ماہنامہ الفاران
ماہِ ربیع الثانی - ۱۴۴۳
اچھے علماء امت کو جوڑتے ہیں
حضرت مفتی نفیس احمد جمالپوری صاحب المظاہری، استاد حدیث و فقہ: مدرسہ عربیہ قادریہ، مسروالا (ہماچل پردیش)
نحمد ہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۔ امابعد!
اَعُوذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیْم
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذَلِکَ إِنَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء إِنَّ اللَّہَ عَزِیْزٌ غَفُورٌ(سورہ فاطر۸۲)
أَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَاء اللَّیْْلِ سَاجِداً وَقَاءِماً یَحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُو رَحْمَۃَ رَبِّہِ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ (سورہ زمر آیت ۹)
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إن العلماء ورثۃ الأنبیاء وإن الأنبیاء لم یورِّثوا دینارًا ولا درہمًا، إنَّما ورَّثوا العلم، فمن أخذَہ أخذ بحظٍّ وافر”(روی أبو داود والترمذی وابن ماجہ وابن حبان فی صحیحہ وغیرہم)
ناظرین کرام علماء امت ہمارا قیمتی اور عمدہ اثاثہ ہے ان کے فضائل و مناقب قرآن حدیث میں بیشمار ہیں جن کا احاطہ ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے بایں وجہ چند باتیں اس مختصر سے مضمون میں پیش کرتاہوں تاکہ سمجھنا آسان ہو اور ہمارے طلبہ جو کل کےعلماءہونگے ان شاءاللہ اپنے مقام کو پہچانے قبل اس کے کہ میں اپنی بات کاآغازکروں امام مالک رحمہ اللہ کاایک واقعہ نقل کیے دیتا ہوں ایک آدمی نےامام مالک رحمہ اللہ سےعرض کیا کہ امت کی کشتی کیسے ڈوبے گی توفرمایا علماء سوء کے ذریعہ اس نے عرض کیا امت کی کشتی پارکیسے ہوگی تو فرمایا علماء حسن کے ذریعے تو جہاں علماء کی منقبتیں ہیں وہیں مذمتیں بھی بہت ہیں میں دونوں کواس امید پر لکھوں گا کہ ہم اور ہمارے طلبہ حسن و ہادی مھتدی ومرشد بنیں ضال ومضل وسوءنہ بنیں۔
علماء کے فضائل و مناقب
ہمارےمعاشرے میں اکثرو بیشتر لوگ علماء کرام کی عظمت وعزت سے غافل رہتے ہیں ان کے ساتھ انتہائی نارواتعلقات رکھتے ہیں حالانکہ علماء کرام کی شان و شوکت بیان کی جائے تو ایک طویل مضمون تحریر میں لایا جاسکتا ہے علماء کرام کی گستاخی کرنے کو انتہائی معمولی بات سمجھی جاتی ہے جبکہ اگر غور وفکر کیا جائے تو اکثر لوگوں کی گرفت ہوتی ہی علماء کرام کی گستاخی کی بنا پر ہے یہ ہی سبب ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کو علماء سے بغض رکھنے اور ان کی گستاخی کرنے سے منع فرمایا ہے آپ ﷺکا فرمان ہے کہ؛ اغْدُ عَالِمًا ا.َوْ مُتَعَلِّمًا ا.َوْ مُسْتَمِعًا ا.َوْ مُحِبًّا وَلَا تَکُنِ الْخَامِسَ فَتہْلَکَ (مسند البزار)
کہ عالم یاعلم کوسیکھنےیاسننےیاعلم وعلماء سے محبت کرنے والے بن کر زندگی گزاروں پانچویں یعنی ان سے دشمنی یاان کو پریشان کرنے والے نہ بنو ورنہ ہلاک کر دیے جاؤگے۔امام احمد بن حنبل اورامام اوزاعی رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ:الوقیعۃ فی اھل العلم ولا سیما اکابرھم من کبائر الذنوب.الردالوافر 283 ۔ اہل علم کی مذمت و توہین کرنا، خاص طور سے بڑے علماء کرام کی، کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”الِاسْتِہْزَاءُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ کُفْرٌ“۔ (الاشباہ والنظائر، باب الردۃ: 160)کہ علم اور علماء کی توہین کرنا کفر ہے۔
