ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الثانی - ۱۴۴۳
تدوین حدیث کی مختصر تاریخ
حضرت مولانا محمد ذاکر حسین صاحب القاسمی استاد حدیث و تفسیر: مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا (ہماچل پردیش)
حدیث نبوی ﷺ کی کتابت و تدوین سے متعلق اسلامی تواریخ کی کتابیں اس طرف ایماں کرتی ہے کہ کتابت حدیث کی تالیف کا سلسلہ حضور اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں ہی شروع ہو چکا تھا، صحابہ ئ کرام کی ایک بڑی جماعت کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے متعدد صورتوں میں احادیث مبارکہ کو تحریری تو پر جمع کر رکھا تھا پھر تدوین حدیث کا یہ سلسلہ حضرات تابعین کرام میں بھی جاری رہا، ہاں اتنا ضرورتھا کہ ترتیب وتدوین کا یہ سلسلہ صرف انفرادی طور پر ہوتا رہا، اس کیلئے باقاعدہ کوئی منظم شکل نہیں تھی، حتیٰ کہ پہلی صدی حجری کے آخر میں فتنوں کی کثرت کے پیش نظر ضیاع حدیث کا اندیشہ شدید ہوگیا۔
پہلی صدی کے اختتام پر خلیفہ ئ عادل و راشد حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ کے دل میں یہ خیال آیا کہ احادیث مبارکہ کو مدون کیاجائے۔ چنانچہ آپ نے مدینہ کے گورنر اور قاضی ابوبکر بن حزم کو لکھا کہ مدینہ منورہ میں جو اساتذہ احادیث بیان کرتے ہیں ان کو لکھ کر میرے پاس بھیج دو، کیونکہ مجھے اس علم کے مٹنے کا اور علماء کے ختم ہونے کا اندیشہ ہے یہی فرمان آپ نے تمام گورنروں کے پاس جاری کیا۔ کہ ہر علاقہ کی حدیثیں جمع کر کے پایہئ تخت کو ارسال کی جائیں۔
منصوبہ یہ تھا کہ جب احادیث آجائیں گیں تو امام زہری ؒ ان کو مرتب کریں گے، گورنروں نے خلیفہ ئ وقت کا والانامہ علماء کو دکھایا اور ان کو یہ کام سونپ دیا، ابھی یہ حدیثیں پہونچی بھی نہیں تھیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا انتقال ہو گیا اور جمع حدیث کا فرمان گیا گزرا ہوگیا مگر علماء نے جو کام شروع کیا تھا وہ برابر چلتا رہا اس طرح تدوین حدیث کی ابتدا ہوئی اور اس کا سنہرہ سہرا حضرت عمر بن عبد العزیز کے سر پر سج گیا۔
پہلی صدی کے اختتام پر تدوین حدیث کا جو سلسلہ شروع ہو اتھا، دوسری صدی کے نصف اول میں مدینہ کے محدثین نے مدینہ کی،بصرہ والوں نے بصرہ کی، کوفہ والوں نے کوفہ کی، شام والوں نے شام کی، یمن والوں نے یمن کی حدیثیں جمع کیں اس طرح بہت سی کتابیں وجود میں آگئیں تو ضرورت محسوس ہوئی کہ ایسی کتابیں لکھی جائیں جن میں تمام حدیث جمع ہوں،مختلف کتابوں میں حدیث کا تلاش کرنا مشکل کام تھا۔
دوسری صدی میں جوامع لکھی گئیں جیسے جامع ِ ابو سفیان ثوری ؒ، مصنف عبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند امام احمد وغیرہ ان کتابوں کے مصنفین نے پہلے دور کی کتابوں سے نقل نہیں کی بلکہ ان کو دلیل بنا کر اسلامی دنیا کی خاک چھانی اور ہر ہر محدث کے پاس جا کر رو در رو حدیثیں لیں اور اپنی کتاب میں درج کیں، اس دور کی کتابوں میں صحیح اور غیر صحیح حدیثوں کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ نیز مرفوع اور غیر مرفوع حدیثوں کا بھی امتیازنہیں کیا گیا تھا۔ بلا امتیاز ہر طرح کی روایا ت لی گئی تھیں۔
تیسری صدی میں جو کتابیں لکھی گئیں وہی اب پڑھائی جاتی ہیں، اس دور کی کتابوں میں تین خیالات ملحوظ رکھے گئے یعنی صرف صحیح حدیث لی گئیں ہیں، صحابہ کے انفرادی فتاویٰ نہیں لئے گئے اور مراسیل روایتیں نہیں لی گئیں اس طرح تدوین حدیث کے تیسرے دور میں حدیث اور اثر کے درمیان بھی فرق کیا جانے لگا، پہلے حضرت محمد ﷺ کے اقوال وافعال اور صحابہ اور تابعین کے اقوال و افعال کو بھی حدیث کہتے تھے اور اثر بھی کہتے تھے، بعد میں حدیث کا لفظ نبی کریم ﷺ کے اقوال وافعال کیلئے خاص کر لیا گیا اور صحابہ اور تابعین کے اقوال وافعال کیلئے اثر کے ساتھ خاص کیا گیا۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ کے اقوال وافعال کو حدیث مرفوع اور صحابہ کے اقوال وافعال کو حدیث موقوف اور اکابر تابعین کے اقوال وافعال کو حدیث مقطوع کا نام دیا گیا۔
وَاوَّل الجامعِ للابواب:جماعۃٌ فی العصرِ ذواقتراب
کابن جریح وَہَشم مَالک:ومعمر وولدالمبارَک
وال الجامع باقتصًارٍ:علی الصحیح فقط البخاری
ومسلم من بَعَدہ والاوَّل:علی الصواب فی الصحیح افضل
یعنی حضرت عمر بن عبد العزیز کے حکم سے حدیث کو جمع کرنے والی سب سے پہلے ہستی ابن شہاب زہری کی ہے اور خاص ابواب کی ترتیب پر سب سے پہلے احادیث کو جمع کرنے والے حضرات کی ایک جماعت ہے جو تقریبا ً ہم زمانہ ہیں جیسے ابن جریج، ہشیم، امام مالک، معمر بن راشد الیمنی اور عبد اللہ بن مبارک۔ اور صحیح احادیث کو جمع کرنے والے پیش رو حضرت امام بخاری ؒ ہیں۔ اس کے بعد امام مسلم ہیں اور اما م بخاری صحیح احادیث کو جمع کرنے میں سب سے افضل ہے۔
صحاح ستہ کے مصنفین کا زمانہ :
(1) حضرت امام بخاری: محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ کی پیدائش سن 194ھ میں ہوئی اور انتقال سن 256ھ میں ہوا
(2) حضرت امام مسلم: مسلم بن الحجاج ابو الحسین القشیری کی پیدائش 206ھ میں ہوئی اور انتقال261 ھ میں ہوا۔
(3) حضرت اما م ابو داؤد: سلیمان بن اشعث سجستانی کی پیدائش 202ھ میں ہوئی اور انتقال 275ھ میں ہوا۔
(4) حضرت امام ترمذی: محمد بن عیسیٰ بن سورہ کی پیدائش 209ھ میں ہوئی اور انتقال 279میں ہوا۔
(5) حضرت امام نسائی: احمد بن علی ابو عبد الرحمان کی پیدائش 215ھ میں ہوئی اور انتقال 303میں ہوا۔
(6) حضرت امام ابن ماجہ: ابوعبد اللہ محمد بن یزید بن ماجہ کی پیدائش 209ھ میں ہوئی اور انتقال 273 میں ہوا۔