ماہنامہ الفاران

ماہِ ربیع الثانی - ۱۴۴۳

استاذ! فرش سے عرش تک پہونچانے والی ذات(قسط 1)

حضرت الحاج مولاناکبیر الدین فاران صاحب المظاہری ناظم :مدرسہ عربیہ قادریہ،مسروالا،ہماچل پردیش

استاذ!اس تناور درخت کی طرح ہے جو اپنا سایہ سبھی پر نچھاور کرتا ہے، اس پھول کی طرح ہے جس سے سارا باغ معطر ہوجاتا ہےاور اس سورج کی طرح ہے جو بلا کسی تفریق کے دنیا کو روشن کرتا ہے۔
اس لئے استاذ کی تمام تر صفات جلیلہ کو اپنانے اور درسگاہ میں بیٹھنے سے قبل اس قسط وار مضمون کا مطالعہ آپ کو ایک ماہر فن استاذ کی خوبیوں سے مالا مال کر دیگا۔(انشا اللہ) بسم اللہ الرحمان الرحیم
اللہ رب العزت نے سرور کونین محبوب رب العالمین حضرت محمدمصطفی ﷺ کو خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا قل ھل یستوی الذی یعلمون والذین لا یعلمون(پارہ ۳۲ سورہ زمر) کہ ”آپ اس حقیقت کو سمجھانے کیلئے کہہ دیجئے کہ اہلِ علم اور بے علم برابر نہیں ہوسکتے یعنی عالم اور جاہل کاد رجہ برابر نہیں ہوسکتا۔
حضرت محمدﷺ کا فرمان ہے علم حاصل کرو کیونکہ علم کی تعلیم خشیت ہے علم کی طلب عبادت ہے علم کا مذاکرہ تسبیح اور اسکی تلاش جہاد ہے۔بے علم کو علم سکھانا صدقہ ہے مستحقّوں میں علم خرچ کرنا تقرب الٰہی ہے،علم ہی کے ذریعہ اللہ کی اطاعت و عبادت کی جاتی ہے اسی سے حلال وحرام جانا جاتاہے اور بدبخت اس سے محروم رہتے ہیں علم حلال وحرام کی پہچان دنیا وآخرت میں روشنی کا ستون ہے تنہائی میں مونس اور پردیس میں رفیق ہے،خلوت میں ندیم ہے،راحت ومصیبت کو بتانے والاہے۔ آخر میں فرمایامجھ سے علم سیکھومجھ سے علم سیکھو۔(جامع بیان العلم وفضلہ علامہ ابن البر)تعلیم دین کے اہم امور میں داخل ہے اور بڑی عبادت ہے۔ امام اعظم حضرت ابو حنیفہ کے شاگرد رشید حضرت امام محمد بن حسن ؒ کو کسی نے خواب میں دیکھا کے اللہ نے ان سے ارشاد فرمایاکہ اے محمد! اگر میرا تجھ پر احسان کرنے کا ارادہ نہ ہوتا تو تجھے علم نہ دیتا۔ لہٰذا معلم کے لئے ضروری ہے کہ اپنی تعلیم سے اللہ کی رضاطلب کرے اور اس کو دنیوی اغراض کا ذریعہ نہ بنائے ۔
ایک دفعہ کسی نے حضرت علیؓ سے درخواست کی کہ ہم دس آدمی ہیں اور سوال ایک ہی ہے مگر جوا ب جداگانہ چاہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہو! اس نے سوال پیش کیا ”علم بہتر ہے یا مال“ آپ نے اس طرح جو اب دینا شروع کیا۔
۱ علم : اس لیے کہ مال کی تجھے حفاظت کرنی پڑتی ہے اور علم تیری حفاظت کرتاہے ۔
۲ علم : اس لیے کہ مال فرعون و ہامان کا ترکہ ہے اور علم انبیاؑ ء کی میراث ہے۔
۳ علم : اس لیے کہ مال خرچ کرنے سے کم ہوتاہے اور علم ترقی کرتاہے۔ ۴
علم : اس لیے کہ مال دیر تک رکھنے سے فرسودہ ہو جاتاہے مگر علم کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔
۵ علم : اس لیے کہ مال کو ہر وقت چور ی کا خطرہ ہے علم کو نہیں ۔
۶ علم : اس لیے کہ صاحبِ مال کبھی بخیل بھی کہلاتاہے مگر صاحبِ علم کریم ہی کہلاتاہے ۔
۷ علم : اس لیے کہ اس سے دل کو روشنی ملتی ہے اور مال سے دل تیرہ و تا ر ہو جاتاہے ۔ ۸
علم : اس لیے کہ کثرت مال سے فرعون وغیر ہ نے خدائی دعویٰ کیا مگر کثرت علم سے رسول ﷺنے مَاعَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَا دَتِکَ(ہم سے تیری عبادت کا حق ادانہیں ہوسکا)۔
۹ علم : اس لیے کہ مال سے بے شمار دشمن پیدا ہوتے ہیں مگر علم سے ہر دلعزیزی حاصل ہوتی ہے۔ ۱۰
علم: اس لیے کہ قیامت کے دن مال کا حساب ہوگا، مگر علم پرمال جیسا کوئی حساب نہ ہوگا ۔
مفکر کا قول ہے کہ علم روح کو غنی کرتاہے اور مال جسم کوجس نے علم حاصل نہیں کیا اس نے روح کو مفلس بنادیا۔

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی