ماہنامہ الفاران

ماہِ ربیع الثانی - ۱۴۴۳

بد گمانی اسلام کی نظر میں

حضرت مفتی محمد مناظر نعمانی صاحب القاسمی ، استاد تفسیر و عربی ادب جامعہ حسینیہ،مدنی نگر، کشن گنج،بہار

اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمْ، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ:
لَوْلَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُوْمِنُوْنَ وَالْمُوْمِنَاتُ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًا وَقَالُوْا ہٰذَا اِفْکٌ مُّبِیْنٌ(ٗ۲۱)لَوْلَا جَاؤُوا عَلَیْْہِ بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَاء فَإِذْ لَمْ یَأْتُوا بِالشُّہَدَاء فَأُوْلَءِکَ عِندَ اللَّہِ ہُمُ الْکَاذِبُونَ (۳۱) وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّہِ عَلَیْْکُمْ وَرَحْمَتُہُ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ لَمَسَّکُمْ فِیْ مَا أَفَضْتُمْ فِیْہِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (۴۱) إِذْ تَلَقَّوْنَہُ بِأَلْسِنَتِکُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاہِکُم مَّا لَیْْسَ لَکُم بِہِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَہُ ہَیِّناً وَہُوَ عِندَ اللَّہِ عَظِیْمٌ (۵۱)وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوہُ قُلْتُم مَّا یَکُونُ لَنَا أَن نَّتَکَلَّمَ بِہَذَا سُبْحَانَکَ ہَذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ (۶۱) یَعِظُکُمُ اللَّہُ أَن تَعُودُوا لِمِثْلِہِ أَبَداً إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (۷۱)وَیُبَیِّنُ اللَّہُ لَکُمُ الْآیَاتِ وَاللَّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (۸۱) إِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّونَ أَن تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِیْ الَّذِیْنَ آمَنُوا لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (۹۱۔ سورہئ نور)
(ترجمہ) یہ سنتے ہی کیوں نہیں یہ کہہ دئے تھے کہ مؤمن ایک دوسرے کے متعلق اچھاگمان رکھتے ہیں اور یہ ایک کھلا ہوا بہتان ہے۔ وہ لوگ اس بات پر چار گواہ کیوں نہیں پیش کرتے، پس جب چار گواہ نہیں لا ئے تو یہی لوگ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔ اگر تم پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم پر اس چرچا کرنے میں ضرور کوئی بڑی آفت پڑجاتی۔ جب تم اس کاچرچا کررہے تھے اور ایسی باتیں کررہے تھے جس کا تمہیں تحقیقی علم نہیں تھا اور تم اس چرچا کرنے کو بہت ہلکا سمجھ رہے تھے، حالانکہ یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے، اور جب تم نے سناتھا تو کیوں نہیں کہہ دئے تھے کہ اللہ کی ذات پاک ہے اور ایسی بات زبان پر لانا ہمیں زیب نہیں دیتا، اور یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں سمجھاتا ہے کہ اگر تم مؤمن ہو تو ایسی بات پھر کبھی نہ کرنا، اور اللہ تمہارے لئے آیتوں کو واضح کرکے بیان کرتا ہے،اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے، بلا شبہ جو یہ چاہتے ہیں کہ بری باتوں کا ایمان والوں میں چرچا ہو تو ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اللہ بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے ہو۔
اسلام نے ایساآفاقی اور ابدی نظام کائنات پیش کیا ہے؛ جس میں قیامت کے تمام افراد کے لئے ایک کامل ومکمل دستورعمل، نظام حیات اور ضابطہ اخلاق موجود ہے، اس میں ایسے انفرادی واجتماعی، اخلاقی اصول زندگی موجود ہیں، جو صالح معاشرہ کی تشکیل اوراسکے وجودوبقاء کے لئے بے حد ضروری ہیں،ایک صالح اور صحت مند معاشرہ کی تشکیل میں ”حسن ظن“ سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ یہی گمان آدمی کو آدمی سے جوڑتا بھی ہے اور توڑتا ہے۔