اہل کوفہ نےصحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔تو اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے حضرت عماربن یاسر رضی اللہ عنہما کو کوفہ کا حاکم بنادیا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نمازبھی نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم میں تو انہیں نبی کریمﷺ ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی دو پہلی رکعات میں (قراۃ) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو (سنیے کہ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود قتال کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اللہ کی قسم میں (تمہاری اس بات پر) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمردراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد (وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ گئی۔ عبدالملک راوی حدیث نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھیں۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتاتھا۔ابن ماجہ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بھی ایسے شقی لوگ موجود تھے جو علماء کرام کی شان میں گستاخی کیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے افرادکو دنیا میں ہی ذلیل ورسوا کرکے تمام آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنادیا۔
عمران بن موسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:دخلت عن ابی العروق الجلاد الذی ضرب احمد لانظر الیہ فمکث خمسۃ واربعین ینبح کما ینبح الکلب، مناقب احمد424 کہ میں ابوالعروق کے پاس گیا، یہ وہ شخص تھا جس نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو کوڑے مارے تھے، میں نے دیکھا کہ وہ پینتالیس دن تک کتے کی طرح بھونکتے بھونکتے مرگیا۔
کمال ابن القدیم نے تاریخ حلب میں بیان کیا ہے کہ: ابن منیر نامی شخص جو حضرات شیخین کو برا کہتا تھا، جب مرگیا تو حلب کے نوجوانوں کو ابن منیر کا انجام دیکھنے کا داعیہ پیدا ہوا، آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے سنا ہے کہ جو شخص سیدناابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہتا ہے تو اس کا چہرہ قبر میں سور جیسا ہوجاتا ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ ابن منیر شیخین کو برا کہتا تھا، چلو اس کی قبر کھود کر دیکھیں کیا واقعی ایسا ہی ہے، جیسا کہ ہم نے سنا ہے، چنانچہ چند نوجوان اس پر متفق ہوگئے اور بالآخر انہوں نے ابن منیر کی قبر کھود ڈالی، جب قبر کھودی گئی تو کھلی آنکھوں سے دیکھا گیا کہ اس کا چہرہ قبلہ سے پھر گیا اور سور کی شکل میں تبدیل ہوگیا ہے۔ چنانچہ اس کی لاش کو عبرت کے لیے مجمع عام میں لایا گیا پھر اس کو مٹی میں چھپا دیا گیا۔ (الزواجر: جلد2ص 283)
علمائے دین کی توہین کرنا حرام، گناہ کبیرہ، عالم دین صحیح العقیدہ جولوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے محمد ﷺکا نائب ہے، اس کی تحقیر و توہین معاذ اللہ جناب محمد ﷺکی توہین ہے اورمحمد ﷺکی بارگاہ میں گستاخی موجب ِ لعنت ِ الٰہی و عذابِ الیم ہے۔عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:من استخف بالعلماء ذھبت آخرتہ ومن استخف بالامراء ذھبت دنیاہ، ومن استخف بالاخوان ذھبت مروئتہ ،سیر اعلام النبلا للذھبی۔ کہ جو شخص علماء کی نا قدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا، جو شخص حکمرانوں کی ناقدری کرے گا وہ دنیاوی زندگی سے محروم رہے گا اور جو شخص اپنے بھائی کی نا قدری کرے گا وہ اچھے اخلاق و کردار سے محروم رہے گا -کمی کوتاہی ہر بندے سے ہوتی ہے علماء کی چھوٹی موٹی کمی کوتاہی پر اپنے منہ کو بند رکھنا چاہیے اپنی زبان کو علماء کی غیبت سے محفوظ رکھنی چاہیے ۔
