ماہنامہ الفاران

ماہِ محرم الحرام - ۱۴۴۳

ماہ محرم اور عاشور ہ کی حقیقت و فضیلت

مولاناارشدکبیرخاقان مظاہری جنرل سیکریٹری: ابوالحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ و مدیر مسؤل ماہنامہ الفاران۔

سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینے کے تیس دن اللہ تبارک و تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں،پورے سال میں بعض ایام کو چند خصوصی فضیلتیں عطا ء فرمانے کے ساتھ مخصوص احکامات مقرر فرمائیں ہیں، ماہ محرم الحرام بھی ایک ایسا ہی مہینہ ہے جس کو اللہ رب العزت نے حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے، اللہ تعالی نے قرآن مجید کے پارہ نمبر دس کے سورۃ توبہ میں ارشاد فرمایا: ان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھرافی کتب اللہ یوم خلق السموات والارض منھا اربعۃ حرم(ترجمہ)”بیشک مہینوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں سے چار حرمت والے ہیں“، ان کو اَشْھُرُ الْحُرُمْ بھی کہا جاتا ہے، ان میں شمار ہونے والے سارے دن اور ہفتے اللہ کی طرف سے ہیں اور سب کے سب دن اچھے ہوتے ہیں کوئی بھی دن، ہفتہ اور مہینہ برا نہیں ہوا کرتا، ان تمام بارہ مہینوں اور ایام میں وہ تمام اعمال حسنہ کئے جا سکتے ہیں جن کو اللہ رب العالمین نے اپنے بندوں کو کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن انہی ایام اور مہینوں میں سے کچھ دن، گھڑیاں اور مہینے کو اللہ تعالی نے اپنے فضل و رحمت سے اپنی عبادت کے لئے مختص کیا ہے، یعنی کہ اس دن کی عبادت کی فضیلت اور ثواب دوسرے دنوں سے افضل ہے۔ جن میں سے چار مہینوں کو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے محترم و مکرم بنایا ہے اور یہ اس وقت سے ہی متبرک مہینہ ہے جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور اسی وقت سے حرمت والا مہینہ قرار دے دیا گیا۔ جن میں تین مہینے تو مسلسل آتے ہیں۔ ذوقعدہ، ذوالحجہ اور محرم مگر چوتھا رجب المرجب کا مہینہ ہے جس کو حدیث پاک میں رجب مضر یعنی قبیلہئ مضر کی طرف منسوب کیا گیا ہے، یہ چار مہینے اللہ نے مسلمانوں کے لئے محترم بنائیں ہیں۔ اور ان مہینوں میں مسلمانوں کو گناہ فسق و فجور، جنگ و جدال، قتل و غارت گری، عداوت و دشمنی،بغض و عناد، حسد و کینہ اور اپنے آپ پر ظلم کرنے سے منع کیا ہے۔ ان حرمت والے چار مہینوں میں بہت سارے نیک اعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، جس کی فضیلت اور احکام و آداب قرآن و حدیث میں بے شمار بیان کئے گئے ہیں، جس کا علم رکھنا اور سمجھنا عام مسلمانوں کے لئے بیحد ضروری ہے، چنانچہ جلیل القدر صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب روزوں سے افضل رمضان کے بعد اللہ تعالیٰ کا مہینہئ محرم (یعنی عاشورہ کا روزہ)ہے۔صحیح مسلم/حدیث نمبر۱۸۶۳۔اس حدیث شریف میں محرم الحرام کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت اس کے شرف اور فضیلت کے اظہار کے طور پر ہے۔مگر آج مسلمانوں کی اکثریت ان ایام اور حرمت (ادب) والے مہینوں کی فضیلت سے ناواقف ہیں۔ مسلمانوں کو اس بات کا علم نہیں کہ انکا اسلامی مہینہ کب سے شروع ہوتا اور کب ختم ہوتاہے اور کون سا مہینہ سال کا پہلا یا آخری ہوتا ہے، ہجری سال، تاریخ اور مہینے کی تعداد معلوم نہیں، یہ متبرک اور محترم مہینہ کب آتا اور کب اور کیسے چلا جاتاہے، ہم مسلمانوں کو اس کی خبر تک نہیں ہوپاتی، لہٰذا دیگر حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ محرم الحرام کا ہے جو کہ ہجری سال کا پہلا مہینہ بھی ہے، جس کے چند اہم پہلوؤں پر قلم بند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم تمام مسلمانوں کو اپنے اسلامی سال کے محترم مہینوں کی قدر و قیمت پہنچاننے اور ان کے فضائل و اعمال، جاننے، سمجھنے اور ان ایام کے ثواب حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔آمین۔معزز قارئین! اس کائنات میں بہت سے انسانوں کو دوسرے انسانوں پر متعدد وجوہات کی بنا پر فوقیت حاصل ہے۔ اسی طرح رب العالمین کے بنائے ہوئے نظام الاوقات میں بعض دنوں اور راتوں کو سال کے باقی دنوں اور راتوں پر فوقیت حاصل ہے۔مثلاً ماہِ رمضان کو باقی گیارہ مہینوں پر اور پھر لیلۃ القدر کو سال کی تمام راتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ اسی طرح یومِ عرفہ اور یومِ عاشورہ سال کے عظیم ترین دن کہلانے کے حق دار ہیں۔یومِ عرفہ 9ذوالحج کو اوریومِ عاشورہ 10محرم الحرام کو کہا جاتا ہے جس کی تاریخی اہمیت مسلّم ہے۔ احادیث وروایات سے اس کے فضائل و برکات ثابت ہیں۔اس ماہ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ مسلم شریف کی ایک روایت میں اس ماہ کو ”شہر اللہ“ یعنی اللہ کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔پھر اس پورے مہینے میں یومِ عاشورہ کو خاص فضیلت اورفوقیت حاصل ہے اور یہ دن بجا طور پر تاریخی اعتبار سے سال کا عظیم ترین دن کہلانے کا حق دار ہے۔مصنفین نے احادیث مبارکہ اور تاریخی روایات کی روشنی میں اس دن کی فوقیت اور فضیلت کی درجنوں وجوہات بیان کی ہیں جن میں سے ہر ایک آب زرسے لکھے جانے کے قابل ہے۔ لہذا یومِ عاشورہ کے فضائل کے تعلق سے بہت سی احادیث مبارکہ موجود ہیں۔ تاہم یہاں پر اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے چند مستند روایات کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے ”یوم زینت“ یعنی یوم عاشورہ کا روزہ رکھا اس نے اپنے باقی سال کے فوت شدہ کو بھی پا لیا۔غنیۃ الطالبین۔جلد ۲۔صفحہ ۴۵۔، حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص عاشورہ کی رات کو عبادت کے ذریعہ زندہ رکھے (یعنی شب بیداری کرے) تو جب تک چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے بھلائی پر زندہ رکھے گا۔غنیۃ الطالبین صفحہ ۴۳۵۔،اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یوم عاشورہ کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو،اس سے پہلے یا بعد میں بھی ایک دن کا روزہ رکھو۔مسندامام احمدابن محمدابن حنبل،ج۱،ص۸۱۵،الحدیث ۴۵۱۲۔ اسی ذیل میں یوم عاشورہ کے روزے کا پس منظر بھی تحریر کرتا چلوں کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب مکۃ المعظمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو دس محرم کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا،آپ نے ان سے سوال کیا کہ: اس دن کی کیا خصوصیت ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم اور نیک دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی (اور فرعون پر غلبہ عطا فرمایا) فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا،کیونکہ موسی علیہ السلام نے بطور شکر (بطور تعظیم)اس دن روزہ رکھا تھا،اس لئے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے مقابلے ہم موسی علیہ السلام سے زیادہ قریب ہیں اور بطور شکر روزہ رکھنے کے زیادہ حقدار ہیں،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کے دن خود بھی روزہ رکھااور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی۔(المسند الجامع الصحیح فی سیرۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لابی عبد اللہ محمد ابن اسماعیل البخاریّ ؓ۔،صحیح مسلم لمسلم ابن حجاج القشیری النیسابوری،المسندلابی عبدللہ الامام احمدابن محمد ابن حنبل،شرح معانی الآثار، لابی جعفر الطحاوی)  محرم الحرام کی دس تاریخ یعنی یوم عاشورہ کو تاریخ اسلامی کاوہ دردناک سانحہ پیش آیا جس میں نواسہئ رسول ﷺحضرت امام حسینؓ کی شہادت ہو گئی۔ چونکہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک تھا، سارے عالم اسلام میں اس کی مذمت ہوئی اور بعد میں یہ سانحہ ایک استعارہ بن گیا۔ عوام الناس میں دس محرم سے مراد حضرت حسینؓ کی شہادت کا واقعہ ہی لیا جاتا ہے اور اس دن کی قدیم تاریخی اور مذہبی حیثیت کو کم یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت حسینؓ کی شہادت بلا شبہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ملت اسلامیہ اس کا زخم ابھی تک نہیں بھول پائی ہے لیکن عاشورہ کی اصل فضیلت اس واقعہ سے پہلے سے ہی تھی۔ دراصل رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے قبل عاشورہ کا روزہ ہی رکھا جاتا تھا اور اللہ کے رسولﷺ نے ہجرت سے پہلے بھی اور ہجرت کے بعدبھی عاشورہ کا روزہ ہمیشہ رکھا۔رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے کے بعدعاشورہ کے روزے کی فرضیت تو ختم ہو گئی لیکن رسول اللہ ﷺ عاشورہ کا روزہ پابندی سے رکھتے رہے۔اس طرح عاشورہ کا روزہ اللہ کے رسول کی دائمی سنت ہے۔ آپﷺ عاشورہ کے روزے کا اہتمام اسی طرح کرتے تھے جس طرح رمضان کے روزوں کا اہتمام فرماتے تھے۔ اللہ کے رسول کا دائمی طریقہ ہونا اس بات کے لیے کافی ہے کہ مسلمان اس کا اہتمام کریں۔یہی اس کی سب سے بڑی فضیلت ہے،

مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ میدان کربلا میں حق کے لئے باطل کیخلاف لڑتے رہے حتی کہ شہید ہو گئے اور شہیدکو چوں کہ حیات جاودانی ملتی ہے اس لیے حضرت حسینؓ ابھی یقیناً باحیات ہیں، مرے نہیں ہیں، یہ ہماراعقیدہ ہے، اہل مومن زندہ جاویدکاماتم نہیں کرتے ہیں۔علامہ اقبالؒ نے اسی کو شعری انداز میں یوں کہا ہے: ” کہ دو غم حسین منانے والوں کو، مومن کبھی شہدا کا ماتم نہیں کرتے“
”ہے عشق اپنی جان سے بھی زیادہ آل رسول سے، یوں سر عام ہم انکا تماشہ نہیں کرتے“
”روئے وہ جو منکر ہے شہادت حسین کا، ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے“ (علامہ اقبال)
اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ تاقیامت آنے والے مسلمانوں کے لئے یہ دائمی پیغام دے گئے ہیں، کہ اصل مومن وہ ہے،جو اعلائے کلمۃ اللہ اور اشاعت اسلام کی خاطر باطل سے لڑتارہے، تاآں کہ مذہب اسلام کابول بالا نہ ہو جائے اور باطل دب نہ جائے اور اس کے لیے اگر جان کی ضرورت پڑے، تو جان بھی دے کر اپنا نام شہداء کی فہرست میں درج کرا لے۔ مگرافسوس کہ موجودہ دور کے مسلمان شہادت حسین رضی اللہ عنہ سے حاصل شدہ پیغام کو بالکل بھول چکے ہیں، اور عاشورہ کے دن شہادت حضرت حسینؒ کے غم میں طرح طرح کی بدعات وخرافات (یعنی نوحہ وماتم،سینہ کوبی، شمشیر زنی، چیخ چیخ کرحضرت حسینؓ کے نعرے لگانا، تعزیہ داری اور ڈھول بجانا وغیرہ)انجام دیتے ہیں، یہ بات بھی یاد رہے کہ تعزیہ داری کی بدعات ہندوستان میں امیر تیمور لنگ کے زمانے میں سن 1008ھ سے شروع ہوئی مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانوں کو کسی چیز کے کرنے سے، جس قدر روکا جاتا ہے، وہ اسی قدر، بلکہ اس سے کہیں زیادہ اسے بہ روئے کارلاتے ہیں، اسی لئے تو یہ قاعدہ بنایا گیا ہے:الإنسان حریص إلی ما منع.اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علمائے کرام مسلمانوں کو ہمیشہ اپنے بیانات و مضامین کے ذریعہ بدعات و خرافات کے ارتکاب سے باز رہنے کی ترغیب دیتے اور حسینی پیغام پہنچاتے رہے ہیں اور پہنچا تے رہیں گے۔ ان شاء اللہ۔

  دعا گو ہوں کہ خداوند تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس مہینے کی حرمت اور عاشورہ کے حرمت اور عظمت سے فائدہ اٹھانے کی ہم سبھوں کو توفیق عطا فرمائے، اس موقع سے ہونے والی بدعات و خرافات سے امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے اور اپنی رضا کے مطابق اس دن کو گزارنے کی توفیق بخشے۔
والسلام
العبد:ارشد کبیر خاقان المظاہری
جنرل سکریٹری:ابو الحسن علی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ
(پورنیہ)9816205458

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی