کی ہر ایک کوشش کرنی چاہئے،ان سے محبت رکھنے کو اپنے لئے سعادت خیال کرنا چاہئے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ”اِنَّ اللّٰہَ لا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انتزاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ العِبَادِ وَلٰکِنْ یَقْبِضُ الْعلَمَاءَ“اللہ تعالیٰ دین کا علم اس طرح نہیں اٹھائیں گے کہ لوگوں کے اندر سے کھینچ لے؛ بلکہ علماء کو اٹھالینے کی صورت میں دین کا علم اٹھ جائے گا، یعنی علماء زندہ رہیں اور ان کے سینوں سے علم نکال لیاجائے!یہ نہیں ہوگا؛ بلکہ اللہ تعالیٰ حاملین علم کو اٹھالیں گے اور ان کی جگہ دوسرے علماء پیدا نہیں ہوں گے۔ اس طرح علم خود بخود ختم ہوجائے گا۔ لہٰذا بقائے علم کے لئے ہر عالم کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے بعد کچھ علماء چھوڑیں۔
علماء وارثین انبیاء ہیں: ٍ
انبیاء عظام کے بعد علماء ہی کا مرتبہ ہے اور علماء کرام ہی ان کے وارث ہیں،انکی قدر و منزلت کا اندازہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے:”اِنَّ الْعُلَمَاءَ ورثَۃُ الانبیاءِ وانَّ الانبیاءَ لَمْ یُوْرِّثُوْ دِیْنَارًا ولاَ دِرْہَمًا وانَّمَا وَرَّثُوالْعِلْمَ فَمَنْ اخَذَہُ اَخْذَ بِحِظٍ وَافِرٍ“ علماء دین انبیاء کرام کے وارث ہوتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء دینار و درہم کے وارث نہیں بناتے ہیں وہ تو علم کا وارث بناتے ہیں جس نے دین کا علم حاصل کرلیا اس نے پورا حصہ پالیا۔
عالم دین عابد سے افضل ہے:
شب زندہ دار عابدجو راتوں کو جاگ کر اللہ کے نام کی ضربیں لگاتا ہے اس سے بہت زیادہ مقام و مرتبہ اس عالم دین کا ہوتا ہے جو لوگوں کو نفع پہونچاتا ہو،کیونکہ عالم دین نہ صرف خود کو جہنم سے بچاتا ہے بلکہ امت کے بہت سے لوگوں کو جہنم سے بچا کر جنت والے راستے پر گامزن کر دیتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشادہے: ”اِنَّ فَضْلَ العَالِم عَلَی العابدِ کَفَضْلِ القَمَرِ لَیْلَۃَ البدرِ عَلیٰ سَاءِرِ الکَوَاکِبِ“عالم کو عابد پر ایسی فضیلت ہے جیسے کہ چودھویں رات کے چاند کو تمام تاروں پر بڑائی اور برتری حاصل ہوتی ہے، دوسری جگہ عالم کو عابد پر ترجیح دیتے ہوئے فرمایا: ”فضل العالِمِ عَلَی العَابِدِ کَفَضْلِیْ عَلَی اَدْنَاکمْ“عالم کو عابد پر ایسی ہی فضلیت ہے جیسے کہ مجھ کو تم میں سے ادنیٰ شخص پر حاصل ہے، اس ارشاد سے یہ بات سمجھ میں آئی، کہ جب عالم کوعابد پر اتنی فضیلت ہے تو عام لوگوں پر عالم کو جو فضیلت ہوگی اس کا اندازہ کرنا بہت دشوار بات ہے، لہٰذا عالم کے ساتھ بدکلامی کرنا اس کے بارے میں فاسد خیال رکھا درحقیقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی توہین اور ان کے ارشاد کی پامالی ہے، عالم کو عابد پر اس قدر ترجیح دینے کی وجہ وہی ہے جس کا ذکر کیاگیا کہ عالم کا فائدہ متعدّی ہوتا ہے جبکہ عابد کا فائدہ لازم ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عالم شیطان کے ہتھکنڈوں سے واقف ہونے کی بناء پر اس کے دام میں آنے سے خودکو بھی محفوظ رکھتاہے اورامت کی بھی حفاظت کرتا ہے؛ جبکہ عابد شیطان کے دام میں الجھے رہنے کے باوجود اپنے آپ کو عبادت و ریاضت میں مشغول خیال کرتا ہے، اسی بنیاد پر آپ نے فرمایا: ”فَقِیْہٌ واحِدٌ اَشدُّ عَلَی الشَیْطَانِ مِنْ الفِ عابدٍ“(۱۱) ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے، اس لئے عام لوگوں کوچاہئے کہ وہ نیک عالم کا قرب اختیار کریں تاکہ وہ عالم کی صحبت کی برکت سے شیطان کے ہتھکنڈوں سے محفوظ ررہ سکیں۔
عالم دین کی فرائض سے غفلت:
انبیاء علیہم السلام کا اصل مشن بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھی راہ دکھانا تھا،علماء چونکہ انبیاء عظام کے وارث ہیں اس لئے انکا فرض منصبی ہے کہ وہ لوگوں کو دین کی دعوت دیتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے غافل لوگوں کے دلوں میں اسکی یاد اور محبت پیدا کرنے کی کوشش،اسلام کی اشاعت اور دین کی تبلیغ کیلئے بھرپور جدوجہد کریں، اگر کوئی عالم اپنے اس فریضہ کو فراموش کربیٹھا ہے یا اس سے غفلت برت رہا ہے تو اس کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اپنے حساب سے دین کو ڈھارہا ہے۔اسی پس منظرمیں حضرت زیاد ابن جدیرفرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کو ڈھانے والی کیا چیز ہے؟عرض کیا”نہیں“ تو آپ نے فرمایا: ”یَہْدِمُہُ زِلَّۃُ الْعَالِمِ“ (عالم کا پھسلنا اسلام کو ڈھادیتا ہے) مطلب یہ ہے کہ عالم اگر اپنے فرائض سے غافل ہوکر، خواہش نفس پر عمل کرنے لگے تو اس کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی احکامِ اسلام پر عمل ترک کردیں گے، نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام کی بنیادیں ہل جائیں گی اور اسلام منہدم ہوجائے گا۔اللہ پاک علم کی توفیق بخشے۔آمین یا رب العالمین۔