علماء کی خوبی اور نیک باتوں کو اپنانا چاہیے۔
اخلاص دین اسلام کی اساس و بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اخلاص کا پابند بنایا ہے کوئی عمل خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس کو ادا کرنے والا کس قدر قربانی کیوں نہ پیش کرے اگر اس میں اخلاص نہ ہو تو وہ مردود ہوتا ہے۔ اس حدیث نبوی کا مطالعہ فرمائیں جس میں ان تین بدنصیب اشخاص کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کے ساتھ آتش جہنم کو بھڑکایا جائے گا (العیاذ باللہ) وہ قاری قرآن، سخی اور مجاہد ہوں گے جنہوں نے اپنی جان و مال اور وقت کی قربانی پیش کی ہو گی جو انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے لیکن ان تینوں کی نیکیاں عدم اخلاص کی وجہ سے قبول نہ ہوں گی علماء کو اپنے نقائص و عیوب پر نظر رکھنی چاہیے اور ان کو دور کرنے کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہیے،علماء پاکیزہ اعمال کے سہارے رب کی جانب دوڑ پڑتے ہیں، زیادہ عمل کرکے بھی زیادہ نہیں سمجھتے، اور کم پر راضی نہیں ہوتے، اپنے آپ کو خطاکار وگنہگار سمجھتے ہیں اگرچہ وہ اعلیٰ درجہ کے پاکدامن اور نیک ہوتے ہیں، نیز خود کو ناکارہ اور حد سے تجاوز کرنے والا خیال کرتے ہیں، حالانکہ وہ دانا، قوی، نیکوکار اور مستقیم الاحوال ہوتے ہیں، ناواقف انھیں دیکھ کر بیمار سمجھتا ہے، حالانکہ وہ مریض نہیں ہوتے،انھیں کوئی مرض لاحق نہیں ہوتا، البتہ خود ان کے بیمار سمجھنے والوں کو بڑی بڑی بیماریاں گرفتار کئے ہوئے ہیں۔
علماء و فقہاء کے جن اوصاف واخلاق کا ہم نے ان سطورِ میں تذکرہ کیا ہے ڈھونڈھنے والوں کو ان سب کی دلیلیں ان احادیث وآثار میں مل جائیں گی۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ خوف وخشیت اور حیرانی وپریشانی اہل علم کو کیوں لاحق ہوتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ انھیں یہ یقین واذعان خوفزدہ کئے رہتا ہے کہ حق تعالیٰ ان سے اس علم کے متعلق عمل کے باب میں سوال کریں گے، اسی باز پُرس کا استحضار انھیں بے چین کئے رہتا ہے، اور اسی وجہ سے ہر معاملہ میں احتیاط برتتے ہیں
اہل علم کی پہچان:
(1) وہ اپنے اندر قرآن کےمطلوب ازانسان صفات رکھتا ہو۔(2) وہ امتِ وسط کی حیثیت سے اعتدال اور صراطِ مستقیم پر قائم گروہ ہو، اور اس کے ہاتھ میں دینِ حق کی تعلیمات کا رشتہ ہو۔(3) اس کا طرزعمل شکرِ خداوندی اور اطاعتِ الٰہی ہو۔(4) وہ انعاماتِ الٰہی کا شعور، کلماتِ الٰہی کا فہم اور خشیتِ الٰہی کا مسلک رکھتا ہو۔(5) وہ توحید، رسالت اور آخرت کے پختہ عقائد پر قائم اور ان کی روشنی میں معاشرتی زندگی کو استوار کرنے کا سلیقہ رکھتا ہو۔(6) وہ اپنی زندگی میں تکبر اور نخوت کی روش سے اجتناب اور بندگی۔ رب کا اہتمام رکھتا ہو۔(7) وہ امربالمعروف کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائے، اور نہی عن المنکر کو مسلکِ زندگی۔ وہ تہذیب و شائستگی کا بھی مثالی نمونہ ہو۔
اہل علم کی خصوصیات
امن اور خوف کی حالت میں امت کے لئے فکرمند رہتے ہیں: ایسا نہیں ہے کہ امن کی حالت میں اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں اور خوف کی حالت میں ڈر جاتے ہیں، اسی بات کو قرآن پاک کی سورۂ نساء آیت نمبر 83 میں ذکر کیا گیا ہے کہ انھیں امن یا خوف کی کوئی خبر ملی تو انھوں نے مشہور کرنا شروع کر دیا حالاں کہ اگر یہ رسول یا عالم سے اس بات کی حقیقت معلوم کر لیتے تو اس کی حقیقت جان لیتے، اگر تم پر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔
نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں: قرآن پاک کی سورۂ بقرہ آیت نمبر 44 میں ہے کہ تم لوگوں کو بھلائی کا حکم کرتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو جب کہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں۔
امتِ مسلمہ کے لئے رحیم و شفیق ہوتے ہیں: قرآن پاک کی سورۂ انبیاء آیت نمبر 107 میں ہے کہ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوشخبری سنانے والے بنو، نفرت نہ پھیلاؤ، آسانیاں پیدا کرنے والے بنو، مشکلیں پیدا کرنے والے مت بنو۔
اللہ سے ڈرتے ہیں: قرآن پاک کی سورہء احزاب آیت نمبر 39 میں ہے کہ یہ سب ایسے تھے کہ اللہ کے احکامات پہونچایا کرتے تھے اور اللہ ہی سے ڈرتے تھے، اور اللہ حساب لینے کے لئے کافی ہے، یعنی علماء حق کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے اللہ ہی کافی ہے، قرآن پاک میں ہے کہ علماء ہی اللہ سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں ۔
صبر کرتے ہیں: قرآن پاک کی سورۂ عصر میں ہے کہ حق کی وصیت کی اور صبر کی تو ان کے لئے دنیا و آخرت کی کامیابی ہے، علماء حق حق کو واضح کرتے ہیں اور آزمائش کے وقت میں صبر سے کام لیتے ہیں ۔
حکمت سے کام لیتے ہیں: قرآن پاک کی سورۂ نحل آیت نمبر 125 میں ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلاتے ہیں اور دوسروں سے بہترین طریقے سے گفتگو کرتے ہیں ۔
مستند اور قابلِ اعتبار ہوتے ہیں: قرآن پاک کی سورۂ جمعہ آیت نمبر 2 میں ہے کہ وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں سے ہی ایک رسول بھیجا جو قرآن کی باتیں بتاتا ہے اور ان کو گمراہی سے پاک کرتا ہے اور انھیں حکمت و نصیحت سکھاتا ہے، جب کہ یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
فتاوی کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں : علماء حق اسلامی مسئلے کے سلسلے میں اپنے فتووں سے امت کی رہنمائی کرتے ہیں ۔
مخالفینِ اسلام کو گھیرتے ہیں اور اسلام کے نام پر گمراہی پھیلانے والوں سے آگاہ کرتے ہیں: قرآن پاک کی سورۂ مائدہ میں ہے کہ اے رسول آپ اللہ کی باتوں کو لوگوں تک پہنچا دیجئے، اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آپ نے ذمہ داری ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ لوگوں سے بچا لے گا، اگر اسلامی تعلیمات کے فروغ میں کوئی پریشانی یا مصیبت آ ئیگی تو اللہ تعالی آپ کی مدد کرے گا۔
حق کی حمایت اور باطل کی تردید کرتے ہیں: قرآن پاک کی سورۂ مائدہ آیت نمبر 54 میں ہے کہ وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔اللہ ہمیں اور ہمارے طلبہ کو علماء حق کے زمرے میں داخل وشامل فرمائے اور ہمیں تازندگی بعافیت درخدمت دین وعلم وحدیث وخلق لگائے رکھے اور ہماری اور ہمارے والدین اساتذہ اولاد وازواج احباب واقارب واعزاء علماء ومشائخ اور پوری امت کی مغفرت فرمائے اور ہمیں اپنے علماء وائمہ واکابر کےقدرداں بنائےآمین
اَعُوذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیْم
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذَلِکَ إِنَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء إِنَّ اللَّہَ عَزِیْزٌ غَفُورٌ(سورہ فاطر۸۲)
أَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَاء اللَّیْْلِ سَاجِداً وَقَاءِماً یَحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُو رَحْمَۃَ رَبِّہِ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ (سورہ زمر آیت ۹)
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إن العلماء ورثۃ الأنبیاء وإن الأنبیاء لم یورِّثوا دینارًا ولا درہمًا، إنَّما ورَّثوا العلم، فمن أخذَہ أخذ بحظٍّ وافر”(روی أبو داود والترمذی وابن ماجہ وابن حبان فی صحیحہ وغیرہم)
ناظرین کرام علماء امت ہمارا قیمتی اور عمدہ اثاثہ ہے ان کے فضائل و مناقب قرآن حدیث میں بیشمار ہیں جن کا احاطہ ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے بایں وجہ چند باتیں اس مختصر سے مضمون میں پیش کرتاہوں تاکہ سمجھنا آسان ہو اور ہمارے طلبہ جو کل کےعلماءہونگے ان شاءاللہ اپنے مقام کو پہچانے قبل اس کے کہ میں اپنی بات کاآغازکروں امام مالک رحمہ اللہ کاایک واقعہ نقل کیے دیتا ہوں ایک آدمی نےامام مالک رحمہ اللہ سےعرض کیا کہ امت کی کشتی کیسے ڈوبے گی توفرمایا علماء سوء کے ذریعہ اس نے عرض کیا امت کی کشتی پارکیسے ہوگی تو فرمایا علماء حسن کے ذریعے تو جہاں علماء کی منقبتیں ہیں وہیں مذمتیں بھی بہت ہیں میں دونوں کواس امید پر لکھوں گا کہ ہم اور ہمارے طلبہ حسن و ہادی مھتدی ومرشد بنیں ضال ومضل وسوءنہ بنیں۔
علماء کے فضائل و مناقب
ہمارےمعاشرے میں اکثرو بیشتر لوگ علماء کرام کی عظمت وعزت سے غافل رہتے ہیں ان کے ساتھ انتہائی نارواتعلقات رکھتے ہیں حالانکہ علماء کرام کی شان و شوکت بیان کی جائے تو ایک طویل مضمون تحریر میں لایا جاسکتا ہے علماء کرام کی گستاخی کرنے کو انتہائی معمولی بات سمجھی جاتی ہے جبکہ اگر غور وفکر کیا جائے تو اکثر لوگوں کی گرفت ہوتی ہی علماء کرام کی گستاخی کی بنا پر ہے یہ ہی سبب ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کو علماء سے بغض رکھنے اور ان کی گستاخی کرنے سے منع فرمایا ہے آپ ﷺکا فرمان ہے کہ؛ اغْدُ عَالِمًا ا.َوْ مُتَعَلِّمًا ا.َوْ مُسْتَمِعًا ا.َوْ مُحِبًّا وَلَا تَکُنِ الْخَامِسَ فَتہْلَکَ (مسند البزار)
کہ عالم یاعلم کوسیکھنےیاسننےیاعلم وعلماء سے محبت کرنے والے بن کر زندگی گزاروں پانچویں یعنی ان سے دشمنی یاان کو پریشان کرنے والے نہ بنو ورنہ ہلاک کر دیے جاؤگے۔امام احمد بن حنبل اورامام اوزاعی رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ:الوقیعۃ فی اھل العلم ولا سیما اکابرھم من کبائر الذنوب.الردالوافر 283 ۔ اہل علم کی مذمت و توہین کرنا، خاص طور سے بڑے علماء کرام کی، کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”الِاسْتِہْزَاءُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ کُفْرٌ“۔ (الاشباہ والنظائر، باب الردۃ: 160)کہ علم اور علماء کی توہین کرنا کفر ہے۔
اہل کوفہ نےصحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔تو اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے حضرت عماربن یاسر رضی اللہ عنہما کو کوفہ کا حاکم بنادیا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نمازبھی نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم میں تو انہیں نبی کریمﷺ ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی دو پہلی رکعات میں (قراۃ) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو (سنیے کہ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود قتال کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ اللہ کی قسم میں (تمہاری اس بات پر) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمردراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد (وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ گئی۔ عبدالملک راوی حدیث نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھیں۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتاتھا۔ابن ماجہ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں بھی ایسے شقی لوگ موجود تھے جو علماء کرام کی شان میں گستاخی کیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے افرادکو دنیا میں ہی ذلیل ورسوا کرکے تمام آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنادیا۔
عمران بن موسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:دخلت عن ابی العروق الجلاد الذی ضرب احمد لانظر الیہ فمکث خمسۃ واربعین ینبح کما ینبح الکلب، مناقب احمد424 کہ میں ابوالعروق کے پاس گیا، یہ وہ شخص تھا جس نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو کوڑے مارے تھے، میں نے دیکھا کہ وہ پینتالیس دن تک کتے کی طرح بھونکتے بھونکتے مرگیا۔
کمال ابن القدیم نے تاریخ حلب میں بیان کیا ہے کہ: ابن منیر نامی شخص جو حضرات شیخین کو برا کہتا تھا، جب مرگیا تو حلب کے نوجوانوں کو ابن منیر کا انجام دیکھنے کا داعیہ پیدا ہوا، آپس میں کہنے لگے کہ ہم نے سنا ہے کہ جو شخص سیدناابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو برا کہتا ہے تو اس کا چہرہ قبر میں سور جیسا ہوجاتا ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ ابن منیر شیخین کو برا کہتا تھا، چلو اس کی قبر کھود کر دیکھیں کیا واقعی ایسا ہی ہے، جیسا کہ ہم نے سنا ہے، چنانچہ چند نوجوان اس پر متفق ہوگئے اور بالآخر انہوں نے ابن منیر کی قبر کھود ڈالی، جب قبر کھودی گئی تو کھلی آنکھوں سے دیکھا گیا کہ اس کا چہرہ قبلہ سے پھر گیا اور سور کی شکل میں تبدیل ہوگیا ہے۔ چنانچہ اس کی لاش کو عبرت کے لیے مجمع عام میں لایا گیا پھر اس کو مٹی میں چھپا دیا گیا۔ (الزواجر: جلد2ص 283)
علمائے دین کی توہین کرنا حرام، گناہ کبیرہ، عالم دین صحیح العقیدہ جولوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے محمد ﷺکا نائب ہے، اس کی تحقیر و توہین معاذ اللہ جناب محمد ﷺکی توہین ہے اورمحمد ﷺکی بارگاہ میں گستاخی موجب ِ لعنت ِ الٰہی و عذابِ الیم ہے۔عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:من استخف بالعلماء ذھبت آخرتہ ومن استخف بالامراء ذھبت دنیاہ، ومن استخف بالاخوان ذھبت مروئتہ ،سیر اعلام النبلا للذھبی۔ کہ جو شخص علماء کی نا قدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا، جو شخص حکمرانوں کی ناقدری کرے گا وہ دنیاوی زندگی سے محروم رہے گا اور جو شخص اپنے بھائی کی نا قدری کرے گا وہ اچھے اخلاق و کردار سے محروم رہے گا -کمی کوتاہی ہر بندے سے ہوتی ہے علماء کی چھوٹی موٹی کمی کوتاہی پر اپنے منہ کو بند رکھنا چاہیے اپنی زبان کو علماء کی غیبت سے محفوظ رکھنی چاہیے ۔