اس لئے اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس سلسلے میں سخت تاکید کے ساتھ یہ حکم دیا ہے کہ وہ ہر حال میں بدگمانی سے احتراز کریں، اور کسی کے بارے میں بلاسبب، بلا تحقیق کے کوئی غلط رائے ہرگز قائم نہ کریں۔ بلکہ جہاں تک ہوسکے ایک دوسرے کے بارے میں اچھا ہی گمان قائم کریں، کیوں کہ بدگمانی سے بہت سے برے خیالات وتصورات، گندے وسوسوں، بغض وحسد اور کینہ وکپٹ جیسی ہزاروں بیماریاں پیدا ہوتی ہیں،مذکورہ بالا آیات ِ کریمہ میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے بھائی کے ساتھ ہمیشہ حسن ظن رکھیں اگر اس کے سلسلہ میں کوئی بری بات سنے تو فوراًتسلیم نہ کرے بلکہ اس کی تردید کرے یا کم از کم تائید نہ کرے، اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ جو افواہ اڑائی گئی ہے، یا کوئی جو بات اس کی طرف منسوب کی گئی ہے، وہ جھوٹ پر مبنی ہو، اور وہ اس سے پاک صاف اور مبرا ہوتو یہ اس پر الزام ہوگا، اوراگر بالفرض اس میں یہ برائی موجود ہو تو وہ غیبت ہو جائے گی، اور جھوٹ اورغیبت دونوں ہی سخت گناہ کی باتیں ہیں۔ اس لئے اللہ رب العزت نے اس سے دور رہنے اور اجتناب کرنے کا حکم دیاہے، اور گناہ کا سبب قرار دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:”یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ، اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ، وَلاَ تَجَسَّسُوْا وَلَایَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا“۔ (سورہئ حجرات ۲۱)(ترجمہ)اے ایمان والو!زیادہ گمان سے بچو اس لئے کہ یہ بہت سے گناہوں کا سبب ہے نہ ٹوہ میں پڑو او رنہ ایک دوسرے کی غیبت کرو۔
اور اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم نے اسے سب سے بڑا جھوٹ قراردیا ہے کیوں کہ یہ گمان ایک قسم کا جھوٹا وہم ہے جو شخص اس بیماری میں مبتلا ہو اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ جس کسی سے اس کا ذرا سا اختلاف ہوا اس کے ہر کام میں اس کو بد نیتی ہی بد نیتی معلوم ہوتی ہے۔پھر محض اس وہم او ربدگمانی کی وجہ سے وہ اس دوسرے شخص کی طرف سے بدظن ہوتا ہے، اس طرح دل بٹ جاتے ہیں، اور تعلقات خراب ہوجاتے ہیں اس لئے اللہ کے رسول ا نے اس سے بچنے کی تلقین فرمائی تاکہ معاشرہ ہر طرح کے ناپاک وگھناؤ نے عزائم سے پاک ہو چنانچہ ارشاد نبوی ہے۔ ”اِیَّاکُمْ وَالظَّنَ فَاِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْحَدِیْثِ“ ترجمہ: بدگمانی سے بچو اس لئے کہ یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے، اس کے سب سے بڑا جھوٹ ہونے کی مثال حضرت عائشہ صدیقہ ؓکا واقعہ ہے کہ منافقوں نے ایک موقعہ پر آپؓپر الزام لگا یا اور آپؓکی عزت وناموس، عفت وپاکدامنی کو داغدار کرنے کی کوشش کی،سیدھے سادھے بھولے بھالے سادہ لوح مسلمان بھی انکے دام فریب میں آگئے اور وہ بھی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓکو غلط سمجھ بیٹھے، مگر اللہ تعالی نے انکی پاکیزگی کا اعلان فرمایا اور منافقوں کی جھوٹی افواہ کا پردہ فاش فرماکر یہ نصیحت بھی کردی کہ آئندہ مسلمان سنی سنائی باتوں پر فوری یقین نہ کریں۔نہ افواہوں پر دھیان دیں اور نہ خود زبان سے کو ئی حرف نکالیں، بلکہ ایسے موقعوں پراس وصیت ِ الٰہی پرعمل کریں: لَوْلَا اِذْ سَمِعْتُمُوْہُ قُلْتُمْ مَا یَکُوْنُ لَنَا اَنْ نَتَکَلَّمَ بِہٰذَا سُبْحَانَکَ ہٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ۔(سورۃ نور ۶۱)(ترجمہ)یہ سنتے ہی کیوں نہ کہہ دیا کہ اپنی زبان سے اس طرح کی بات نکالنا ہمیں زیب نہیں د یتا، تیری ذات پاک ہے اور یہ سراسربہتان ہے۔
بدگمانی تمام برائیوں کی جڑ
بدگمانی ایک ایسی بیماری ہےجس سے سیکڑوں قسم کی برائیاں جنم لیتی ہیں،تجسس،ٹو ہ،غیبت،چغل خوری، بہتان تراشی،عیب جوئی،تحقیروتذلیل،کبروغرور، اناپرستی، تنگ نظری، حسد وجلن،حیلہ ومکر، بغض ونفرت، اور اس طرح کے نہ جانے کتنے امر اض اور برائیاں پید اہو جاتی ہیں کہ بدگمانی کرنے والے کے دل پرایک سا نپ سالوٹ جاتا ہے بلکہ وہ خود سانپ بن کر اپنے بھائی کی عز ت وآبرو پرحملہ کرتاہے،اسکی تحقیروتذلیل،کیچڑاچھالنے، اور اس کو نیچادکھانے کیلئے کوئی حیلہ وتدبیر، اور کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتاہے، اس لئے اللہ کے رسول اللہ ا نے سختی کے ساتھ بدگمانی سے بچنے کی وصیت فرمائی ہے۔ اور ارشاد فرمایا ہے:اِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَاِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْحَدِیْثِ،وَلَاتَجَسَّسُوْاوَلَاتَحَاسَدُوْا وَلَاتَدَابَرُوْا وَلَاتَبَاغَضُوْا، وَکُوْنُوْا عبَادَ اللّٰہِ اِخْوَانًا“۔(بخاری شریف حدیث نمبر: ۴۶۰۶)(ترجمہ)بدگمانی سے گریزکرو،اس لئے کہ وہ سب سے بڑ اجھوٹ ہے، نہ ٹوہ میں پڑواورنہ حسد کرو اورنہ مبالغہ آرائی کرو، نہ ایک دوسرے کے خلاف تدبیریں کرو، اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض وعداوت رکھو، بلکہ آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ حسن ظن کے سلسلے میں اسلام کی یہ چند واضح ہدایات اوراحکام ہیں، جن پر عمل بلاشبہ ایک صالح معاشرہ کی تشکیل اور باہمی اتحاد واتفاق کا ضامن ہوگا۔ آج کل معاشرہ میں غیبت، بہتان اور چغلی کی بہتات ہوتی جارہی ہے، چائے کی دکانوں، اور چوک چوراہوں میں جہاں دو آدمی جمع ہوئے بس مجلس جم گئی اور جب تک ایک دوسرے پر کچھ کیچڑ نہ اچھا ل لیں تب تک نہ ان کی چائے میں لذت آتی ہے اورنہ ان کے جمع ہونے میں انہیں کوئی فائدہ نظر آتا ہے، بلکہ اس کے بغیر ان کی مجلسیں پھیکی اورمحفلیں بے رونق رہتی ہیں، گویا انہوں نے غیبت اور چغلی کو اپنی مجلسوں کی رونق اور محفلوں کی گرماہٹ کا ذریعہ بنا لیا ہے، جو بلاشبہ بڑی محرومی اور بدنصیبی کی بات ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ”الغیبۃ اشد من الزنا“ یعنی غیبت زنا سے سخت گناہ ہے، حضرت قتادہ ؓ فرماتے ہیں کہ عذابِ قبر کے تین حصے ہیں،ایک حصہ غیبت سے،ایک حصہ چغلی سے اور ایک حصہ پیشاب کے قطرات سے نہ بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے، ان آیات واحادیث کی روشنی میں غور کرنے اور ایمان کا جائزہ لینے کی جہاں ضرورت ہے وہیں اپنی دنیا سے زیادہ اپنی عاقبت وآخرت کی فکر کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دوسروں کے پیچھے پڑ کر اپنی آخرت اور انجام سے بے خبر ہی رہ جائیں۔
غیبت سے بچنے کا طریقہ
غیبت سے بچنے کا آسان نسخہ بھی خود قرآن نے بیان کردیا ہے کہ لوگوں کے متعلق اچھا گمان رکھیں حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ جب کسی سے غیبت سنے تو چھ باتوں کا التزام کرنا چاہئے، (۱)چغل خور کی بات پر ہرگز یقین نہ کرے(۲)چغل خور کو اس فعل پر عار دلائے (۳)چغل خور کے فعل کو دل سے برا سمجھے (۴)جس کی چغلی کی گئی ہے اس سے بدگمان نہ ہو (۵)چغل خور نے جو بات پہونچائی ہے اس کی کھود کریداور تحقیق نہ کرے (۶)چغل خور کی بات کسی دوسرے سے نقل نہ کرے۔ (اللہ سے شرم کیجئے ۵۷)
الغرض یہ کہ غیبت،چغلی،حسد اور کینہ یہ وہ امراض ہیں جو ایک صالح معاشرہ کے لئے ناسور ہیں، جن کا اصل سبب بدگمانی ہے، جس سے بچنے کیلئے ان آیات واحادیث کا بار بار پڑھنا اور ان کے مضامین کا استحضار رکھنا، ساتھ میں حق جل مجدہ کے حضور گڑگڑا نا اور ان مہلک امراض سے نجات کی دعا کرنابھی انشا ء اللہ بہت مفید ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو حسن ظن کی دولت سے مالا مال فرمائے، اور حسد، کینہ،بغض وعداوت، چغلی وغیبت اور بالخصوص بدگمانی جیسے تمام مہلک امراض سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین

دیگر تصانیف

امیدوں کا چراغ

مٹی کا چراغ

کہاں گئے وہ لوگ

تذکیر و تانیث

مجلس ادارت

team

سرپرست

حضرت الحاج مولانا کبیر الدین فاران صاحب مظاہری

team

مدیر مسئول

مولانا ارشد کبیر خاقان صاحب مظاہری

team

مدیر

مفتی خالد انور پورنوی صاحب قاسمی