علماء کی خوبی اور نیک باتوں کو اپنانا چاہیے۔
اخلاص دین اسلام کی اساس و بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اخلاص کا پابند بنایا ہے کوئی عمل خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس کو ادا کرنے والا کس قدر قربانی کیوں نہ پیش کرے اگر اس میں اخلاص نہ ہو تو وہ مردود ہوتا ہے۔ اس حدیث نبوی کا مطالعہ فرمائیں جس میں ان تین بدنصیب اشخاص کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کے ساتھ آتش جہنم کو بھڑکایا جائے گا (العیاذ باللہ) وہ قاری قرآن، سخی اور مجاہد ہوں گے جنہوں نے اپنی جان و مال اور وقت کی قربانی پیش کی ہو گی جو انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے لیکن ان تینوں کی نیکیاں عدم اخلاص کی وجہ سے قبول نہ ہوں گی علماء کو اپنے نقائص و عیوب پر نظر رکھنی چاہیے اور ان کو دور کرنے کے لیے کوشش کرتے رہنا چاہیے،علماء پاکیزہ اعمال کے سہارے رب کی جانب دوڑ پڑتے ہیں، زیادہ عمل کرکے بھی زیادہ نہیں سمجھتے، اور کم پر راضی نہیں ہوتے، اپنے آپ کو خطاکار وگنہگار سمجھتے ہیں اگرچہ وہ اعلیٰ درجہ کے پاکدامن اور نیک ہوتے ہیں، نیز خود کو ناکارہ اور حد سے تجاوز کرنے والا خیال کرتے ہیں، حالانکہ وہ دانا، قوی، نیکوکار اور مستقیم الاحوال ہوتے ہیں، ناواقف انھیں دیکھ کر بیمار سمجھتا ہے، حالانکہ وہ مریض نہیں ہوتے،انھیں کوئی مرض لاحق نہیں ہوتا، البتہ خود ان کے بیمار سمجھنے والوں کو بڑی بڑی بیماریاں گرفتار کئے ہوئے ہیں۔
علماء و فقہاء کے جن اوصاف واخلاق کا ہم نے ان سطورِ میں تذکرہ کیا ہے ڈھونڈھنے والوں کو ان سب کی دلیلیں ان احادیث وآثار میں مل جائیں گی۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ خوف وخشیت اور حیرانی وپریشانی اہل علم کو کیوں لاحق ہوتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ انھیں یہ یقین واذعان خوفزدہ کئے رہتا ہے کہ حق تعالیٰ ان سے اس علم کے متعلق عمل کے باب میں سوال کریں گے، اسی باز پُرس کا استحضار انھیں بے چین کئے رہتا ہے، اور اسی وجہ سے ہر معاملہ میں احتیاط برتتے ہیں
اہل علم کی پہچان:
(1) وہ اپنے اندر قرآن کےمطلوب ازانسان صفات رکھتا ہو۔(2) وہ امتِ وسط کی حیثیت سے اعتدال اور صراطِ مستقیم پر قائم گروہ ہو، اور اس کے ہاتھ میں دینِ حق کی تعلیمات کا رشتہ ہو۔(3) اس کا طرزعمل شکرِ خداوندی اور اطاعتِ الٰہی ہو۔(4) وہ انعاماتِ الٰہی کا شعور، کلماتِ الٰہی کا فہم اور خشیتِ الٰہی کا مسلک رکھتا ہو۔(5) وہ توحید، رسالت اور آخرت کے پختہ عقائد پر قائم اور ان کی روشنی میں معاشرتی زندگی کو استوار کرنے کا سلیقہ رکھتا ہو۔(6) وہ اپنی زندگی میں تکبر اور نخوت کی روش سے اجتناب اور بندگی۔ رب کا اہتمام رکھتا ہو۔(7) وہ امربالمعروف کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائے، اور نہی عن المنکر کو مسلکِ زندگی۔ وہ تہذیب و شائستگی کا بھی مثالی نمونہ ہو۔
اہل علم کی خصوصیات
امن اور خوف کی حالت میں امت کے لئے فکرمند رہتے ہیں: ایسا نہیں ہے کہ امن کی حالت میں اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں اور خوف کی حالت میں ڈر جاتے ہیں، اسی بات کو قرآن پاک کی سورۂ نساء آیت نمبر 83 میں ذکر کیا گیا ہے کہ انھیں امن یا خوف کی کوئی خبر ملی تو انھوں نے مشہور کرنا شروع کر دیا حالاں کہ اگر یہ رسول یا عالم سے اس بات کی حقیقت معلوم کر لیتے تو اس کی حقیقت جان لیتے، اگر تم پر اللہ کی رحمت نہ ہوتی تو چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔
نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں: قرآن پاک کی سورۂ بقرہ آیت نمبر 44 میں ہے کہ تم لوگوں کو بھلائی کا حکم کرتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو جب کہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں۔
امتِ مسلمہ کے لئے رحیم و شفیق ہوتے ہیں: قرآن پاک کی سورۂ انبیاء آیت نمبر 107 میں ہے کہ ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوشخبری سنانے والے بنو، نفرت نہ پھیلاؤ، آسانیاں پیدا کرنے والے بنو، مشکلیں پیدا کرنے والے مت بنو۔
اللہ سے ڈرتے ہیں: قرآن پاک کی سورہء احزاب آیت نمبر 39 میں ہے کہ یہ سب ایسے تھے کہ اللہ کے احکامات پہونچایا کرتے تھے اور اللہ ہی سے ڈرتے تھے، اور اللہ حساب لینے کے لئے کافی ہے، یعنی علماء حق کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے اللہ ہی کافی ہے، قرآن پاک میں ہے کہ علماء ہی اللہ سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں ۔
صبر کرتے ہیں: قرآن پاک کی سورۂ عصر میں ہے کہ حق کی وصیت کی اور صبر کی تو ان کے لئے دنیا و آخرت کی کامیابی ہے، علماء حق حق کو واضح کرتے ہیں اور آزمائش کے وقت میں صبر سے کام لیتے ہیں ۔
حکمت سے کام لیتے ہیں: قرآن پاک کی سورۂ نحل آیت نمبر 125 میں ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کی طرف حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلاتے ہیں اور دوسروں سے بہترین طریقے سے گفتگو کرتے ہیں ۔
مستند اور قابلِ اعتبار ہوتے ہیں: قرآن پاک کی سورۂ جمعہ آیت نمبر 2 میں ہے کہ وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں سے ہی ایک رسول بھیجا جو قرآن کی باتیں بتاتا ہے اور ان کو گمراہی سے پاک کرتا ہے اور انھیں حکمت و نصیحت سکھاتا ہے، جب کہ یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
فتاوی کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں : علماء حق اسلامی مسئلے کے سلسلے میں اپنے فتووں سے امت کی رہنمائی کرتے ہیں ۔
مخالفینِ اسلام کو گھیرتے ہیں اور اسلام کے نام پر گمراہی پھیلانے والوں سے آگاہ کرتے ہیں: قرآن پاک کی سورۂ مائدہ میں ہے کہ اے رسول آپ اللہ کی باتوں کو لوگوں تک پہنچا دیجئے، اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آپ نے ذمہ داری ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ لوگوں سے بچا لے گا، اگر اسلامی تعلیمات کے فروغ میں کوئی پریشانی یا مصیبت آ ئیگی تو اللہ تعالی آپ کی مدد کرے گا۔
حق کی حمایت اور باطل کی تردید کرتے ہیں: قرآن پاک کی سورۂ مائدہ آیت نمبر 54 میں ہے کہ وہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔اللہ ہمیں اور ہمارے طلبہ کو علماء حق کے زمرے میں داخل وشامل فرمائے اور ہمیں تازندگی بعافیت درخدمت دین وعلم وحدیث وخلق لگائے رکھے اور ہماری اور ہمارے والدین اساتذہ اولاد وازواج احباب واقارب واعزاء علماء ومشائخ اور پوری امت کی مغفرت فرمائے اور ہمیں اپنے علماء وائمہ واکابر کےقدرداں بنائےآمین